مدارس میں سالانہ امتحانات کا سلسلہ مکمل ہوچکا، اب چھٹیاں ہیں، اس موقع کو مدارس کے ماحول میں ہمیشہ غنیمت سمجھا جاتا ہے اور طلبہ حتی کہ فضلا بھی اس دوران کچھ نہ کچھ مزید سیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، اور اس کے لیے کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں،پہلے یہ سب عمل ہماری اس وقت کی دینی تعلیم کی طرح عام طور پر کسی نظام کے بغیر تھا،جس کو جس استاد سے جو سیکھنا ہوتا وہاں ڈیرے ڈال لیتا،رفتہ رفتہ یہ روایت بھی ایک نظام میں ڈھلتی چلی گئی، اسی ضرورت کے تحت دوروں کی روایت پختہ ہوئی، اور تفسیر و ترجمہ قرآن سے لے کر صرف، نحو اور علوم عقلیہ کے دورے ان چھٹیوں میں پورے برعظیم کی روایت بنے۔یقیناً یہ ایک اچھی روایت تھی، جس کی مدارس کے ماحول میں ہمیشہ حوصلہ افزائی کی گئی، وقت کے ساتھ ساتھ ان عنوانات میں تبدیلی ہوتی چلی گئی، اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بہت سے ادارے خاص اس نوعیت کے مختصر دورانیے کے پروگراموں کے انعقاد کے ہی حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، اور طلبہ کے ایک بڑے طبقے کو ان پروگراموں کے انعقاد کا انتظار بھی رہتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جب کسی چیز کا چلن ہوتا ہے تو رفتہ رفتہ ہر نوعیت کے ادارے اس حوالے سے میدان میں اتر آتے ہیں، مگر ایسے ماحول میں غیر سنجیدہ یا غیر معیاری کاوشیں عام طور پر زیادہ عرصے پنپ نہیں سکتیں، ایک استثنا کے ساتھ، اور وہ ہے مسلکی اور فرقہ وارانہ مباحث۔ یہ بات شاید ہمارے برعظیم کے خمیر میں ہی شامل ہے کہ ہم غیر سنجیدہ نعرے بازی کو ہمیشہ سنجیدہ فکر پر ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔ آپ دس بار سلیقے اور دلیل سے اپنی بات رکھیے، کوئی توجہ نہیں ہوگی، اور نہایت پھکڑ پن کے ساتھ کسی طبقے یا کسی معروف شخصیت کو ہدف بنا ڈالیے، ایسے ایسے اہل دانش اہل حق بن کر داد، ستائش اور لفافوں کے ساتھ آپ کی مدد کو دوڑے چلے آئیں گے کہ باور نہیں آتا۔ خیر اب اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اس ضمن میں چار طرح کے ادارے کام کر رہے ہیں:
الف: خالص فرقہ وارانہ موضوعات پر دورے۔مثلا رد فلاں و فلاں وفلاں۔ اس گروہ کے پاس دلائل کی اسی طرح کوئی کمی نہیں، جیسے قانون ہاتھ میں لینے والے کسی گروہ کے پاس۔
ب: وہ ادارے جو دیکھا دیکھی اس میدان میں کود پڑے ہیں، مگر ان کا کونٹینٹ اتنا مضبوط نہیں، جتنا ان کا تعارفی لٹریچر اور تشہیری مہم مضبوط ہے۔
ج: وہ ادارے جو اپنی رفتار سے اپنے سنجیدہ پروگراموں میں لگے ہوئے ہیں۔
د: وہ ادارے جن کے موضوعات بھی لگے بندھے ہیں، اور شخصیات بھی۔
ان میں دوسری اور چوتھی قسم کے ادارے پہچاننا بہت آسان ہے، اور ہمارا خیال ہے کہ سنجیدہ طلبہ و فضلا کی اکثریت کو اس کا علم بھی ہے۔ ان میں ہمارے طلبہ و فضلا کا جو طبقہ شامل ہو رہاہے، وہ شاید اسی نوعیت کی دل چسپیاں رکھتا ہے، سو انہیں اگر اپنے ذوق کی تسکین وہاں میسر ہے تو ٹھیک ہے، اس سے ہونا کچھ بھی نہیں، اور شاید کسی کو کچھ کرنا مقصود بھی نہیں ہے، یہ پروگرام بہ رائے پروگرام ہے۔ ان کے عنوانات بھی بہت آسان ہیں، کبھی تقریب بین المذاہب، کبھی پیس اینڈ ہارمنی وغیرہ۔یہ خیال رہے کہ اس میدان میں سنجیدہ کاوشیں بھی موجود ہیں، لیکن انہیں آسانی سے پہچانا جاسکتا ہے۔
پہلی نوعیت کی سرگرمیاں ہمیشہ جاری رہیں گی، جب تک ہمارا ذوق پختہ نہیں ہوجاتا، اور اس کے لیے ابھی لگتا ہے ہمیں مزید مار کھانی پڑے گی۔ اعاذنا اللہ منہ
رہی تیسری نوعیت، تو ایسے اداروں کو ہی مضبوط کرنے اور صلاحیتوں والے طلبہ و فضلا کو اس جانب متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ ان سنجیدہ پروگراموں کا افادی پہلو کیا ہے۔
1۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم مدرسے کی زندگی میں ایک خاص ماحول کے عادی ہوتے ہیں، خاص موضوعات، حالات کو دیکھنے کا خاص تناظر، خاص شخصیات۔ ان کورسز کے نتیجے میں غور وفکر کے نئے پہلو، نئے تناظر اور نئے موضوعات سامنے آتے ہیں۔
2۔ آٹھ دس برس مدرسے کی فضا میں گزارنے کے بعد ایک بڑے طبقے میں یہ خیال بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ علم ہو یا عمل، صرف اسی دنیا تک محدود ہے، ظاہر ہے کہ یہ بات امر واقعی کے خلاف ہے، اور اس سوچ کی پختگی کی صورت میں خود ہمارا تناظر درست نہیں رہتا، جس کے نتیجے میں ہمارے تجزیے بھی کبھی غیر درست ہوجاتے ہیں۔
3۔ دینی فکر اور اس کی پختگی الگ چیز ہے، دینی جذبہ الگ نعمت، ہم میں سے ایک طبقے کو یہ خیال بھی راسخ ہوجاتا ہے کہ علم کے ساتھ جذبہ بھی ہم تک محدود ہے، لیکن جب ہم باہر کی دنیا سے واقف ہوتے ہیں، تو علم ہوتا ہے کہ یہ خیال شاید پوری طرح درست نہیں تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کے جامعہ ملیہ میں کہے گئے وہ جملے یاد کیجیے، جو بار بار دہرائے جاتے ہیں، مگر ان کی حقیقت شاید پوری طرح اب تک ہم پر نہیں کھل سکی۔
4۔ ہمارے ایک بڑے طبقے میں عدم اعتماد کا، احساس کم تری کا ایک سبب بھی باہر کی دنیا سے ناواقفیت ہے۔ اصل میں ہم انتہاؤں پر رہنے کے عادی ہیں، احساس برتری پالیں گے تو اس قدر کہ کسی اور کو انسان سمجھنا بھی ہمارے لیے دشوار ہو گا، اور جب احساس کم تری کا شکار ہوں گے تو باہر کی ہر چیز سونا محسوس ہو گی۔ اس رویے میں توازن بھی واقفیت کے بغیر پیدانہیں ہوسکتا۔
5۔ لیکن یہ سب کچھ کرتے ہوئے یہ بات نہایت اہتمام کے ساتھ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہم آج بہ حیثیت قوم اور امت ایک انحطاط کا شکار ہیں، کمی ہر جگہ ہے، بد عنوانی ہر مقام پر ہے اور بدنیتی کے مظاہر ہر جگہ دیکھے جاسکتے ہیں، اسی طرح صلاحیت، جذبے اور صالحیت بھی کسی ایک جگہ محدود نہیں ہوسکتی، یہ سنت اللہ کے ہی خلاف ہوگا۔ ہاں کمی بیشی کا تناسب مختلف ہوسکتا ہے، اور معاملات کو دیکھنے کا زاویہ اور نتائج فکر بھی الگ ہوسکتے ہیں، ایسے میں اللہ کے ہاں اصل جوہر حسن نیت ہے، جس سے اللہ کے سوا کوئی واقف نہیں، اسی لیے دل چیر کر دیکھنے کے ہم مکلف بھی نہیں، بلکہ ایسا ہر عمل اللہ کی حدود میں مداخلت کے مترادف ہے۔
اور آخری بات یہ کہ تمام کا تمام خیر اور مفید کہیں ایک جگہ دست یاب نہیں،نہ کسی ذی شعور نے اس کا دعویٰ کیا ہے،یہ تو لینے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کہاں سے کیا لیتا ہے اور کن شرائط پر لیتا ہے،اس لیے زیادہ بہتر ہو گا کہ ہم اپنے فضلا اور طلبہ کو لینے کے آداب سکھائیں،نہ یہ کہ اپنے بھرے پیٹ کے ساتھ ان کو لولی پاپ دے کر یا خوف زدہ کرکے انہیں تا عمر کے لیے ناکارگی کی دلدل کا حصہ بنادیں۔
میری گزارش تو ایسی صورت میں یہ ہوتی ہے کہ ایسے کسی بھی پروگرام میں ضرور جائیے،کہیں کام کی بات ملے گی تو کہیں کام کی شخصیت،اور کچھ نہ ہوا تو ایک دو وقت سلیقے کا کھانا ہی مل جائے گا،ان میں کسی صورت میں کوئی قباحت نہیں،ہاں اس نوع کے پروگراموں میں شرکت کو علت کے درجے میں نہ پہنچنے دیجیے،فوٹو سیشن سے باہر نکلیے،آٹو گراف حاصل کرنا تفریح کی حد تک ٹھیک ہے،مگر مقصد نہیں ہے۔ ذہن کھلا رکھیے،بات استفادے کے لیے تو سنیے مگر ذہن کھلا رکھ کر،ذہنی سپر ڈال کر نہیں۔اگر ہم آٹھ دس برس میں خیر و شر اور مفید و غیر مفید میں اس قدر فرق کرنا بھی نہ سیکھ سکے تو آپ کا یہ واویلا بھی کچھ مفید نہیں ہوسکتا، الٹا آپ کے اپنے خلاف فرد جرم ثابت ہو سکتا ہے۔
کمنت کیجے