سجاد حمید یوسف زئی ایڈووکیٹ
لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج، جسٹس جواد حسن صاحب نے خانگی قانون (سیکشن 17 آف فیملی ایکٹ 1964) پر انتہائی اہم اور مفصل فیصلہ دیا ہے۔
عدالت کے سامنے اصل تنازع یہ تھا کہ آیا فیملی کورٹ ایکٹ 1964 کے سیکشن ( 4)17 کے تحت عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیوی اور بچوں کا نان نفقہ طے کرتے ہوئے شوہر کے حقیقی اثاثے اور کمائی کے زرائع خود سے ہی معلوم کرنے کی کوشش کرے؟
اسی طرح مذکورہ ایکٹ کے سیکشن (1)17 اور (4)17 کی اصل تعبیر و تشریح کیا ہے ؟
فیملی کورٹ ایکٹ بنانے کا اصل مقصد کیا تھا ؟
کیا عدالت نام نفقہ طے کرتے ہوئے صرف شوہر کے گذارشات پہ انحصار کرتے ہوئے خود سے ہی بلا ثبوت کچھ طے کرسکتی ہے یا نان نفقہ طے کرتے ہوئے عدالت کے لیے شہادت اور ثبوت کا ہونا ضروری ہے ؟
یہ سوالات انتہائی اہم سوالات ہیں اور معزز جج نے ان سوالات کو خوب واضح کیا ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی بہت ہی اہم نظائر کا بھی حوالہ دیا ہے اور ان کے متعلقہ پیراگرافس بھی نقل کیے ہیں۔
ابتداء میں ہی پیرا نمبر 14 میں معزز جج نے ہدایہ کا حوالہ دے کر فرمایا ہے کہ جب بیوی شوہر کے عقد میں ہو اور اس کے پاس رہ رہی ہو تب شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے نان نفقہ مہیا کرے۔ ہاں اگر مسئلہ بیوی کی طرف سے ہو، وہ نافرمان ہو اور وہ یا تو شوہر کے پاس رہنے سے انکاری ہو یا پھر اس کے معقول باتیں نہ مانتی ہو تو معاملہ مختلف ہوگا۔ اور تب شوہر پر نان نفقے کی ذمہ داری نہ ہوگی۔ اسلام میں یہ ضروری ہے کہ پہلے بیوی خود کو پیش کرے قبل اس سے کہ وہ شوہر سے نان نفقے کا دعویٰ کرے یا مطالبہ کرے۔ نان نفقے کا مطالبہ عقد میں رہنے اور خود کو شوہر کے عقد میں دینے سے مشروط ہے۔
کیس کے اصل حقائق کچھ یوں ہیں۔
بیوی نے شوہر کے خلاف فیملی کورٹ میں نان نفقہ مع دیگر گذارشات کے دعویٰ دائر کیا۔ دونوں کا شادی سے ایک بچہ بھی تھا لہذا عدالت نے بیوی کے علاؤہ بچے کی حد تک پانچ ہزار روپے ماہانہ نفقہ طے کیا۔ بیوی کے وکیل کے دلائل یہ تھے کہ شوہر اٹامک انرجی سیکٹر میں ملازمت کر رہا ہے اور اس کی تنخواہ لاکھ سے زیادہ ہے لہذا بچے کا نان نفقہ تنخواہ کے مطابق زیادہ طے کیا جائے۔ جب کہ شوہر کی طرف سے یہ گزارش کی گئی کہ شوہر نیسکام میں ملازم ہے اور اس کی تنخواہ بہ مشکل انیس ہزار روپے ہے۔
فیملی عدالت نے نہ تو شوہر سے اس کی تنخواہ کی بابت ثبوت مانگے اور نہ ہی شوہر نے انیس ہزار تنخواہ کی بابت کوئی ثبوت خود سے پیش کیا۔ بیوی بھی اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہ کرسکی کہ شوہر لاکھ سے زائد تنخواہ لے رہا ہے۔ فیملی عدالت نے آنکھیں بند کر کے خود سے ہی یک طرفہ طور پر غیر معقول انداز میں صرف پانچ ہزار روپے ماہانہ نفقہ طے کیا۔ اس حکم کے خلاف دونوں فریق ڈسٹرکٹ کورٹ اپیل میں گیے دونوں کی اپیل خارج ہوئی۔
اس کے بعد بیوی دونوں احکامات/فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ پہنچی۔ معزز جج نے فرمایا کہ جہاں فیملی کیسز میں فریقین سرمایہ اور کمائی کے ذرائع سے متلعق شواہد خود پیش نہیں کرسکتے یا نہ کرے تو ایسے میں عدالت پہ لازم ہے کہ وہ سیکشن 17 کی ذیلی شق 4 کے تحت خود سے ہی متعلقہ اداروں سے شوہر کا ریکارڈ منگوالیں اور اس ریکارڈ کی روشنی میں طے کرے کہ کتنا نان نفقہ طے کرنا مبنی بر انصاف اور معقول ہوگا۔ عدالت کے پاس یہ اختیار ہے اور یہ اختیارات عدالت کے لیے ہر صورت استعمال کرنا لازم ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ اپنی ذمہ داری سے کوتاہی ہوگی۔
معزز عدالت نے مزید کہا کہ عدالت کو شفا بخش انداز میں فیصلے کرنے چاہیے یعنی عدالت کا فیصلہ اس انداز میں ہو کہ اس سے فریقین کے درمیان مسائل کا مکمل علاج ممکن ہو نا کہ ایسے انداز میں کہ وہ مزید مسائل اور مقدمات کو جنم دے جیسا کہ مذکورہ کیس میں ہورہا ہے۔ ایسا ہونا فریقین کے انتہائی اذیت کا باعث بنتا ہے اور مقدمات پہ ان کے اخراجات الگ سے ہورے ہوتے ہیں۔
معزز عدالت نے مذکورہ سیکشن میں درج الفاظ Resources اور Assets کا بھی خوب جائزہ لیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ اسٹس سے مراد کوئی بھی پراپرٹی جو کسی بھی شخص کے پاس دولت کی صورت میں موجود ہو جب کہ ذرائع یا resources سے مراد یہ ہے جن ذرائع سے کسی شخص کے پاس کمائی آرہی ہو۔ مسلسل کسی ملازمت سے تنخواہ کا آنا یا پھر کسی مکان سے کرایہ آنا وغیرہ یہ ذرائع یعنی resources میں آتا ہے۔
عدالتوں کو دونوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے کہ کتنا نان نفقہ طے ہونا چاہیئے صرف یہی نہیں بلکہ عدالتوں کو اب جدید دور کے معاشی و معاشرتی تقاضوں کو بھی سامنے رکھ کر فیصلے دینا ہوں گے لوگوں کی ضروریات اب پہلے سے مختلف ہیں۔ مذکورہ قانون معاشرے کے ایک محروم طبقے یعنی بیوی اور بچوں کے فائدے کے لیے بنا ہے۔ عدالتوں کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مقدمات سے فریقین کی حق تلفی تو نہیں ہورہی۔ اسی طرح مذکورہ قانون لانے کا مقصد سی پی سی اور قانون شہادت کے جھنجھٹ سے بچنا تھا تاکہ فریقین کا مقدمہ فوری حل ہو لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ اس کے باجود فریقین کے مقدمات میں سالہا سال لگ جاتے ہیں جو کہ کسی صورت قانون کا منشاء نہیں ہے۔
دیگر بھی بہت سے نکات زیر بحث لائے گیے ہیں جنہیں مذکورہ فیصلے میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اس فیصلے میں ہر سوال کو باقاعدہ عنوان دیا گیا ہے اور ہر سوال کو علیحدہ علیحدہ واضح کیا گیا ہے۔ ہر ہر نکتے پہ معزز جج نے پوری محنت کی ہے اسکی تشریح و تعبیر کی کماحقہ کوشش کی ہے۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی دیگر فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور وہ تمام فیصلے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
————————————————
سجاد حمید یوسف زئی نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے اور اسلام آباد میں قانونی پریکٹس کرتے ہیں۔
کمنت کیجے