25دسمبر1876ءکو وزیرمینشن کراچی میں واقع ایک کرائے کے مکان کی دوسری منزل میں رہائش پذیر جوڑے کے ہاں ایک چاند سے بچے کی پیدائش ہوئی اپنا پرایا جو اس کو دیکھتا اس کی بلائیں لیتا اوربے اختیار اس کی طرف مائل ہوتا چلا جاتا۔
اگرچہ جسمانی طور پر یہ بچہ بہت زیادہ صحتمند نہ تھا تاہم خوش بختی کے آثار اس کی پیشانی میں عیاں تھے۔ماں پاپ نے اپنے اس سعادت مند بچے کا نام “محمدعلی “تجویز کیا۔جوں جوں ماہ وسال گذرتے جاتے اس کی غیرمعمولی ذہانت وفطانت بھی دن بدن نکھرتی جاتی۔
لکھنے پڑھنے کی عمر کو پہنچا تو والدین نے اپنے نورنظر کو مکتب کی راہ دکھلائی ۔اور سندھ مدرسة الاسلام جیسی عظیم درسگاہ میں داخل کروا دیا مکتب میں پہنچنا تھا کہ محنت وفرما نبرداری کے سبب اساتذہ کی توجہ کا مرکز ٹھہرا گوہرشناس اساتذہ پہلی نظر ہی میں اس گوہرنایاب کی صلاحیتوں کوبھانپ گئے۔
قلم وکتاب کا رسیا یہ بچہ اپنے دامن میں علم وحکمت کے موتی سمیٹتا رہا اور اپنی قابلیتوں کا لوہا منواتا رہا۔سارا شہرخواب خرگوش کے مزے لے رہا ہوتا لیکن محمد علی کی آنکھوں میں نیند نہ آتی وہ رات دیرتک پڑھائی میں مصروف رہتا اس لئے کہ اسے پڑھ لکھ کراپنی قوم کو خواب غفلت سے بیدارکرنا تھا ۔
علم سے والہانہ لگاو اورغیرمعمولی دلچپسپی کے باعث اس مستقبل کے درخشندہ ستارے نے لندن کی مشہورزمانہ ”لنکزان“یونیورسٹی میں قانون کے شعبہ میں داخلہ لے لیا اورجب اس سے لنکزان یونیورسٹی کو دوسری یونیورسٹیوں پرترجیح دینے کی وجہ پوچھی گئی تو اس کاجواب قابل رشک تھا اس کا کہنا تھا کہ اس ادارہ میں دنیا کے عظیم قانون سازوں( Law givers)کے اسمائے گرامی میں میرے آقاومولی نبی کریم ﷺکا اسم گرامی سب سے پہلے نمبرپرموجودہے۔اس سے محمد علی کی اپنے دین ومذہب سے سچی محبت کا پتہ ملتا ہے۔
یورپ کے مادر پدر آزاد ماحول میں اس نے کبھی اپنی مشرقی اقداروروایات سے بغاوت نہیں کی۔بلکہ۔اپنے اخلاق وہمدردی کے جذبات کی وجہ سے دوسروں کو اسلام سے متاثرکرنےکا ذریعہ بنا۔قابلیت کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہ تھا یہ یونیورسٹی میں بھی ایک لیڈرکے روپ میں نظر آیا ہرکوئی اسی کے گن گاتا 1896 ءمیں وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعدمحمد علی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر واپس برصغیر پہنچا۔اور وکالت کا شعبہ اختیارکیا19سال کی عمرمیں برطانیہ میں سب سے کم عمربریسٹرکہلانے والایہ پہلانوجوان جب واپس اپنے وطن پہنچا تواس نے اپنی قابلیت اورمہارت کے ذریعہ سب کوورطہ حیرت میں ڈال دیا۔وکالت میں اس کوئی ثانی نہ تھا انتہائی دقیق اورگنجلک مقدمات کی گھتیوں کو سلجھانا اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
وہ دور سلطنت برطانیہ کے برصغیرپرتسلط کا تھا اورمسلمان اورہندودونوں کو اس نے غلام بنا رکھا تھا جس کی وجہ سے بے چینی اوربدامنی کی فضا تھی۔ان حالا ت وواقعات نے محمد علی کوسیاست میں دلچسپی لینے پرمجبورکردیا اوروہ ایک پڑھا لکھا باشعور کڑیل جوان تھاوہ گوروں کے ہتک آمیزاورامتیازی سلوک کی وجہ سے بہت دلبراداشتہ تھا۔بطوربہترین وکیل اس کا چرچاسب سے زیادہ اس وقت ہو اجب سرفیروزشاہ کے سیاسی مقدمے میں اس نے فتح حاصل کی تھی۔محمدعلی کی اس فتح سے مسلمان اورہندوبہت متاثر تھے اورانہیں اس باہمت جوان میں امید کی کرن نظرآئی۔چنانچہ آپ کی سیاسی بصیرت کو بھانپتے ہوئے ہندوستان کے معروف رہنما بال گنگا دھر نے محمد علی کو سلطنت برطانیہ کی جانب سے دائر کئے نقص امن کے مقدمے کی پیروی کے لئے دفاعی مشیرقانون مقررکردیا۔
اس مقدمہ میں محمد علی نے دلائل کے انبارلگا دیے اورحاضرین کو اس بات کا پورا یقین ہوگیا کہ فتح انہی کی ہوگی لیکن انگریزجج نے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بال گنگا دھر کو قید بامشقت کی سزاسنادی۔لیکن ان حالات نے محمد علی کے جذبہ کوپست ہونے کی بجائے مزید جلا بخشی اوربرطانیہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے 1913میں اس وقت کی بڑی جماعت کانگریس میں شمولیت کی اورمسلمانوں اورہندو ¿وں کے حق آزادی کے لئے آوازبلندکی لیکن کا نگریس کی درپردہ برطانیہ کے ساتھ وابستگی اورمسلمانوں سے نفرت بارے جب ان کو ادراک ہوگیا تو انہوں نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرکے 1913 میں باقاعدہ مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکرلی۔
آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کے باعث 1913ءمیں لکھنو میں ہونے والے اجلاس میں آپ کو مسلم لیگ کا صدرنامزدکردیا گیا۔اوریوں برصغیر کے شکستہ دل مسلمانوں کو آپ کی شکل میں ایک قائدورہبر مل گیاآپ کی زیرقیادت مسلمانوں نے دن رات ایک کرکے محنت کی اورپھر 1940ءتک محمد علی کو اس بات کاپختہ یقین ہوگیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن حاصل کئے بغیر کوئی چارہ کارنہیں۔چنانچہ 23مارچ 1940 ءکولاہورکے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس کے اختتام پروہ تاریخی قرارداد منظور کرلی گئی جس کی بنیاد پرمسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے حصول کے لئے تحریک شروع کی اورسات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
اوربلآخر14اگست 1947ءکو برصغیر کے مسلمانوں کو محمدعلی کی قیادت میں پاکستان جیسی پاک سرزمین ملنے کا خواب شرمندہ تعبیرہوا۔آزادی کی اس لازوال نعمت کے حصول میں محنت کرتے کرتے محمد علی کی جوانی اگرچہ ڈھل چکی تھی اوروہ انتہائی نحیف ہوچکے تھے مگر ان کاجذبہ کووہ ہمالیہ سے بھی بلندترتھا۔اس لئے کہ اب وہ صرف محمدعلی نہیں بلکہ قائداعظم محمدعلی جناح تھے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے بعدبرصغیر نے قائداعظم سے عظیم مسلمان لیڈر پیدانہیں کیا۔قائداعظم محمد علی جناح اپنے مقصدحیات کی تکمیل کے بعد 11ستمبر1948ءکو اس دارفانی سے مفارقت دے کراپنے خالق حقیقی سے جاملے۔لیکن جب تک پاکستان باقی ہے قائداعظم کا نام زندہ وجاوید رہے گا۔
مسلم لیگ کی قیادت ١٩١٦ میں قبول کی تھی قائداعظم نے؟ 🤔
غلطی کی نشاندہی کا بہت شکریہ
درست تاریخ 1913 ہے