Home » قواعدِ اصولیہ اور قواعدِ فقہیہ میں فرق اور آپس میں تعلق
اسلامی فکری روایت فقہ وقانون

قواعدِ اصولیہ اور قواعدِ فقہیہ میں فرق اور آپس میں تعلق

 

1۔ قواعدِ اصولیہ اور قواعدِ فقہیہ میں کئی فروق پائے جاتے ہیں جن میں سب سے اہم فرق یہ ہے کہ قاعدہ اصولیہ کے ذریعے قانون کا مفہوم متعین کیا جاتا ہے جبکہ قاعدہ فقہیہ دراصل قانون کاایسا حکم/فیصلہ  ہوتا ہے  جس کا اطلاق کسی خاص جزئیے کے بجاے  متعدد جزئیات پر ہوتا ہے۔ مثلا امر وجوب کےلیے ہے، ایک قاعدہ اصولیہ ہے جس سے قانون کا مفہوم متعین ہوتا ہے کہ جس فعل کےلیے بھی قانون میں امر آئے گا، تو وہ فعل واجب ہوگا۔ پھر جب قرآن کی آیت میں نماز کےلیے امر آیا، تو معلوم ہوا کہ نماز واجب ہے۔ یہ ایک مخصوص جزئیے کا حکم ہوا۔ جب اس طرح مخصوص جزئیے کےلیے مخصوص حکم کے بجاے قانون عمومی نوعیت کا حکم دے جو کئی جزئیات پر لاگو ہوتا ہے، تو اسے قاعدہ فقہیہ کہا جاتا ہے، جیسے بہت ساری جزئیات کےلیے دیے گئے مخصوص احکام کے پیچھے ایک عمومی حکم پایا گیا کہ ربح (profit) کےلیے بنیاد نقصان اٹھانے کی ذمہ داری (liability to bear loss) ہے۔ چنانچہ الخراج بالضمان ایک قاعدہ فقہیہ ہوا جس کا اطلاق متعدد جزئیات پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات قاعدہ فقہیہ کسی نص میں صراحت کے ساتھ مذکور ہوتا ہے (جیسے الخراج بالضمان کے الفاظ حدیث میں بھی وارد ہوئے ہیں)، لیکن اکثر اوقات یہ قواعد مختلف نصوص سے فقہاے کرام نے مستخرج کیے ہوتے ہیں۔ ہر دو صورتوں (نصوص کے بیان یا نصوص سے استخراج ) میں قواعدِ اصولیہ کارفرما ہوتے ہیں کیونکہ قواعدِ اصولیہ کے بغیر نصوص کا مفہوم بھی متعین نہیں کیا جاسکتا اور ان سے استخراج بھی ممکن نہیں ہوتا۔

2۔ حدیث کے الفاظ : البینة علی المدّعي؛ پر غور کریں۔ یہ بھی قاعدہ فقہیہ ہی ہے۔ اس کی تھوڑی توضیح ضروری ہے۔ پہلے یہ دیکھیں کہ یہ حدیث کے الفاظ ہیں۔ اب حدیث سے مراد کیا ہے اور اس کی قبولیت کا معیار کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب قواعد اصولیہ سے ملتا ہے (یہاں اصول حدیث اور اصول فقہ کی سرحدیں ملتی ہیں اور ہم فوکس اصول فقہ پر رکھیں گے)۔ پھر جب حدیث متعین ہوگئی اور قابلِ قبول بھی ٹھہری، تو اس کے بعد سوال اس کی حجیت کا ہے جس کا جواب بھی قاعدہ اصولیہ کے ذریعے مل جاتا ہے کہ “جب بھی کوئی حکم حدیث میں پایا جائے، تو وہ حکم شرعی ہوگا۔” پھر حدیث کے قانونی فہم کےلیے کئی اصولی سوالات پیدا ہوتے ہیں، جیسے “ال” کی دلالت، “علی” کا مفہوم، اس حدیث کا دیگر نصوص اور دیگر حجج شرعیہ کے ساتھ تعلق، تقدیم، تاخیر، ناسخ، منسوخ،عموم، خصوص، اطلاق، تقیید وغیرہ۔ ان سارے اصولی سوالات کے جوابات قواعدِ اصولیہ کے ذریعے ملتے ہیں۔ بالآخر ہم نےاپنے قواعدِ اصولیہ کے ذریعے اس حدیث سے حکم معلوم کرلیا۔

3۔ اب کیا وہ حکم ایک خاص جزئیے کےلیے ہے، یا اس کا اطلاق کئی بہت ساری جزئیات پر ہوتا ہے۔ پہلی  صورت میں حدیث میں وارد ان مخصوص الفاظ کی حیثیت اس خاص جزئیے کےلیے دلیلِ تفصیلی کی ہوگئی۔ دوسری صورت میں یہ ایک عمومی نوعیت کا قاعدہ ہوا جس کا اطلاق بہت ساری صورتوں پر ہوتا ہے اور اسے ہم قاعدہ فقہیہ کہتے ہیں۔ یہ قاعدہ فقہیہ کی وہ صورت ہوگئی جب قاعدہ نص میں ہی مذکور ہو۔

4۔ اگلا سوال یہ ہے کہ چاہے نصوص کے بیان کے پہلو سے قاعدے کو منصوص قرار دیا جائے، یا نصوص سے استخراج کے پہلو سے قاعدہ کو مستنبطہ کہا جائے، قاعدہ فقہیہ بنتا کیسے ہے؟ اس کی تفصیل پر کسی اور وقت بات کریں گے، ان شاء اللہ، لیکن فوری طور پر دو باتیں نوٹ کی جاسکتی ہیں: ایک یہ کہ نص میں وارد حکم کو عام سمجھا جائے اور دوسری یہ کہ اس کو قیاس کی صورت میں توسیع دی جائے۔ مثلا البینة میں الکی بنا پر اسے عام قرار دیا جائے اور اسی طرح المدّعي کو عام قرار دیا جائے اور نتیجہ یہ نکالا جائے کہ ہر دعوے میں ہر ثبوت کی ذمہ داری ہر اس شخص پر ہے جو دعوی کررہاہے؛ یا ربا کی علت کی بنا پر قرار دیا جائے کہ ہر کیلی/وزنی مال ربوی ہے۔

5۔ اس کے بعد اگر ہمیں کسی اور دلیل سے کوئی ایسا حکم معلوم ہوجائے، جو اس قاعدہ فقہیہ سے مختلف ہو، تو اب مسئلہ تعارض کا ہوا۔ اس تعارض کو رفع کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ مثلا اس deviant حکم  کو قاعدے سے استثنا قرار دیا جائے ، جیسے یوں کہا جائے کہ عام کی تخصیص کردی گئی ہے (واضح رہے کہ ہم علت کی تخصیص کے قائل نہیں ہے لیکن ابھی اس بحث میں جانے کا موقع نہیں ہے)۔ ایک اور صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس deviant حکم کو الگ دائرے کا حکم قرار دیا جائے، یعنی یہ کہا جائے کہ کوئی تعارض ہے ہی نہیں، بلکہ عام حکم کا اطلاق ایک دائرے میں اور اس خاص حکم کا اطلاق ایک الگ دائرے میں ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، یہ دو الگ اصولوں کے تحت آتے ہیں۔ مثلا عام قاعدہ یہ ہے کہ مال مثلی کے تبادلے میں جب دونوں جانب سے صنف ایک ہی ہو، تو ان کے تبادلے کےلیے مقدار میں برابری بھی ضروری ہے اور تقابض فی المجلس بھی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرض کی صورت میں اس دوسری شرط کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور پھر بھی کئی نصوص میں قرض کے جواز، بلکہ قرض دینے والے کےلیے ثواب کا بھی، ذکر ہے۔ چنانچہ ہم نے اس تعارض کو رفع کرنے کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ عام قاعدے کا اطلاق بیوع پر کیا اور قرض پر تبرع کے احکام کا اطلاق کیا (تبرع کے پھر اپنے قواعد ہیں جن کا قرض پر اطلاق ضروری ہوجاتا ہے)۔ رفع تعارض کے اس طریقے کو ہم نے استحسان کا نام دیا۔

6۔ ظاہر ہے کہ اس پروسس کے نتیجے میں مختلف  نصوص کی تعبیر پر فرق پڑتا ہے کیونکہ اگر آپ اس deviant حکم کو قاعدے سے  استثنا قرار دیں، تو قاعدے کے عموم پر اثر پڑتا ہے، اور اگر آپ اس deviant  حکم کو قاعدے کے ساتھ reconcile کریں، تو اس کےلیے بعض اوقات اس نص کو، جس سے یہ deviant حکم معلوم ہوتا ہے، تاویل کے ذریعے اس کے ظاہری مفہوم سے ہٹانا پڑتا ہے (مراد یہ نہیں تھی، وہ تھی)۔ تاہم یہیں ٹھہر کر ذرا غور کریں، تو معلوم ہو کہ تعبیر میں یہ فرق قواعدِ اصولیہ کے ذریعے آتا ہے، نہ کہ قواعدِ فقہیہ کے ذریعے۔ مثلا سوال اگر یہ ہے کہ کیا deviant حکم کی دلیل اتنی مضبوط ہے کہ وہ عمومی قاعدے کی تخصیص کرلے، تو اس سوال کا جواب قاعدہ اصولیہ سے ہی ملتا ہے (مثلا یہ کہ کیا آپ کے قواعدِ اصولیہ کی رو سے عام قطعی ہے یا ظنی، یا علت کی تخصیص ممکن ہے یا نہیں، وغیرہ)۔

7۔ نصوص کے درمیان تعارض کہیں، یا نصوص کا آپس میں تعامل کہیں، ایک اہم مسئلہ (شاید اہم ترین مسئلہ) اس صورت میں یہ پیش آتا ہے کہ تقدیم یا ترجیح کسے حاصل ہے؟ کس حکم کو اصل کی حیثیت حاصل ہوگی، جس کی روشنی میں دوسرے حکم کی تاویل کی جائے گی؟ مثلا کیا خبرِ واحد کو قیاس پر ترجیح حاصل ہے؟ کیا عمل اہلِ مدینہ کو خبرِ واحد پر ترجیح حاصل ہے؟ کیا روایت کی ترجیح راویوں کی کثرت پر کی جائے گی، درمیانی واسطوں کے کم سے کم ہونے پر کی جائے گی، یا راوی کی فقاہت پر؟ ان میں آپ جو بھی پوزیشن اختیار کریں گے، کسی قاعدہ اصولیہ کی بنا پر ہی اختیار کریں گے۔

8۔ یہاں تک یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ تعارض کی صورت میں قاعدہ فقہیہ سے deviant case(s) کو جب  قاعدہ فقہیہ سے reconcile کیا جاتا ہے، تو نصوص کی تعبیر دراصل قواعدِ فقہیہ کی روشنی میں نہیں ہورہی ہوتی ، بلکہ نصوص کے باہمی تعامل کے متعلق قواعدِ اصولیہ کے ذریعے ہوتی ہے۔ چنانچہ پہلے ان قواعدِ اصولیہ ہی کے ذریعے نصوص (بلکہ صرف نصوص ہی نہیں، غیر لفظی مآخذ، جیسے قیاس، استحسان، استصحاب وغیرہ بھی) کے مراتب متعین کیے جاتے ہیں اور  ان میں قوی اور ضعیف کا معیار طے کیا جاتا ہے۔ پھر جب یہ طے ہوا کہ اصل کی حیثیت الف کو حاصل ہے اور ب، ج، د کو اس کی روشنی میں دیکھا جائے گا اور فیصلہ کیا جائے گا کہ ب، ج، د کیا الف کے ساتھ ہم آہنگ ہیں بھی یا نہیں؟  تو یہ ہم آہنگی طے کرنے کےلیے بھی کچھ قواعدِ اصولیہ ہی ہوتے ہیں۔ مثلا کئی نصوص (اور غیر لفظی مآخذ) کے باہمی تعامل کے متعلق قواعدِ اصولیہ کے اطلاق کے نتیجے میں احناف نے یہ قاعدہ عامہ طے کیا (جوکہ قاعدہ فقہیہ ہے)  کہ قتلِ عمد کی صورت میں (جبکہ شبہہ بھی نہ ہو) مقتول کے ورثا کا حق قصاص کا ہے، نہ کہ دیت کا، اور یہ کہ قتلِ عمد کی صورت میں قاتل پر دیت تبھی لازم ہوتی ہے جب وہ دیت دینے پر راضی ہو۔ اب دوسری طرف حدیث میں ہے کہ مقتول کے ورثا چاہیں تو قصاص لیں، چاہیں تو دیت لیں۔ یہ حدیث اس قاعدہ عامہ سے ٹکراتی ہے۔ احناف نے اس مقام پر ایک تو اس روایت کو ترجیح دی جس میں أخذوا الدیة کے بجاے فادوا  کا لفظ آیا ہے جو باب مفاعلہ سے ہے اور اس باب کے افعال میں فریقین کی شرکت ہوتی ہے۔ گویا اس روایت سے معلوم ہوا کہ مقتول کے ورثا اور قاتل آپس میں باہمی رضامندی سے معاملہ طے کریں جس کے نتیجے میں قاتل فدیہ دے کر اپنی جان چھڑالے۔ اب اس مفہوم تک پہنچنے کےلیے بھی ظاہر ہے کہ کئی قواعدِ اصولیہ کا اطلاق ہوا ہے۔ پھر اس مفہوم کو طے کرنے کے بعد انھوں نے قرار دیا کہ پہلی روایت میں أخذوا سے مراد فادوا ہی ہے اور أخذوا سے فادوا کی نفی نہیں ہوتی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض قواعدِ اصولیہ کے اطلاق کے نتیجے میں ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح احناف نے اس روایت کے موقع و محل (فتحِ مکہ کے بعد بنو بکر اور بنو خزاعہ کے جھگڑے کا فیصلہ) کی وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہاں تو مراد اس بات کی وضاحت تھی ہی نہیں کہ قاتل کی رضامندی ضروری ہے یا نہیں۔ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ أخذوا والی روایت اہلِ حدیث کے اصول کی رو سے فادوا والی روایت پر ترجیح رکھتی ہے، لیکن احناف کے اصول کی رو سے فادوا والی روایت کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ وہ قاعدہ عامہ کے ساتھ ہم آہنگ ہے جبکہ أخذوا والی روایت بظاہر اس قاعدے کے خلاف نظر آتی ہے۔

