Home » مجمع العلوم الاسلامیہ: اصولی موقف اور بنیادی اعتراضات
مدارس اور تعلیم

مجمع العلوم الاسلامیہ: اصولی موقف اور بنیادی اعتراضات

 

اپنی محبت اور عقیدت کے مراکز پردیانتدارانہ  نقد بڑا جان گسل کام ہوتا ہے ۔یہ کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ آپ مولانا وحید الدین خان کی شہرہ آفاق کتاب” تعبیر کی غلطی” سے لگاسکتے ہیں۔ مولنا وحید الدین خان نے مولانا مودودی کےفکر پر نقد کیا تو اس کتاب کے صفحہ اول پر لکھا کہ اس کتاب کی اشاعت مجھ پر کتنی سخت ہے اس کا اندازہ آ پ اس سے کرسکتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کی اشاعت کے بعد میں کسی ایسی جگہ چھپ جاؤں کہ کوئی شخص مجھے نہ دیکھے اورمیں اسی حال میں مر جاؤں۔مجمع العلوم الاسلامیہ پر نقد کے حوالے سے میری کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔دوسری طرف اذیت کا دردناک پہلو یہ ہے کہ ایک صاحب قلم اگر اظہار مدعا نہ کرے تو گھٹن سے مرجائے۔ اسی تذبذب کی کیفیت میں یہ سطور لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔امید ہے اسے اسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔

3 نومبر2021کولاہور میں مجمع العلوم الاسلامیہ کا ایک اہم اجتماع ہوا جس میں جامعۃ الرشید کے فضلاء سمیت ، اس  نئےبورڈ سے الحاق کرنے والے مدارس کے ذمہ داران نے بھی شرکت کی ۔حسب روایت یہ شاندار اجتماع تھا جس میں جامعۃ الرشید کے اہم اساتذہ سمیت مقامی علماء نے بھی بھرپور شرکت کی ۔ میں جامعہ کا سابق طالب علم رہ چکا ہوں اور زمانہ طالبعلمی کے بعد سے جامعہ کے کسی فنکشن میں یہ دوسری شرکت تھی ۔ پہلی شرکت 2019 کے سالانہ فضلاء اجتماع میں ہوئی تھی  اور دوسری شرکت اس اجتماع میں ہوئی ۔

جب سےمادر علمی جامعۃ الرشید کی طرف سے نئے بورڈ کا قیام عمل میں آیا ہے سنجیدہ مذہبی حلقوں اور ارباب مدارس کی طرف سے  اس کے مختلف پہلووں پر گفتگو جاری ہے ۔نئے بورڈ کے قیام سے پہلے تک ، میں  مادر علمی کے تعلیمی پروجیکٹ اور تعلیمی تحریک سے متاثرتھا لیکن نئے بورڈ کے قیام کے بعد میں کوشش کے باوجود اس تاثر کو قائم نہیں رکھ سکا، وجوہا ت  متعدد ہیں ۔

نئے بورڈ کے قیام کی بنیادی ضرورت مدارس کا موجودہ نصاب و نظام بتایا جاتا ہے ، میں عرصے سے ان موضوعات پر لکھ رہاہوں ، غالبا درجہ رابعہ کا طالب علم تھا جب دینی مداراس کے نصاب و نظام پر موجود تمام دستیاب مواد پڑھ ڈالا تھا اور اس موضوع پر ایک جارحانہ کتاب بھی لکھی تھی ،کتاب کی تقریظ کے لیےاستاد محترم مولانا فضل الرحیم اشرفی صاحب مدظلہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے کتاب کے مندرجات دیکھ کر پسندیدگی کا اظہار کیا اور ایک ہزار روپیہ انعام سے بھی نوازا ۔

میں نے کتاب میں مدارس کے نصاب ونظام پرجارحانہ انداز میں نقد کیا تھا لیکن بعد میں جب اس حوالے سے اہل علم سے ڈسکشنز ہوتی گئیں ، سوچ و بچار کے نئے دروا ہوتے گئے تو مجھے اندازہ ہوا کہ نصاب و نظام پر میرا زاویہ نظر حرف آخر نہیں تھا اور وفاق کے ذمہ داران اور ارباب مدارس اگر اس کو لے کر چل رہے ہیں تو اس کی کچھ وجوہات ہیں ۔کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس موضوع سے پرانی شناسائی اور موضوع سے دس بارہ سالہ وابستگی کی بناء پر ،میں نئے بورڈ کے قیام کی وجوہات سے مطمئن نہیں ہو سکا ۔

اسی عدم اطمینان  کی وجہ سے میرے ذہن میں کچھ سوالات ، تحفظات اور خدشات ہیں جنہیں میں انتہائی ادب کے ساتھ اپنے اساتذہ کرام کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔ اس نیت سے کہ اگر میرے یہ تحفظات او ر خدشات دور ہو جائیں اور مجھے شرح صدر ہو جائے تو میں بھی اس قافلے کےہمرکاب ہو جاوں ۔ بصورت دیگر میں جہاں او ر جس جگہ کھڑا ہوں علی وجہ البصیرہ استقامت کے ساتھ اس جگہ کھڑا رہوں اور بڑوں پر اعتماد مزید پختہ ہو جائے ۔

نئے بورڈ کے قیام کی جو وجوہات بتائی جاتی ہیں ان پر کچھ اصولی اور بنیادی نوعیت کے اعتراضات ہوتے ہیں ، میں اپنے اساتذہ اور مادر علمی پر اعتراضات کی جرائت نہیں کر سکتا اس لیے میں انہیں تحفظات اور خدشات کا نام دینا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں ۔ مجھے اپنے مادر علمی اور اس کے کارپردازوں کی نیت پر کوئی شک نہیں مگر  بسا اوقات اصلاح احوال اور وفور اخلاص میں انسان اجتہادی خطا کر بیٹھتا ہے ۔ اس کی واضح مثال گزشتہ کچھ عرصے سےاختیار کیا جانے والا مولانا عبد العزیز کا  طرز عمل ہے،میں نئے بورڈ کے قیام کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے پر مجبور ہوں ۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر مدارس کے نصاب و نظام میں تبدیلی ناگزیر تھی کہ جس کو بنیاد بنا کر نیا بورڈ قائم کیا گیا ، اگر اس تبدیلی کی ضرورت پر اتفاق کربھی لیا جائے پھر بھی یہ سوال  پیدا ہوتا ہے کہ وفاق المدارس جو پچھلے کچھ عرصے سے اپنے نصاب ونظام میں مناسب حد تک تبدیلیاں کر چکا ہے انہیں اپنی فکر اور تشویش سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا ۔ اپنا الگ بورڈ بنانے کی بجائے من حیث المجموع مدارس کے نصاب ونظام میں بہتری کے لیے کیوں اقدامات نہیں اٹھائے گئے ۔ وفاق المدارس کے احباب کو ، اپنے مطلوبہ مقاصد، نصاب میں تبدیلی اور عصری تعلیم کی ضرورت کے حوالے سے اعتماد میں لینے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ ان سارے سوالات کے کیا ثبوت اور شواہد ہیں کہ  بات ارباب وفاق تک پہنچائی گئی مگرادھر سے شنوائی نہیں ہوئی، یا انہیں قائل کرنے کی کوشش کی گئی  مگرارباب  وفاق نے اہمیت نہیں دی اور اس کے بعد مجبور ہو کرایک نئے بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

اس اصولی بات کا طے کیا جانا اس لیے  اہم ہے کہ اگر یہ بہتری لازم تھی اور من حیث المجموع مدارس کے نصاب و نظام میں بہتری کی گنجائش تھی تو اجتماعیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے لیےمحنت اور کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ نئے بورڈ کی ضرورت اور اہمیت پر تو بات ہوتی ہے مگر یہ پہلو بھی سامنے آنا لازمی ہے کہ ارباب وفاق کو اس حوالے سے قائل کیا گیا یا نہیں ، اگر قائل کیا گیا  تو دوسری طرف سے کیا جواب تھا۔اور اگر قائل کیے بغیر یہ قدم اٹھایا گیا تو اس کی کیا مجبوریاں تھیں ۔

دوسری اصولی بات یہ طے کرنا ضروری  ہے کہ یا توکھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا جائے  کہ وفاق کا ادارہ مدارس کے نصاب ونظام کو ٹھیک سے نہیں چلا رہاتھا ،ارباب وفاق زمانے کی ضرورتوں کو نہیں سمجھ رہے تھےاور ہم ان ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اصلاح اور بہتری کی نیت سے آگے بڑھےہیں ۔ اور اگر اس اعتراف کی ہمت نہیں تو اپنے اس فعل کو کسی مذموم لفظ سےمنسوب کر لیا جائے ۔ یعنی دونوں چیزیں بیک وقت کیسے صحیح ہو سکتی ہیں ، کیونکہ جن خامیوں اور کمزوریوں کے تدار ک کے لیے آپ بزعم خود آگے بڑھے ہیں وفاق ان کے ساتھ چلنے پر مصر ہے تو یہ دونوں باتیں بیک وقت کیسے صحیح ہو سکتی ہیں ۔اسی طرح وفاق اس راستے کی تحسین کیسے کر سکتا ہے  جس پر آپ چل نکلے ہیں ،  لہذا کھلے دل سے اس حقیقت کا  اعتراف کرلیا جائے اور یہ کہنے کی بجائے کہ ہم وفاق کو مضبوط کرنے آئے ہیں اور یہ وفاق کا ہی ایک ذیلی ادارہ ہے کوئی اور تعبیر ڈھونڈ لی جائے ۔

تیسری اصولی بات یہ ہےکہ جامعۃ الرشید کے پلیٹ فارم اور جامعہ کے متعلقین کی طرف سے وقتا فوقتا حکومت کے حق میں جوبیان بازی اور ذہن سازی ہوتی ہے اس کا تعلق حکومت سے  ہے یا ریاست سے ۔اگرچہ جامعہ کی طرف سے عموما اسے ریاست کے حق کا عنوان دی جاتا ہے اور اسی عنوان سے گفتگو کی جاتی ہے مگر بین السطوربات ایک خاص جماعت اورحکومت کی طرف چلی جاتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ ہم من حیث المجموع ریاست کو نوچ رہے ہیں اور ریاست کے حقوق کا شعور اجاگر کرنا اچھی بات ہے مگر یہ ذہن سازی کرتے وقت حکومت و ریاست کا فرق ملحوظ رکھنا بھی اہم ہے۔ حکومت اور ریاست دو الگ الگ ادارے ہیں اور جب آپ کا پلڑا  ریاست کی بجائے حکومت کی طرف جھکتا ہے تو سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں ، انگلیاں بھی اٹھتی ہیں اور آپ کی غیر جانبداری بھی مشکوک قرار پاتی ہے ۔اور آخری نتیجے کے طور پر، آپ کی صفائیوں کے باوجود نئے بورڈ کے قیام کو بھی اسی خاص تناظر میں دیکھنے کی سپیس پیدا ہو جاتی ہے ۔

چوتھی اصولی بات یہ ہے کہ اکابر کی  مزاج فہمی کی درست تفہیم کر لی جائے ۔ جامعہ الرشید کے دردیوار کے اندر، نشریاتی ذرائع اورمجمع العلوم الاسلامیہ کے اجتماعات میں بھی یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ اکابر کی مزاج فہمی کی روشنی میں کیا جانے والا ناگزیر اقدام۔ میرے خیال میں یہ اکابر کے مزاج کی درست تفہیم نہیں ہے، اکابر کا جو مزاج اور خیال تھاکہ نظام تعلیم ایک ہونا چاہئے وہ  یہ نہیں تھا کہ مدارس کو ،جو تعلیمی ادارے کے ساتھ ایک خانقاہی ادارہ بھی ہیں ،عصری اور سرکاری اداروں میں کھپانے والے علماء کا بیس کیمپ بنا دیا جائے ۔ بلکہ ان کا منشاء اور مزاج یہ تھا کہ ملک کا مجموعی قومی نظام تعلیم ایسا ہونا چاہئے جس میں دین و دنیا دونوں کو لے کر آگے بڑھا جائے ۔

یعنی وہ ریاست کے مجموعی نظام تعلیم کے ایک ہونے کے خواہاں تھےکیونکہ قوم کے لاکھوںکروڑں بچے ان ریاستی تعلیم گاہوں میں پروان چڑھتے ہیں جہاں لارڈ میکالے اور مغربی تصورات کی بنیاد پر نصاب اور نظام سازی کی جاتی ہے ۔اکابر کا مزاج یہ نہیں تھا کہ عصری ادارے،سکول ، کالجز اور یونیورسٹیاں تو اپنے مزاج اورسیکولر خطوط پر باقی رہیں اور  مدارس جو ہماری تہذیب کا آخری مورچہ اور تہذیبی شناخت کا آخری استعارہ ہیں، اپنی تعلیمی و خانقاہی روش سے چھوڑ کر خود کو ماڈریٹ ثابت کرنے اور سرکاری اداروں میں کھپنے والے علماء کی کھیپ تیار کرنے پر لگ جائیں ۔ میرے خیال میں یہ اکابر کے مزاج کی سوء تفہیم ہے جس پر اپنے مطلب کا رنگ چڑھا کر  پیش کیا جا رہا ہے ۔ لہذا اس اصولی بات کو بھی طے کر لیا جائے کہ اکابر کے مزاج  کی درست تفہیم کیا ہے ۔

پانچویں اصولی بات یہ  ہے کہ دینی مداراس کے فضلاء کا عصری اداروں میں کھپنا اور وہاں نوکری حاصل کر لینا خوبی ہے یا خامی ۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے جو نئے بورڈ کے منتظمین کی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ ہمارے اتنے طلباء بری فوج ، نیوی ، فضائیہ،سکول ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں کھپ گئے وغیرہ ۔ کیا مدارس کے ذہین اور باصلاحیت طلباء کا واحد مصرف صرف یہی ہے کہ ان کی دینی و سماجی صلاحیتوں کو، دین اور امت کی بجائے محض ایک سرکاری نوکری اور اپنی ذات کی فکر تک محدود کر دیا جائے ۔اپنی بات کی مزید تفہیم کے لیے میں حضرت استاذ صاحب کی زندگی کو ہی بطور مثال پیش کرنا چاہتا ہوں ۔

یادش بخیر !  جامعۃ الرشید کے مہتمم حضرت استاذ صاحب کی کہانی تو سب نے سنی ہوگی ، نہیں سنی توآج سن لیجیے، حضرت استاذ صاحب دورہ حدیث کے امتحان میں پاکستان بھر میں اول آئے تھے ۔اس امتیاز کی بنا پر انہیں مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں چنداں مشکل نہیں تھی اور حضرت استاذ صاحب نے مدینہ یونیورسٹی جانے کا قصد بھی کر لیا تھا ، وہ تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کراچی میں حضرت مفتی رشید احمد ؒ سے ملاقات ہو گئی اور حضر ت استا ذ صاحب انہی کے ہو کر رہ گئے ۔ اگر استاذ صاحب مدینہ یونیورسٹی چلے جاتے تو آج زیادہ سے زیادہ وہ بہت اچھے پروفیسر ہوتے ، بہترین لائف سٹائل کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوتے اورخوبصورت گھر اور گاڑی کے مالک ہوتے۔لیکن وہ اور ان کی نسل یا خاندان میں سے شاید ہی کوئی خدمت دین سے وابستہ ہوتا ۔ یہ مدرسہ اور خانقاہ سے وابستگی ہی تھی جس نے حضرت استاذ صاحب کو خدمت دین کے اتنے بڑے کام کی توفیق دی ۔ سرکاری اداروں میں کھپنےوالے ہزاروں علماء کی بجائے اگر بیس تیس سالوں میں مدرسے کی چٹائی کو اہمیت دینےوالا ایک مفتی عبد الرحیم بھی پیدا ہو جائے تو مدارس کے لیے یہی کافی ہے ۔

برسبیل تذکرہ مولانا اعظم طارق شہید ؒ کی ایک نصحیت بھی یاد آ گئی،اس نصیحت کے راوی اسلام آباد کے ایک مشہور عالم دین ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں مولانا اعظم طارق شہید ؒ جامعہ فریدیہ تشریف لائے ، میں اسی سال دورہ سے فارغ ہوا تھا ، میں نے انہیں نصیحت کی فرمائش کی تو انہوں نے کہا بیٹا کبھی سرکاری نوکری نہ کرنا ۔ میں فوج میں خطیب بھرتی ہونے کے چکر میں تھا اور والدین کو بھی یہی امید تھی کہ فوج میں بھرتی ہو جائے گا تو زندگی سنور جائے گی ، لیکن میں نے حضرت شہید ؒ کی نصحیت کی وجہ سے یہ ارادہ ملتوی کر دیا ، کچھ عرصہ تک بے روزگار رہا مگر ہمت نہیں ہاری، پھر اللہ نے ایسا قبول کیا کہ آج یہ صاحب اسلام آباد میں دینی مدارس کی اہم نمائندہ شخصیت ہیں، پورے اسلام آباد میں خدمت دین ، مساجد ومدارس کا اہم نیٹ ورک چلا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ملکی سطح پر بھی کافی متحرک اور سرگرم  رہتے ہیں ۔

خلاصہ کلام یہ کہ یہ طے کر لیا  جائے کہ مدارس کے فضلاء کا عصری جامعات اور سرکاری اداروں میں کھپنا  خوبی ہے یا خامی اور اس کے ممکنہ اثرات و نتائج کیا ہو سکتے ہیں ۔ اس اصولی مقدمے کی بنیاد پر، اپنی بات  کی تفہیم کے لیے میں کچھ مزید تفریعات پیش کرنا چاہتا ہوں ۔

دینی مدارس میں آنے والے بچے تین طرح کے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں،ایک اپر کلاس، اس کلاس کے بہت کم بچے مدارس کا رخ کرتے ہیں ، اگر آئیں بھی تو والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ غبی بچے کو مدرسہ بھیج دیا جائے اور ذہین کو عصری تعلیم دلوائی جائے  ۔ دو،مڈل کلاس کے وہ گھرانے جن کا دین سے رشتہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے اور وہ اپنے ذہین اور غبی ہر طرح کے بچوں کو مدارس میں مذہبی تعلیم دلوانا پسند کرتے ہیں۔ تین، لوئر مڈل کلاس کے وہ گھرانے  جن کے والدین عصری اداروں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور وہ انہیں مدارس میں بھیج دیتے ہیں ۔  ان تینوں صورتوں کا مجموعی منطقی نتیجہ نکالا جائے تو صورت کچھ یوں بنتی ہے کہ مدارس میں آنے والے طلباء میں سے صرف مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بچے ذہین،لیڈر شپ اور وژنری صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں ۔اور یہ دنیا کا  مسلمہ اصول ہے کہ  ہزاروں لاکھوں میں سے کوئی ایک انسان وژنری اور لیڈر شپ کی خصوصیات کا حامل ہو تا ہے ۔اب ایسی صورت حال میں اگرمدارس میں آنے لاکھوں ہزاروں طلباء میں سے بھی  ان چند باصلاحیت اور وژنری طلباکو سرکاری نوکریوں اور عصر ی اداروں میں کھپا دیا جائے تو امت ، مذہب اور مدارس کے حصے میں کیا آئے گا اور آئندہ اس خلا کو کیسے پورا کیا جائے گا ۔ہو سکتا ہے بعض احباب کو یہ بات عام سی لگے مگر میرے لیے یہ پہلواہم ہے ۔

عصری اور سرکاری اداروں میں کھپنے اور وہاں جا کر دین کا کام کرنے کا جو زعم ہے یہ بھی ضرورت سے زیادہ خوش فہمی پر مبنی ہے ۔اس کی دو وجوہات ہیں ،ا یک اگر آپ اپنی ٹھیٹھ مولویانہ وضع قطع کے ساتھ میڈیا ، یونیوسٹیز اور دیگر عصری اداروں میں جانا چاہتے ہیں تو آپ کی وضع قطع کو دیکھ کر  آپ کے بارے میں پہلے ہی ایک خاص پرسیپشن بنا لی جاتی ہے کہ یہ تو مولوی ہے اور اس نے ایسی ہی بات کرنی ہے اور آپ کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا ۔دو ،یہ مشاہدے کی بات ہے کہ کوئی عالم دین خواہ کتنا ہی متدین اورراست باز کیوں نہ ہو جب عصری اداروں اور ان کے ماحول میں جاتا ہے تو ماحول اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتا ہے ، شروع کے سالوں میں نہ سہی چار پانچ سال کے بعد اتنا فرق تو ضرور پڑ جاتا ہے کہ خدمت دین اور اصلا ح امت کی فکر پس منظر میں چلی جاتی ہے اوراپنا گھر بار اور فکر معاش ابھر کر سامنے آ جاتے اور مقصود بن جاتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد وہی ہوتے ہے جو سرکاری خطیبوں ، سرکاری ٹیچروں کی صورت میں ہو رہا ہے ۔ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں مگر ان کا کردار مدرسہ کی روح کے موافق بھی نہیں کہ جس کا بنیادی مقصد ایسے علماء تیار کرنا ہے جو مادی مفادات سے ماوراءہو کر مخلوق کو خالق سے جوڑنے کے لیےوقف ہو جائیں ۔

اگر دینی مدارس کے فضلاء کو عصری اداروں میں  کھپانا ہی مقصود ہے تو  گویا دینی تعلیم بھی محض حصول روزگار کا ایک ذریعہ بن کررہ جائے گی ، پھر ایک عالم دین سے جو مدرسہ میں دس سال لگاتا ہے یہ سوال فضول ہو جائے گا کہ وہ مدرسہ میں دس سال لگانے کے بعد مذہب اور امت کو کیا لوٹا رہا ہے ۔

میرے خیال میں ارباب جامعہ الرشید کو اس موضوع پر ریسرچ کروانی چاہئے اور اس کے نتائج بھی سامنے لانے چاہیئں کہ اب تک ان کے کتنے فضلاء عصری اداروں میں کھپے ، کتنوں کے عقائد و نظریات اور وضع قطع  میں تبدیلی آئی ، ان اداروں میں ان کا کردار کیا رہا اور ان کے وہاں ہونے سے اداروں میں کیا مثبت تبدیلیاں آئیں ۔ جامعۃ الرشید کے ساتھ اگر مجموعی طور پر مدارس کے فضلاء کا عصری اداروں میں کھپنے کا ڈیٹا بھی اکٹھا کر لیا جائے اورا س کا اینالسسز کر لیا جائے تو میرے خیال میں نتائج انتہائی مایوس کن  اور ہوش ربا ہوں گے ۔ اگر کوئی اپنے طو ر پر اس موضوع پر کام کرنا چاہے تو اس پر ایم فل  پی ایچ ڈی سطح کا مقالہ بھی لکھا جا سکتا ہے ۔

اور سب سے آخر میں اس اصولی بات کی تفہیم ضروری ہے کہ نئے بورڈ کے قیام کی صورت میں ، الحاق کرنے والے مدارس کو خلوص نیت سے ہی سہی مگر کچھ خواب دکھائے گئے ہیں ۔ مثلا ایچ آر ، فائنانس، مینجمنٹ ، فنڈ ریزنگ، ہیومن ریسورس اور اس جیسے دیگر پر کشش الفاظ ، اصطلاحات اور کیپشن وغیرہ ۔اس ضمن میں یہ جاننا اہم ہے کہ کیا ملک کے تمام مدارس کے وسائل و مسائل جامعۃ الرشید جیسے ہیں یا ان وسائل و مسائل میں تفاوت موجود ہے ۔ میری ناقص رائے میں اس طرح کے منصوبے ، اصطلاحات  اور کیپشنزکراچی جیسے شہر اور جامعۃ الرشید جیسے ادارے میں بیٹھ کر تو ڈسکس ہو سکتے ہیں مگرملک بھر کے تمام مدارس کے لیے یہی سوچ اپنانازمینی حقائق کو یکسر نظرا نداز کرنے کے مترادف  ہے۔

جامعۃ الرشید وسائل کے اعتبار سے ایک آئیڈیل ادارہ ہے اور آئیڈیل کے خواب تو دیکھے جا سکتے ہیں مگر اسے پایا نہیں جا سکتا۔دیگر اکثر مدارس کی صورتحال تو یہ ہوتی ہے کہ  انہیں  اپنے روزمرہ ا خراجات پورے کرنا  مشکل ہوتا ہے چہ جائیکے کہ وہ ایچ آر ، فائنانس، مینجمنٹ، فنڈ ریزنگ، ہیومن ریسورس وغیرہ کے خوبصورت اور پر کشش کیپشنز کے خواب دیکھیں ۔

نئے بورڈ کے تعارفی کتابچے میں لکھا گیا ہے کہ ہم اپنے طلباء کو تین چار زبانیں سکھانا چاہتے ہیں اور درس  نظامی کے موجودہ نصاب و نظام کے ساتھ یہ ممکن نہیں ۔  ، میر ے لیے یہ امر باعث حیرت ہے کہ جن طلباء کو اردو ٹھیک سے لکھنی اور بولنی نہیں آتی ہم انہیں غیر ملکی زبانیں کیوں سکھانا چاہتے ہیں ۔سکول کالج کی طرح اب مدارس کی صورتحال بھی یہ ہے کہ اردو میں  ایک صفحے کا مضمون ہمارے طلباء نہیں لکھ سکتے ۔ اگر غیر ملکی زبانیں سکھانا مقصود  ہے تو اس کے لیے کچھ خاص اذہان کو چنا جا سکتا ہےمگر وہ بھی درس نظامی کی تکمیل کے بعدجیسا کہ جامعۃ الرشید میں انگلش اور دیگر تخصصات کے شعبے پہلے سے موجود ہیں ۔ درس نظامی کے ساتھ کہ جس کی اپنی زبان عربی ہے اس کے ساتھ ترکش، چائنیز اور انگلش گویا ایک طلباء درس نظامی کے علوم و فنون کی بجائے زبانیں سیکھنے پر ہی مامور ہوں گے ۔

اگر فرض کر لیا جائے کہ درس نظامی کے ساتھ صرف ایک زبان ترکش ، چائنیزیا انگلش سکھائی جائے گی تو میرا ماننا ہے کہ پھر بھی تین زبانوں کا بوجھ ایک طالب علم کو اٹھانا پڑے گا، اردو، عربی تو لازمی ہیں ان کے علاوہ  ترکش، چائنیز اور انگلش میں سے کوئی ایک۔ یہ طالب علم کے ساتھ سراسر زیادتی ہے اور اس طرح وہ کسی ایک زبان کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ زبان سیکھنا کوئی آسان کام نہیں۔اگر ان زبانوں کے محض ابتدائی اور تعارفی قواعد سکھائے جائیں گے تو بھی فائدہ نہیں کہ جب تک کسی زبان کے ساتھ مستقل ٹچ نہ رہا جائے ، اس کی ووکیبلری مستقل نہ برتی جائے تو اسے سیکھنا سمجھنا ممکن نہیں ہوتا ۔

زبانیں سیکھنے سکھانے کی اس مفروضہ صورتحال کا تعلق جامعۃ الرشید کی چاردیواری کے اندر ہے کہ جامعہ کی چار دیواری کے اندر بھی یہ کوئی قابل عمل صورت نہیں ۔ اگر اس مفروضہ صورتحال کو دوسرے مدارس تک پھیلا دیا جائے تو وہاں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ دوسرے مدارس کے لیے ان زبانوں کے ماہر اساتذہ کرام ڈھونڈنا اور انہیں ہائیر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔

تعارفی کتابچے میں ہم نصابی اضافات کے ضمن میں جن موضوعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان میں سے اکثر دینی مدارس میں پہلے سے رائج ہیں ، مثلا ہر مدرسے میں بز م ادب ، تقریری مقابلوں ، خطابت ، تحریر وتقریراور کھیل وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے ۔

اس کے علاوہ معلوماتی و تربیتی نشستوں میں جن موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے مثلا وفاقی حکومت کا اسٹرکچر، گورننس، آئین پاکستان ، سی پیک ، اقوام متحدہ ، ایف اے ٹی ایف وغیرہ یہ  تمام مقاصد محض تین چار گھنٹے کی ورکشاپ سے حاصل ہو سکتے ہیں ۔نئے بورڈ کے قیام کو اس طرح کی سطحی چیزوں سے استناد مہیا کرنا غیر عقلی اور غیر منطقی رویہ ہے ۔

مجمع العلوم الاسلامیہ کےتعارفی کتابچے  کو میں نے بغور پڑھا اور دو تین بار پڑھا ہے ، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نئے بورڈ کے قیام ، اہداف ومقاصد اور پالیسز کا جو تعارف کروایا گیا ہے اس کا نفاذ جامعۃ الرشید کی حدود اور اس جیسے چند بڑے شہری اداروں میں بھی صرف جزوی طورپر تو ممکن ہے مگردور درازاور محروم الوسائل مدارس کے لیے یہ صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ اس کااگر تناسب نکالا جائے تو پانچ فیصد ایسے مدارس ہو سکتے ہیں جن میں یہ ماڈل اپلائی کیا جا سکتا ہے باقی پچانوے فیصد مدارس کے لیے اپنی موجودہ ہیئت کو برقرار رکھنااور موجود ہ نظم کے ساتھ اپنا وجود باقی رکھنا ہی بہت بڑا کام ہے ۔

پچھلے کچھ دنوں سےمسلسل غور وفکر کے بعد ، میں یہ سطور لکھنے پر مجبور ہواہوں۔ امید ہے میرےا حباب اوراساتذہ کرام اسے اسی نظر سے دیکھیں گے ۔ مجھے اپنے اساتذہ اور مادر علمی سے محبت ہے اور اسی محبت کے تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے ایک نکتہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی ہے  اورظاہر ہے کہ حرف آخر کوئی بات نہیں ہوتی۔

 

محمد عرفان ندیم

محمد عرفان ندیم پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ روزنامہ نئی بات اور روزنامہ اسلام سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں اور لاہور گیریژن یونیورسٹی میں جز وقتی تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
irfannadeem313@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں