Home » لمبی ہے غم کی شام ، مگر شام ہی تو ہے 
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات

لمبی ہے غم کی شام ، مگر شام ہی تو ہے 

جس عالم آب و گِل کے ہم باسی و عادی ہیں، اس میں چند لمحات رک کر اگر ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں تو ہمیں اپنے اردگرد ایک انتشار ، عدمِ تحفظ کا احساس اور ایک بے کنار مایوسی و بے چارگی کی حکومت نظر آتی ہے اور انسانیت یاسیت کے پنجہ خونیں میں گرفتار نظر آتی ہے ۔ فطرتی طور پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر کیوں انسان ، انسان کے خون کا پیاسا ہے ؟ کیوں ایک قوم دوسری اقوام کو ہضم کرنے کے درپے ہے ؟ اس طرح کے لاتعداد سوالات ذہن کو الجھائے رکھتے ہیں۔ زندگی کے معمولات کو جاری رکھنے کے لیے ان سوالات کو جھٹک دینا آسان نہیں رہا ۔
معاشرتی مسائل کا نوحہ لکھا جا رہا ہے ۔معاشرہ انسان دوست کیوں نہیں ہے۔ اس پر آہ و زاریاں ہو رہی ہیں لیکن جو مسئلہ ان تمام مسائل کی جڑ ہے ، اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا ۔ہمارے جملہ مسائل کا حل کہاں ہے ؟ ہم کب اس بارے میں سوچیں گے ۔کیا جب “خواب دیکھنے والی آنکھیں پتھر ہوں گی تب سوچیں گے” ؟ ہمیں سب سے پہلے یہ طے کرنے کی ضرورت ہے ۔
” وہ عالم جس میں اب انسان کی حیثیت سے رہتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے؟ کیا اس کی ترکیب میں کوئی دوامی عنصر موجود ہے ہمیں اس سے کیا تعلق ہے اور ہمارا اس میں کیا مقام ہے اور باعتبار اس مقام کے ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے ؟”(1)
یا یوں کہہ لیں
چیست عالم ، چیست آدم ، چیست حق (2)
در اصل ان تمام مسائل کی جڑ یہی ہے کہ انسان نے اس کائنات میں اپنے مقام کے تعین میں غلطی کی ہے ۔ جرمن فلسفی کانٹ نے کہا تھا، جب تک انسان نابالغ تھا خدا پر انحصار کرتا تھا۔ اپنے آپ کو خدا کا محتاج گردانتا تھا۔ یہ گویا انسان نے کائنات میں اپنے مقام کی تعیین نَو کا فیصلہ کیا ۔ جس کے زیر اثر تصور خدا کا مرکزہ انساں کے تصور مبدل بہ تصورِ انسان ہوا ۔
معروف دانشور، فلسفی احمد جاویدکہتے ہیں۔
’’جدیدیت روایت کا متضاد ہے۔ روایت انسان، کائنات اور خدا کی تثلیث پر پیدا ہونے والے نظامِ شعور اور ضابطہ وجود کو کہتے ہیں۔ اہل روایت انہی تین حقیقتوں کے تناظر میں اپنے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔ روایت پسند وہ ہے جو اپنے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کو خدا، انسان اور کائنات کے مربوط تناظر میں دیکھے اور اس کے انفرادی اور تہذیبی فیصلوں میں خدا کے حکم کو ملحوظ رکھا جائے۔ روایت کا بنیادی تناظر (Principle perspective) خدا ہے۔
جدیدیت روایت کی تثلیث سے خدا کو خارج کر دینے کا نام ہے۔ خدا کو شاعرانہ تخیُّل مان کر زندگی سے لاتعلق کر دینا جدیدیت کا غالب رویہ ہے۔ ‘‘ (3)
انسان کو کرسی الوہیت ہر بٹھانے کا یہ کام مغربی نشاۃ الثانیہ کے زمانے میں ہوا ۔
” ”نئی دنیا ” یعنی جدیدیت کا آغاز ۱۴۵۳ء سے ہو تا ہے جب ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کیا اور یونانی عالم اپنی کتابیں لے کر وہاں سے بھاگے اور سارے یورپ میں پھیل گئے۔ انہوں نے یونانی علوم یورپ والوں کو پڑھاۓ۔ اس دور کو ” نشاءۃ ثانیہ ” اس لئے کہا جاتا ہے کہ یونان اور روم کے زوال کے بعد یورپ کا ذہن گویا مرگیا تھا اور ہزار سال تک مدفون رہا۔ پندرھویں صدی میں جب یونانی علوم پھیلے ۔ تو مغرب کا ذہن دوبارہ پیدا ہوا ۔۔۔ پندرہویں صدی میں سب سے اونچی جگہ یونانی علوم کو دی گئی۔ یہ علوم وحی پر مبنی نہیں تھے بلکہ عقلی تھے۔ دوسرے یہ کہ یونانی علوم میں ہر مسئلے پر انسانی نقطہ نظر سے غور کیا جا تا تھا اور انسان ہی کو کائنات کا مرکز سمجھا جا تا تھا۔” (4)
یہ بے خدا تہذیب کا نقظہ آغاز تھا ۔جس میں یورپی معاشروں نے اپنے مرکز سے انحراف کرکے انسان کو کرسی الوہیت پہ فائز کیا .اور یہ تصور ( خدا کے مرکز کائنات ہونے کا ) چھوڑنے کے بعدیورپ پر کیا گزری، اور مغربی معاشرے میں کیا انقلابات رونما ہوئے یہ ایک بہت لمبی بحث ہے۔ مختصرا اور بطریق مجاز یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کے ہر گھر میں خدا کی بجائے واشنگ مشین آ گئی، اور ہر گھر والے کی بیوی ڈرائی کلینر بن گئی۔” (5)
آغوشِ مغرب میں پرورش پانے والا یہ بے خدا نظامِ فکر “انسان” کے “خود کوزہ وخود کوزہ گر وخود گل کوزہ” کے فلسفے پر یقین رکھتا ہے۔ مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا (عیش توبس دنیا ہی کا ہے جس میں ہم جیتے مرتے ہیں۔ ) پر یقین رکھتے ہیں اور” بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” ان کا مطمحِ نظر ہے، ۔اب اس نظامِ فکر کو بزور بازو قریب قریب عالمگیر حیثیت دے دی گئی ہے ۔یہ نظامِ فکرانسان کی آزادی کے نعرے کے ساتھ آیا تھا۔ صدیاں بیت جانے کے باوجود اسے کامیابی نہیں ہوئی اور عدل و مساوات ، احترام انسانیت کے تمام دعوے ” بیٹھے رہیں تصور جاناں “کیے ہوئے کے مصداق ہیں .
صاحبِ تنقیحات لکھتے ہیں
“اہل مغرب جنھوں نے اس شجر خبیث کو اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا‘ اب خود اس سے بیزار ہیں۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں ایسی الجھنیں اور پریشانیاں پیدا کر دی ہیں جن کو حل کرنے کی ہر کوشش بہت سی الجھنیں پیدا کر دیتی ہے۔ جس شاخ کو کاٹتے ہیں اس کی جگہ بہت سی خاردار شاخیں نکل آتی ہیں۔ سرمایہ داری پر تیشہ چلایا تو اشتراکیت نمودار ہوگئی۔ جمہوریت پر ضرب لگائی تو ڈکٹیٹر شپ پھوٹ نکلی۔ اجتماعی مشکلات کو حل کرنا چاہا تو نسوانیت (Feminism) اور برتھ کنٹرول کا ظہور ہوا۔ اخلاقی مفاسد کا علاج کرنے کے لیے قوانین سے کام لینے کی کوشش کی تو قانون شکنی اور جرائم پیشگی نے سر اٹھایا۔ غرض فساد کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو تہذیب و تمدن کے بداصل درخت سے نکل رہا ہے اور اس نے مغربی زندگی کو از سر تا پا مصائب وآلام کا ایک پھوڑا بنادیا ہے جس کی ہر رگ میں ٹیس اور ہر ریشے میں دکھن ہے۔ مغربی قومیں درد سے بے تاب ہو رہی ہیں۔ ان کے دل بے قرار ہیں۔ ان کی روحیں کسی امرت رس کے لیے تڑپ رہی ہیں، مگر انھیں خبر نہیں کہ امرت رس کہاں ہے۔”
علامہ اقبال کے انسانیت کو اس امرت رس کی نشاندہی ایک فقرے میں کردی ہے ۔ تجدید فکریات اسلام میں لکھتے ہیں ۔
“اس وقت انسانیت تین چیزوں کی ضرورت ہے کائنات کی روحانی تعبیر فرد کا روحانی استخلاص اور ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشوونما میں معاون ہوں۔”( 6)
ان تین اصولوں کو عمل میں لا کر کہ انسان اپنی درست پوزیشن لے ۔تو یہ تمام مسائل جڑ سے کٹ جائیں گے۔ اور انسان کی درست پوزیشن عبداللہ ہونا ہے۔ جس کا ذریعہ اظہار انسان ہے ۔اسی طرح کائنات کو اللہ کی قابل قدر ، قابل یقین نشانیوں کا مجموعہ جاننا کائنات کی حقیقت اصلیہ ہے۔
خدا ، کائنات اور انسان کی مثلث سے بننے والے نظام وجود کی تعلیمات میں انسانیت کےلیے کیا رہنمائی موجود ہے ۔ آئیے اسکی ایک جھلک دیکھتے ہیں ۔
(1) تمام انسانیت کے لیے بھلائی کا طلب گار ہونا :
لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا۔ (7)
ترجمہ:
ان کے اکثر پوشیدہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہے سوا اس شخص کے جو صدقہ دینے کا حکم دے یا نیکی کرنے کا حکم دے یا لوگوں میں صلح کرانے کا اور جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرے تو عنقریب ہم اس کو اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی ہے کہ اگر کسی سے بھلائی نہ کر سکو تو کم از کم ایسا ہو کہ تم سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔ (8)
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بیٹے: اگر تم سے ہو سکے کہ صبح وشام تم اس طرح گزارو کہ تمہارے دل میں کسی کے لئے بھی کھوٹ (بغض، حسد، کینہ وغیرہ ) نہ ہو تو ایسا کر لیا کرو‘‘، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’میرے بیٹے! ایسا کرنا میری سنت (اور میرا طریقہ ) ہے، اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں رہے گا‘‘۔ (9)
(2) تمام انسان برابر ہیں ۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ  (10)
ترجمہ:
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔28 یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے
اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے، یعنی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھنچے گئے ہیں۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے، اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہوجانا۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو، بلکہ اس تمیز نے نفرت، عداوت، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس کے لیے فلسفے گھڑے گئے ہیں ، قوانین بنائے گئے ہیں، اصول وضع کیے گئے ہیں۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل در آمد کیا ہے۔

یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیلیوں سے فروتر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں ورن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، آج اس بیسویں صدی ہی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا ہے۔ یورپ کے لوگوں نے براعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر کے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اسکی تہ میں بھی یہی تصور کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لوٹیں، اور ضرورت پڑے تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔
اس ذات پات کے تصور سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے مابین مساوات و برابری قائم کرنا ہی قسام ازل کا مقصود ہے ۔ اسی کے لیے صحرا نشینوں نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا ۔ قادسیہ کے موقع پر فارس کی دولت عظمی کے نمائندہ رستم کے دربار میں متعدد پیغام رساں بھیجے گئے گئے ان میں سے ایک مغیرہ بن شعبہ بھی تھے ۔ انہوں نے جو رستم کے تقریر تقریر کی اس کا ایک حصہ ملاحظہ ہو ۔
ہم اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لے جانے کے لیے آئے ہیں ۔ کہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں چنانچہ تمام انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔
المختصر ، انسان عبدللہ کی پوزیشن کو صدق دل سے قبول کرلے تو انسانیت کو پیش مسائل کیسے حل ہوسکتے ہیں ۔ دیوانے کا خواب سہی لیکن مجھے یقین ہے کہ انسان اپنے مرتبے کا درست تعین کرکے پھر سے اپنے لیے نظامِ حیات وضع کرے گا ۔

لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

حوالہ جات
(1)  The Reconstruction of Religious Thought in Islam by  Allama Muhammad Iqbal
ترجمہ “تجدید فکریات اسلام” مترجم ڈاکٹر وحید عشرت
(2) علامہ اقبال ، جاوید نامہ
(3)Lecture of Ahmad javaid/ jadeediat Kya hy available at / https://youtu.be/icY6fziL9M0
(4) محمد حسن عسکری ، جدیدیت
(5) محمد حسن عسکری ، وقت کی راگنی
(7) سورہ النساء:114
(8) صحیح مسلم ح: 136
(9) جامع ترمذی ح:2678
(10)سورہ حجرات: 13

محمد قاسم سدید

محمد قاسم سدید جامعہ معظمیہ، معظم آباد شریف میں درس نظامی کی تحصیل کر رہے ہیں۔
qasimsadeed5@gmail.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں