اردو ترجمہ: محمد عکاشہ
جوروم وان کلاورن (Joram Van Klaveren) ایک سابق عیسائی تھے جن کے قبولِ اسلام کی داستان نہایت حیرت انگیز ہے۔ کلاورن نے اسلام کے خلاف ایک زبردست کتاب لکھنے کا منصوبہ بنایا جس کے لیے وہ بھرپورتحقیقات شروع کرچکے تھے مگر ان کی تحقیق ہی انہیں اسلام کی طرف کھینچ لائی ۔
حال میں ایک چینل پر اُن کا پُراثر انٹرویو نشر ہوا جس میں وہ خود اپنے حالات بیان کرتے ہیں۔ اس انٹرویو کو عام فائدے کے لیے اردو کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا جارہا ہے۔
__________________________________________________
سوال: اپنا مختصر سا تعارف کروادیں۔
“میری پیدائش 23 جنوری 1979 عیسوی کو ایمسٹرڈیم میں ہوئی۔ ہمارا خاندان مذہبی اعتبار سے عیسائی تھا اور اسی وجہ سے ہم سب بہن بھائی بھی عیسائی عقائد و نظریات کے سائے تلے پلے بڑھے۔ یوں میں پروٹسٹنٹ مسلک سے تعلق رکھنے والا ایک عیسائی نوجوان تھا۔”
سوال: آپ کے مذہبی عقائد کیا رہے ہیں؟
“اپنے عقیدے کے مطابق ہم خدا، اس کے فرشتوں، انبیا ، اور وحی پر یقین رکھتے تھے اور ساتھ میں یہ عقیدہ بھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ کہنے کو تو میں عیسائی عقائد و نطریات کا ایک پیروکار تھا مگر دل ہی دل میں مجھے کئی باتیں کھٹکتی رہتی تھیں۔ مجھے عیسائیت کے کئی نظریات ہضم نہیں ہورہے تھے۔ خاص طور پر تثلیث (Trinity) کا نظریہ جو ایک پیچیدہ ترین نظریہ ہے ۔ تثلیث کے نظریے کو آپ مانیں یا نہ مانیں، یہ بہرحال ایک عجیب گتھی ہے جو آسانی سےسلجھنے میں نہیں آتی۔ کیوں کہ دیکھا جائے تو بائبل میں جہاں خدا کی موجودگی کا تذکرہ موجود ہے ،وہیں یہ بھی درج ہے کہ خدا ابدی ہے اور اسے فنا نہیں ہے۔ لیکن تثلیث کے نظریے کو مانا جائے تو خدا کی موت کو بھی ماننا پڑتا ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو خدا کی ابدیت کا نظریہ اپنایا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف اس کی موت کا بھی انکار نہیں کیا جارہا ۔
آخر ایک ہی وقت میں کوئی وجود فانی اور لافانی کیسے کہلایا جاسکتا ہے؟
یہ اور اس قسم کے خیالات مجھے پندرہ سولہ برس کی عمر میں ہی مجبور کرتے تھے کہ میں اِن کا جواب تلاش کروں ۔ اس کے لیے میں نے مختلف لوگوں سے رابطے کیے۔ کئی روحانی مربیوں، عیسائیوں پادریوں اور دیگر مذہبی پیشواؤں سے بھی سوالات کیے مگر مجھے کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ آخر کار میں یہ سوچ کر چپ ہورہا کہ شاید یہ سب کچھ سمجھنے کے لیے میری عقل کی پہنچ ابھی بہت نیچے ہے اور وقت کے ساتھ میں خود ہی سمجھ جاؤں گا۔”
سوال: آپ کو اسلام کے خلاف کتاب لکھنے کا خیال کیسے آیا؟
” یہ اتفاق کی بات ہے کہ پہلا دن جب میں مذاہب کے تقابلی مطالعے کی تعلیم کے لیے کالج میں داخل ہوا، تو کلینڈر 11 ستمبر 2011 کی تاریخ دکھا رہا تھا۔ اُس دن کے بعد والے دنوں میں مسلمانوں کے خلاف بہت کچھ سننے کو ملا۔ یہ باتیں مجھے اسلام اور اس کے پیروکاروں کے خلاف برابر مشتعل کرتی رہتی تھیں۔
اس کے بعد نیدرلینڈ میں ہی ایک اور واقعہ سامنے آیا جس نے مسلمانوں کے خلاف میری نفرت کو ہوا دی۔واقعہ یوں تھا کہ نیدر لینڈ کے ایک مشہور فلم ساز کو بیچ چوراہے میں قتل کرکے خنجر اس کے معدے تک گھسا دیا گیا ۔اس بے رحم قتل کی داستاں کو سنانے والے مسلمانوں سے منسوب کرتے تھے۔ الغرض ان واقعات و حالات کو دیکھ کر مسلمانوں کے خلاف میرے ذہن میں جو ایک مخالفت سی تھی وہ بڑھتی چلی گئی.
اسی دوران میرے ذہن میں ایک خیال بیٹھ گیا کہ مجھے اسلام کے خلاف ایک معرکہ آرا کتاب لکھنی چاہیے ۔ اور یہ خیال روز بروز پختہ ہوتا چلاگیا۔ اس کتاب کی اشاعت سے میں دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ اسلام دنیا کے لیے ایک طرح کا خطرہ بن رہا ہے ۔ آخرکار میں نے کتاب لکھنے کی ٹھان لی۔
اب جب میں نے کتاب لکھنا شروع کی تو وہ اشکالات جو عیسائیت کے حوالے سے میرے ذہن میں پہلے سے موجود تھے، اب پھر سے سر اٹھانا شروع ہوگئے۔ میری کتاب کا موضوع چونکہ اسلام کو بطورِ مذہب خطرناک دکھانا تھا چنانچہ میں نے اسلامی عقائد و نطریات کو عیسائی نقطہ نظر سے بیان کرنا شروع کیا۔
پہلے باب میں جب ایک خدا کی وحدانیت کا بیان آیا تو مجھے اپنی تحقیق کے دوران یہ دیکھنے کو ملا کہ اسلام میں توحید کا تصور کافی حد تک معقول ْانداز میں پایا جاتا ہے۔ یعنی اسلام کے نظریہ توحید میں کسی قسم کا کوئی کمزور نقطہ موجود نہیں جس کی بنا پر ٹھوس انداز میں اس کا رد کیا جاسکے۔ اب میں نے سوچا کہ بائبل کا ازسرِ نو مطالعہ کیا جائے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ آخر اسلام کا عقیدہ توحید عیسائیت کے توحیدی عقیدے سے میل کیوں نہیں کھاتا۔
جب میں عہد نامہ قدیم پڑھ رہا تھا تو مجھے دیکھنے کو ملا کہ عہد نامہ قدیم کے پیغمبر کہہ رہے ہیں کہ ‘خدا صرف ایک ہے۔ صرف ایک اور بس ایک۔’ پھر میں نے سوچا کہ مجھے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ پربھی غور کرنا چاہیے کہ آخر اُن کا توحید کے متعلق کیا نقطہ نظر رہا ہے۔اس غرض کے لیے میں نے عہد نامہ جدید کا مطالعہ شروع کرڈالا۔
عہد نامہ جدید میں ایک واقعہ درج ہے جہاں ایک آدمی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آتا ہے اور دریافت کرتا ہے کہ زندگی میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟.اور کس طرح سے میں جنت حاصل کرسکتا ہوں؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ : ‘ سن اے اسرائیل ! خداوند ایک ہی ہے ۔ یہ تو پہلی بات ہے۔اور دوسرا اس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔’
میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہاں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک خدا کی دعوت دے رہے ہیں۔ پھر اسلام میں بھی یہی سب کچھ موجود ہے ۔ مجھے لگا کہ اسلام کا تصورِ توحید دوسرے مذاہب اور مکاتبِ فکر کی نسبت زیادہ معقول اور منطقی کہلانے کے لائق ہے۔
پھر مزید مطالعے اور تحقیق کے بعد میرا یہ خیال مضبوط ہوتا چلا گیا اور آخر کار میں یہ سوچنے پر محبور ہوگیا کہ اسلام میں ایک خدا کا جو تصور ہے وہ شاید درست ہی ہے۔”
سوال: اپنی تحقیقات جاری رکھنے کے لیے آپ کس قسم کے وسائل کا استعمال کرتے تھے؟
ایک طرف تو مختلف کتابوں کا مطالعہ جاری تھا مگر ساتھ ہی میں نے ان لوگوں سے بھی رابطہ رکھنا شروع کردیا جن کی مذہبی علوم پر دسترس تھی اور دعوتی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی کافی معروف تھے ۔ ایسے لوگوں کے سامنے میں اپنے سوالات رکھتا اور کوشش کرتا کہ تسلی بخش جواب میسر آئے۔ انہی شخصیات میں سے ایک شیخ عبدالحکیم مراد بھی تھے، جو کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر بھی رہ چکے تھے۔
میں نے ارادہ کیا کہ اپنے سوالات لکھ اُن کی طرف ارسال کردوں مگر یہ کرتے ہوئے ایک قسم کی جھجک سی محسوس ہورہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف تو میں تو خالص سیاسی نقطہء نظر سے اسلام کی پرزور مخالفت میں ایک تصنیف کرنے جارہا تھا جب کہ دوسری جانب اسلام ہی کے خلاف تحقیق میں مواد حاصل کرنے کے لیے میں ایک ‘ مسلمان’ پروفیسر سے مدد طلب کررہا تھا اور پھر پروفیسر بھی وہ جو مجھ سے کوسوں دور ، ایک دوسرے ملک میں رہائش پذیر تھا۔
کچھ کشمکش کے بعد آخر میں نے انہیں اپنے سوالات لکھ کر بھیج دیے اور جوابات کا انتظار کرنے لگا۔ سوالات ارسال کرنے کے تقریباً چھ ماہ بعد مجھے شیخ عبدالحکیم کی جانب سے ایک تحریر موصول ہوئی ۔ اپنی اس تحریر میں انہوں نے نہایت مفصل اور مکمل انداز میں میرے کئی سوالات کا جواب دیا اور بہت سی مفید معلومات بھی فراہم کیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے مجھے مزید راہنمائی یہ کی کہ مجھے ہدایات دے ڈالیں کہ فلاں مضمون کا مطالعہ بھی کرلیں اور فلاں فلاں کتاب کے مندرجات کو بھی ایک نظر دیکھ لیں ۔
میں نے اُن کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مجوزہ کتابوں کا مطالعہ شروع کرڈالا۔ یہ مطالعہ بہت انہماک سے جاری رہا۔ کچھ عرصے بعد جب میں اُن تمام کتابوں اور مضامین کے مطالعے سے فارغ ہوگیا تو میرے اندر ایک خیال نے سر ابھارا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ عہدنامہءِ قدیم و جدید کے انبیاء کا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے موازنہ کیا جائے اور اس طرح سے آپ کی نبوت کے شواہد اکٹھے کیے جائیں۔
میں نے اس تقابل کے لیے مختلف انبیاء کے حالات کا مطالعہ شروع کر ڈالا اور ان کی زندگیوں کا موازنہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے کرنے لگا۔ یہ موازنہ ہوچکا تو میرے پاس اس بحث کا کوئی جواز نہیں تھا جس کی بنا پر میں یہ کہتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبرنہیں ہیں اور عہد نامہ قدیم و جدید میں مذکور انبیاء پیغمبر ہیں۔ (علیھم الصلوات والتسلیمات )
ایسے میں میں خود سے سوال کرنے پر مجبور ہوگیا کہ جن باتوں کی بنا پر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی مان سکتا ہوں تو آخر پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو میں کس وجہ سے جھٹلارہا ہوں؟ اگر اس وجہ سے کہ اُن کے ہاں بیویوں کی تعدا زیادہ رہی ہے تو بھی دلیل قابلِ قبول نہیں کہلائے گی۔ اس لیے کہ اگر عہد نامہ قدیم پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں بھی کئی انبیاء کے ہاں بہت سی بیویوں کا تذکرہ ملے گا۔
اور اگر مذہبی دائرہ کار سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو معاشرتی اعتبار سے ہمارے سماج میں بھی کئی بلند پایہ لوگوں کے ہاں شادیوں کی تعداد ایک سے زائد رہی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کوئی معقول جواز نہ تھا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی نہ ماننے کے لیے پیش کیا جاسکتا۔ ایسے میں میرے سامنے دو رائے تھیں۔ اب یا تو میں سارے انبیاء کی نبوت کا انکار کرڈالوں یا پھر مجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نبی ماننے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔اس موقع پر میں شدید ترین کشمکش کا شکار ہوجاتا اگر شیخ عبدالحکیم مراد کی کہی گئی ایک بات میری راہنمائی نہ کرتی۔
انہوں نے فرمایا کہ : جو کتابیں تم نے اسلام کے خلاف مطالعہ کی ہیں، وہ یقیناً غیر مسلموں کی لکھی ہوئی ہیں ۔ دیکھو! اگر تم عیسائیت کے بارے میں تحقیق کرنا چاہو گے تو یقیناً کسی ملحد کی کتاب نہیں پڑھو گے بلکہ تمہاری کوشش ہوگی کہ عیسائیت کے اصلی ماخذ سے حوالے تلاش کیے جائیں اور وہ یقیناً کسی عیسائی کی لکھی ہوئی کتاب سے مل سکیں گے۔اب اسی طرح کا طرزِ عمل تمہیں اسلام کے حوالے سے بھی اپنانا ہوگا ۔ یہاں تمہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ مسلمان فلاں عقیدے پر کیوں یقین رکھتے ہیں اور اُن کا اپنا مؤقف اس بارے میں کیا ہے۔ اس کے بعد اگر اُن کا مؤقف تمہارے دل کو نہ لگے تو پھر اسی موضوع پر موجود دوسری کتابوں کے ساتھ اس کا موازنہ کرنا۔ اب تمہیں اندازہ ہوگا کہ کس مقام پر غیر مسلم مصنف نے غلط بیانی یا پھر کمزور دلائل سے کام لیا ہے۔ ”
شیخ عبدالحکیم مراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابیں دیکھنے سے مجھے براہ راست ماخذ تک رسائی مل جائے گی اور میرے لیے یہ اندازہ کرنا آسان ہوگا کہ کس جگہ سے غیر مسلم مصنفین نے عربی عبارتوں کے ترجمے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر غلطی کر ڈالی ہے۔ بعض مقامات پر تو یہ غلطی اتنی فاش ثابت ہوتی ہے کہ اس کی بنا پر ایک نیا عقیدہ بھی جنم لے لیتا ہے۔
شیخ عبدالحکیم کی یہ ہدایات ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے مزید مطالعہ جاری رکھا اور اب کی بار میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے متعلق کتاب کے مطالعے کا منصوبہ بنایا۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو کتاب میرے سامنے تھی وہ مارٹن لنگز کی کتاب ( Muhammad_his life based on Early sources )
تھی۔ مارٹن چونکہ خود ایک نومسلم تھے اس لیے اُن کی تحریر میں مجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پوری طلاقت اور کامل پن کے ساتھ دیکھنے کو تو ملی ہی مگر ساتھ میں اس کتاب نے تہذیبی اعتبار سے مجھ پر بہت اثر ڈالا اور پہلی مرتبہ میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک مشفق باپ ، ایک اچھے دوست اور بہترین معلم کے روپ میں پایا۔
اس سے قبل میرے سامنے اُن کا خاکہ ایک جنگجو اور محض جنگجو کی صورت میں موجود تھا جو غیر مسلم مصنفین کی کتابوں سے میرے ذہن میں بیٹھ چکا تھا۔ اب جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میرے سامنے آئی تو میری آنکھیں کھلیں۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ جو کچھ بھی ہو، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اپنی شخصیت کے اعتبار سے نہایت طاقتور کردار کی مالک ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طاقتور کردار اور اُن کی خوبصورت زندگی مجھ سے تقاضا کررہی تھی کہ میں اُن کے بارے میں مزید مطالعہ شروع کردوں۔
سوال: تحقیق کے دوران کس چیز نے آپ کو سب سے زیادہ حیرت میں ڈالا؟
سیرت النبی کے مطالعے کے دوران ہند کی کہانی سے میں خاصا متاثر ہوا۔ اس واقعے نے میرے احساسات اور نظریات یکلخت بدل ڈالے۔ ہند جو ابوسفیان کی بیوی تھیں ، (نوٹ: دونوں میاں بیوی بعد میں اسلام لے آئے تھے۔) نے غزوہ احد کے موقع پر ایک آدمی کے ذریعے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کروانے کا منصوبہ بنایا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہیتے چچا تھے ، اس لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سے خاص طور پر محبت اور لگاؤ تھا۔ اسی بنا پر جب غزوہ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا گیا تو آپ علیہ الصلوات والسلام کو نہایت صدمہ پہنچا ۔ پھرحضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قتل بھی نہایت بے دردی سے کیا گیا تھا حتیٰ کہ اُن کے ناک کان تک کاٹ دیے گئے۔ ایسی صورتحال میں یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غم کی جس شدید حالت میں ہوں گے، اُس کا بیان کرنا مشکل ہے۔
بہرحال وقت گزرتا گیا اور کچھ برس بعد مسلمانوں نے مکہ کو فتح کرلیا۔فتح مکہ کے اس عظیم الشان موقع پر آپ علیہ الصلوات والسلام کو مکمل اقتدار اور طاقت حاصل تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں اسلام کے نفاذ کا اعلان کرڈالا۔چونکہ ہند رضی اللہ تعالی عنھا کا تعلق بھی مکہ سے تھا، اِس لیے جس دوران میں یہ واقعہ پڑھ رہا تھا تو میرے ذہن میں مسلسل یہ خیالات آرہے تھے کہ ابھی ہند کو تختہ دار پر لٹکادیا جائے گا یا کم از کم مسلمانوں کی طرف سے انہیں حراست میں تو ضرورلے لیا جائے گا۔
مگر جیسے جیسے میں آگے پڑھتا چلاگیا میری حیرت میں مزید اضافہ ہوتا چلاگیا۔ یہ پڑھ کر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر دشمنوں کی طرح حضرت ہند کے لیے بھی معافی کا اعلان کرڈالا۔ اور اس عظیم الشان معرکے کے موقع پر کسی بھی قسم کے خون بہانے سے منع کرڈالا۔ ایسے میں میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اگر کوئی اپنے اُس دشمن کو بھی معاف کرسکتا ہے جو اس کی محبوب ترین شخصیت کے کان اور ناک تک کٹوالے تو یہ آدمی یقیناً اعلیٰ کردار کا مالک اور اخلاق کی انتہائی بلندیوں پر فائز ہے۔
یہاں میں نے خود سے کہا کہ جس پایے کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق تھے اور کس قدر خوبصورت طرز کی اعلیٰ زندگی آپ نے گزاری وہ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے پر دلیل ہے۔ میں اسلام میں موجود ایک خدا کی وحدانیت پر تو پہلے سے ہی یقین کرچکا تھا اور اب کی بار اگر میں یہ بھی کہہ لیتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے نبی ہیں تو یہ تو مکمل کلمہء شہادت بن جائے گا اور میں تو گویا ایک طرح کا مسلمان کہلاؤں گا۔
مسلمان بننے کا سوچ کر مجھے جھرجھری سی آگئی اور میں نے کتابیں بند کرکے تحقیقات روکنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی اس تحقیق کے آخری مقام تک پہنچ کر اگرچہ میں اسلام قبول کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا تاہم میرے اندر اسلام کی وہ مخالفت برقرار نہیں رہی تھی جو اس سے قبل مجھے اسلام کے خلاف ایک کتاب لکھنے کے لیے تحریک فراہم کررہی تھی۔ میرے اندر اسلام کے متعلق خاصا نرم گوشہ پیدا ہوچکا تھا۔
پھر انہی دنوں ایک واقعہ پیش آیا جسے شاید آپ افسانے پر محمول کریں مگر یہ بالکل سچ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن جب میں اپنی کتابوں کو واپس شیلف میں رکھ رہا تھا تو شیلف میں جگہ کی کافی قلت تھی اور کتابوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ اس صورتحال میں چاروناچار مجھے کتابیں شیلف میں ٹھونسنا پڑرہی تھیں۔ اس موقع پر چند کتابیں شیلف میں جگہ نہ ملنے کے باعث نیچے لڑھک گئی۔ اور ان کتابوں میں سے ایک قرآن مجید بھی تھا۔ میں نے قرآن مجید کو بے خیالی میں اٹھا کر کھولا تو جو آیت میرے سامنے آئی تھی وہ سورۃ الحج کی آیت نمبر 46 تھی۔ میں نے آیت پڑھنا شروع کی تو گویا کسی نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہو۔ آیت کا آخری حصہ کچھ یوں تھا کہ:
فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ
(حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں)
مجھے لگا جیسے اس آیت نے میرے ہی اندر کا مسئلہ بیان کیا ہو۔ کیوں کہ میں واقعی اپنی آنکھوں سے تو دیکھ رہا تھا کہ اسلام کی یہ بات بھی برحق ہے اور فلاں عقیدہ بھی درست ہے ۔ چنانچہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھی اگر میں اسلام کی حقّانیت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے تو یقیناً میرے سینے میں موجود دل اندھا ہوچکا تھا۔
یہاں میں نے خدا کو پکارا ۔ اب چاہے وہ بائبل سے ہو یا قرآن سے، میں نے خداوند سے التجا کی کہ وہ مجھے کوئی ایسی نشانی دکھادیں یا کچھ ایسا طریقہ سجھا دیں جس کی بنا پر میں حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرکے کسی ایک رائے پر سوفیصد مطمئن ہوسکوں۔یہ دعا کرنے کے بعد جب میں بستر پر لیٹا تو نہایت پرسکون نیند سویا اور دوسرے دن صبح اٹھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ گویا میرے اندر کی تمام کشمکش اور اضطراب ختم ہوچکا ہے اور بے سکونی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ میں نے اپنے آپ کو مسلمان محسوس کیا اور اب مجھے دوسروں تک بھی اپنی یہ خبر پہنچانی تھی۔
سوال: جب آپ مسلمان ہوئے تو اردگرد موجود لوگوں نے کس ردِ عمل کا اظہار کیا؟
ردِ عمل کافی سخت اور منفی رہا۔ جب میرے انکلز اور آنٹیوں کو میرے قبولِ اسلام کی خبر ملی تو یہ لوگ بے حد نالاں ہوئے۔ والدہ نے تو یہ سنتے ہی رونا شروع کردیا البتہ میری بیوی نے کھلے دل اور وسیع ظرف کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ اگر تم اسلام کو واقعی حق جان کر اس پر یقین رکھتے ہو تو بھلا میں کون ہوتی ہوں اس معاملے میں دخل اندازی کرنے والی؟
میرے پرانے کام کے ساتھیوں نے کافی غیظ و غضب کا مظاہرہ کیا۔ اسی ضمن میں مجھے دو ہزار سے زیادہ موت کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں ۔ اپنے کئی مقربین سے مجھے اس قسم کے الفاط سننے کو ملے جو میری عزت اور ناموس پر ایک طرح کا براہِ راست حملہ تھا۔ دھمکی دینے والوں نے مجھے مارنے کے علاوہ میری بیوی کی عصمت دری اور بچوں کا اغوا کرنے سے متعلق دھمکیاں بھیجیں۔
سوشل میڈیا پر بھی مجھے دھمکی آمیز خطوط کا سامنا کرنا پڑا مگر یہ اکثر اُن لوگوں کی طرف سے ہوتا تھا جو کمپیوٹر کے سامنے بھیٹے بھیٹے جو جی میں آئے لکھ دیتے ہیں لہذا میں نے بھی اس طرف کوئی خاص توجہ نہ کی۔ تاہم اس موقع پر میرے لیے سب سے مشکل کام اپنے قبولِ اسلام کی خبر اپنے 94 سالہ دادا جان تک پہنچانا تھا ۔ میرے نانا اس وقت بسترِ مرگ پر تھے اور جان کنی کا عالم تھا۔ روح کسی بھی لمحے پرواز کرنے کو تیار تھی اور میں اُن کے بستر کے ساتھ لگا کھڑا سوچ رہا تھا کہ اپنے قبولِ اسلام کی خبر اُن تک کیسے پہنچاؤں ۔
کچھ دیر خاموش کھڑا رہنے کے بعد میں نے ہمت جمع کی اور آخر جی کڑا کرکے کہہ ڈالا کہ نانا جان! میں مسلمان ہوچکا ہوں ۔ میرا جملہ سنتے نانا نے آنکھیں بند کردیں اور جب کافی دیر تک کوئی جواب نہ دی تو مجھے تشویش سی محسوس ہوئی مگر اسی لمحے انہوں نے آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھ کر کہا : ‘چلو اچھا ہے کم از کم تم کیتھولک تو بنے۔
ایک اور بات جو مجھے میرے باس نے کہی ۔ باس نے مجھ سے پوچھا کہ اس بات کا کیا یقین ہے کہ کل کلاں کو تم ہندو نہ بن جاؤ یا اور اسلام چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرلو۔
میں نے باس سے کہا کہ یہ پہلی بار ہے جب مجھے حقائق کی روشنی اور مکمل بصیرت کے ساتھ اپنے لیے کسی ایک مذہب کے چناؤ کا اختیار ملا تھا ۔ جبکہ اس سے پہلے میں روایتی بندھن تلے جڑے ہونے کی وجہ سے ایک مخصوص نظریے کی پیروی پر مجبور تھا۔ دوسرا عیسائی ہوتے وقت میرے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ عیسائیت ہی محض حق ہے بلکہ میں اُس وقت بھی مسلسل حق کی تلاش میں سرگرداں رہا ۔ آخرکار یہی تلاش اور جستجو تھی، جس نے مجھے اسلام کی راہ دکھلائی۔ اسلام تک پہنچ جانے کے بعد میری جستجو کا سفر ختم ہوچکا ہے اور میری تلاش مکمل ہوچکی ہے۔ میں نے وہ پالیا جسے میں کھوج رہا تھا۔ اب بھلا اس مقام پر میں کیوں پیچھے مڑکر دیکھوں اور ایک بار پھر باطل عقائد و نظریات کی طرف چلنا شروع کروں۔ یہ تو گویا منزل پر پہنچ کر پھر سے راستوں پر چلنے کی تمنا کرنے جیسا ہوجائے گا ۔ اس طرح کرنے سے منزلیں کھوٹی ہوجایا کرتی ہیں اور مسافر بھی نشانِ منزل کھوبھیٹتے ہیں۔
باس یہ سن کر چپ ہورہا اور پھر کچھ نہیں بولا۔
سوال: اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے کے لیے کیا طریقہ کار یا اسلوب اختیار کیا جائے؟ کیا آپ محض گوگل پر سرچ کرنے کی تجویز دیں گے یا کچھ اور بھی؟
دیکھیں سچی بات تو یہ ہے کہ میں صرف گوگل سے سرچ کرنے کو تحقیق کا نام نہیں دینا پسند کروں گا اور نہ ہی کسی کو یہ مشورہ دوں گا کہ وہ گوگل سے سرچ کرکے اسلام کے متعلق معلومات کا ذخیرہ اکٹھا کرے۔ بلکہ ایک تحقیقی ذہن والے آدمی کو چاہیے کہ وہ کتابوں کا مطالعہ کرے۔ مضامین کو بغور پڑھے۔ کاغذ پر لکھی گئی تحاریر کو پرکھے اور ان کے مندرجات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اسی ضمن میں میں مارٹن لنگز کی سیرت کے موضوع پر تحریر کردہ کتاب (Muhammad_ his life based on early sources ) کا بھی حوالہ دینا پسند کروں گا۔ میری خواہش ہوگی کہ ہر وہ آدمی جو اسلام کے متعلق تحقیق کرنا چاہتا ہے کم ازکم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ کی سیرت کا مطالعہ ضرور کرلے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اسے اسلام کی عملی تصویر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں دیکھنے کو مل جائے گی۔ ہمارے ہاں اکثر پہلے پہل قرآن کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرکے اسلام کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر قرآن کچھ اس قدر بھی عام کتاب نہیں کہ اس کا ہر ایک حکم یا نکتے فوراً سے سمجھ میں آجائے بلکہ بعض اوقات اپنی ذاتی کج فہمی کی بنا پر قرآن کا محض مطالعہ کرنے والے اس کی ہدایات سے کچھ کا کچھ معنی نکال لیتا ہے جو اکثر غلط ثابت ہوجاتے ہیں. ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے قرآن کے پسِ منظر کو سمجھا جائے تاکہ اس کی روشنی میں قرآنی تعلیمات تک صحیح طور پر رسائی ہوسکے۔ یوں سب سے بہتر حل یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ معروضی انداز میں کرلیا جائے کہ آپ علیہ الصلوات والسلام کی زندگی قرآن کی بہترین عکاس اور اعلی مظہر ہے۔
اس طرح سے آپ کو مسلمانوں کی عملی زندگی کے متعلق بھی جاننے کا علم ہوگا۔ ہاں، یہ کوشش ضرور کریں کہ مسلمانوں کے رویوں اور انداز کو جانچ کر فیصلہ نہ کریں کیوں بہت سے ایسے مسلمان ہیں جن کی عملی زندگی اسلام کی تعلیمات کو صحیح طور پر پیش نہیں کرتی. میں خود اُن مسلمانوں میں سے ایک ہوں جن کی زندگی اسلام کی تعلیمات کی مکمل پیروی سے دور ہے. البتہ سب سے اعلی مسلمان اور اسلام کی تعلیمات کے بہترین مظہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پڑھ کر آپ اسلام سے متعلق ضرور فیصلہ کریں۔ اِن شاءاللہ پیارےرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے آپ کو حقیقی روشنی حاصل ہوگی۔ ایسی روشنی جو آپ کی جستجو کے سفر کو ختم کرکے آپ کو درست منزل تک لا کھڑا کرے گا۔ ایسے میں اسلام کے خلاف نہ ہی کوئی اشکال باقی رہے گا اور نہ ہی کسی قسم کا خطرہ محسوس ہوگا۔
—- (الحمدللہ)
———————————————————————–
محمد عکاشہ، بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ کے ساتھ وابستہ ہیں۔
(6) Muhammad Ukasha | Facebook
جزاک اللہ خیرا