اضافیت میں ٹائم کو سپیس کی چوتھی ڈائمینشن مانا جاتاہے۔ مانا نہیں جاتا بلکہ نہایت ہی کامل ریاضی کے ذریعے ثابت کیا جاتاہے کہ ٹائم، سپیس کی چوتھی ڈائمینشن ہے۔ یہ وہ بات ہے جو اضافیت کے زیادہ تر طلبہ کے ذہن میں موجود ہے۔ علامہ اقبال سمیت کئی بڑے بڑے علمائے فلسفہ نے بھی اِس بات کو ایسے ہی لِیا اور بہت بُری طرح اُلجھ گئے۔ حالانکہ حقیقت قدرے مختلف ہے۔
دراصل اضافیت نے ٹائم اور سپیس دونوں کے تصور کو قبول نہیں کیا۔ اضافیت کی ریاضی بہ آوازِ بلند بتاتی ہے کہ ان تصورات سے اب ہمیں گزرجانا چاہیے۔ کیونکہ ٹائم اور سپیس ہمارے ذہن کے اس حصے کی مجبوری ہیں جو غاروں کے زمانے میں ڈِولپ ہوا۔ یعنی نہ ہی ٹائم کوئی معقول تصور ہے اور نہ ہی سپیس۔ اضافیت چاہتی ہے کہ پہلے ذہن کی سلیٹ کو اِن دوتصورات سے اس طرح صاف کیا جانا چاہیے کہ ان کا دُور دُور تک ذہن میں وجود ہی باقی نہ رہے۔ پھر اس کے بعد ایک نئے تصور کو منطقی فہم کی مدد سے ذہن کے سپرد کیا جائے۔ اور یہ نیا تصور ٹائم اور سپیس کی الگ الگ حیثیتوں سے واقف ہی نہ ہو۔ یہ ایک بالکل ہی نئی چیز ہو۔ ایک ایسی چیز جو ہمارے ذہنوں میں اس سے پہلے وجود ہی نہ رکھتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ اضافیت کے کلاسیکی ماہرین نے اِس نئے تصور کو کوئی نام دینا چاہا۔ لیکن میری ذاتی رائے میں اُن سے غلطی یہ ہوگئی کہ انہوں نے اس نئے تصور کے لیے ’’سپیسٹائم‘‘ کا لفظ بنایا جو کہ سپیس اور ٹائم کے الفاظ کی صوتی تاثیر کی وجہ سے ان الفاظ کا پرانا معنی ذہنوں سے مِٹادینے میں کامیاب نہ ہوپایا اور اس لیے اضافیت کی تفہیم میں ضرورت سے زیادہ دیر ہوتی رہی۔ یہ نیا تصور کسی اور لفظ کی مدد سے بنایا جانا چاہیے تھا۔ تصور چونکہ بالکل نیا تھا تو لفظ بھی بالکل نیا ہونا چاہیے تھا۔ جیسے ’’گُوگل‘‘ ایک نیا لفظ بنایا گیا تھا۔ ایسے ہی کوئی بالکل نیا لفظ بنایا جاتا۔ چاہے وہ لفظ ’’جِزماس‘‘ ہوتا یا مُوزیپ‘‘ یا ’’فیشاٹ‘‘ ہوتا یا ’’زُوناس‘‘، یا ’’بلسوم‘‘ ہوتا یا ’’اگزاستھاس‘‘ یا کوئی بھی اسی طرح کا مہمل لفظ لے کر اِس نئے تصور کا نام رکھا جاتا تو اضافیت کی تفہیم میں اتنی تاخیر نہ ہوتی۔ لیکن نئے تصور کو ذہن میں قائم کرنے کے لیے فقط نیا نام ہی کافی نہ تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ٹائم اور سپیس کے پرانے تصورات کو ذہن کی سلیٹ سے مکمل طور پر مِٹادینا بھی لازمی تھا۔
واقع کچھ یوں ہے کہ جب ہم تھری ڈی کی دنیا میں فاصلے کی پیمائش کرتے ہیں تو لمبائی کا تصور ہمارے ذہن میں موجود ہوتاہے۔ لیکن جب ہم سپیسٹائم میں فاصلے کی پیمائش کرتے ہیں تو لمبائی کا وہ تصور جو ہمارے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتاہے، وہی تصور ہمارے راستے کی رکاوٹ بن جاتاہے۔ کیونکہ سپیسٹائم میں فاصلے کی پیمائش بالکل مختلف چیز ہے۔ بالکل ہی جداگانہ اور نئی چیز۔ اِسے خود علمائے فزکس بھی فاصلہ نہیں کہتے۔ سپیسٹائم انٹروَل کہہ کر پکارتے ہیں۔کیونکہ یہ مکانی فاصلے کی پیمائش تو ہوتی نہیں ہے، پھر اسے فاصلہ کیوں کہاجائے؟ یہ تو ایک عجیب و غریب چیز کی پیمائش ہوتی ہے جو کہ دراصل ہمارے پرانے منطقی فہم کی موجودگی میں ہمارا ذہن ہمیں بار بار مجبور کردیتاہے کہ ہم اسے ٹائم اورسپیس کو ایک ساتھ مِلا کر سمجھنے کی کوشش کریں۔یہی وجہ ہے کہ اضافیت کی ریاضی میں ڈائمینشنوں کے لیے ’’ایکس وائی زیڈ اور ٹی‘‘ استعمال نہیں کیے جاتے بلکہ،
ٹی کو ایکس ناٹ(یعنی زیرو) کے ساتھ بدل دیا جاتاہے
ایکس کو ایکس ون کے ساتھ بدل دیا جاتاہے
وائی کو ایکس ٹو کے ساتھ بدل دیا جاتاہے
اور زیڈ کو ایکس تھری کے ساتھ بدل دیا جاتاہے۔
x^0, x^1, x^2 , x^3
یوں گویا ٹائم کی ڈائمینشن کو بھی سپیس کی ایک ڈائمیشن(ایکس ناٹ) کے طورپر لکھاجاتاہے۔ حالانکہ اسے سپیس کی ڈائمینشن کے طورپر لکھنا بھی کوئی زیادہ مناسب بات نہ تھی۔ بس ایسا اس لیے کیا جاتاہے تاکہ ہمارا منطقی فہم ہمارا ساتھ دیتا رہے۔پھر ولاسٹی کو ہمیشہ مستقل مانا جاتاہے۔ ولاسٹی روشنی کی رفتار ہی ہے۔ سب کے لیے۔ لیکن مختلف شاہدِین(آبزرورز) کے لیے ایک دوسرے کی ولاسٹی کے ویکٹروں کے کمپونینٹس مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک رُکا ہوا شخص اپنے فریم میں صرف ایکس ناٹ میں سفر کررہاہے اور اس کی ولاسٹی روشنی کی رفتار ہے۔ لیکن جب کوئی اسے باہر سے دیکھتاہے تو اس کے حساب سے اس کی ساری کی ساری ولاسٹی ایکس ناٹ میں نہیں ہے بلکہ اس کی ولاسٹی کا کچھ حصہ ایکس ون ، ایکس ٹو اور ایکس تھری کمپونینٹس میں بھی موجود ہے۔
اسی طرح ریاضیاتی طورپر جب ہم کسی مختصر فاصلے(یا ویکٹر) کی پیمائش کرتے ہیں تو ہم مطلوبہ ویکٹر کے کمپونینٹس لے کر مسئلہ فیثاغورثPythagorean theorem) کا اطلاق کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم سپیسٹائم انٹروَل کی پیمائش کرتے ہیں تو مسئلہ فیثاغورث ناکام ہوجاتاہے۔ پھر ہمیں ایک نیا مسئلہ فیثاغورث ایجاد کرنا پڑتاہے، جس میں، سی سکوئرڈ اِکوَلز اے سکوئرڈ پلس بی سکوئرڈ نہیں ہوتا بلکہ ایس سکوئرڈ اِکوَلز ایکس ناٹ سکوئرڈ(یا سی ٹی سکوئرڈ) مائینس ایکس سکوئرڈ اینڈ ڈاٹ ڈاٹ ڈاٹ ہوتاہے۔
c^2=a^2+b^2—→غلط
S^2=(x^0)^2 – (x^1)^2………..—→درست
ڈاٹ ڈاٹ سے مراد ہے کہ آپ اس میں مزید ڈائمینشنوں کا اضافہ کرسکتے ہیں۔ اس فارمولے سے ہمیں جو مختصر فاصلہ ملتاہے وہ سپیسٹائم اَنٹروَل ہے۔ وہ کوئی مکانی یا زمانی فاصلہ نہیں ہے۔ یعنی اضافیت کا یہ دعویٰ ہے کہ ہر شاہد (آبزرور) اپنے ذاتی فریم میں چاروں ڈائمینشنوں میں سے فقط ایک ہی ڈائمینشن کا مسافر ہوتاہے۔ اس کی نام نہاد مکانی ڈائمینشنوں پر اس کی ولاسٹی صفر ہوتی ہے۔ وہ پراپر ٹائم میں ہی روشنی کی مکمل ولاسٹی سے محور سفر ہوتاہے۔ بالفاظ دیگر وہ اپنے آپ کے اعتبار سے رُکا ہوا ہوتاہے۔ لیکن جب کوئی شاہد اسے دیکھتاہے تو وہ اسے رکا ہوا نہیں دیکھتا۔ وہ اسے مکان میں بھی سفر کرتاہوا دیکھتاہے اور زمانے میں بھی۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ولاسٹی کے ویکٹر کی لمبائی پر تو دونوں متفق ہیں لیکن ویکٹر کے کمپونینٹس پر ان کا اتفاق نہیں ہے۔ دوسرا شاہد یہ دعویٰ کرتاہے کہ اُس کی ولاسٹی کا کچھ حصہ مکان کے کمپونینٹس میں بھی موجود ہے۔
اور اگر پہلا شاہد حالتِ اسراع میں ہے یعنی ایکسیلیریٹ ہورہاہے تو اسے اپنے ایکسیلیریٹ ہونے کی خبر فقط ایک ہی طریقے پر معلوم ہوسکتی ہے کہ وہ خود پر فورس یا دباؤ محسوس کرتاہے۔ جیسے ہم زمین کی طرف کھنچتے ہیں، اِس طرح کا دباؤ۔ جبکہ رنڈلر کوآرڈی نیٹس میں وہ ہر نقطے پر انرشیل فریم کا حصہ ہے۔ اس کا ’’سی ٹی‘‘ یا ایکس ناٹ ویکٹر ہمیشہ رنڈلر قوس کے ساتھ ٹینجینشل ہے۔ اور اسراع کا ویکٹر ولاسٹی کے ویکٹر سے ہمیشہ نوّے درجے پر ہے۔
جب ہم کسی دائرے پر ایک ہی رفتار سے گھومتی ہوئی شئے کو دیکھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی رفتار تو مستقل ہے لیکن اس کا رُخ چونکہ مسلسل بدل رہاہے اس لیے یہ شئے حالتِ اسراع میں ہے یعنی ایکسیلیریٹ ہورہی ہے۔دائرے پر گھومتی ہوئی شئے کی ولاسٹی کا ویکٹر ہمیشہ دائرے کےمحیط(سرکمفرینس) پر ٹینجینٹ ہوتا ہے۔جبکہ اسراع کا ویکٹر دائرے کی مرکز کی طرف رخ کیے رکھتاہے۔جس کی وجہ سے شئے گھومتی ہے۔وہی ویکٹر دراصل شئے کو بار بار موڑ رہاہے اور اس کو ایک نقطے کے گرد گھمانے پر مجبور کررہاہے۔ بہرحال دائرے کی مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ رفتار ہمیشہ مستقل ہے لیکن پھر بھی اسراع پیدا ہورہاہے اور یہ اسراع فقط سمت بدل جانے کی وجہ سے پیدا ہورہاہے۔ بعینہ یہی، سپیسٹائم میں ولاسٹی کی صورتحال ہے۔ یعنی ولاسٹی کی رفتار پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ ایک ہی ہے۔ اور وہ روشنی کی رفتار ہے۔ مختلف شاہدین کا اگر اختلاف ہے تو ولاسٹی کے کمپونینٹس پر ہے۔ کوئی کہتاہے کہ اس بندے کی ولاسٹی ایکس ون ، ایکس ٹو اور ایکس تھری میں بھی بَٹ رہی ہے اور اِتنی اِتنی بٹ رہی ہے۔ تو کوئی اور کہتاہے کہ بٹ تو رہی ہے لیکن ایکس ون ، ایکس ٹو اور ایکس تھری میں اُتنی نہیں ہے جتنی تمہیں نظر آرہی ہے بلکہ مختلف ہے۔ الغرض ولاسٹی کی ایک مخصوص رفتار تو سب مانتے ہیں لیکن اس کے کمپونینٹس میں اختلاف کرتے ہیں۔ اس اختلاف سے اصل ویکٹر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ وہ اِنویریَنٹ یعنی غیر مبدل ویکٹر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو رکا ہوا محسوس کرتاہے، چاہے وہ حالتِ اسراع میں بھی ہو۔ حالتِ اسراع میں وہ فقط کوئی فورس اپنے جسم پر محسوس کرتاہے جس سے اسے لگتاہے کہ شاید آس پاس کچھ گریوٹی موجود ہوگی اس لیے فورس محسوس کررہاہوں۔ جیسے ہم زمین پر محسوس کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو رکا ہوا بھی محسوس کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں پتہ ہے کہ ہم پرگریوٹی کی فورس اثر انداز ہورہی ہے۔
رنڈلر کوآرڈی نیٹس کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سپیشل ریلیٹوٹی کے کوآرڈی نیٹس ہیں، جنرل کے نہیں۔ اضافیت کے بہت کم طلبہ سپیشل ریلیٹوٹی کے اسراع پر توجہ دے پاتے ہیں۔ زیادہ تر منکوسکی سے آگے نہیں بڑھتے۔ حالانکہ رِنڈلر زیادہ دلچسپ ہے۔جیسے مستقل اسراع کسی شئے کو دائرے میں گھمانے پر مجبور رکھتاہے، بالکل ویسے ہی مستقل اسراع سپیشل ریلیٹوٹی میں مسافر کو ایک ہائپر بولے (hyperbola) میں حرکت پر مجبور رکھتاہے۔ ہائپر بولے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ بہت اوپر جاکر سیدھی لائن میں تبدیل ہوجاتاہے۔حالتِ اسراع والے شخص کی، اپنے ہائپر بولے پر یہ سیدھی لائن بالآخر روشنی کی رفتار کے بالکل متوازی چلنے لگتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مستقل اسراع کے باوجود کبھی بھی روشنی کی اس لائن کو عبور نہیں کرپاتا۔ یہ لائن جیومیٹر میں ایسمپٹوٹ (asymptote)کہلاتی ہے۔اور اسی کی وجہ سے رنڈلر ہورائزن جنم لیتاہے جو بالکل بلیک ہول کے ہورائزن سے مشابہ چیز ہے۔
الغرض سپیسٹائم اِنٹرول کوئی مکانی فاصلہ نہیں۔نہ ہی اضافیت میں کوئی سفر مکانی ہے اور نہ ہی کوئی زمانہ مکانی ہے۔ یہاں تک کہ مکان(سپیس) خود بھی مکانی نہیں۔ ہمارا پرانا زمان و مکاں جن ڈائمینشنوں کی وجہ سے وجود رکھتا تھا، ان کی تعداد تین تھی۔ چارڈائمنشنوں کے بعد ہم اُن پرانے تصورات کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتے۔ چار ڈائمینشنوں کے بعد اب یوں کہنا کہ تین تو مکان کی ہیں اور چوتھی زمانے کی ہے بالکل غلط بات ہے۔ بلکہ یوں کہنا کہ چاروں ہی فاصلے کی نئی پیمائش کے نئے تصورات ہیں اور ان میں اشیأ کے درمیان فاصلہ نہیں ماپا جاتا بلکہ واقعات(events) کے درمیان ماپا جاتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ سپیسٹائم کے ایکسز کے سائنسی نام وہ والے نہیں ہیں جو ہمارے پرانے منطقی فہم نے ایجاد کیے تھے۔ مثلاً سپیس میں بننے والے ایکسز کو ’’ایکسز آف سائملٹینٹی (simultaneity) کے کہا جاتاہے اور اس کا آرتھونارمل ہونا بھی عجیب ہے، یعنی ہمارے پرانے منطقی فہم کے مطابق تو آرتھونارمل بیسس ویکٹروں کے درمیان نوے درجے کا زاویہ ہوتا تھا لیکن اضافیت میں یہ زاویہ بدلتارہتاہے۔ درمیان میں روشنی کی لائن رہتی ہے اور دونوں طرف سے ٹائم اور سپیس کے ایکسز اس کے قریب آتے چلے جاتے ہیں بالکل ویسے جیسے کسی قینچی کے دونوں بلیڈ قریب آتے ہیں۔ وہ بے حد قریب بھی آجائیں اور قینچی گویا بالکل بند ہونے کے بھی قریب ہو تب بھی ہم انہیں آرتھونارمل مانتے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے؟
بہترین معلوماتی مضمون