Home » مذہبی حقوق کو انسانی حقوق سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت
اسلامی فکری روایت سماجیات / فنون وثقافت کلام

مذہبی حقوق کو انسانی حقوق سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت

آج کل ہمارے بعض علما اور دانش ور انسانی حقوق کی بات پر چیں بہ جبیں ہوتے ہیں کہ یہ تو مغربی تصور ہے، ہمیں تو بس اپنے مذہب کے حوالے سے اپنے کسی مذہبی حق کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ ہندوستان میں مسکان نام کی مسلمان لڑکی کے ہندو انتہا پسندوں کے سامنے اپنے حجاب کے حق کا دفاع کرنے کے واقعے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے ہم نے عرض کیا کہ اس نے مذہبی جبر کے خلاف توانا آواز اٹھائی ہے، لہذا انسانی حقوق کے ہر علمبرادر کو اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، تو اس پر بعض احباب نے انسانی حقوق کے مغربی تصور اور اس کی ایک مخصوص تعبیر کے تناظر میں کہا کہ انسانی حقوق والوں کا تو یہ مسئلہ ہی نہیں، لڑکی نے تو اسلام کا نعرہ بلند کیا ہے؛ انسانی حقوق والے حجاب کا دفاع کیوں کریں گے ؟ وہ تو بے پردگی اور بے حجابی کے حامی ہیں؟
ہمارے نزدیک مذہبی حق کے مطالبے میں مذہبی حکم ہی کے بنیاد ہونے میں تو کوئی کلام نہیں، لیکن صرف یہی دلیل غیر مسلموں کو دینا نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے فائدے میں نہیں، بلکہ الٹا نقصان کا باعث ہے۔ مذہبی مطالبے کی دلیل کے ساتھ ساتھ اسے انسانی حقوق سے ہم آ ہنگ کرنا مسلمانوں کے لیے مذہبی اور دعوتی ہر حوالے سے مفید رویہ ہے۔
انسانی حقوق کے تصور کی تردید کرتے اور اپنے مذہبی حقوق میں اس نظریے سے استفادے سے بے نیازی بلکہ اس کی مذمت پر مبنی دعوے اور انسانی حقوق کی اس طرح کی محدود تعبیرات بظاہر دینی حمیت کے جذبے سے کی جاتی ہیں، کہ جناب ہمیں انسانی حقوق سے کیا سروکار ؟ہمیں تو وہ کام کرنا چاہیے جو ہمارا مذہب کہتا ہے۔ بظاہر یہ نعرہ بڑا متاثر کن اور دینی جوش و جذبہ بڑھانے والا ہے، جس کے ذریعے جذباتی مذہبی نوجوانوں کی فین فالونگ اور واہ واہ سمیٹنا آسان ہے، لیکن یہ دعویٰ اور نظریہ فی الواقع معاصر دنیا میں مذہب کے مقدمے کو کمزور کرنے والا ہے۔ وہ اس لیے کہ انسانی حقوق کی آپ جو مرضی تعبیر کر لیں اور اسے مغربی تہذیب کا فریب بھی قرار دے لیں، تب بھی آپ کو معاصر دنیا میں رہتے ہوئے غیر مسلموں سے اپنے مذہبی حقوق کے حوالے سے معاملہ کرتے ہوئے کچھ باتوں کو بہ طور مشترک اقدار ماننا پڑے گا۔ اگر آپ کچھ باتیں مشترک نہیں مانیں گے تو پھر آپ دوسروں سے جنگ کر کے ہی اپنی بات منوا سکتے ہیں، ڈائیلاگ اور مکالمے اور پر امن طریقے سے اپنے مذہبی حقوق کی بات آپ کر ہی نہیں سکتے، یا یہ بات کرنے میں حق بجانب نہیں ہوں گے، اور دوہرے معیار کے حامل قرار پائیں گے۔
آپ مذہبی حق کو انسانی حق کے ساتھ ملا کر نہیں دیکھیں گے تو معاصر دنیا میں دوسروں سے معاملہ کیسے نہیں کر سکیں گے اور کیسے ان کے سامنے بے دلیل ہو جائیں گے؟ اس کو یوں سمجھیے کہ مثال کہ طور پر اگر ہم کہیں کہ ہم حجاب کا مطالبہ اس وجہ سے ہر گز نہیں کر رہے کہ یہ ہمارا کوئی انسانی حق بھی ہے ، بلکہ اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ ہمارا مذہب اس کا حکم دیتا ہے، تو سوال یہ ہوگا کہ یہی حق کسی دوسرے مذہب اور تہذیب کو آپ کس بنیاد پر نہیں دیں گے؟ اگر ہم حجاب کرنا اور کروانا اپنا مذہبی اور تہذیبی حق سمجھتے ہیں، تو کوئی دوسرا مذہب اگر اس کے الٹ سمجھتا ہے، تو آپ اس کو کیوں کر روک سکتے ہیں! زیادہ سے زیادہ آپ یہی کہیں گے کہ بھئی ہمارے لیے ہمارے خدا کا حکم اول ہے، لہذا ہم ایسا ہی کریں گے، تو سوال یہ ہے کہ کوئی دوسرا اگر کہے کہ میرے خدا یا بھگوان یا میری تہذیب و اقدار مجھے یہی درس دیتی ہیں، جو میں کر رہا ہوں اور میں اپنے بھگوان اور تہذیبی اقدار کے معاملے میں کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لا سکتا، تو آپ اسے کیسے غلط قرار دیں گے!اس صورت میں تصادم یقینی ہے۔
یہاں آپ یہ کر سکتے ہیں کہ تلوار اور بندوق کے زور پر اپنے مذہب کو غالب کرنے کی کوشش کریں ، لیکن اس صورت میں دوسرا بھی یہی کرے گا، گویا مذہبی یا تہذیبی جنگ ہو گی، اس میں جو جیت جائے وہ اپنی اقدار نافذ کر لے، لیکن اس صورت میں آپ یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہوں گے کہ ہم غیر مسلموں کے ساتھ پر امن طریقے سے رہ سکتے ہیں؛ ہمارا مذہب ہمیں دلیل سے بات کرنے کو کہتا ہے؛ ہم ڈایئلاگ پر یقین رکھتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، اس لیے کہ دلیل کا دروازہ تو آپ پہلے ہی بند کر چکے۔ حقیقی دلیل آپ کے پاس مشترک قدر ہی ہو سکتی ہے، اور وہ موجودہ دور میں انسانی حقوق والی ہی ہے کہ بھئی جب آپ بے حجابی کو اس بنا پر روا سمجھتے ہو کہ عورت کا حق ہے ،تو جو عورت حجاب کرنا چاہتی ہے، اس کا بھی یہ حق ہے،وہ انسانی حق ہے تو یہ بھی انسانی حق ہے۔
یہ نعرہ کہ ہمارا دین سچا ہے، یہ سب پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے، ایک مسلمان ہی کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے، دوسروں کو تو یہ بات الٹا مشتعل کرنے والی ہے۔ مثلا اگر کوئی ہندو کہے کہ ہمارا مذہب سب سے پرانا اور اعلی ہے، اور ہم اسے ساری دنیا میں نافذ کریں گے تو ان کا یہ دعویٰ آپ کس بنیاد پر رد کر سکتے ہیں؟ اگر یہودی اور عیسائی یہ کہیں کہ ہم اللہ کے پیارے ہیں ، اور ہم نے دنیا پر غالب آنا ہےاور اللہ نے ہماری یہ ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے، تو ان کو آپ کس بنا پر غلط قرار دیں گے؟
یہ کہنا بہت آسان ہے کہ جناب دینِ اسلام بزدلوں کا نہیں، نعرہ حق بلند کرنے والوں کا دین ہے۔ اس طرح کے نعرے لگاتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے بھی یہی نظریہ رکھتے ، اور یہی نعرے لگاتے ہیں۔ ہر صاحبِ مذہب اپنے ہی مذہب کو بہتر سمجھتا ہے اور اسے ہی غالب کرنا چاہتا ہے۔ اب اگر سارے مذاہب والے اسی نعرے کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو تصادم یقینی ہوگا، اور نتیجتاً امن اور بقائے باہمی کے نظریات اور دعوے دم توڑ دیں گے۔
مسلمان جنگ لڑ کے اسلام کو غالب کرنا چاہیں تو ضرور کر سکتے ہیں، لیکن اس صورت میں ان کے پاس اخلاقی دلیل صرف یہی ہو گی کہ بس ہم اعلیٰ ہیں اور ہمارا دین غالب ہونے کے لیے آیا ہے، اور یہ دلیل ظاہر ہے کہ ایک غیر مسلم کے لیے قطعا کوئی حیثیت نہیں رکھتی، کیوں بالکل یہی دلیل وہ بھی اپنے مذہب کے بارے میں رکھتا ہے اور رکھ سکتا ہے، چاہے مسلمان اس کی تردید کریں اور اسے ناپسند ہی کریں۔ مذاہب اور تہذیبوں میں جنگ کی یہی تو بنیاد ہےکہ ہر کوئی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے۔
خلاصۂ یہ کہ اگر لڑائی ختم کرنے اور ڈائیلاگ وغیرہ کی بات آپ اسلامی بنیادوں پر کرتے ہیں، تو اس کے لیے کسی قدر مشترک کا قائل ہونا لازم ہوگا ،اور ہمارے نزدیک معاصر دنیا میں وہ مشترک قدر انسانی حقوق کا تصور ہی ہے۔ سو ہمارے نزدیک مذہبی اقدار کی بات بلاشبہ بنیادی طور پر مذہب کے مطالبے پر ہی ہو، لیکن معاصر دنیا میں اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے انسانی حقوق سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے، ورنہ آپ کی دلیل آپ کے ہم مذہبوں ہی کے لیے ہوگی، دوسرے کے مقابلے میں آپ دلیل سے تہی دامن ہوں گے۔

ڈاکٹر محمد شہباز منج

ڈاکٹر محمد شہباز منج، یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ علوم اسلامیہ میں استاذ اور متعدد تحقیقی کتب اور مقالات کے مصنف ہیں۔
drshahbazuos@hotmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں