ڈاکٹر حافظ سہیل شفیق صاحب درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ “جامعہ نظامیہ بغداد کا علمی و فکری کردار” ڈاکٹر سہیل شفیق صاحب کا پی ایچ ڈی مقالہ ہے جس کو عکس پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع کا انتخاب مولانا شاہ احمد نورانی رح کی تجویز پر کیا، اس لیے اپنی اس کاوش کا انتساب بھی ڈاکٹر صاحب نے مولانا نورانی رح کے نام کیا ہے۔ یہ مقالہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج شہید رح کے زیر نگرانی مکمل ہوا۔اس کے علاوہ ڈاکٹر سہیل صاحب نے ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ اور ڈاکٹر محمد شکیل صدیقی موحوم کا خصوصی ذکر کیا ہے جنہوں نے اس مقالے میں ڈاکٹر سہیل صاحب کی معاونت کی۔ ان کے علاوہ بھی دیگر اہل علم جنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے تعاون کیا ڈاکٹر صاحب نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر سہیل صاحب نے ان لائبریوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کی کتب سے اس تحقیق کو سامنے لانے کے لیے استفادہ کیا گیا۔ ان میں کراچی، گوجر انوالہ، علی گڑھ، ایران اور مدینہ منورہ شامل ہیں۔ اس مقالے کی کچھ سطور مدینہ منورہ میں اصحاب صفہ کے چبوترے میں بیٹھ کر بھی لکھی گئی ہیں۔
اُردو زبان میں جامعہ نظامیہ بغداد کے حوالے سے یہ پہلا تفصیلی کام ہے۔ اس سے پہلے ڈاکٹر علی محسن صدیقی صاحب کا ایک مختصر مقالہ ہے۔ڈاکٹر علی محسن صدیقی صاحب کا مقالہ ایک اجمالی تعارف ہے۔ ڈاکٹر سہیل صاحب کو یہ تحقیق پیش کرنے کے لیے تقریباً سات سال لگے، ملک و بیرون ملک کے مختلف کتب خانوں میں سے مواد تلاش کیا گیا۔ ڈاکٹر سہیل صاحب کا یہ ایک جاندار مقالہ ہے پھر ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی رح اور ڈاکٹر سید سلمان ندوی جیسے جید اہل علم کی تائید سے اس مقالے کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی رح نے اس مقالے کو اسلامی میراث کی ایک قیمتی دستاویز قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر سہیل صاحب کی اس تحقیق و محنت کے لیے اس سے بہتر الفاظ اور کیا ہوں گے پھر نکلے بھی ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی رح کے قلم سے ہیں۔
یہ کتاب فقط جامعہ نظامیہ بغداد کی تاریخ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی علمی تاریخ بھی ہے۔ علم اسلام کی تہذیب و تمدن کا ایک لازمی جز ہے تو یہ کتاب تہذیب اسلامی کی بھی ایک تاریخ ہے،پہلا باب اس تاریخ کا بیان ہے۔ اسلام سے قبل بھی علم و فن کی اہمیت دنیا کے خطوں میں مسلم تھی مگر اس پر کچھ مخصوص گروہوں کا قبضہ تھا، مثلاً ارسطو جیسا فلسفی عورتوں کو تعلیم دینے کے خلاف تھا، ہندی ماہر قانون منو شودروں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے علم پر کسی گروہی اجارہ داری کو قبول نہیں کیا بلکہ اس کو وقف عام کیا ہے یہ اسلام کا انسانیت پر ابدی احسان ہے۔
مکہ مکرمہ میں نزول وحی کے بعد اس کے ابلاغ کے لیے تعلیم و تعلم کا آغاز ہو گیا تھا اور سابقون الاولون میں سے ایک صحابی حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ کا مکان جو کوہ صفا کی بلندی پر واقع تھا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلا مرکز بنایا۔ اسلام کا پہلا مدرسہ یہی دار ارقم تھا۔ تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ مدینہ منورہ میں صفہ کے چبوترے میں بھی جاری رہا۔کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ ڈاکٹر صاحب نے اصحاب صفہ کے اسماء گرامی نقل کیے ہیں۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مدینہ منورہ کے اندر صفہ کے علاوہ بھی کئی درس گاہیں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حصول علم کی خصوصی ترغیب بھی دلائی، حضرت سیدنا زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ تو عبرانی یا سریانی زبان سیکھنے کا کہا جو حضرت سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے سترہ دنوں میں سیکھ لی، حضرت سیدنا سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کچھ آیات کا فارسی زبان میں ترجمہ بھی کیا، عورتوں کی تعلیم کے لئے بھی ہفتے میں ایک دن مقرر تھا پھر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم نے بھی یہ فریضہ باخوبی انجام دیا۔لہذا عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دینیات کی تعلیم کا اہتمام ہو چکا تھا۔
اس کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں بھی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ جاری رہا کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ منورہ سے باہر جا کر لوگوں کو تعلیم دینے کا اہتمام کیا۔ حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فتح شام کے بعد وہیں قیام کیا آپ رضی اللہ عنہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فقہاء صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ ایسے حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ،حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بصرہ میں تعلیمی مراکز قائم کیے۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کوفہ آمد کے بعد کوفہ کو علمی لحاظ سے مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی۔ دور فاروقی میں اساتذہ کے لیے بیت المال سے تنخواہیں دینا کا سلسلہ شروع ہوا۔ دور مرتضوی میں داخلی انتشار کے باوجود علمی شعبے میں کوئی خلل واقع نہ ہوا بلکہ علم نحو کے لیے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے اس کے اساسی نکات ابو الاسود الدوئلی رح کو سکھائے۔
اموی دور میں بھی علمی ترقی جاری رہی، اموی خلفاء اپنی اولاد کی تعلیم پر بہت زور دیتے تھے اور ان کو بادیۃ شام بھیجا کرتے۔ ولید بن عبد الملک کے دور میں حکومت نے تعلیم کو خصوصی توجہ دی، عربی رسم الخط کی اصلاح اور اعراب کا کام اسی دور میں ہوا۔ علمی فروغ کے لیے حضرت عمر بن عبد العزیز رح نے بھی خصوصی اقدامات کیے کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ خود ایک محدث و فقیہ تھے آپ نے معلمین کے ساتھ ساتھ طالب علموں کے وظائف بھی مقرر کیے۔ علم مغازی و فقہ کو بھی اس دور میں عروج ملا۔
بنو عباس کے دور میں بھی اس شعبے سے غفلت نہیں برتی گئی، تصنیف و تالیف کے ساتھ تراجم کا انتظام حکومتی سرپرستی میں ہوا۔ اس دور میں کتب خانے کثرت سے پائے جاتے تھے۔ مصنف نے عباسی خلیفہ معتضد باللہ کی علم دوستی کا خصوصی ذکر کیا جس نے علماء و فلاسفہ کے لیے بغداد میں ایک بڑی شاندار عمارت تعمیر کرائی۔ مدارس کا قیام بھی دور عباسی میں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا مدرسہ نیشاپور میں قائم ہوا۔ جامعہ نظامیہ بغداد بھی دور عباسی کی ایک یادگار ہے مگر جو علمی انقلاب اس مدرسے کی بدولت آیا اس میں یہ مدرسہ بے مثال ہے۔اس باب میں مسلمانوں کی تقریباً پہلی چھے سو سالہ تاریخ کو مختصر سے مختصر انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔
دوسرے باب کی دو فصلیں ہیں پہلی فصل میں بغداد کے سیاسی و تاریخی پس منظر پر بات کی گئی ہے۔ جب حکومت بنو امیہ سے بنو عباس کو منتقل ہوئی تو یہ محض ایک خانوادے سے دوسرے خانوادے میں انتقال اقتدار نہ تھا بلکہ ایک سماجی ڈھانچے میں ایک غیر معمولی تبدیلی تھی کیونکہ اموی حکومت خالص عربی حکومت تھی جبکہ عباسی تحریک میں عجم میں سے اہل فارس کا بہت بڑا کردار تھا۔ اموی دارالخلافہ دمشق تھا جبکہ عباسیوں کی فیصلہ کن حمایت عراق میں تھی تو انہوں نے بغداد کو اپنا مرکز حکومت بنایا۔ بغداد پہلے ایک باغ داد کے نام سے پرانی بستی تھی اس کو آب وہوا اور محل وقوع کو دیکھتے ہوئے اسے دارالخلافہ بنانے کا فیصلہ ہوا اور پانچ سال میں اس شہر کی تعمیر ہوئی۔ عباسی خلافت کے خاتمے تک بغداد دارالخلافہ رہا بیچ میں چند سال معتصم باللہ کے دور میں سامرہ کو دارالخلافہ کی حیثیت دی گئی۔ بغداد کے مرکز حکومت بننے کے بعد یہ شہر مرکز علم بن گیا، بالخصوص ہارون الرشید کے دور میں یہ شہر علم دوستی کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا.ہارون کے بعد مامون الرشید بھی علم دوست اس کے دور میں بغداد عربی ادب کا مرکز تھا اس کا دربار معلمین، مترجمین اور وقائع نگاروں سے بھرا رہتا تھا۔ معتصم باللہ نے ایرانیوں کا زور توڑنے کے ترکوں کو آگے لانے کی پالیسی کی مگر ترکوں نے اپنی مان مانیوں سے اہل بغداد کی زندگی تنگ کر دی۔ان کو بغداد سے الگ رکھنے کے لیے سامرا شہر آباد کیا گیا۔ بغداد میں کثرت سے کتب خانے تھے پھر حنبلی اور حنفی فقہ کا تو یہ شہر گھر تھا۔
اس باب میں بغداد میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کا بھی ذکر ہے کہ بالخصوص آل بویہ کے زمانے میں فرقہ وارانہ کشیدگی بھی بڑھ گئی اور کئی فسادات ہوئے۔ سلجوقی کے عہد میں بھی یہ صورتحال رہی مگر آل بویہ کی نسبت بغداد کے لیے یہ بہتر ثابت ہوئے۔ سقوط بغداد کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے اور بتایا کہ اس وقت چالیس روز تک بغداد میں قتل عام جاری رہا۔ یہ فصل بغداد کی سیاسی و علمی تاریخ کے مطالعے کے حوالے سے کافی دلچسپ اور مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔
دوسری فصل میں جامعہ نظامیہ بغداد کے مؤسس نظام الملک طوسی رح کا ذکر ہے جو کہ الپ ارسلان اور ملک شاہ سلجوقی کے عہد وزیر تھے۔ان کا نام خواجہ ابو علی حسن بن علی بن اسحاق طوسی اور نظام الملک ان کا لقب تھا۔یہ خاندانی طور پر متوسط زمیندار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ خواجہ صاحب کے پہلے استاد عبد الصمد قندوجی تھے جو کہ مشہور فقیہ تھے۔ ان کے دوسرے اہم استاد امام موفق تھے جن سے فیضیاب ہونے والے دنیاوی مراتب میں بڑے مقام پر پہنچتے تھے۔ نظام الملک طوسی، عمر خیام اور حسن بن صباح تینوں امام موفق کے شاگرد تھے اور یہ تینوں ہم درس تھے۔ ان تینوں نے آپس میں وعدہ کیا کہ ہم تینوں میں سے کسی ایک کو بھی دنیاوی عہدہ و دولت ملی تو وہ باقی دو کو بھی اپنی دولت میں شریک کرے گا۔ نظام الملک طوسی کو صوفی ابو سعید ابو الخیر رح نے بڑے عہدے تک پہنچنے کا مژدہ سنایا اور کہا کہ جب تک مستحقین تم سے فیضیاب ہوتے رہیں گے اس وقت تک تمہاری دولت اور امارات قائم رہے جب انہیں محروم کرو گے تو زوال آ جائے گا.
نظام الملک طوسی رح الپ ارسلان کے وزیر اعظم تھے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد نظام الملک نے سب سے پہلے جو کام کیے مدرسہ نظامیہ کا قیام ان میں سب سے اہم ہے۔ اس درسگاہ کے علمی کارناموں کے سبب تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ رہے گا۔ نظام کے بیٹے اور پوتے بھی شاہان سلاجقہ اور بنو عباس کے وزیر ہوئے۔بانوے برس تک اس خاندان میں وزارت کا سلسلہ قائم رہا۔ نظام صوفیاء و علماء کا خاص عقیدت تھا، اس کے دستر خوان پر گدا گر ہمیشہ ہوتے،یہ ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتا۔ اس نے انتیس سالہ وزارت میں رفاہ عامہ کے متعدد کام کیے،اس نے بڑے بڑے شہروں میں مساجد، مسافر خانے اور شفا خانے بنائے۔ نظام کو ایک دیلمی نوجوان نے صوفی کے بھیس میں آ کر قتل کیا۔ یہ ایک اسماعیلی فدائی تھا اور یہ قتل حسن بن صباح کے کہنے پر ہوا کہا جاتا ہے کہ حشیشین کا اسلامی راسخ الاعتقادی یہ پہلا کھلا وار تھا۔ نظام شافعی المسلک میں بہت متصلب تھا، اس کے سیاسی افکار اور اولاد کے بارے میں بھی اس فصل میں ڈاکٹر صاحب نے روشنی ڈالی ہے۔ لہذا یہ فصل نظام کی سوانح عمری پر مشتمل ہے۔
تیسرا باب جامعہ نظامیہ بغداد کے بارے میں ہے۔ اس کا درس و تدریس اور انتظامی امور کا جائزہ لیا جائے تو یہ آج کی جدید جامعات سے مختلف نہیں ہے۔ اس میں مختلف شعبہ جات تھے پھر متولی (Vice Chancellor)، ناظر (Director Finance) ،مفتی (Jurisconult)، خازن(Librarian)، خادم (Servitor)، واعظ (Visiting Scholars), دربان (Watchman), مدرس (Professor), معید (Cooperative Teacher) اور محققین (Research Scholars) پائے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہر ایک عہدے پر مختصراً لکھا ہے۔ پھر اس جامعہ نظامیہ بغداد میں تعلیم میں درجہ بندی بھی پائی جاتی تھی جیسے کہ آج کی جامعات میں اسپشلائزیش کے لیے خصوصی تعلیم ہوتی ہے وہاں بھی تخصص کا اہتمام ہوتا تھا۔ پھر اس جامعہ سے فقط علماء ہی نہیں تیار ہوتے تھے بلکہ اس وقت کی بیوروکریسی میں بھی یہاں کے فارغ التحصیل لوگ حصہ بنتے تھے۔ اس جامعہ کے کتب خانے عوام و خواص سب کے لیے کھلے رہتے تھے اور بغداد سے باہر لوگ بھی یہاں تحقیق کی غرض سے قیام کرتے تھے۔ یہاں پر مقیم طلباء و مدرسین کے کھانے پینے کا انتظام جامعہ کے اپنے اخراجات سے ہوتا تھا۔ اس کے زرائع آمدن میں جہاں حکومتی امداد شامل تھی تو دوسری طرف مستقل ذریعہ آمدنی کے اعتبار سے آس پاس کی املاک اس کی ملکیت تھی، پھر کئی امراء نے اپنی جائیداد اس مدرسے کے نام کیں۔
نظام الملک چونکہ متصلب شافعی تھا اس لیے اس مدرسے میں فقط شوافع اساتذہ ہی کو درس و تدریس کی اجازت تھی، کئی علماء یہاں درس و تدریس سے اس لیے محروم رہ گئے کیونکہ وہ شافعی مذہب پر نہیں تھے۔ پہلے یہاں پڑھائی بھی فقط شافعی فقہ جاتی تھی مگر شافعی مذہب کی ترجیح ثابت کرنے کے لیے دوسری فقہ پڑھائی جانے لگیں۔ اس وقت مصر میں فاطمی حکومت تھی اور جامع ازہر اس کا علمی مرکز تھا تو اس کا توڑ کرنے کے لیے بھی جامعہ نظامیہ بغداد میں شافعی مذہب کو لازم کیا گیا اور اس جامعہ نے کافی حد تک اسماعیلی مرکز ازہر کا زور توڑا۔ صلاح الدین ایوبی رح کے فتح مصر کے بعد ازہر سنی ادارہ بن گیا ورنہ یہ اسماعیلی علمی مرکز تھا۔
یہاں کے طلباء اور مدرسین کی تعلیم و تربیت کا بھی خصوصی خیال رکھا جاتا تھا اور اس معاملے میں کسی قسم کی لاپرواہی ناقابلِ برداشت حتی کہ بانی مدرسہ کے پوتے ابو نصر کو ایک الزام جو کہ آج معمولی سمجھا جاتا ہے اور اس کا براہ راست مدرسے کے نظم و نسق سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر پھر بھی ابو نصر کو مدرسی سے معزول کیا گیا۔اس مدرسے کے نصاب کے حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحب نے تحقیق کی ہے جہاں قرآن مجید، حدیث و فقہ کے علاوہ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔
یہ مدرسہ تقریباً تین سو اڑتیس سال قائم رہا بعد میں اس کو جامعہ مستنصریہ میں ضم کر دیا گیا۔یہ باب اس جامعہ کی تاریخ ہے
چوتھے باب میں جامعہ نظامیہ بغداد کے مدرسین کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہاں ایک سو ایک شخصیات کا فرداً فرداً مختصر تعارف کرایا ہے. ان میں علامہ الکیاالہراسی، ابو اسحاق شیرازی، امام الحرمین جوینی اور امام غزالی قابلِ ذکر ہیں۔ یہ مکمل فہرست ہرگز نہیں ہے۔ اساتذہ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے مگر اس کے باوجود اتنی شخصیات کا کھوج لگانا قابلِ تحسین ہے۔ یہی تحقیق پانچویں باب میں مزید بڑھ جاتی ہے جہاں ڈاکٹر صاحب نے اس جامعہ سے فارغ التحصیل طلباء کا ذکر کیا ہے جن کی تعداد ایک سو اٹھاون ہے۔ یہ کھوج اس لیے اور بھی مشکل ہے کہ کیونکہ ایسی سرکاری دستاویزات دستیاب نہیں جہاں طلباء کی فہرست ہو، پھر اس وقت اس مدرسہ کے حامل طلباء اپنے نام کے ساتھ ادارے کا کوئی لاحقہ بھی نہیں لگاتے تھے اور پھر کئی کتب اور منابع و مصادر کے ضائع ہو جانے سے بھی یہ اور مشکل ہو گیا۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحقیق اور مختلف کتب تاریخ سے ان ایک سو اٹھاون طلباء کے حالات نکال کر سامنے لائے ہیں۔ کتاب کا چوتھا اور پانچواں باب فقط جامعہ کے مدرسین و طلباء کے احوال نہیں بیان کرتا بلکہ یہ شافعی فقہاء کا بھی ایک تعارف ہے جو اردو میں پہلے شاید نہیں پایا جاتا۔اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ نظامیہ بغداد کے چھبیس مریدین کی بھی فہرست دی گئی ہے۔
چھٹے باب میں مدرسہ نظامیہ کی برانچوں کا ذکر ہے جو کہ دوسرے شہروں میں قائم ہوئیں ان میں جامعہ نظامیہ نیشاپور سب سے زیادہ قابلِ ذکر ہے کیونکہ امام الحرمین جوینی رح اور امام غزالی رح نے اس مدرسے میں اپنا علم بانٹا اس کے علاوہ جامعہ نظامیہ اصفہان، نظامیہ مرو، نظامیہ موصل، نظامیہ آمل طبرستان، نظامیہ بصرہ، نظامیہ ہرات، نظامیہ بلخ، نظامیہ جزیرہ ابن عمر، نظامیہ خرگرد (خواف) اور نظامیہ رے کی مختصر تاریخ، وہاں کے چند مدرسین کا ذکر کیا ہے۔ نظامیہ کی یہ برانچیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس جامعہ کے تاریخ پر کتنے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ساتوے باب میں مصنف نے اس ہی پر تجزیہ کیا ہے بالخصوص جامع ازہر جہاں سے باطنیت کو فروغ مل رہا تھا اس مدرسے نے مذاہب اہل سنت کو احیاء بخشی۔ عربی زبان و ادب کے فروغ میں بھی ان مدارس نظامیہ کا بہت ہاتھ تھا۔اس کے انتظامی حسن کا تو یورپی درس گاہوں نے اعتراف کیا اور قدیم یورپی درس گاہوں میں تو ان کے علمی تراث پر خصوصی کام بھی ہوا۔ نظامیہ بغداد کی مجالس کے احوال میں سے ایک اندلسی سیاح ابن جبیر کا اقتباس نقل ہے کہ یہ محافل علمی و فکری لحاظ سے کس قدر بلند تھیں اور پھر روحانی تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔
آٹھویں باب میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحقیق کا خلاصہ اور نتائج فکر بیان کیے ہیں جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب نے اپنی ہی تحقیق کے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔ اگر کتاب میں یہ باب شامل نہ ہوتا تو میرے لیے اس کتاب پر بات کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا۔
یہ کتاب فقط جامعہ نظامیہ بغداد کا تعارف نہیں دیتی بلکہ یہ اسلام کی علمی تاریخ کو بھی بیان کرتی ہے، اس کے ساتھ یہ بغداد کی تاریخ بھی ہے اور پھر یہ بانی مدرسہ نظام الملک طوسی کی سوانح عمری بھی ہے اور پھر شافعی فقہاء کا انسائیکلوپیڈیا بھی کہیں تو غلط نہ ہوگا۔
یہ کتاب ڈاکٹر حافظ سہیل شفیق صاحب نے بطور تحفہ عنایت فرمائی تھی۔ مجھے احساس ہے کہ میں اس تحفہ کا حق ادا نہیں کرسکا مگر Something is better than nothing کے تحت کوشش کی ہے۔
راجہ قاسم محمود
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ ،یہ کتاب مجھے چاہیے کہاں سے ملے گی؟
حافظ مطیع اللہ ،لیکچرار اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پاکستان
وعلیکم السلام
یہ کتاب عکس پبلیکشنز نے شائع کی ہے۔ ان کا نمبر 4078844-0348 پر رابطہ کر لیں۔ یہ نوفل جیلانی صاحب ہیں۔
میں نے عکس پبلیکشنز سے اس کتاب کے حوالے سے رابطہ کیا ہے وہ کہہ رہے ہیں ہم نے یہ کتاب شائع نہیں کی ہے۔