Home » یاجوج ماجوج اور ذو القرنین
تاریخ / جغرافیہ

یاجوج ماجوج اور ذو القرنین

 

(اعتدال کا نکتہء نظر اور قرآنی ابہامات کا حکیمانہ سبق)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

 

یاجوج ماجوج کے بارہ میں متوازن رائے

یاجوج و ماجوج کے بارہ میں علامہ انور کشمیری اور مفتی محمد شفیع  کی رائے یہ ہے کہ ضروری نہیں، وہ اب تک سد ذو القرنین کے اندر پڑے ہوں، بلکہ ممکن ہے وہ دیوار ٹوٹ چکی ہو اور وہ باقی انسانی آبادیوں میں گھل مل چکے ہوں، وہ روایت جس کے مطابق یہ دیوار آخر تک باقی رہنی ہے، علامہ کشمیری کے بقول ضعیف اور مشتبہ ہے، اس سے کوئی یقینی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ باقی اگر وہ انسانی آبادیوں میں گھل مل چکے ہیں تو وہ کون ہیں، اگرچہ بعض علماء نے اس پر کچھ کلام کی ہے، تاہم صحیح بات یہ ہے کہ اس بات کا تعین کرنے کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں، بس اپنے لیے اتنا اعتقاد کافی ہے کہ وقتِ موعود پر ان کا ایک مخصوص وحشیانہ ”خروج وظہور“ بہرحال ہوجائے گا جیساکہ حدیث میں مذکور ہے۔ واضح رہے کہ علامہ کشمیری کی رائے پر مولانا گیلانی نے بھی کچھ کلام کی ، لیکن وہ  کچھ اور باتیں بھی کہہ گئے جو ضعیف ہیں، ان کا کچھ ذکر آئندہ سطور میں  ہوگا۔

ایک شبہ کا جواب

ایک دوست نے لکھا کہ یہ قضیہ تاہنوز لا ینحل ہے، مذکورہ تشریح غیر تسلی بخش ہے، ہمیں حل کی کوشش کرنی چاہیے، کافی سارا مطالعہ کرکے بھی مجھے تشفی نہیں ہورہی۔ بندہ نے جواب دیا کہ میں نے جو تنقیح لکھی، اس کے کس پہلو پر آپ کو کیا اشکال ہے؟ انہوں نے لکھا کہ ”آپ نے جو احتمال ذکر کیا ہے، یہ نصِ حدیث کے صریح برعکس ہے، اسلامی تعلیمات میں ہے کہ وہ سدِ سکندری توڑ کر نکلیں گے اور نکلتے ہی تباہی مچائیں گے، لشکر لشکر جائیں گے اور پہلا لشکر ایک بحر کو ایسا پی لیں گے کہ دوسرے لشکر کو گمان بھی نہیں ہوگا کہ یہاں کوئی بحر بھی تھا، وہ پوری دنیا میں پھیل جائیں گے یہاں تک کہ مسلمان عیسی علیہ السلام کے ساتھ کوہ طور پر چڑھ کر انہیں بددعا دینگے تو ان کی بددعا سے اپنی موت آپ مرجائیں گے، ان میں سب سے زیادہ لمبے ایک ہاتھ کے برابر ہوں گے اور باقی ایک بالشت ہوں گے۔“

جوابا لکھا کہ یہاں دو باتیں گڈ مڈ ہورہی ہیں، ایک ہے یہ بات کہ یاجوج ماجوج کون ہیں؟ دوسرا یہ کہ یاجوج ماجوج قرب قیامت میں کیا تباہیاں مچائیں گے؟ ان دونوں حوالوں سے جو کام سب سے پہلے کرنے کا ہے، وہ ہے احادیث میں صحیح وضعیف اور معتبر وغیر معتبر کی تفریق۔ آپ صرف صحیح ومعتبر احادیث کی روشنی میں بتائیں کہ ان میں ایسی کون سی بات مذکور ہے جو سد کے قیامت تک باقی رہنے کو مستلزم ہو یا سامنے موجود اقوام میں سے کسی قوم کے یاجوج ماجوج ہوسکنے کے احتمال کے خلاف ہو۔ یہ روایت کیا صحت سند کے ساتھ ثابت کی جاسکتی ہے کہ ان میں بعض بہت لمبے، جبکہ بعض ایک ہاتھ یا بالشت کے برابر ہوں گے؟ میرے خیال میں شاید نہیں۔ رہ گئیں باقی باتیں جو ان کی قرب قیامت کی تباہیوں سے متعلق ہیں، تو ان میں جو جو باتیں صحیح السند احادیث کے اندر مذکور ہیں، ان کا انکار جائز نہیں، لیکن ان میں سے کون سی بات ایسی ہے جو قیامت تک سد کے باقی رہنے کو مستلزم ہو یا سامنے موجود اقوام میں سے کسی قوم کے ہی درحقیقت یاجوج ماجوج ہونے کے احتمال کے خلاف ہو؟ باقی احادیث میں اگر ان کے لیے قرب قیامت کے اندر خروج کرنے کا لفظ کہیں وارد ہوا تو وہ شاید احتمالی طور پر بمعنی ظہور کے بھی ہوسکتا ہے اور اسی وجہ سے میں نے خروج کے ساتھ ظہور کا لفظ بطور  وضاحت  کے لکھا۔

کیا یاجوج ماجوج انسان نہیں ہیں؟

ایک دوست نے لکھا کہ کچھ لوگ  آجکل یاجوج ماجوج کو غیر زمینی اور غیر انسانی مخلوق ثابت کر رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اتنا پانی پی جانا کوئی انسانی فعل نہیں اور غیر زمینی اس لئے ہیں کہ  دیوار اگر چاروں طرف ہے تو پھر کچھ کہہ نہیں سکتے مگر دیوار دو پہاڑوں کے درمیان بنائی گئی تھی تو وہ گھوم کے آجاتے، وہ نہیں آئے  تواس کا مطلب ہے کہ وہ کسی اور سیارے پر ہیں۔ آپ اس بارہ میں کیا کہنا چاہیں گے؟ جواب دیا کہ سب سے پہلا کام تو کرنے کا وہی ہے کہ احادیث میں صحیح اور ضعیف کا فرق کیا جائے، بعد ازاں جو صحیح احادیث ہیں، اگر ان پر کسی کو اشتباہ ہے تو وہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کتنا صحیح ہے اور کتنا غلط۔ سب سے بڑا اعتراض ان کے زمینی اور انسانی وجود پر جو اٹھتا ہے، وہ غالبا وہی دیوار کے تاقیامت قائم رہنے اور ان کے اس دیوار کے اندر محصور رہنے کے حوالہ سے ہے۔ اس کا جواب دیا ہے کہ اس دیوار کے تاقیامت قائم رہنے کی بات بعض روایتی علماء کے نزدیک بھی پایہء ثبوت کو نہیں پہنچتی، انہیں غیر انسانی مخلوق کہنے کا قول بظاہر بہت بعید معلوم ہوتا ہے۔

باقی رہ گئی بات کہ دیوار بنانے کا فائدہ کیا تھا، وہ گھوم کر بھی آسکتے تھے تو میرے خیال میں اس کا جواب موقع ومحل اور اس وقت کے انسان کی صلاحیتی استعداد پر منحصر تھا۔ ممکن ہے کہ پہاڑ بہت بلند ہوں اور پہاڑی سلسلہ بہت طویل، جس کی وجہ سے چکر کاٹ کر دوسری جانب آسانی سے آنا ناممکن رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ خود ان کے شرور سے تنگ آئی قوم کا ذو القرنین سے سد بنانے کا مطالبہ بلاوجہ تو نہیں ہوگا اور نہ ہی خود ذو القرنین نے یہ بلاوجہ بنائی ہوگی۔ واللہ اعلم

یاجوج و ماجوج کا جغرافیہ اور قرآن

بارہا تجربہ ہوا کہ قرآن کا بیان ہی نہیں، اس کا ابہام بھی اپنی ذات میں ایک معجزہ ہوتا ہے اور اس میں عجیب وغریب اسرار وحکمتیں چھپی ہوتی ہیں۔ اب یہی یاجوج ماجوج کا معاملہ لیجیے، قرآن نے ذو القرنین کی تین مہمات کا ذکر کیا اور ان میں سے دو مہمات کی سمت کی طرف بھی کچھ اشارہ سا کیا، لیکن جب باری آئی اس سمت کی جس میں یاجوج و ماجوج کا ذکر ہے تو وہاں سمت کا ذکر حذف کردیا۔ جانتے ہیں کہ کیوں؟ شاید اس لیے کہ پھر لوگ تجسس کے مارے ان کا تعین کرنے اور ان کو ڈھونڈنے کے لیے اس سمت کو نہ نکل کھڑے ہوں، جبکہ ان کا حقیقی تعارف شاید خفاء میں رکھنا مقصود تھا۔ ذرا سوچیے کہ اگر ان کا تعین ہو جائے تو اس میں ہمارا کیا دینی یا دنیاوی مفاد ہے اور یہ تعین ہوجانے کی صورت میں ابراہیمی مذاہب کے پیروکار لوگ جو قربِ قیامت میں یاجوج ماجوج کی فتنہ اندازی پر یقین رکھتے ہیں، انہیں کس نگاہ سے دیکھتے اور خود وہ قوم پھر ابراہیمی مزاہب کو کس نگاہ سے دیکھتی اور کیا وہ لوگ دین اسلام کو خوش دلی سے پڑھنے سمجھنے کے لیے آمادہ ہوپاتے۔ اللہ کے کلام میں عجیب وغریب حکمتیں ہیں۔ اس کا بیان ہی نہیں، اس کا ابہام بھی کئی اسرار کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کی معجزانہ ادائیں عموما کم توجہی کی نذر ہوجاتی ہیں۔

ایک دوست نے لکھا کہ اگر من کل الوجوہ ابہام ہی رکھنا مقصود ہوتا تو یاجوج ماجوج کا تذکرہ ہی نہ کیا جاتا اور حدیث میں بھی شاید اس طرح نہ کہا جاتا کہ  اکثر یاجوج ماجوج اہلِ جہنم میں سے ہوں گے۔ جواب دیا کہ اکثر اہلِ جہنم والی بات تو صحابہ کی تسلی کے لیے تھی شاید کہ وہ اکثریت تم نہیں ہو اور یہ مقصد حاصل ہوگیا۔ باقی اس کے علاوہ یاجوج ماجوج کا جو ذکر آیا تو اس سے مقصود بہت دفعہ شاید قربِ قیامت کی ہول ناکیوں پر روشنی ڈالنا ہے اور وہ بھی گویا ابہام کے ساتھ حاصل ہے۔

یاجوج ماجوج کے حوالہ سے ایک افراط

(انجینئر مختار فاروقی کے نام بندہ کا ایک مکتوب)

یاجوج ماجوج کی تعیین اور ان کے خلاف تعمیر کی گئی سد کا جغرافیہ متعین کرنے کے پیچھے پڑنا نہ صرف یہ کہ ایک بے سود کام ہے اور قرآن کے خصوصی طور پر اختیار کیے گئے اسلوبِ اخفاء کے منشاء کے خلاف معلوم ہوتا ہے، بلکہ جیساکہ پہلے لکھا، اس سے کچھ مضرات بھی پیدا ہوتے ہیں اور مضرات کی یہ بات کوئی ہوائی بات نہیں، اس حوالہ سے بندہ نے تقریبا دس سال پہلے ماہنامہ ”حکمت بالغہ“ (جھنگ) کے مدیر انجینئر مختار فاروقی کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں یاجوج ماجوج کے حوالہ سے ”حکمتِ بالغہ“ کی ایک خصوصی اشاعت میں موجود ان کی بعض عبارات پر گرفت کی گئی تھی، یہ خط اور اس میں مذکور ان کی عبارات ملاحظہ کرلی جائیں، ان شاء اللہ بندہ کی مضرات والی بات واضح ہو جائے گی۔ یہ مکتوب ”حکمت بالغہ“ میں مئی 2014ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔ مکتوب الفاظ اور جملوں کی کچھ تبدیلی کے بعد ملاحظہ ہو:

”مکرمی! السلام علیکم، مزاج بخیر! ’’یاجوج وماجوج‘‘ پر ’’حکمتِ بالغہ‘‘ کی خصوصی اشاعت دیکھنے کا اتفاق ہوگیا تھا ۔ علامہ اقبال، مولانا ابوالکلام اور مولانا گیلانی کا سہارا لے کر آپ نے اس سلسلہ میں جس رائے کا اظہار کیا ہے، مجھے اس سے اختلاف ہے ۔ آپ کی عبارات سے کہیں کہیں کچھ ایسا تاثر ملا کہ یاجوج وماجوج اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ اس وقت میدان میں ہیں اور ان کا آخری ’’ظہورِ موعود‘‘ گویا ہوچکا ہے۔ آپ نے لکھا کہ ’’مسلمانانِ پاکستان وافغانستان نے یاجوج وماجوج کے خاتمے کی طرف بھی تقریبا آدھے سے ذرا زیادہ سفر کرلیا ہے‘‘ (خصوصی اشاعت ۔ صفحہ۷) اور آپ کی رائے میں ’’یہ یاجوج ماجوج ہمارے یا ہماری اولادوں کے ہاتھوں ہی واصل بجہنم ہونے والے ہیں‘‘ (خصوصی اشاعت ۔ صفحہ۱۴۱) اس لئے آپ کی رائے میں ’’یہ ہماری سعادت ہوگی کہ ہم کسی آسمانی مداخلت کا انتظار کئے بغیر خود آگے بڑھیں ، اللہ تعالی کی شانِ رحیمی جوش مارے گی اور مسلمانوں کی کم زور جماعت کو یاجوج ماجوج کی مضبوط کیل کانٹے سے لیس جماعت پر غلبہ دے دے گی ۔ ‘‘ (خصوصی اشاعت ۔ صفحہ۲۴۱) تاہم آپ نے اس صحیح حدیث کو بھی اس خصوصی اشاعت میں دو جگہ نقل کیا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ یاجوج ماجوج کا خروجِ موعود نزول عیسی کے بعد ہوگا اور مسلمان اللہ کے حکم سے اس وقت مضبوط پناہ گاہ میں چھپ جائیں گے جب یاجوج ماجوج کا خروجِ موعود ہونے والا ہوگا، وہ آئیں گے، تباہی پھیلائیں گے، پھر اللہ ہی کے تکوینی حکم کے ساتھ ان کا خاتمہ ہوگا اور اس سارے دورانیہ میں مسلمان حضرات عیسی کے ساتھ ایک محفوظ پناہ گاہ میں رہیں گے ۔

میرے خیال میں، ہمیں ایک بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’یاجوج ماجوج‘‘ کا تعین کرنے میں ہمارا کوئی دینی یا دنیاوی مفاد نہیں ہے، ممکن ہے کہ وہ امریکی، روسی اور برطانوی ہی ہوں جیساکہ آپ کہتے ہیں (خصوصی اشاعت ۔ صفحہ۷) اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان نمایاں قوموں میں سے کوئی قوم نہ ہوں ، بلکہ کوئی غیر نمایاں قوم ہوں جو ’’ظہورِ موعود‘‘ کا وقت آنے پر ظاہر ہوں ۔ وہ جو بھی ہوں ، ہمیں اس سے کیا غرض؟ ہمارے ایمان کے لئے کیا اتنا کافی نہیں کہ وہ اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، ذوالقرنین نے ان کے لئے ایک روک کھڑی کی تھی، ممکن ہے کہ وہ اب تک کسی نامعلوم مقام پر ایسی ہی کسی ’’روک‘‘ کے اندر پڑے ہوں اور ان کا وجود ’’وقتِ موعود‘‘ تک باقی انسانوں کے لئے راز ہی رہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ’’روک‘‘ کب کی ٹوٹ پھوٹ چکی ہواور باقی انسانی آبادیوں میں وہ گھل مل چکے ہوں جبکہ وقتِ موعود کے آنے پر وہ ایک خاص وحشیت کے ساتھ ظاہر ہوں ۔

فرض کیجئے کہ اگر وہ روسی ، امریکی اور برطانوی اقوام ہی ہوں تو اس تعین میں ہمارا کیا دینی مفاد ہے؟ روسی اور امریکی اقوام سے اگر ہمیں جہاد کرنا ہے تو کریں ، وہ فی الواقع یاجوج ماجوج ہوں یا نہ ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یاجوج ماجوج والے اہل کفر کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوئی خاص فضیلت کہیں بتائی گئی ہے اور نہ ہی غیر یاجوج ماجوج کے خلاف مزاحمت کو ’’کم سعادتی‘‘ کی بات کہیں کہا گیا ہے، پس ان اقوام کو یاجوج ماجوج ثابت کرتے ہوئے ان کے خلاف مزاحمت کی بطورِ خاص ترغیب دینا کم ازکم میری تو سمجھ سے بالا تر ہے ۔

ایک جگہ آپ نے بڑی ہی عجیب بات لکھی کہ ’’1400 سال پہلے جو انقلاب آیا، اس وقت بھی استحصالی قوتیں مشرک، نصاری،یہودی اور یاجوج ماجوج تھے اور آج بھی یہی لوگ استحصالی نظام کے خاتمہ کے خلاف ہیں ۔ ‘‘ دعوی ہے تو عجیب، لیکن اگر مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صحابہ نے اس وقت کی استحصالی قوتوں کے لئے یہ ”یاجوج ماجوج“ کا لفظ استعمال کیا تھا اور کیا اسی بناء پر ان کے خلاف مزاحمت میں کوئی خصوصی جوش وخروش دکھایا تھا؟ اگر نہیں تو آخر ہمیں اس کی کیا شرعی ضرورت آپڑی ہے؟

مولانا گیلانی نے یاجوج ماجوج کا تعین کرنے کے لئے ’’سورۃ الانبیاء‘‘ کی آیت 95، 96 کی جو جدید تفسیر کی ہے اور جس کی بناء پر بعض حلقوں میں آج قطعی طور پر یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ یہودیوں کی ’’نشاتِ نو‘‘ سے قبل یاجوج ماجوج کا خروج ضروری ہے، میری نظر میں وہ محلِ نظر ہے اور اگر مولانا گیلانی زندہ ہوتے تو مضمون میں دیے گئے اپنے عندیہ کے مطابق خود ہی اپنی اس تفسیر سے شاید رجوع کرلیتے۔ (اس تفسیر پرکچھ ناقدانہ کلام آئندہ آرہی ہے۔)

تنقید میں صاف گوئی میری مجبوری ہے اور میں اس میں لاگ لپیٹ سے کام نہیں لے سکتا ۔ آپ نے خود نے اپنے اس موقف پر اظہارِ خیال کی خواہش ظاہر کی تو حسبتا للہ اپنا حقیقی تاثر آپ کے سامنے رکھ دینا مناسب محسوس ہوا۔ آپ کی عافیت کا طالب ہوں۔ والسلام؛ محمد عبداللہ شارق،ملتان (2013۔ 03۔ 14)“

آپ نے اس مکتوب ملاحظہ کیا کہ جب ان کی تعیین کا قول اختیار کیا گیا تو پھر تعیین  کے بعد خروجِ موعود سے قبل ہی اس مزعومہ معینہ قوم کے حوالہ سے کس طرح کے جوش اور جذبات کا اظہار کیا گیا۔

مولانا گیلانی کی رائے پر تبصرہ

ایک بھائی نے لکھا کہ قرآن میں جو ”حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج“ آیا ہے، اس سے پہلے بستی کے ہلاک ہونے کا ذکر ہے کہ وہ تب تک دوبارہ نہیں آسکتی کہ جب تک یاجوج وماجوج نہ کھول دیے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ بستی کون سی ہے؟ کیا اس سے مراد یروشلم نہیں ہے؟ اور اگر وہی مراد ہے تو یہود تو واپس آچکے ہیں وہاں تو کیا یاجوج ماجوج کھل چکے؟

جواب دیا کہ یروشلم والی بات مولانا گیلانی نے لکھی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ یہ محض احتمال ہے جو عین ممکن ہے کہ غلط ہو۔ آیت کا صحیح مفہوم جو بغیر تکلف کے اس طالبِ علم کو سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ کہ قرآن میں مطلق بستی کا ذکر ہے، اسے یروشلم وغیرہ کے ساتھ مخصوص کرنا شاید بالکل بلاجواز ہے، آیت کا مفہوم بس یہ ہونا چاہیے بظاہر کہ کوئی بھی بستی جسے ہم نے ہلاک کیا، اس کے لیے ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ وہ واپس زندہ نہ ہو، یہاں تک کہ یاجوج ماجوج نکلیں اور آخرت کا وعدہ قریب آجائے تو یہ ہلاک شدہ بستیاں دوبارہ زندہ ہوں گی اور کافروں کی نگاہیں اس وقت تنی ہوئی ہوں گی۔ قبل ازیں مذکور مکتوب میں لکھا چکا ہوں کہ اگر مولانا گیلانی زندہ ہوتے تو شاید اپنی رائے سے رجوع کرلیتے۔ واللہ اعلم

