Home » خطوط غالب
اردو کتب زبان وادب

خطوط غالب

 

مرزا غالب کا شمار اردو ادب کے صف اول کے شعراء میں ہوتا ہے۔ لیکن مرزا فقط شاعر نہیں تھے بلکہ بہت اعلیٰ پایہ کے نثر نگار بھی تھے۔ ان کے نثری جواہر ان کے خطوط سے نمایاں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ جو کہ جامعہ کراچی سے وابستہ ہیں نے مرزا غالب کے خطوط جو پانچ جلدوں پر مشتمل سے انتخاب کر کے ان کو الگ سے مرتب کیا ہے جس میں زمانی ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ کے اس انتخاب کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ اس مجموعہ انتخاب میں مرزا غالب کے ۲۷۸ خطوط کو جمع کیا گیا ہے۔غالب کی شخصیت کے پیش نظر غالب شناسی اردو ادب کا ایک اہم گوشہ بن چکا ہے اور ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ کا یہ کام غالب شناسی کی ایک عمدہ کوشش ہے۔
خطوط سے پہلے ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ نے مقدمہ لکھا ہے جو کہ بڑا جاندار اور اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ نے مرزا صاحب کے ابتدائی حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے، جس میں بتایا ہے کہ مرزا غالب کا بچپن قدرے تمول اور بے فکری میں گزرا مگر افتاد طبع اور شاہ خرچی کی عادت نے انہیں تاعمر پریشان رکھا۔
جہاں تک مکتوبات کی بات ہے تو ڈاکٹر صاحبہ نے بجا فرمایا ہے کہ غالب کے خطوط اردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان خطوط میں ایک فرد کی آواز بھی ہے اور پورے عہد کی گونج بھی۔ ان خطوط میں اس وقت کی ہندوستان کی تاریخ کے اوپر بھی بات چیت ہے، اس دور کے تہذیبی و سماجی تغیر و تبدل کا ذکر بھی ہے۔ پھر خطوط کے سلسلے میں غالب نے ایک روایت کی بنیاد ڈالی، ان کے ہاں تصنع و بناوٹ کی بجائے حقیقی جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔
مرزا غالب کے یہ منتخب کردہ ۲۷۸ مکتوبات مختلف شخصیات کی طرف لکھے گئے ہیں جن میں سے ہر مکتوب الیہ کا نام خط کے نمبر کے ساتھ ذکر ابتدائے فہرست میں دے دیا گیا ہے۔
ان خطوط کا دورانیہ ۱۸۴۷ سے لیکر ۱۸۶۸ تک کا ہے۔ اس دوران غدر یا جنگ آزادی کا ایک اہم واقعہ گزرا۔ اس پر غالب نے ایک مستقل کتاب “دستنبو” کے نام سے فارسی زبان میں تحریر کی ہے۔مگر اس اہم واقعہ کا غالب کے خطوط میں جا بجا ذکر ملتا ہے۔ جس میں دلی کی تباہی اور اجڑنے کا ماتم ہے۔ غالب خود تو کسی کاروائی میں ملوث نہیں تھے مگر اس ہنگامے نے ان کو ناصرف نفسیاتی و ذہنی طور پر متاثر کیا بلکہ غالب مالی طور پر بھی اس سے متاثر ہوئے۔ ان کی پینشن بند ہو گئی جس کی بحالی کے لیے ان کو کافی تگ و دو کرنی پڑی اور کافی انتظار بھی کرنا پڑا۔ انگریزی سرکار نے ان کو کافی آزمائشوں میں ڈالا محض چند دنوں یا ہفتوں میں بحالی کا کہہ کر تقریباً تین سال لگے اپنے پینشن کے بارے میں حتمی فیصلہ ہونے کے لیے، مرزا اس دورانیے کے مختلف خطوط میں اس امید کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ پینشن بحالی میں چند روز رہ گئے مگر اگلے ماہ کے خطوط میں بھی یہ ہی امید ہے کہ آج کل میں فیصلہ ہوا بس, مگر تاریخ پر تاریخ گزرتی جاتی ہے اور پینشن کا فیصلہ موخر ہوتا جاتا ہے۔ بالآخر جولائی ۱۸۶۰ میں علاؤ الدین خان علائی کے نام خط میں مرزا کہتے ہیں کہ پینشن منظور ہو گئی ہے اور ان کو چار سو روپے ملے۔
ان خطوط کا بنیادی موضوع اصلاح اشعار ہے۔ ہند بھر سے مختلف لوگ مرزا غالب کو اپنا کلام اصلاح کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ پہلا خط جو منشی ہرگوپال تفتہ کے نام ہے۔ اس میں بھی اصلاح اشعار کا بیان ہے اور غالب دعا کرتے ہیں کہ ان سے کوئی سوال تشنہ نہ رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تفتہ کو غالب یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کو بھی اصلاح کی اسی طرح ضرورت ہے جیسے کہ تفتہ کو اس لیے ان کے تحریر کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھا جائے اور اصلاح کا پہلو نکلتا ہو تو بتایا جائے۔
ان خطوط میں کئی لوگوں کے بچھڑنے کا نوحہ بھی ہے مثلاً منشی نبی بخش حقیر کے نام خط میں مومن خان مومن کے مرنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے
“سنا ہوگا تم نے ،کہ مومن خاں مر گئے۔ آج ان کو مرے ہوئے دسواں دن ہے۔ دیکھو بھائی، ہمارے بچے مر جاتے ہیں، ہمارے ہم عمر مرے جاتے قافلہ چلا جاتا ہے ہم پادر رکاب بیٹھے ہیں۔ مومن خاں میرا ہم عصر تھا اور یار بھی تھا۔بیالیس تینتالیس برس ہوئے یعنی چودہ چودہ ، پندرہ پندرہ برس کی میری اور مرحوم کی عمر تھی کہ مجھ میں اس میں ربط پیدا ہوا۔ اس عرصے میں کبھی کسی طرح کا رنج و ملال درمیان نہیں آیا۔ حضرت چالیس چالیس برس کا دشمن بھی نہیں پیدا ہوتا دوست تو کہاں ہاتھ آتا ہے۔ یہ شخص بھی اپنی وضع کا اچھا کہنے والا تھا ۔طبعیت کی معنی آفریں تھی”
اپنی ایک اور عزیزہ جو غالباً مرزا صاحب کی پھوپھی لگتی تھی کے انتقال پر منشی محمد بخش حقیر کو خط میں لکھا
“منگل کے دن اٹھارہ ربیع الاول کو شام کے وقت وہ پھوپھی، کہ میں نے بچپن سے آج تک اس کو ماں سمجھا تھا اور وہ بھی مجھ کو بیٹا سمجھتی تھیں ،مر گئی۔ آپ کو معلوم رہے کہ پرسوں میرے گویا نو آدمی مرے۔ تین پھوپھیاں اور تین چچا اور ایک باپ اور ایک دادی اور ایک دادا۔یعنی مرحومہ کے ہونے سے میں جانتا تھا کہ یہ نو آدمی زندہ ہیں اور اس کے مرنے سے میں نے جانا کہ یہ نو آدمی آج یک بار مر گئے”
غالب کے اس خط نے مجھے ایک بار سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہماری زندگی میں ایک رشتے سے مزید کتنے رشتے جڑے ہوتے ہیں کہ ہمیں اس کے ہوتے ہوئے باقی رشتوں کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ بظاہر تو ہمارا ایک رشتہ ہوتا ہے لیکن زندگی کے کتنے مراحل پر وہ اپنے رشتے سے ہٹ کر کبھی دوسرا رول بھی ادا کرتا نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی اور شخصیات کے انتقال پر غالب کے خطوط ہیں۔ غالب کا تعزیتی انداز پڑھنے والے کو بھی افسردہ کر دیتا ہے۔ منشی میاں داد خاں سیاح کے نام ان کے بیٹے کی موت پر تعزیت کرتے ہوئے لکھتے ہیں
“تمہارے ہاں لڑکے کا پیدا ہونا اور اس کا مر جانا معلوم ہو کر مجھ کو بڑا غم ہوا ۔ بھائی، اس داغ کی حقیقت مجھ سے پوچھو کہ چوہتر برس کی عمر میں سات بچے پیدا ہوئے، لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی، اور کسی کی عمر پندرہ مہینے سے زیادہ نہیں ہوئی۔ تم ابھی جوان ہوں حق تعالیٰ تمہیں صبر اور نعم البدل دے”
مرزا غالب خطوط میں اپنا اثناء عشری ہونے کا بھی اکثر جگہ بہت فخر سے اظہار کرتے ہیں۔ مرزا حاتم علی مہر کے نام خط میں لکھتے ہیں
“صاحب بندہ اثناء عشری ہوں۔ہر مطلب کے خاتمے پر پر بارہ کا ہندسہ کرتا ہوں۔ خدا کرے کہ میرا بھی خاتمہ اسی عقیدے پر ہو۔ ہم تم ایک آقا کے غلام ہیں۔ تم جو مجھ سے محبت کرو گے یا میری غم گساری میں محنت کرو گے۔ کیا تم کو غیر جانوں جو تمہارا احسان مانوں۔ تم سراپا مہر و وفا ہو واللہ، اسم با مسمیٰ ہو”
ایک اور خط جو بنام علاؤ الدین علائی ہے میں لکھتے ہیں
“مشرک وہ ہیں جو وجود کو واجب و ممکن میں مشترک جانتے ہیں، مشرک وہ ہیں جو مسیلمہ کو نبوت میں خاتم المرسلین کا شریک گردانتے ہیں، مشرک وہ ہیں جو نومسلموں کو ابو الائمہ کا ہمسر مانتے ہیں۔ دوزخ ان لوگوں کے واسطے ہے۔ موحد خالص اور مومن کامل ہوں زبان سے “لا الہ الا اللہ” کہتا ہوں دل میں ” لا موجود الا اللہ لا موثر فی الوجود الا اللہ” سمجھے ہوا ہوں۔انبیاء سب واجب تعظیم اور اپنے اپنے وقت میں سب مفترض الطاعت تھے۔ محمد علیہ السلام پر نبوت ختم ہوئی۔ یہ خاتم المرسلین اور رحمتہ اللعالمین ہیں۔ مقطع نبوت کا مطلع امامت اور امامت نہ اجتماعی بلکہ من اللہ اور امان من اللہ علی علیہ السلام ہے۔ ثم حسن، ثم حسین۔ اسی طرح تا مہدی موعود علیہ السلام”
اس ہی خط میں آگے مزید لکھتے ہیں
“ہاں اتنی بات اور ہے کہ اباحت اور زندقہ کو مردود اور شراب کو حرام اور اپنے کو عاصی سمجھتا ہوں۔ اگر مجھ کو دوزخ میں ڈالیں گے تو میرا جلانا مقصود نہ ہو گا بلکہ میں دوزخ کا ایندھن ہوں گا اور دوزخ کی آنچ کو تیز کروں گا تاکہ مشرکین اور منکرین نبوت مصطفوی و امامت مرتضوی اس میں جلیں”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب گو کہ کوئی مذہبی شخصیت تو نہیں تھے مگر اپنے عقائد و نظریات میں کافی راسخ تھے۔
نبی بخش حقیر کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس دفعہ عید پر جب ان سے ملاقات ہو گی تو ان سے قرآن مجید کی تلاوت وہ ضرور سنیں گے۔ ان خطوط میں بھی موقع بموقع غالب نے قرآن مجید کی آیات نقل کی ہیں جو اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ غالب کو کلام اللہ میں بھی کافی دلچسپی تھی۔
اس وقت کا مسلم سماج کیسا تھا اس کی ایک جھلک نبی بخش حقیر کو ایک اور خط میں اس طرح بیان کی ہے
“ہم نے اپنے گھروں میں یہ رسم دیکھی ہے کہ جہاں لڑکا آٹھ سات برس کا ہوا اور رمضان آیا تو اس کو روزہ رکھواتے ہیں اور نماز پڑھواتے ہیں”
انگریزوں کا نظم و ضبط اور ان کا سسٹم اس وقت بھی کتنا مضبوط تھا اس کا اندازہ غالب کے ایک خط بنام منشی نبی بخش حقیر کے ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں
“لیفٹیننٹ گورنر بریلی میں مر گئے، دیکھیے اب ان کی جگہ کون مقرر ہوتا ہے. دیکھو! اس قوم کا کیا انتظام ہے، ہندوستان کا اگر کوئی اتنا بڑا امیر مرا ہوتا تو کیا انقلاب ہو جاتا۔ یہاں کسی کے کان پر جوں بھی نہیں پھرتی کہ کیا ہوا اور کون مر گیا “
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خط ۱۸۵۳ کا ہے، مطلب اس وقت بھی ہندوستان کے بیشتر حصوں پر کمپنی کی عملداری شروع ہو چکی تھی۔ پھر اس خط میں نظام کی مضبوطی سمجھ آتی ہے۔ مسلمانوں کا اس وقت بھی مسئلہ یہ ہی تھا کہ یہاں افراد نظام سے زیادہ اہم ہوتے ہیں اس وقت بھی یہ ہی تھا۔ اس لیے افراد کے بدلنے یا مرنے سے ہمارا نظام ہی ایک نئی شکل اختیار کر جاتا ہے جبکہ انگریزوں کے ہاں افراد کی موت ہو یا پھر ان کا تبادلہ یہ اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی کہ نظام کو کوئی آنچ آئے۔ یہاں ادارے کا سربراہ تبدیل ہوتا ہے تو پوری پالیسی ہی بدل جاتی ہے کوئی پچھلی پالیسی کو لیکر چلنا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ اس سے اس کی اپنی شخصیت کو مٹانا پڑتا ہے جس کے لیے وہ کبھی بھی تیار نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس وہاں اجتماعی سوچ پائی جاتی ہے فرد سے زیادہ قوم اہمیت رکھتی ہے وہ نظام کو اتنا مضبوط کر دیتے ہیں کہ کسی کے آنے یا جانے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے۔
اس دور میں ڈاک کے نظام میں کئی مسائل آئے تھے لوگوں کے خطوط تلف ہو گئے کئی انگریز حکام نے بھی شکایت کی مگر غالب کہتے ہیں کہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کا کوئی خط اب تک تلف نہیں ہوا۔
انگریزی دور کے شروع میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا بھی غالب نے ذکر کیا ہے۔ میر مہدی مجروح کے نام خط میں لکھتے ہیں
“اندھیری راتوں میں چوروں کی بن آئی ہے کوئی دن نہیں کہ دو چار گھر کی چوری کا حال نہ سنا جائے۔مبالغہ نہ سمجھنا ہزارہا مکان گر گئے۔ سینکڑوں آدمی جا بہ جا دب کر مر گئے۔گلی گلی ندی بہہ رہی ہے۔ مختصر وہ ان کال تھا کہ مینہ نہ برسا ۔اناج نہ پیدا ہوا یہ پن کال ہے”
ایک اور خط جو چوہدری عبدالغفور سرور کے نام ہے میں غالب مہنگائی کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر زمانے کو نکال دیا جائے تو یہ تحریر آج کی معلوم ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں
“غلہ گراں ہے ،موت ارزاں ہے میوے کے مول اناج بکتا ہے۔ ماش کی دال آٹھ سیر، باجرہ بارہ سیر، گہیوں تیرہ سیر، چنے سولہ سیر، گھی ڈیڑھ سیر، ترکاری مہنگی”
ازراہ تفنن جب یہ خط پڑھا تو فوراً خیال آیا کہ ۱۸۶۰ میں پورے برصغیر میں عمران خان کی حکومت تھی۔
غدر یا جنگ آزادی کے حوالے سے غالب کے خطوط میں کئی باتیں ملتی ہیں جن سے اس کے بعد کے حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ منشی ہرگوپال تفتہ کے نام خط میں لکھتے ہیں کہ
“واللہ ڈھونڈنے کو مسلمان، اس شہر میں نہیں ملتا، کیا امیر، کیا غریب، کیا اہل حرفہ۔اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہنود البتہ کچھ کچھ آباد ہیں”
یہ اقتباس بتاتا ہے کہ انگریز حکومت کا شروع میں مسلمانوں اور ہنود سے رویہ مختلف تھا۔
اس ہی خط میں مزید لکھا ہے
“مبالغہ نہ جاننا، امیر غریب سب نکل گئے جو رہ گئے تھے وہ نکالے گئے جاگیردار، پینشن دار، دولت مند اہل حرفہ کوئی بھی نہیں۔ مفصل حال لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ ملازمان قلعہ پر شدت ہے اور باز پرس اور داروگیر میں مبتلا ہیں۔ مگر وہ نوکر جو اس ہنگام میں نوکر ہوئے ہیں اور ہنگامے میں شریک رہے ہیں۔ میں غریب شاعر دس برس سے تاریخ لکھنے اور شعر کی اصلاح دینے پر متعلق ہوا ہوں۔ خواہی اس کو نوکری سمجھو خواںی مزدوری جانو اس فتنہ و آشوب می،ں کسی مصلحت میں، میں نے دخل نہیں دیا۔ میرا شہر میں ہونا حکام کو معلوم ہے مگر میری طرف بادشاہی دفتر میں سے یا مخبروں کے بیان سے کوئی بات نہیں پائی گئی، لہذا طلبی نہیں ہوئی۔ ورنہ جہاں بڑے بڑے جاگیر دار بلائے ہوئے یا پکڑے ہوئے آئے ہیں،میری کیا حقیقت تھی”
تفتہ کے نام اپنے ایک اور خط میں غالب غدر میں اپنے قریبی دوستوں کے مارے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں
“یہ کوئی نہ سمجھے کہ میں اپنی بے رونقی اور تباہی کے غم میں مرتا ہوں جو دکھ مجھ کو ہے اس کا بیان تو معلوم مگر اس بیان کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ انگریز کی قوم میں سے جو ان روسیاہ کالوں کے ہاتھوں سے قتل ہوئے۔ اس میں کوئی میرا امید گاہ تھا اور کوئی میرا شفیق اور کوئی میرا دوست اور کوئی میرا یار اور کوئی میرا شاگرد۔ ہندوستانیوں میں سے کچھ عزیز، کچھ دوست، کچھ شاگرد، کچھ معشوق سو وہ سب کے سب خاک میں مل گئے۔ ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو۔ اس کو زیست کیوں کر نادشوار ہو۔ ہائے! اتنے یار مرے کہ جواب میں مروں گا، تو میرا کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا”
غالب چوہدری عبدالغفور سرور کے نام خط میں غدر کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
“گیارہ مئی ۱۸۵۷ کو یہاں فساد شروع ہوا۔میں نے اسی دن سے گھر کا دروازہ بند اور آنا جانا موقوف کر دیا۔ بے شغل زندگی بسر نہیں ہوتی۔ اپنی سرگزشت لکھنی شروع کی جو سنا گیا وہ بھی ضمیمہ سرگزشت کرتا گیا مگر بہ طریق لزوم مالایلزام اس کا التزام کیا ہ۔ے کہ بہ زبان فارسی قدیم جو دساتیر کی زبان ہے اس میں یہ نسخہ لکھا جائے سوائے اسماء کے کہ وہ نہیں بدلے جاتے کوئی لغت عربی اس میں نہ آوے”
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا اس ہنگام پر مرزا صاحب نے ایک مستقل کتاب دستنبو کے نام سے لکھی ہے۔ آگے کے مختلف خطوط میں دستنبو کا ذکر ہے۔
انوار الدولہ شفق کے نام ایک خط میں اس ہنگامے اور بعد میں دلی پر اٹھنے والی افتاد کی تفصیلات لکھتے ہوئے غالب لکھتے ہیں
“پانچ لشکر کا حملہ پے در پے اس شہر پر ہوا: پہلا باغیوں کا لشکر اس میں اہل شہر کا اعتبار لٹا۔دوسرا لشکر خاکیوں کا، اس میں جان و مال و ناموس و مکان و مکین و آسمان و زمین و آثار ہستی سراسر لٹ گئے۔تیسرا لشکر کال کا اس میں ہزار آدمی بھوکے مرے۔ چوتھا لشکر ہیضے کا اس میں بہت سے پیٹ بھرے مرے۔ پانچواں لشکر تپ کا اس میں تاب و طاقت عموماً لٹ گئی مرے آدمی کم لیکن جس کو تپ ہوئی اس نے پھر اعضاء میں طاقت نہ پائی اب تک اس لشکر نے شہر سے کوچ نہیں کیا۔
اہاہاہا، جناب حافظ محمد بخش صاحب میری بندگی۔ مغل علی خاں غدر سے کچھ دن پہلے مستسقی ہو کر مر گئے۔ ہے ہے کیوں کر لکھوں، حکیم رضی الدین خاں کو قتل عام میں ایک خاکی نے گولی مار دی۔ احمد حسین خاں ان کے چھوٹے بھائی بھی اسی دن مارے گئے۔ طالع یار خاں کے دونوں بیٹے ٹونک سے رخصت لے کر آئے تھے غدر کے سبب جا نہ سکے۔یہیں رہے۔ بعد فتح دہلی دونوں بے گناہوں کو پھانسی ملی۔طالع یار خاں ٹونک میں ہیں،زندہ ہیں؛ پر یقین ہے کہ مردے سے بدتر ہوں گے۔ میر چھوٹم نے بھی پھانسی پائی”
اس خط میں اس المیہ کا بیان ہے جو غدر کی ناکامی پر نمودار ہوا۔ ایسے کئی لوگ فاتح کے ہاتھوں قتل ہوئے اور سولی پر چڑھا دیئے گئے۔
دہلی میں فقط قتلِ عام نہیں ہوا بلکہ بہت سے علمی مخطوطات بھی ضائع ہوئے۔ غالب نے حکیم سید احمد حسن مودودی کے نام مکتوب میں شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کے اور مقبرے کے اجڑنے کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ شیخ کا کلام بھی وہاں موجود ہوتا تو جو اب معلوم نہیں کہ کدھر ہے۔
غالب کے خطوط میں ظرافت کے مظاہر بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کا منشی ہرگوپال تفتہ کے ساتھ ایک خصوصی تعلق تھا وہ تفتہ کو اپنا فرزند کہتے تھے۔ تفتہ کا ایک جوابی خط جنوری کے شروع میں ملا۔ غالب نے جواب الجواب میں لکھا
“یہ باتیں ہم کو پسند نہیں۔۱۸۵۸ کے خط کا جواب ۱۸۵۹ میں بھیجتے ہو، اور مزہ یہ ہے کہ جب تم سے کہا جائے گا،تو یہ کہو گے کہ میں نے دوسرے ہی دن جواب لکھا ہے۔ لطف اس میں ہے کہ میں بھی سچا اور تم بھی سچے”
غالب کے آخری خطوط میں ان خرابی صحت کا بیان ہے جس میں وہ اپنی معذوری کو بیان کرتے ہیں کہ اب وہ پہلے جیسے اشعار کی اصلاح نہیں کر سکتے۔اپنا حال منشی میاں داد خاں سیاح کے نام خط میں لکھتے ہیں
“بھائی! میرا حال اس ہی سے جانو کہ اب میں خط نہیں لکھ سکتا آگے لیٹے لیٹے لکھتا تھا اب رعشہ و ضعفِ بصارت کے سبب سے وہ بھی نہیں ہو سکتا۔ جب حال یہ ہے کہ کہو صاحب، میں اشعار کی اصلاح کیوں کر دوں؟ اور پھر اس موسم میں کہ گرمی سے سر کا بھیجا پگھلا جاتا۔ دھوپ کے دیکھنے کی تاب نہیں۔ رات کو صحن میں سوتا ہوں۔صبح کو دو آدمی ہاتھوں پر لے کر دالان میں لے آتے ہیں۔ ایک کوٹھی ہے اندھیری اس میں ڈال دیتے ہیں۔ تمام دن اس گوشہء کے تاریک میں پڑا رہتا ہوں شام کو پھر دو آدمی بدستور لے جا کر پلنگ پر صحن میں ڈال دیتے ہیں”
غالب شناسی کے حوالے سے یہ خطوط بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ غالب کی شخصیت کو جاننے میں بھی ان سے بہت مدد ملتی ہے۔ اور پھر اس دور کے سماج سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ غالب کی شعری مہارت کا انکار تو ویسے بھی محال ہے مگر اس مہارت کو قریب سے جاننے لیے یہ خطوط براہ راست دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان خطوط کی صرفی و نحوی ابحاث ماہرین فن کے لیے کافی فائدہ مند ہیں جو کہ اکثر خطوط کا موضوع ہیں مگر چونکہ اس حوالے سے میرا اپنا مطالعہ و دلچسپی انتہائی محدود ہے اس لیے ان چیزوں کو بیان نہیں کیا۔
اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے کتاب کی اشاعت بھی عمدہ کی ہے اور ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ کا انتخاب بھی عمدہ ہے۔ بالخصوص جو انہوں نے خطوط میں زمانی ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم غالب کی سوانح پڑھ رہے ہیں۔

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں