مولانا محمد یونس قاسمی
جیسے ہی مدرسہ ڈسکورس کی کسی نئی علمی سرگرمی کا آغاز ہوتا ہے تو پاکستان میں مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ کسی بھی اقدام پر سوال اٹھانے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے اور اس پہ کوئی قدغن ہونی بھی نہیں چاہیے، تاہم اس کے ساتھ اگر ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کا عنصر کارفرما ہو تو بات چیت اور اختلاف کی مشق سودمند ثابت ہوسکتی ہے، اور اگر یک طرفہ تنقید ہی مقصود ہوتو غبار مزید غالب آتا ہے اور بدگمانیوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ چونکہ راقم خود اس عمل کا حصہ ہے، لہذا بہتر محسوس ہوا کہ جو دیکھا اور سمجھ میں آیا، اس کے تناظر میں مدرسہ ڈسکورسز کی تھوڑی بہت وضاحت کردی جائے۔
مدارس کے فضلاء کو ایک پختہ علمی سرگرمی کے ماحول میں بحث ومباحثہ کرنے کی عادت ڈالنے، ماضی کے علمی مواقف پر غوروفکر کرتے ہوئے سوالات اٹھانے اور مسلمانوں کواپنے گزرے سنہری دور میں پیش آنے والے مسائل ومشکلات کو سمجھنے کی اس کوشش کا نام مدرسہ ڈسکورسز ہے جس میں نہ صرف علمی نصوص کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا جاتا ہے بلکہ اسلاف کےان مناظروں، مباحثوں اور علمی افکار وخیال کو بھی پڑھا جاتا ہے تاکہ یہ سمجھ آسکے کہ انہیں کیسے مسائل کا سامنا رہا اور وہ اس کا حل کیسے تلاش کرتے تھے۔
ناقدین کی اکثریت نے مدرسہ ڈسکورسز کے نصاب کو دیکھے بغیر، اس سے سے وابستہ اہل علم سے سوال کیے بنا ایسے الزامات لگانے شروع کردیے ہیں کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی افسوس ہوتا ہے کہ یہ الزام کن لوگوں پر لگایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز میں مسائل تو زیر بحث آرہے ہیں مگر ان کا کوئی مخصوص حل نہیں پیش کیا جاتا، بلکہ یہ تربیت دی جاتی ہے کہ غوروفکر کرنے کی عادت ڈالیں اور ان فکری، تہذیبی مسائل و مشکلات کا حل خود تلاش کریں۔ مجھے اس میں شامل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے، مگر مولانا عمار خان ناصر اور ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ وغیرہم کو ایک عرصہ سے جانتا ہوں، ان کی کتب و افکار سے مستفید ہوتا رہا ہوں۔ یہ حضرات اپنی تمام علمی سرگرمیوں میں کامیابی کا سبب مدرسہ کے ساتھ قائم اپنے تعلق کو بتاتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں مدرسہ ڈسکورسز کے زیر اہتمام موسم سرما کی ایک پانچ روزہ علمی سرگرمی میں شریک ہونے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کورس ہمیں اپنی دینی روایت سے جوڑنے اور اسے سمجھنے کی ایک کوشش کا نام ہے۔ ڈاکٹر موسیٰ کو ڈاکٹر فضل الرحمن کا شاگرد قرار دے کر تجدد پسند اور ڈاکٹر فضل الرحمن کا متبادل کہا جارہا ہے مگر میں نے جب ڈاکٹر موسیٰ سے اس بارے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فضل الرحمن سے میری صرف ایک ملاقات ہے۔ بلاسوچے سمجھے ان اہل علم کو متجددکے ساتھ ساتھ مشرک تک قرار دیتے جانا درست رویہ نہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز کی پانچ روزہ علمی ورکشاپ کے آخری روز جب طلبہ و اساتذہ اپنے اپنے خیالات و تجاویز کا اظہار کررہے تھے تو مولانا محمد عمار خان ناصر نے مدرسہ سے متعلق چند الفاظ کہے۔ وہ الفاظ میں یہاں من وعن پیش کرتے ہوئے یہ اپیل کرتا ہوں کہ توہمات کی دنیا سے باہر نکلیں اور حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اگر اس علمی سرگرمی کی حمایت نہیں کی جاسکتی تو لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنا اچھا طرز نہیں۔ مولانا عمار خان ناصر کا کہنا تھا:
’’ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کے بارے میں چند ایک باتیں کہنا چاہتا تھا، جن میں سے کچھ ڈاکٹر وارث مظہری نے کردی ہیں، کچھ اور تفصیلات بھی ہیں لیکن پھر کبھی بیان کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات سے بہت ساری باتیں سیکھنے کی ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر جو چیزیں ڈاکٹر موسیٰ سے سیکھی ہیں، ان میں سے اہم چیز ہر وقت علم سے کسی نہ کسی رنگ میں اشتغال رکھنا ہے۔ مطالعہ، تلاش، تحقیق اس سے ہر وقت اشتغال ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ کسی زمانے میں مدرسہ کمیونٹی کا حصہ ہوتے تھے، یہاں سے باہر جانے کے بعد اور ایک دوسری دنیا میں اپنا علمی مقام بنانے کے بعد اب ڈاکٹر موسیٰ امریکہ میں مقیم ہیں۔ امریکہ میں اسلامک اسٹڈیز کے جو چند بڑے شیو خ ہیں ،ان میں اب ڈاکٹر صاحب کا شمار ہوتا ہے مگر مدارس سے وہ رشتہ جو کئی سال پہلے قائم ہوا تھا، انہیں اب بھی یاد ہے کہ میں نے اپنی دینی تعلیم کی بنیادیں اس مدرسہ کی صفوں پر بنائی تھیں۔
میرے خیال میں ہمارے سیکھنے کے لیے یہ بڑی اہم چیز ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ، بالخصوص پاکستان کے احباب کسی نہ کسی طور پر مدارس سے اپنا تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں، مگر ہمارے کیریئر دوسرے اداروں سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ تعلق یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ بطور ادارہ اس کا ہم پر ذاتی حوالے سے حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مدرسہ ہماری تاریخ اور تہذیب کا کسی نہ کسی رنگ میں بچا ہوا واحد ادارہ ہے۔ ہماری تاریخ و تہذیب نے جتنے ادارے قائم کیے تھے، وہ سارے مختلف حوادث کی نذر ہوچکے ہیں۔ یہ ایک واحد ادارہ ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے اوراسے لوگوں کا اعتماد آج بھی حاصل ہے۔ ہم داخلی طور پر جتنی بھی تنقید کریں مگر اس کی تہذیبی اہمیت کا انکار ممکن نہیں۔
ایک زمانہ مجھ پر بھی ایسا گزرا ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ ادارہ اب کسی کام کا نہیں رہا اور اس کی جگہ کسی دوسرے ادارے کو سامنے آنا چاہیے مگر اب میں شرح صدر سے اس کی اہمیت کا قائل ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تہذیب و تاریخ میں ادارے آسانی سے نہیں بنتے، ایک ادارے کو اپنا نام بنانے اور معاشرے میں اپنے کام سے متعلق تعارف پیدا کرنے میں صدیاں لگتی ہیں۔ بہت سے مسائل آئے، بہت ساری چیزوں کا سامنا کرنا پڑا، تاریخ نے بڑے عجیب کھیل ہمارے ساتھ کھیلے مگر اس ادارے کی قدروقیمت کو سمجھنا چاہیے اور جس علمی روایت کا یہ ادارہ امین ہے، ہمارا ایک تاریخی ورثہ ہے جس کا مدرسہ ایک بڑا حصہ ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کے ہماری ذات پر جتنے حق ہیں، انہیں ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
اختلاف رکھنے والے احباب سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی دینی روایت میں شروع ہونے والے اس نئے عمل پر اعتراض کی بجائے اس سے وابستہ اہل علم سے رابطہ کریں، ان سے سوال کریں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بدگمانیوں نے پہلے ہی بہت تفریق پیدا کی ہے، نفرتیں اٹھائی ہیں۔ بجائے اس کے کہ ایک نئی سعی کو بھی اس کی نذر کردیا جائے، بہتر ہے کہ اس پر بات چیت کا رُخ مثبت و تعمیری ہو۔
کمنت کیجے