علی حمزہ افغان
نماز تراویح کے متعلق میری تحقیق یہ ہے کہ:
- رمضان کی راتوں میں مطلقا قیام کرنا سنت ہے اور اسکی دلیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے قیام کی ترغیب دلانا اور خود تین راتیں با جماعت یہ قیام کرنا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيمَةٍ، فَيَقُولُ: ” مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ “. [ صحيح البخاري: ٣٧، صحيح مسلم: ٧٥٩، الموطا :٣٠٠ و اللفظ له]
ترجمہ: – ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے قیام کی ترغیب دلاتے تھے بغیر اس کے کہ ان پر اسے لازم کریں اور فرمایا کرتے تھے: “جس نے رمضان کا قیام ایمان اور اجر کے حصول کی نیت سے کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔”
أخبرني عروة أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ وَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّوْا مَعَهُ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ : ” أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ، وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا “. فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ. [صحيح البخاري: ٢٠١٢، صحيح مسلم: ٧٦١]
ترجمہ :- عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ایک حصے میں تشریف لے گئے اور مسجد میں نماز ادا کی اور لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز ادا کی ، جب صبح ہوئی تو لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا ، تو اگلی رات پچھلی دفعہ سے زیادہ لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے نماز ادا کی ، جب صبح ہوئی تو لوگوں میں چرچا ہوا تو تیسری رات مسجد میں لوگوں کی کثرت ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انہوں نے آپ کے پیچھے نماز ادا کی ، چوتھی رات تو مسجد لوگوں سے بھر گئی یہاں تک کہ صبح ہوگئی ، جب فجر (کی نماز ختم ہوگئی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا : “ مجھ پر تم لوگوں کا حال مخفی نہیں تھا مگر مجھے یہ ڈر لگا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہوجائے اور پھر تم عاجز آجاؤ ۔” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک پھر ایسا ہی رہا ۔
- یہ قیام تراویح اور تہجد دونوں سے حاصل ہوجاتا ہے:
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَالْمُرَادُ مَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ مَا يَحْصُلُ بِهِ مُطْلَقُ الْقِيَامِ كَمَا قَدَّمْنَاهُ فِي التَّهَجُّدِ سَوَاءٌ وَذَكَرَ النَّوَوِيُّ أَنَّ الْمُرَادَ بِقِيَامِ رَمَضَانَ صَلَاةُ التَّرَاوِيحِ يَعْنِي أَنَّهُ يَحْصُلُ بِهَا الْمَطْلُوبُ مِنَ الْقِيَامِ لَا أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ لَا يَكُونُ إِلَّا بِهَا. [ فتح الباري: ٢٥١/٤]
ترجمہ: – اور قیام الیل سے مراد ہے جس سے مطلقا قیام حاصل ہوجائے جیسا کہ ہم نے پہلے تہجد میں ذکر کیا ہے، اور النووی نے ذکر کیا کہ رمضان کے قیام سے مراد ہے نماز تراویح یعنی اس سے بھی مطلوب حاصل ہوجاتا ہے، یہ نہیں کہ قیام رمضان اس کے بغیر ہوتا ہی نہیں۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان میں دو الگ قیام یعنی تہجد اور تراویح علیحدہ سے ثابت نہیں ہے بلکہ آپ رمضان میں اور غیر رمضان میں ایک ہی قیام کرتے تھے اور وہ وتر سمیت گیارہ رکعات پر مشتمل ہوتا تھا:
عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهَا عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ قَالَ: ” يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي “. [ صحيح البخاري: ٢٠١٣، صحيح مسلم: ٧٣٨]
ترجمہ: – ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسی ہوتی تھی؟ تو آپ نے فرمایا: وہ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں فرمایا کرتے تھے، چار رکعات ادا کرتے تو ان کی لمبائی اور حسن کا نہ پوچھو، پھر چار رکعات ادا کرتے رو ان کی لمبائی اور حسن کا مت پوچھو، پھر تین رکعات ادا فرماتے، تو میں عرض کرتی، یا رسول اللہ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ فرمایا: “اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں مگر دل نہیں “۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس روایت کو اپنی صحیح کی کتاب التراويح میں بھی لے کر آئے ہیں اور اسی حدیث کے تحت امام ابن حجر لکھتے ہیں:
وَأما مَا رَوَاهُ بن أبي شيبَة من حَدِيث بن عَبَّاسٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ فَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ وَقَدْ عَارَضَهُ حَدِيثُ عَائِشَةَ هَذَا الَّذِي فِي الصَّحِيحَيْنِ مَعَ كَوْنِهَا أَعْلَمَ بِحَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا مِنْ غَيرهَا وَالله أعلم. [ فتح الباري: ٢٥٤/٤]
ترجمہ: – اب جو ابن ابی شیبہ نے ابن عباس کی حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات اور وتر ادا کرتے تھے تو اس کی اسناد کمزور ہیں اور اسکے مقابل میں یہ حدیث عائشہ ہے جو صحیحین میں ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ وہ (حضرت عائشہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کی حالت کے بارے میں غیروں سے زیادہ جانتی ہیں۔
معلوم ہوا کہ یہ حدیث تراویح کے بارے میں ہی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک رات میں گیارہ رکعات سے زیادہ قیام ثابت ہی نہیں ہے اور نہ ہی تراویح اور تہجد علیحدہ سے ثابت ہیں۔
علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولا مناص من تسليم أن تراويحه كانت ثمانية ركعات ولم يثبت في رواية من الروايات أنه صلى التراويح والتهجد على حدة في رمضان بل طول التراويح، وبين التراويح والتهجد في عهده لم يكن فرق في الركعات بل في الوقت والصفة أي التراويح تكون بالجماعة في المسجد بخلاف التهجد، وإن الشروع في التراويح يكون في أول الليل وفي التهجد في آخر الليل نعم ثبت عن بعض التابعين الجمع بين التراويح والتهجد في رمضان، ثم مأخوذ الأئمة الأربعة من عشرين ركعة هو عمل الفاروق الأعظم، وأما النبي – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فصح عنه ثمان ركعات، وأما عشرون ركعة فهو عنه بسند ضعيف وعلى ضعفه اتفاق. [العرف الشذي: ٢٠٨/٢]
ترجمہ :- اس بات کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ آپ کی تراویح ۸ رکعات تھی ، اور کسی روایت سے یہ ثابت نہیں آپ نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ سے ادا کی ہو بلکہ تراویح کا طول منقول ہے ، اور آپ کے عہد میں تراویح اور تہجد کی رکعات نہیں بلکہ وقت اور صفت میں فرق تھا یعنی تہجد جماعت سے مسجد میں ادا کی جاتی تہجد کے بر خلاف ، اور تراویح کا آغاز رات کے آغاز میں ہوتا جبکہ تہجد کا آخری پہر ، ہاں البتہ بعض تابعین سے رمضان میں تروایح اور تہجد جمع کرنا ثابت ہے ، پھر ائمہ اربعہ نے جو بیس رکعات لی ہیں وہ فاروق اعظم (سیدنا عمر ) کے عمل سے لی ہیں ، جہاں تک بات ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ان سے ۸ رکعات صحیح سند سے ثابت ہیں اور جو بیس رکعت والی روایت ہے وہ ضعیف ہے اور اسکے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے ۔
علامہ کشمیری ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
قال عامَّة العلماء: إنَّ التراويحَ وصلاةَ اليل نوعانِ مختلفان. والمختار عندي أنهما واحدٌ وإن اختلفت صفتاهما
ترجمہ: – عام علما کہتے ہیں کہ تراویح اور صلاة الليل دو مختلف نمازیں ہیں، اور جو بات میرے نزدیک درست ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک ہی قسم ہے چاہے ان کی صفات مختلف ہیں۔
تھوڑا آگے جاکر فرماتے ہیں:
بل كانت تلك صلاةً واحدةً، إذا تقدَّمت سُمِّيت باسم التراويح، وإذا تأخَّرت سُمِّيت باسم التهجُّد. [ فيض الباري: ٥٦٧/٢]
ترجمہ: – بلکہ یہ ایک ہی نماز تھی، جب پہلے پڑھی جائے تو اس کا نام تروایح اور جب دیر سے ادا کی جائے تو یہ تہجد کہلاتی ہے ۔
علامہ کشمیری نے اس جگہ پر بڑی تفصیلی بات ذکر کی ہے جو پڑھنے کے قابل ہے، جو مکمل پڑھنا چاہتا ہو اسے فیض الباری سے یہ جگہ پڑھنی چاہیے ۔
- تراویح یا قیام رمضان کی مختلف رکعات سلف سے منقول ہیں: ۸، ۲۰، ۳۶ اور یہاں تک کہ ۴۰، تو جو جتنی رکعات ادا کرنا چاہے ادا کرسکتا ہے (جس نے ان مختلف رکعات کی تعداد کے دلائل دیکہنے ہوں وہ مؤطا مالک، المصنف لابن ابی شیبہ اور سنن الکبری للبیہقی کے قیام رمضان کے باب کا مطالعہ کرلے) ۔
ابن مفلح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ذکر کرتے ہیں:
وَقَالَ شَيْخُنَا إنَّ ذَلِكَ كُلَّهُ، أَوْ إحْدَى عَشْرَةَ، أَوْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ حَسَنٌ، كَمَا نَصَّ عَلَيْهِ أَحْمَدُ لِعَدَمِ التَّوْقِيتِ، فَيَكُونُ تَكْثِيرُ الرَّكَعَاتِ، وَتَقْلِيلُهَا بِحَسَبِ طُولِ الْقِيَامِ وَقِصَرِهِ. [ كتاب الفروع: ٣٧٢/٢]
ترجمہ: – ہمارے شیخ نے فرمایا: یہ سب (۲۰ یا ۳۶ رکعات) یا گیارہ یا تیرہ، سب اچھا ہے، جیسا کہ (امام) احمد نے واضح فرمایا ہے کہ اس میں کوئی خاص حد نہیں سو رکعات کی کثرت اور قلت قیام کے طول وقصر پر مبنی ہے ۔
اور اس میں یہ تطبیق بھی دی جا سکتی ہے کہ ۸ رکعات تک تو قیام سنت ہے اور پہر بیس تک مستحب ہے کیونکہ وہ خلفائے راشدین کا طریقہ ہے جیسا کہ الكمال ابن الهمام رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ سُنَّةٌ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَةٍ فَعَلَهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – ثُمَّ تَرَكَهُ لِعُذْرٍ، أَفَادَ أَنَّهُ لَوْلَا خَشْيَةَ ذَلِكَ لَوَاظَبْت بِكُمْ، وَلَا شَكَّ فِي تَحَقُّقِ الْأَمْنِ مِنْ ذَلِكَ بِوَفَاتِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَيَكُونُ سُنَّةً، وَكَوْنُهَا عِشْرِينَ سُنَّةُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَقَوْلُهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ» نَدْبٌ إلَى سُنَّتِهِمْ، وَلَا يَسْتَلْزِمُ كَوْنَ ذَلِكَ سُنَّتَهُ. إذْ سُنَّتُهُ بِمُوَاظَبَتِهِ بِنَفْسِهِ أَوْ إلَّا لِعُذْرٍ، وَبِتَقْدِيرِ عَدَمِ ذَلِكَ الْعُذْرِ إنَّمَا اسْتَفَدْنَا أَنَّهُ كَانَ يُوَاظِبُ عَلَى مَا وَقَعَ مِنْهُ وَهُوَ مَا ذَكَرْنَا فَتَكُونُ الْعِشْرُونَ مُسْتَحَبًّا وَذَلِكَ الْقَدْرُ مِنْهَا هُوَ السُّنَّةُ كَالْأَرْبَعِ بَعْدَ الْعِشَاءِ مُسْتَحَبَّةٌ وَرَكْعَتَانِ مِنْهَا هِيَ السُّنَّةُ. [ فتح القدير :٤٦٨/١]
ترجمہ :- قیام رمضان سنت گیارہ رکعات ہے وتر کے ساتھ جماعت میں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے۔ پھر آپ نے عذر کی بنا پر ترک فرمادی اور یہ بتادیا کہ اگر وہ ڈر نہ ہوتا تو میں تم لوگوں کے ساتھ مواظبت اختیار کرتا ، اور کوئی شک نہیں کہ وہ ڈر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے ختم ہوگیا – تو یہ (قیام) سنت ہوا اور اسکا بیس رکعات ہونا آپ کے خلفائے راشدین کی سنت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے سو ان کی سنت آپ کی سنت کے ساتھ مستحب ہوئی اور اس سے اس کا آپ کی سنت ہونا لازم نہیں آتا ۔۔ لہذا بیس رکعات مستحب ہوئیں اور اس میں اس قدر (یعنی ۸ رکعات) سنت ہے جیسا کہ عشاء کے بعد چار رکعات مستحب ہیں اور اس میں سے دو رکعات سنت ہیں ۔
لہذا تروایح باقاعدہ با جماعت اور بیس رکعات سے مستحب ہیں اور قیام رمضان مطلقا اور ۸ رکعات سے سنت ہے اور چاہے تو بندہ ۸ تک ادا کرے یا پھر بیس یا چالیس تک جا سکتا ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالے سے اوپر ذکر ہوا ہے۔
یہ نمازتراویح کے متعلق میری تحقیق ہے، والله اعلم بالصواب.
کمنت کیجے