چودہ اور پندرہ مارچ کو ’’تفہیم’’ کے زیر عنوان بین المدارس ایکسچینج پروگرام کی ورکشاپ میں شرکت کے لیے کراچی کا ایک مختصر سفر ہوا۔ اس کی میزبانی شعور فاونڈیشن کے اشتراک کے ساتھ جامعہ بنوریہ عالمیہ نے کی۔ وقت کی محدودیت کے باعث جناب ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، جناب ریحان احمد یوسفی اور جناب ڈاکٹر سید عدنان حیدر کے ساتھ فون پر ہی رابطہ ہو سکا، ملاقات ممکن نہیں ہوئی۔ البتہ جامعہ بنوریہ عالمیہ کے شعبہ تخصص فی التفسیر کے نگران مولانا مفتی داود صاحب کی دعوت پر ایک گھنٹہ جامعہ بنوریہ میں گزارنے اور جامعہ کے منتظم مولانا غلام رسول صاحب اور سینئر استاذ مولانا سیف اللہ ربانی صاحب کے علاوہ متعدد احباب سے ملاقات کا موقع میسر ہوا۔
میں اس سے پہلے انیس سو پچانوے میں جامعہ بنوریہ آیا تھا جب اس کی تعمیر ابتدائی مراحل میں تھی۔ مولانا مفتی محمد نعیم صاحبؒ حیات تھے اور مولانا اسلم شیخوپوری صاحبؒ یہاں تدریس کرتے تھے۔ میں نے ساتھیوں کو بتایا کہ سی سی ٹی وی کیمرے کا نظام میں نے پہلی دفعہ یہیں دیکھا۔ مفتی محمد نعیم صاحب اپنے دفتر میں بیٹھ کر پورے ادارے کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس سے، نئی تبدیلیوں کے متعلق ان کے انداز فکر کو سمجھا جا سکتا ہے۔
جامعہ بنوریہ کا ایک اور امتیاز بین الاقوامی طلبہ کے لیے دینی تعلیم کا امتیاز ہے اور جس منظم طریقے سے اس ادارے میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے، کسی اور ادارے میں شاید اس کی مثال نہیں ملتی۔ بیرونی طلبہ کے لیے قانونی بندوبست کے علاوہ الگ ہاسٹل، الگ مسجد اور عربی میں الگ تعلیمی سرگرمیوں کا انتظام کیا گیا ہے جس کی تفصیل سے کسی آئندہ سفر میں مزید آگاہی حاصل کرنے کا ارادہ ہے۔ ان شاء اللہ
جامعہ بنوریہ کی سند کو بھی اب ایچ ای سی نے منظور کر لیا ہے اور یہاں کے فضلاء صرف جامعہ کی سند پر ایچ ای سی سے معادلہ کا سرٹیفکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے بتایا گیا کہ ایک کالج کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے جو ایچ ای سی سے منظوری کے بعد سرکاری تعلیمی نظام کے تحت کام کرے گا۔
جامعہ بنوریہ کے علاوہ، دیوبندی مدارس میں جدید معاشرتی ضروریات کے مطابق نئے انداز اختیار کرنے کی جتنی بھی مثالیں ہیں، ان سب کا مرکز کراچی میں ہی ہے۔ مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ نے حفظ قرآن اور اسکول کی تعلیم کے امتزاج کا آئیڈیا غالباً نوے کی دہائی میں اختیار کیا اور اب ’’اقرار روضۃ الاطفال’’ کے نام سے اس کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ دار العلوم کراچی میں مولانا تقی عثمانی صاحب نے جدید مالیات اور تجارت میں فقہی اختصاص پر توجہ مرکوز کی اور اب یہ ادارہ اس شعبے میں نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی تعارف رکھتا ہے۔ جامعۃ الرشید نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو دینی تعلیم کے ساتھ وابستہ کرنے کا ایک منصوبہ تیار کیا جو بہت سے فضلاء تیار کر چکا ہے۔ اسی ادارے نے صحافت کے میدان میں بھی اچھے تجربات کیے ہیں اور مختلف اخبارات وجرائد کی صورت میں فضلاء کو کام کا ایک میدان مہیا کیا ہے۔
میرا اندازہ ہے کہ علم جدید اور مذہب کے تعلق سے جن مسائل کو ادارہ جاتی سطح پر غور وفکر اور محنت کا موضوع بنانے کی ضرورت ہے، شاید اس کے ادراک اور اس سمت میں پیش قدمی کی توقع بھی کراچی کے ماحول میں کی جا سکتی ہے۔ یہاں کے ماحول میں وہ امکانات موجود ہیں جو اس حوالے سے کسی سنجیدہ کوشش کے لیے سازگار ہیں۔ اللہ کرے کہ مختلف ذمہ دار ادارے اس طرف بھی متوجہ ہوں اور ایک اہم خلا کو پر کرنے کی کوئی سبیل پیدا ہو سکے۔ آمین
کمنت کیجے