9۔ اب اس پہلو سے دیکھیں کہ چونکہ احناف کے نزدیک عام قطعی ہوتا ہے اور قاعدہ فقہیہ کو اس وجہ سے قطعیت حاصل ہوتی ہے، اس لیے اس کے خلاف جانے والی خبرِ واحد کی بنا پر وہ اس قاعدہ عامہ کی تخصیص کرکے اس سے استثنا نہیں پیدا کررہے، بلکہ قاعدہ عامہ کی روشنی میں اس خبرِ واحد کی تاویل کرتے ہیں۔ دوسری طرف امام شافعی کے نزدیک خبرِ واحد کو اصل اہمیت حاصل ہے اور اس کے سامنے قاعدہ فقہیہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ تو خبرِ واحد کے ذریعے قرآن کی نص میں مذکور عام کی تخصیص کے بھی قائل ہیں۔ اس لیے ان کےلیے قاعدہ فقہیہ کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتا اور سند کے اتصال اور دیگر پہلوؤں سے وہ أخذوا والی روایت کو فادوا والی روایت پر ترجیح دیتے ہیں۔ چنانچہ اگر امام شافعی کے ہاں کچھ ایسی عبارات مل بھی جاتی ہیں جنھیں قاعدہ فقہیہ قرار دیا جاسکتا ہو، تو ان کے اصولی نظام میں اس کی کچھ خاص اہمیت نہیں ہے کیونکہ ایک تو قرآن کے عام کی طرح قاعدہ فقہیہ بھی ان کے نزدیک ظنی ہوتا ہے اور پھر ان کے نزدیک جیسے قرآن کے مفہوم کا تعین حدیث کے ذریعے ہوتا ہے (السنة قاضیة علی القرآن)، ایسے ہی قاعدہ فقہیہ (اگر وہ کہیں ذکر بھی کریں)، تو اس پر حدیث کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یوں وہ قاعدہ فقہیہ کی روشنی میں خبرِ واحد کی تاویل نہیں کرتے، بلکہ خبرِ واحد کی روشنی میں قاعدہ فقہیہ کی تاویل کرتے ہیں ،اگر کبھی تاویل کی ضرورت پڑے، کیونکہ بسا اوقات وہ اس بحث میں پڑتے ہی نہیں ۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ ان کے نزدیک اہمیت خبرِ واحد کی ہے، نہ کہ قاعدہ فقہیہ کی۔ بہرحال، اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ احناف کا طریقہ ہو (قاعدہ فقہیہ کی روشنی میں deviant case کی تاویل) یا شافعیہ کا طریقہ (خبرِ واحد کو مرکزی اور بالاتر حیثیت دینا)، ہر دو فریقوں کا موقف قواعدِ اصولیہ ہی طے کررہے ہیں۔

10۔ آخری بات یہ ہے کہ جب ہم قواعدِ اصولیہ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں، تو کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد “نصوص کی تعبیر کے اصول” ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن اس کی کچھ توضیح کی ضرورت ہے کیونکہ نصوص کی تعبیر کے اصولوں سے کئی لوگوں کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ ان سے مراد وہ اصول ہیں جن کے ذریعے کسی عبارت کا مفہوم متعین کیا جاتا ہے۔ پھر اس وجہ سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قواعدِ اصولیہ اور قواعدِ نحو میں کیا فرق ہے؟ تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ اس لیے چند اشارات پر اکتفا کروں گا۔قواعدِ اصولیہ کے ذریعے کسی “نص” کے مفہوم کا تعین تو بعد کی بات ہے، اس سے پہلے یہ تعین بھی قواعدِ اصولیہ کے ذریعے کیا جاتا ہے کہ کون سے نصوص سے حکم اخذ کیا جاسکتا ہے، یعنی حکم کے مآخذ کیا ہیں؟ اس کی ایک مثال پہلے دی گئی تھی: جب بھی کوئی حکم حدیث سے ثابت ہوگا، تو وہ حکم شرعی ہوگا۔ اسی طرح دیگر مآخذ کا تعین بھی قواعدِ اصولیہ کے ذریعے کیا جاتا ہے، جیسے: جب بھی کوئی حکم اجماع سے ثابت ہوگا، تو وہ حکم شرعی ہوگا؛ جب بھی کوئی حکم قیاس سے ثابت ہوگا، تو وہ حکم شرعی ہوگا؛ وغیرہ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قواعدِ اصولیہ کے ذریعے صرف لفظی مآخذ کا ہی نہیں، بلکہ غیر لفظی مآخذ (جیسے قیاس، استحسان وغیرہ) کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ پھر جب ایک دفعہ مآخذ کا تعین ہوگیا، تو اس کے بعد کا سوال یہ ہوتا ہے کہ ان مآخذ کے درمیان ترتیب اور ترجیح کا تعین کیسے ہوگا؟ یہ بھی قواعدِ اصولیہ کے ذریعے ہی طے کیا جاتا ہے (جس کی مثالیں اوپر دی گئیں)۔ اس کے بعد اگر ہم یہاں صرف لفظی مآخذ پر فوکس کریں،تو ابتدا میں قواعدِ نحو کا کچھ نہ کچھ اطلاق تو ضروری ہوتا ہے، جیسے امر کسے کہتے ہیں، امر کے صیغے کیا ہیں وغیرہ لیکن اس کے بعد سوال یہ نہیں ہوتا کہ لغت میں اصلا امر وجوب کےلیے ہوتا ہے یا ندب یا اباحت کےلیے، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ جب شرعی نص میں امر آجائے، تو اصلا مراد کیا ہوگی، یعنی ابتدائی مفروضہ کیا ہوگا؟  اسی طرح اصل بحث یہ نہیں ہوتی کہ لغت کی رو سے امر پر ایک دفعہ عمل کرنا کافی ہوتا ہے یا بار بار عمل کرنا ہوتا ہے جب تک امر دینے والا روک نہ دے، بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ شارع جب امر دیتا ہے تو کیا ایک دفعہ کی تعمیل سے اس پر عمل کا مطالبہ پورا ہوجاتا ہے یا شارع اس کی بار بار ادائیگی چاہتا ہے۔ اسی طرح اصل سوال یہ نہیں ہوتا کہ لغت کی رو سے امر فوری عمل کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ شارع کا امر فوری تعمیل کےلیے ہوتا ہے یا اس میں کچھ تاخیر کی گنجائش ہوتی ہے؟ اس پہلو سے غور کریں تو قواعدِ اصولیہ کا درست مفہوم بھی معلوم ہوجاتا ہے اور قواعدِ نحو سے ان کا فرق بھی واضح ہوجاتا ہے۔

هذا ما عندی، والعلم عند الله.

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں