Home » جنسی تعلق “بنانے” کی عمر؟ پاکستان دوراہے پر! 
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

جنسی تعلق “بنانے” کی عمر؟ پاکستان دوراہے پر! 

بی بی سی اردو کی رپورٹ کا عنوان ہے: “انڈیا میں نوجوانوں کا رضامندی سے جنسی تعلق بنانا کیوں جرم ہے؟”
ایک تو اس رپورٹ کے عنوان سمیت متن میں بھی اردو روزمرہ اور محاورے کا مثلہ (mutilation) کیا گیا ہے۔ پتہ نہیں بی بی سی اردو کی ایڈٹنگ کی ذمہ داری کن نا اہلوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ یا اگر یہ نا اہلی نہیں قصداً ہے، اور بظاہر ایسا ہی ہے (یعنی شیکسپیئر کے الفاظ میں اس پاگل پن میں ہوشیاری ہے)، تو پھر معاملہ اور بھی گمبھیر ہے کیونکہ اس طرح گویا قصداً اردو کو ہندی کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگلی بات اس سے زیادہ اہم ہے۔
بھارت میں پچھلے کچھ عرصے میں جنس سے متعلق جرم و سزا کے قانون میں کئی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ مثلاً:
– جنسی تشدد، جسے rape کہا جاتا ہے اور جس کا ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد و دیگر نے زنا بالجبر کیا تھا، کی تعریف تبدیل کرنے کے علاوہ کئی ذیلی قسمیں بنائی گئیں؛
– شادی شدہ خاتون کا اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کے ساتھ اپنی رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرنا، جسے adultery کہا جاتا تھا اور جس کا ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد و دیگر نے زنا بہ زنِ غیر کیا تھا، جرم تھا لیکن بھارت کی سپریم کورٹ نے اسے جرم قرار دینے والے قانون کو بھارت کے آئین میں موجود شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دے کر اسے جرائم کی فہرست سے نکال دیا؛ اور
– ہم جنس پرستی کو بھی، جسے unnatural lust یا غیر فطری لذت حاصل کرنے کا عنوان دیا گیا تھا، اسی بنیاد پر جرائم کی فہرست سے نکال دیا گیا اور یہ کام “ماوراے صنف اشخاص” یعنی ٹرانس جینڈر پرسنز کے حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیم “ناز” کی کوششوں سے ہوا۔
اس کے علاوہ بھارت کی عدلیہ نے مختلف فیصلوں کے ذریعے قانون کو اس نہج تک پہنچا دیا کہ شادی کو ایک “شہری معاہدہ” (civil contract) مانا گیا اور ساتھ ہی ایک لازمی نتیجے کے طور پر تسلیم کیا گیا کہ دیگر معاہدات (contracts) کی طرح اس معاہدے میں شامل ہونے کےلیے بھی فریقین کی عمر کم از کم اٹھارہ سال ہونی چاہیے۔
لیکن یہاں تک پہنچ کر ایک مسئلہ پیدا ہوا۔
اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے شادی نہیں ہوسکتی لیکن اٹھارہ سال کی عمر سے قبل نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آپس میں نہ صرف آزادانہ میل جول رکھ سکتے ہیں، بلکہ باہمی رضامندی سے رہ بھی سکتے ہیں جسے live in کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب یہ اکٹھے رہ سکتے ہیں، تو کیا جنسی تعلق قائم نہیں کریں گے؟ اس کا نفی میں جواب تو کوئی پرلے درجے کا احمق ہی دےسکتا ہے۔ تو پھر اگر جنسی تعلق قائم کرلیا، تو اسے کیا کہا جائے گا؟ شادی تو ہے نہیں، نہ قانون کی رو سے وہ شادی کرسکتے ہیں۔ تو کیا اسے جنسی تشدد یا ریپ کہا جائے گا؟ یہ بھی عجیب لگتا ہے کیونکہ یہ تعلق تو باہمی رضامندی سے قائم ہوتا ہے جبکہ ریپ میں ایک فریق کی رضامندی نہیں ہوتی۔
یہاں سے بحث “رضامندی کی عمر” (age of consent) کی طرف مڑ جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ رضامندی کی عمر اور شادی کی عمر میں فرق ہونا چاہیے۔ چنانچہ آرا تو بہت سی ہیں لیکن عام راے یہ ہے کہ رضامندی کی عمر 16 سال ہونی چاہیے، خواہ شادی کی عمر 18 سال ہو، یعنی 16 سال کی عمر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جنسی تعلق تو باہمی رضامندی سے قائم کریں لیکن باہمی رضامندی سے شادی نہ کریں!
یہ ہے وہ مخمصہ جس میں اس وقت بھارتی معاشرہ پھنسا ہوا ہے اور جس کی خبر بی بی سی کی اس رپورٹ میں دی گئی ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں ان امور کو اس طرح چھپا کر رکھ دیا گیا ہے کہ سطحی نظر رکھنے والے لوگ اصل سوالات تک پہنچ ہی نہ سکیں۔ چنانچہ اس رپورٹ میں سارا زور اس بات پر ہے کہ 16 سال کی عمر کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ان کی رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، اگرچہ شادی کی اجازت 18 سال سے قبل نہ ہو۔
اب ذرا پاکستان کے قانون کی طرف آجائیں:
1۔ پاکستان میں جنرل مشرف کے دور میں 2006ء میں جنسی تشدد کی تعریف میں شوہر کی جانب سے بیوی کی رضامندی کے بغیر اس کے ساتھ جنسی تعلق کو شامل کیا گیا اور یوں “ازدواجی زنا بالجبر” یعنی marital rape کا جرم وضع کرلیا گیا؛ پھر 2016ء میں نواز شریف کے دور میں کی گئی ترامیم کے نتیجے میں جنسی تشدد کی تعریف تبدیل کرکے اس کو بہت زیادہ وسعت دی گئی اور اب اس میں بہت کچھ مزید بھی شامل کرلیا گیا ہے؛
2۔ شادی شدہ عورت کو شوہر کے علاوہ دیگر مردوں سے اپنی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت تا حال پاکستان کے قانون میں نہیں دی جاسکی (الحمد للہ)؛
3۔ ہم جنس پرستی پاکستان میں بدستور جرم ہے، اگرچہ نواز شریف دور میں 2018ء میں ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ کی منظوری سے اس جرم کے خاتمے کی طرف پہلا قدم اٹھایا جاچکا ہے اور اس مقصد کےلیے دیگر تنظیموں کے علاوہ “ناز” بھی سرگرم ہے؛
4۔ شادی کی عمر کی ایسی تحدید کےلیے کوششیں جاری ہیں کہ اس مخصوص عمر سے قبل شادی کو سرے سے ناجائز قرار دیا جائے اور اس کام میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعض جج صاحبان خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں؛ اس وقت مرکزی سطح پر رائج الوقت قانون میں (جو 1929ء سے رائج ہے) یہ قرار دیا گیا ہے کہ شادی کے وقت اگر لڑکی کی عمر 16 سال سے اور لڑکے کی عمر 18 سال سے کم ہو، تو یہ قابلِ سزا جرم ہوگا، لیکن اس قانون نے اس شادی کو ناجائز نہیں کہا اور یہی کچھ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے 1970ء کے ایک فیصلے میں بھی کہا تھا لیکن اس سال 2022ء کے شروع میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے 18 سال سے کم عمر کی شادی کو سرے سے غیر قانونی قرار دے کر حکومت کو اس موضوع پر باقاعدہ قانون بنانے کا حکم دیا؛ اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کے ایک اور جج جسٹس عامر فاروق نے، جو اب اس عدالت کے چیف جسٹس بن گئے ہیں، ایسی شادی کو ناجائز تو نہیں قرار دیا لیکن حکومت کو انھوں نے بھی اس موضوع پر قانون سازی کا حکم دیا؛ ان کو عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ شادی کے قانونی ہونے کےلیے ضروری ہے کہ خاتون قانوناً عاقل بالغ ہو، حالانکہ سپریم کورٹ نے اصل میں یہ کہا تھا کہ خاتون قانوناً عاقل بالغ ہو تو اس کا اپنی جانب سے کیا جانے والا نکاح قانوناً درست ہوگا، خواہ اس کے ولی کی اجازت اس میں شامل نہ ہو؛ سوچیے یہ دو کتنی مختلف باتیں ہیں؛ اور اب اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کے ایک تیسرے جج، جو اس وقت چیف جسٹس کے بعد اس عدالت کے سینیئر ترین جج ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے بھی اس امر پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے کہ شناختی کارڈ کے بغیر شادیاں کیسے ہورہی ہیں؛ اس لیے لگتا یہ ہے کہ جلد ہی اس موضوع پر حکومت قانون بنانے پر مجبور ہوجائے گی اور قرار دے گی کہ 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی ناجائز ہوگی؛ واضح رہے کہ سندھ میں پہلے ہی اس مسئلے کو “جبری تبدیلیِ مذہب” کے ساتھ جوڑ کر عمر کی حد 18 سال کی جاچکی ہے؛
5۔ یہ چوتھا کام (شادی کےلیے عمر کی تحدید) ہوجائے، تو اس کے بعد ہمارے ہاں بھی یہ سوال اٹھایا جانے لگے گا کہ شادی کی عمر بے شک 18 سال ہو لیکن جنسی تعلق قائم کرنے کےلیے رضامندی کی عمر (age of consent) 16 سال ہونی چاہیے۔ ویسے بھی آپ جنسی تشدد، یعنی ریپ، کے قانون میں 16 سال کی عمر کی تحدید کرچکے ہیں اور اس کو بنیاد بنا کر جسٹس بابر ستار 16 سال کی عمر میں شادی کو ریپ کے ساتھ جوڑ چکے ہیں، خواہ یہ شادی لڑکی کی رضامندی سے ہوئی ہو!
سوچیے کہ کس طرح قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے سماجی انجنیئرنگ کرکے پورے “لا مذہبی جوش و خروش سے” معاشرے کو لبرلزم کے اندھے کنویں میں دھکیلا جارہا ہے اور ہمارے اہلِ علم اپنی سادگی میں یہ فرض کیے ہوئے ہیں کہ live in relationship چونکہ اب رائج ہے تو مذہبی طبقہ اور علماء کسی طرح نکاحِ متعہ یا نکاح مسیار یا کوئی اور چٹ پٹا نسخہ تجویز کرلیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا!مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے اور وہ تہذیبی اقدار کی سطح پر ہے۔ پاکستان اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے: ایک طرف اس کا اسلامی آئین ہے اور دوسری طرف اس کے اسلامی تشخص کو مسخ کردینے کی بھرپور کوشش کرنے والی لابی۔ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ لکیریں کھینچی جاچکی ہیں۔ آج مکرر سن لیجیے کہ خطرہ سر پر آ پہنچا ہے اور اب آپ کی تہذیب آپ کے گھر میں بھی نشانہ بن رہی ہے۔ وسیم بریلوی نے کہا تھا:
دریچوں تک چلے آئے تمھارے دور کے خطرے
ہم اپنی کھڑکیوں سے جھانکنے کا حق بھی کھو بیٹھے!

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں