Home » تحریک نسواں بلا حدود
انگریزی کتب سماجیات / فنون وثقافت

تحریک نسواں بلا حدود

 

تبصرہ:    محمد عثمان حیدر

Feminism without borders

(Decolonizing Theory, Practicing Solidarity)

BY Chandra Talpade Mohanty

انیسویں صدی کی حقوق نسواں تحریک (women’s rights movement) اور بیسویں صدی کی تحریکِ نسائیت (feminist movement)  معاشرتی پہلو سے انسانی سماج  کے بنیادی ڈھانچے پر اثر انداز  ہونے والی سب سے  اہم  کوششیں ہیں کیوں کہ ان کا اثر انسانی گروہ کی بنیادی اکائی یعنی خاندان پر پڑ رہا ہے اور  انسانیت  جس  اساس(ازدواجی تعلق ) پر پرورش پا رہی ہے اس کی کی ترتیب ،روش  اور  رویہ  کو  یہ ایسے زیر بحث لا رہی ہیں  جو قدیم  معاشرتی  ڈھانچے سے یکسر متصادم ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تحریکوں یا مزاحمتی آوازوں کا  اصل پس منطر تو مغرب   کا قدیم استحصال زدہ معاشرہ  تھا لیکن دنیا کے ایک گلوبل ویلیج بن جانے کے بعد اور  مغرب کے سیاسی ،عسکری اور تہذیبی میدان میں غلبہ نے ان مزاحمتی آوازوں  کو  مشرق کی نمائندہ آوازوں  کے طور  پر پیش کیا ہے۔اس لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اب   Feminismکے  عنوان سے اس موضوع پر مسلسل  مشرق و مغرب میں بات ہو رہی ہے  اور ہر دونوں طرٖف اپنے سماجی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے  سنجیدگی سے  اس کی موجودہ  شکل اور  مستقبل  کی صورت گری پر  لکھا اور بولا  جا رہا ہے۔

زیر تبصرہ کتاب  جس کا عنوان ہے:

  Feminism without borders

(Decolonizing Theory, Practicing Solidarity)

اس موضوع  کا احاطہ کرنے والی ایک ایسی کتاب ہے جو   دونوں طرف کے مسائل   کو زیر بحث لاتی ہے کیوں کہ اس کی مصنف چندرہ تالپیڈ  موہانتی  (Chandra Talpade Mohanty) کا اصل تعلق تو انڈیا کے شہر ممبئ   سے ہے یعنی وہ تیسری دنیا کی باسی  ہے لیکن اب  ایک عرصہ  سے وہ مغرب   میں  رہ  رہی ہیں اور اس کے سماجی ڈھانچے سے  بخوبی آگاہ ہے اور  فیمینزم   کے ساتھ پچھلے بیس سالوں سے وہ خود کو منسلک رکھے ہوئے ہیں  اور زیر تبصرہ کتاب بھی  اصل میں  ایسے مضامین کا  مجموعہ ہے جو اس نے    امریکی اور یورپین  معاشرے  کو جان کر اور تیسری دنیا کی  گہری جانچ پڑتال کے بعد قلم بند کیے ہیں  جس کی تفصیل بیان کرتے   ہوئے موہانتی کہتی ہے:

This volume is the product of almost two decades of engagement with feminist struggles. It is based on a deep belief in the power and significance of feminist thinking in struggles for economic and social justice.[1]

یہ کتاب اصل میں  فیمینسٹ کوششوں کے ساتھ دو عشروں کے  تعلق کا  حاصل   ہے۔اس کی بنیاد اقتصادی اور سماجی انصاف  کی جدوجہد   میں خواتین کے فکر ونظر کی اہمیت اور اس کی   طاقت کے ایک گہرے ایقان پر  ہے ۔

مصنفہ نے کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے  ۔پہلے حصے  . Decolonizing Feminismمیں حقوق نسواں کی ان کوششوں کو بیان کیا ہے جو  مغرب  میں ہو رہی ہیں ۔پھر ان کوششوں کا تنقیدی  جائزہ لیا ہے۔موہانتی  کہتی ہے کہ مغرب کا جو فیمینزم ہے اس میں تین مسائل ہیں ۔

پہلے مسئلے کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ :

“First, the increasing, predominantly class-based gap between a vital women’s movement and feminist theorizing in the U.S. academy has led in part to a kind of careerist academic feminism whereby the boundaries of the academy stand in for the entire world and feminism becomes a way to advance academic careers rather than a call for fundamental and collective social and economic transformation. This gap between anindividualized and narrowly professional understanding of feminism and acollective, theoretical feminist vision that focuses on the radical transformation of the everyday lives of women and men is one I actively work to address.”[2]

” اولا  روز افزوں اور اغلب طور پر طبقہ کی بنیاد رکھنے ولی خلیج ،ایک طاقتور  خواتین کی تحریک اور امریکی دانشوروں کے ہاں  آزادی خواتین کا تخیلی تصورجزوی طور پر کیریئر پر مبنی فکری فیمینزم تک لے گیا ہے جہاں دانش کی سرحدیں  اب ساری دنیا کے لیے کھڑی ہیں   اور یہ سارا کیریئر بیسڈ  فیمینزم بن گیا ہے بجائے اس کے  کہ  یہ    بنیادی اور مشترکہ سماجی  اور معاشی تبدیلی  کی آواز بنتا۔ حقوق نسواں کی انفرادیت زدہ اور محدود پیشہ ورانہ تفہیم اور  اجتماعی  علمی نظریہ جو خواتین اور مردوں کی روزمرہ کی زندگی کی بنیادی تبدیلی پر توجہ مرکوز کرتا ہے ، کے مابین یہ خلیج ہے جس کو دور کرنے کے لئے میں سرگرم عمل ہوں۔ ”

یعنی   حقوق نسواں کی جدوجہد اب کیریئر بیسڈ بن کر رہ گئی ہے  جو  ظاہری طور پر    تو فیمیزم کے نام کو لیتی ہے لیکن اس میں اجتماعی فوائد کی بجائے صرف شخصی کیریئر کو آگے  بڑھایا جا رہا ہے۔

دوسرے  مسئلے کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ :

Second, the increasing corporatization of U.S. culture and naturalization of capitalist values has had its own profound influence in engendering a neoliberal, consumerist (protocapitalist) feminism concerned with ‘‘women’s advancement’’ up the corporate andnation-state ladder. This is a feminism thatfocuses on financial ‘‘equality’’ between men and women and is grounded inthe capitalist values of profit, competition, and accumulation. A protocapitalist or ‘‘free market’’ feminism is symptomatic of the ‘‘Americanization’’ ofdefinitions of feminism—the unstated assumption that U.S. corporate culture is the norm and ideal that feminists around the world strive for.[3]

امریکی ثقافت کی روز افزوں کارپورائزیشن  اور سرمایہ دارانہ اقدار کے فطری بن جانے  کا اثر بھی بہت گہرا ہے جس نےایک نیو لبرل اور سرمایہ دارانہ فیمینزم کو جنم دیا ہے   جو کارپوریٹ اور قومی ریاست کی سیڑھی میں خواتین کی ترقی  سے تعلق رکھتی ہے۔یہ ایک ایسا فیمینزم ہے جو  مرد  و عورت کے بیچ   معاشی  برابری  پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور  جس کی بنیاد  نفع،مقابلہ اور  تحصیل ذر اور زر اندوزی  کی سرمایہ دارانہ اقدار پر ہے  ۔

ایک سرمایہ دارانہ یا  آزاد منڈی کا فیمیزم   ،فیمینزم کی تعریفات کے  امریکی روپ کی علامت ظاہر کرتا

ہے ۔ایک  غیر بیان کردہ مفروضہ  کہ امریکی کارپوریٹ ثقافت  بطور اقدار  کے ہے اور دنیا بھر میں فیمینسٹ کوششوں کے لیے آئیڈیل منزل ہے ۔

یعنی  سرمایہ دارانہ نفسیات در آئی ہیں اور اب سارا زور صرف معاشی طور پر مردو عورت کی برابری پر آ رکا ہے  اور جس کا سرخیل امریکی سستم ہے اور بدقسمتی سے اسے ہی ایک آئیڈیل کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

تیسرا مسئلہ بیان کرتے ہوئے  کہتی ہے کہ :

“Another characteristic of protocapitalist feminism is its unstated and profoundly individualist character. Finally, the critique of essentialist identity politics and thehegemony of postmodernist skepticism about identity has led to a narrowingof feminist politics and theory whereby either exclusionary and self-servingunderstandings of identity rule the day or identity (racial, class, sexual, national, etc.) is seen as unstable and thus merely ‘‘strategic.’’ Thus, identity is seen as either naive or irrelevant, rather than as a source of knowledge and abasis for progressive mobilization.”[4]

“سرمایہ دارانہ فیمینزم کی ایک اور خصوصیت یہ ہے  کہ  یہ ایک غیر بیان کردہ  ،فردی حیثیت والا ہے ۔آخر کار لازما  تشخص کی سیاست کا  حوالہ،ذات کی پہچان کے حوالے سے  مابعد جدیدیت  کی تشکیک کے تسلط   نےزنانہ سیاسیات  اور نظریہ کو  محدود کر دیا ہے  جہاں  یا تو  باقی سب کو نکال کے انفرادی طرح کا غلبہ ہے اور خود کو آگے بڑھانے کے لیے خود تک ہی محدود ہے  یا  شناخت (نسلی ،طبقاتی،جنسی  اورقومی  وغیرہ)  غیر محکم اور  بطور پالیسی کے  نظر آئے بس۔اس لیے شناخت کودیکھا جاتا ہے کہ  یا تو وہ بہت اہم ہے یا غیر متعلقہ ہے۔

حالاں کہ اسے(شناخت) علم کی بنیاد اور ترقی پسندانہ حرکت کا باعث ہونا چاہیے تھا۔”

یعنی  فیمینزم اب طاقت ور شناخت کو پیدا کرنے اور اسی کو فزوں تر کرنے کا کام دے رہا ہے باقی جو اس کی اصل اساس تھی کہ یہ نسلی ،طبقاتی،جنسی  اور قومی استحصال اور  عدم مساوات  کے خلاف کام دے گا اس  کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور اس کا اگر ذکر ہوتا بھی ہے تو بس ایک پروفیشنل پالیسی کے تحت ہوتا ہے بس۔

اس کے   بعدوہ ایک اہم مسئلے کی نشان دہی کرتی ہے اور کہتی ہے کہ   تیسری دنیا کی عورت  اور  امریکی عورت کے مسائل ،ماحول اور جدوجہد  میں ہمیں فرق کرنا چاہیے   کیوں کہ   ان کے درمیان چیزیں بہت  مختلف ہیں۔  جیسے  مغرب میں رہنے والی عورت  تیسری دنیا کی عورت کے مقابلے میں ایک  کھلے (Rational)ماحول میں رہ رہی ہے  تو  دونوں کے مسائل مختلف ہوں گے۔اسی طرح تیسری دنیا کی  عورت کو  (CAST) کا مسئلہ درپیش ہے  جب کہ امریکی عورت کو ایسا مسئلہ درپیش نہیں ہے ۔

تیسری دنیا کی  عورت  چوں کو ایسے سماج کا حصہ ہے جو پہلے کالونی تھا  سو اب وہ  ایسے سماجی ڈھانچے کا حصہ ہے جو اس کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے ۔اسی طرح وہ کہتی ہے کہ ہمیں خود  لوکل سطح پر مسائل میں جو تنوع ہے اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جیسے کالی اور براؤن عورت کو نسلی امتیاز کا سامنا ہے  جب کہ  گوری عورت کو ایسے مسائل درپیش نہیں ہیں۔اسی طرح کیلیفورنیا میں رہنے والی ایک عورت کی مثال پیش کرتی ہے کہ اس کو پدرسری کا معروف معنوں میں سامنا نہیں ہے بلکہ وہ شوہر کے کم کمانے کی وجہ سے خود محنت کرتی ہے اور کام کرتی اور گھر کو بطور سربراہ چلاتی ہے،اسی طرح سنگل مائیں بھی ایس ہی کرتی ہیں  اور اس طرح انھیں پدر سری کا ویسا سامنا نہیں ہوتا جو فیمینزم  ڈسکس کرتا ہے لیکن دوسری جانب دیکھا جائے تو اسب کا استحصال ہو رہا ہے کیوں اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔

لہذا ہمیں یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ  یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے  جس کو وائٹ برش کے ساتھ ایک ہی طرح سے پینٹ کیا جائے گا بلکہ ہمیں تمام کے فرق کو سمجھنا ہوگا  ۔

موہانتی اس بات سے نالاں ہے کہ  Dicolonial Dynamics))   کو  (Romantism)  لاحق ہے  یعنی ان تصورات کو ہمارے لیے آئیڈیل بنایا جا  رہا ہے  اور تصویر میں رنگ ایسے بھرے جا رہے ہیں جیسے حقیقت میں تیسری دنیا کی عورت کی نمائندگی ہو رہی ہے  ۔وہ سمجھتی ہے کہ اس سے  اس کے مسائل اور بڑھ جاتے ہیں ۔  یہ درست نہیں ہے کہ   تیسری دنیا کی  عورت کی نمائندگی  جسے پدرسری ،نسلی اور شناخت اور شہریت کے مسائل لاحق ہیں  ،وہ  عورت کرے جو  مالدار ہے،طاقت ور ہے،کھلے معاشرے کا حصہ ہے ۔اسے کوئی حق نہیں ہے کہ  وہ  اس کی تصویر پیش کرے ۔

پھر اس  رومینٹسزم کے ساتھ لبرل ازم کو بھی جوڑ دیا گیا ہے جو اور زیادہ مسائل کا باعث بن رہا ہے جیسے مسلم عورتوں کو  نقاب کا مسئلہ درپیش ہے ۔ کیوں کہ اسے مسلم شناخت کی علامت کے طور پر لیا جا رہا ہے  اس لیے اگر کوئی عورت اسے اپنی مرضی سے مذہب سے ہٹ کر بھی اختیار  کرتی ہے تو  فرانس  جیسے ملک میں پابندی کا شکار ہو جاتی ہے۔حالاں کہ ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا۔

لہذا ہمیں اس مسئلے میں   (DICOLONIAL DYNOMICS) کے اثر سے باہر آنا ہے اور اس گلوبلائزڈ سوچ سے الگ ہونا ہے اور اس فرق اور اختلاف کو قبول کرنا ہے جو موجود ہے۔کیوں کہ گلوبل اپروچ اس حوالے سے ناکارہ اور منفی تبدیلیوں  کو لانے والی ہے ۔

Globalization is a slogan, an overused and underunderstood concept, and it characterizes real shifts and consolidation of power around the world.[5]

عالمگیریت ایک نعرہ ، ایک حد سے زیادہ استعمال شدہ اور کم سمجھا ہوا تصور ہے ، اور یہ پوری دنیا میں طاقت کی حقیقی تبدیلیوں اور استحکام کی علامت ہے۔

دوسرے حصے   Demystifying Capitalism میں  سرمایادارانہ نظام پر تنقید  کی ہے کہ اب  فیمینزم پر بات  کرنے والے بھی خیالات کی تجارت کرتے ہیں  اور اس پوری موومنٹ میں سرمایہ شامل ہوگیا ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ  مالدار اور طاقت عورتیں  اپنے مفادات کے لیے اس موومنٹ کو چلاتی ہیں اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مرد بھی  ان کے ہمنوا ہو کر سرمایہ  حاصل کرتے ہیں۔ٍ  اور حقیقت میں یہ پوری تحریک ہی سرمایہ دارانہ اپروچ  کے تابع آگئی ہے ۔یہ وہی بات ہے جس کا تذکروہ وہ مغربی فیمینزم کے تین بڑے مسائل میں کر چکی ہے۔کیپٹلزم اور فیمیزم کے اکیڈمک تصورات کے آپسی تعلق اور ان کو بطور نفع اپنانے پر وہ ایک جامع سٹیٹمنت دیتی ہے کہ:

Institutions, and people in power, rule and maintain inequalit    or mystifying the workings of power. Understanding the political economyof higher education at the beginning of the twenty-first century is about seeing and making visible the shifts and mystifications of power at a time whenglobal capitalism reigns supreme.[6]

ادارے ، اور اقتدار میں رہنے والے افراد ، غیر مساوی یا اقتدار کے کاموں کو مستفید کرنے پر حکمرانی کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں اعلی تعلیم کی سیاسی معیشت کو سمجھنا ایک وقت میں طاقت کی تبدیلیوں اور اس کی توجیہات کو دیکھنے  کے بارے میں ہے جب ایک وقت میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام حکمرانی کرتا ہے۔

اور آگے چل کر کہتی ہے کہ :

Feminist literacy necessitates learning to see (and theorize) differently to identify and challenge the politics of knowledge that naturalizes global capitalism and business as-usual in North American higher education.[7]

حقوق نسواں کی خواندگی کو علم کی سیاست کی نشاندہی اور چیلنج کرنے کے لیے مختلف طرح  سے دیکھنے (اور نظریہ دینے) سیکھنے کی ضرورت ہے جو شمالی امریکہ کی اعلی تعلیم میں معمول کے مطابق عالمی سرمایہ داری اور کاروبار کو فطرت بخش بناتی ہے۔

اور   پھر وہ بات کرتی ہے کہ پدرسری کی طرح یہ کیپٹلزم بھی  عورت کا اب استحصال کر رہا ہے ۔

جیسے   پدر سری معاشرہ  عورت کا  استحصال کرتاہے اسی طرح کیپٹلزم بھی اس کے ساتھ ظلم کرتا ہے ۔

جیسے  کارپوریشنز اور فیکٹریوں میں عورت کو لیبر کی صورت لیا جاتا ہے اور کام زیادہ کروایا جاتا ہے لیکن اجرت کم دی جاتی ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اسے (Anti.captalist) بنائیں تاکہ   فیمینزم   کی اس تحریک میں سرمایہ دارانہ تصورات نے اسے جیسے خاص طبقہ کے تحفظات  کے لیے مختص کر دیا ہے وہ ختم ہو۔

تیسرے حصے    Reorienting Feminism   میں موہانتی  کہتی ہے کہ ہمیں   مغرب  کا جو فیمینزم ہے اس کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا اور    اس سسٹم کو غیر سرمایہ دارانہ  بنانا ہوگا جو   مابعد کولونیل نظریات پر قائم نہ ہو۔

موہانتی کہتی ہے کہ  ایک تو  ہمیں اس تنوع کو قبول کرنا چاہیے  جو اس کے اندر موجود ہے یعنی گلوبل سطح کے مسائل اور ہیں اور لوکل سطح کے مسائل اور ہیں  اسی طرح تیسری دنیا کی  عورت کے مسائل مغربی دنیا کی عورت کے مسائل سے مختلف   ہیں ۔اور لائحہ عمل دیتے   ہوئے کہتی ہے:

“I define solidarity in terms of mutuality, accountability, and the recognition of common interests as the basis for relationships among diverse communities. Rather than assuming an enforced commonality of oppression, the practice of solidarity foregrounds communities of people who have chosen to work and fight together. Diversity and difference are central values here  to be acknowledged and respected, not erased in the building of alliances.”[8]

“میں  متنوع معاشروں میں  استحکام کو باہمی تعلق ، احتساب اور  مشترکہ مفادات  کی پہچان کو تعلقات کی بنیاد کے طور پر استعمال کرتی ہوں۔بجائے اس کے کہ زبردستی اوپر سے  ایک اشتراک ان پر لادا جائے،اس سے کہیں بہتر ہے  کہ جو لوگ اکٹھے لڑنے اور کام کرنے کا عزم کر چکے ہیں ،ان میں اشتراک پیدا کیا جائے۔

تنوع اور اختلاف یہاں مرکزی اقدار ہیں ۔جن کو مانا جانا چاہیے اور ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔”

اور اپنے  ویژن کو  کتاب کے عنوان کی وضاحت میں تفصیلا بیان کرتے ہوئے کہتی ہے:

“Feminism without borders is not the same as ‘‘border-less’’ feminism. It acknowledges the fault lines, conflicts, differences, fears, and containment that borders represent. It acknowledges that there is no one sense of a border,that the lines between and through nations, races, classes, sexualities, religions, and disabilities, are real—and that a feminism without borders must envision change and social justice work across these lines of demarcation and division. I want to speak of feminism without silences and exclusions in order to draw attention to the tension between the simultaneous plurality and narrowness of borders and the emancipatory potential of crossing through,with,and over these borders in our everyday lives۔”[9]

”  سرحدوں کے بغیر فیمینزم   کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے اس فیمینزم  میں باڈرز   مکمل  طور  پر نہیں ہے۔یہ  فیمینزم تو جو  (سماجی حرکیات کی ) مختلف لائنین ہیں،تضادات ہیں،فرق ہیں اندیشے ہیں  ،اپنے احاطہ میں مسائل لیے ہوئے ہیں ،سب کا خیال رکھتا ہے ۔یہ   قوموں،نسلوں،طبقات  ،جنسی گروہوں اور مذہبوں اور معذوریوں کے درمیان جو خطوط ہیں، سب  کو پیش نظر رکھتا ہے ۔سرحدوں سے ماورا جو فیمینزم ہے اسے ذہن میں رکھنا چاہیے  اور یہ جو تقسیم کر دی گئی ہے یہ بھی ملحوظ رہنی چاہیے ۔میں اپنی روز مرہ زندگیوں میں ان حدود سے ماورا ہو کر بھی اور ان حدود کو ساتھ لے کر بھی  بیک وقت  تکثیریت اور سرحدوں کی تنگی  اور ان کی اندرون خانہ آزادی  دلانے کی  جو صلاحیت   ہے اس پر بغیر خاموشیوں کے  اور بغیر تفریقات کے کلام کرنا چاہتی ہوں۔”

موہانتی کی پیش کردہ مکمل تصویر کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں پیش کردہ  رنگ حقیقت کے کافی قریب نظر آتے ہیں ۔ اس کی یہ بات درست ہے کہ مغرب  کا فیمنزم   کیریئر بیسڈ ،سرمایہ دارانہ اپروچ اور شخصی  پہچان کو مضبوط کرنے کا کام دے  رہاہے ۔  میرے نزدیک  ایسا ہونا فطری تھا کیوں کہ مغرب کی عورت جس بنیادی نعرے کو آغاز میں لے کر اٹھی تھی یعنی برابر کے حقوق  وہ اس کی خواہش قانونی حد مکمل ہوچکی ہے  اور جو اب  مرد سے آزادی،گھر سے آزادی اور   رشتے سے آزادی کا نعرہ ہے وہ غیر فطری ہے اس لیے اسے اکثریت نے قبول نہیں کیا جس کا لازمی اثر یہ آیا کہ وہ ایسے لوگوں میں  مقبول ہو گیا جو اس کے  نتائج سے یا تو نابلد تھے یا اپنی فطرت کی الگ پسندی کے باعث اسے  مجموعی دانش کی آواز گردانتے تھے۔

موہانتی کی لیکن یہ بات مجھے درست معلوم نہیں ہوتی کہ گھر بھی عورت کے لیے ایک کالونی ہی ہے کہ جیسے  استعمار  وہاں پر ظلم کی داستان رقم کرتا ہے ویسے ہی ، مرد بھی گھر میں ظلم کی داستان رقم کرتا ہے ۔عورت جو گھر میں کام کرتی  ہے اسے   اہم نہیں سمجھا جاتا  ۔اس مقام پر خود موہانتی  بھی وہی غلطی کر رہی  ہے جس کی وہ خود نشان دہی کرتی ہے  کہ مغرب کی عورت کے مسائل اور ہیں اور تیسری دنیا کی عورت کے مسائل اور ہیں۔ موہانتی یہ پہچاننے میں ناکام رہی ہے کہ مسلم معاشروں میں عورت کو کاسٹ کے مسائل کبھی پیش نہیں آئے  اور گھر کی زندگی میں اس کے کام کو ایک مکمل ڈیوٹی ہی سمجھا جاتا ہے اس لیے اسے باہر کاروبار زندگی میں تعاون   دینے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔موہانتی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ  عورت کی خواہش اگر نقاب لینے کی ہے تو اسے تسلیم کیا جانا چاہیے لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہی ہے کہ گھر کی زندگی کا انتخاب خود عورت کی خواہش بھی ہو سکتا ہے جب کہ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اکثریت خود کو گھر کی آسائش،بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رکھنا پسند کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ باہر کے بندوبست کو کلی طور پر مرد سنبھال لے۔

موہانتی کی یہ بات درست ہے کہ    سرمایہ دارانہ نفسیات فیمیزم کو اس کے اصل منشاء سے دور لے جاتی ہیں اور اسے  اجتماعی جدوجہد کی بجائے شخصی جدوجہد کا خوگر کر دیتی ہیں  لیکن معاملہ یہاں بھی اس حوالے سے   دلچسپ  ہے  کہ اس پورے میکنزم   کو صرف سرمایہ دارانہ نفسیات نے ہی جلا بخشی ہے  کیوں کہ فیمینسٹ موومنٹ  عورت کو باہر نکال کر اور مخصوص نطریات کی ترویج کے ذریعے  جو مقاصد حاصل کرتی ہے وہ آخر کار سرمایہ دارانہ سسسٹم  کے فائدہ میں ہی آتی ہے کیوں کہ  عورت پھر مارکیٹ میں ہر طرح کی پروڈکٹ میں خوش نمائی پیدا کرنے کے  کام آتی ہے یعنی مارکیٹ کو خوب رونق بخشتی ہے۔ اس لیے موہانتی کو غور  کرنا چایئے  کہ وہ  سرمایہ دارانہ سسٹم سے کیسے چھٹکارا  حاصل کر سکتی ہے جب کے موجودہ پوری بحث کو بڑھانے کے لیے وہی بطور پوٹینشل استعمال ہو رہا ہے ۔

موہانتی کا یہ کہنا کہ ہمیں فیمیزم پوٹنیشل کو اس طرح استعمال کرنا ہے کہ وہ سبھی اختلافات اور فروق کوخوش آمدید کہتے ہوئے     سبھی کو ان کے اپنے اپنے ماحول میں  فائدہ پہنچائے ،خاصے کی چیز ہے ۔ کیوں کہ اس سے وہ پھر  تمام معاشروں کے لیے قابل قبول ہو سکتا ہے  یعنی  تمام طبقات اپنی پہچان کے ساتھ اور اپنے  سماجی اقدار کے ساتھ اس میں داخل ہوں اور اپنے حقوق کی آواز اٹھائیں ۔اس طرح ایک تو وہ اپنے ماحول میں اجنبی نہیں بنیں گے  بلکہ فوائد سمیٹیں گے اور  بڑھتے ہی چلے جائیں گے  اور دوسرا وہ جو مجموعی جدو جہد ہوگی اس میں بھی خوشی سے شریک ہو سکیں گے کیوں کہ انھیں اس بات کا یقین ہوگا کہ اس جدوجہد سے انھیں بھی وہ مل کر رہے گا جو ان کی ضرورت ہے ۔خود جدو جہد بھی اس سے   جلد ثمر آور ہو گی ۔اگرچہ فیمیزم  کو اس ڈھانچے میں ڈھالنے کے لیے ایک طویل جدوجہد اور قربانی  کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اس کے راستے  میں  سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ فیمینزم ہوگا کیوں کہ اس سے  کارپوریٹ اور سرمایہ دارانہ سسٹم سے  انھیں جو معاشی فوائد حاصل ہو رہے ہیں وہ اس سے محروم ہو جائیں گے  سو جدو جہد کو پھر وہی لوگ آگے لے کر بڑھیں گے جو خالص عورت کے حقوق کی بات کرنے والے ہوں گے اور انفرادی سطح پر  ا اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیں  گے ۔

حوالہ جات

[1]Page  :10

[2] Page  :15

[3] Page :15

[4] Page  :15

[5] Page  :171

[6] Page  :171

[7] Page:171

[8] Page :26

[9] Page :11

محمد عثمان حیدر

محمد عثمان حیدر نے دار العلوم کبیر والا سے درس نظامی اور گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے علوم اسلامیہ میں ایم فل کیا ہے۔ فوجی فاونڈیشن کالج اسلام آباد میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
Usaidhaider7@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • مصنف کی رائے اس بات پر درکار ہے کہ موہانتی اور مصنف کی تنقیدی رائے کے بعد فیمنزم کی کیا شکل سامنے آسکتی ہے. کوئی سی تین مثالیں اگر مل جائیں جن کے ذریعے موجودہ فیمنزم کی تحریک اور مجوزہ تحریک کا فرق جانا جاسکے.