ذو القرنین کی تعیین؟

پھر یہی معاملہ ذو القرنین کا بھی ہے، لوگوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارہ میں سوال کیا تو قرآن نے وہی اپنے مخصوص انداز میں صرف اس کی سیرت کے نصیحت آموز پہلوؤں کو بیان کرنے پر اکتفاء کیا، لیکن آپ جانتے ہیں کہ ذو القرنین کی مؤرخانہ تعیین میں ہمارے ہاں کتنا کچھ کہا گیا ہے اور اس پر کتنی دادِ تحقیق دی گئی ہے، قرآنی اسلوب بیان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم فقط اسے ماضی کا ایک نیک بادشاہ سمجھیں اور اس کی شخصیت کے سبق آموز پہلوؤں کو سننے سنانے اور ان سے استفادہ کرنے پر بس اکتفاء کریں، نہ یہ کہ اس کے حوالہ سے بے فائدہ تاریخی ابحاث میں الجھ جائیں۔

ایک بھائی نے لکھا کہ غور وفکر تو کرنا چاہیے، قرآن خود دعوت دیتا ہے۔ عرض کیا کہ جی، وہ غور وفکر جو بامقصد ہو اور تعلیم و تربیت کے واقعی پہلوؤں سے متعلق ہو۔ اس حوالہ سے اصحابِ کہف کا واقعہ سنانے کے بعد قرآنِ کریم میں”سیقولون ثلاثۃ رابعہم“ کہنے کا  سبق ہے، وہ شاید خاص طور پر قابلِ ملاحظہ ہے اور آئندہ سطور میں اس پر بات کرتے ہیں، ان شاء اللہ۔

ایک اور بھائی نے لکھا کہ جب مستشرقین وغیرہ کی طرف سے تاریخی حوالے سے اعتراضات کئے جاتے ہیں تو ان کا جواب دینے کے لیے مطالعہ ضروری ہے ۔ جواب دیا کہ یہ ایک فروعی بحث ہے اور فروعی ابحاث میں الجھنے سے قبل اصولوں پر اتفاق کا ہونا ضروری ہے۔ کیا یہ مستشرقین اللہ ورسول پر ایمان رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو سب سے پہلے انہیں اللہ ورسول پر ہی اطمینان کے لیے قائل کریں، اگر وہ اس پر قائل ہو جائیں تو باقی باتوں کا سمجھانا اور سمجھانا ازخود آسان ہوجائے گا۔ باقی وہ جس تاریخ کے بل بوتے پر اعتراضات اٹھائیں، مختصرا ان سے صرف اتنا پوچھیے کہ کیا اس تاریخ میں ماضی کا ہر واقعہ مذکور ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب کوئی بھی عقل مند انسان کبھی ہاں میں نہیں دے سکتا، پس جب تاریخ میں ماضی کا ہر واقعہ مذکور نہیں اور خدائی نظام پر دلالت کرنے والے واقعات کے بارہ میں ویسے ہی انسانوں کی غیر مذہبی تاریخ بالعموم سرد مہری کا شکار رہی ہے تو اس ادھوری اور یک رخی تاریخ کی بنیاد پر اللہ جل جلالہ کی کسی بات کی نفی کرنا کیوں کر ممکن ہے؟ تاہم مستشرقین کو جواب دینے سے قبل ہمیں خود اپنے اندر اطمینان، یقین اور اعتماد پیدا کرنا چاہیے کہ ہم اللہ کی باتوں کو اس لیے صحیح کہتے ہیں کہ وہ اللہ پاک کی باتیں ہیں اور اللہ نہ صرف سب گزشتہ وآئندہ سے پوری طرح باخبر ہیں بلکہ سب سچوں سے بڑھ کر سچے ہیں۔ اس طرح کی چیزوں کے بارہ میں انہیں جواب دینے کا صحیح طریقہ یہی ہے اور فروعی ابحاث کا صحیح  طریقہ قبل ازیں اپنے دو کالمز میں ذکر کرچکا ہوں جو روزنامہ اسلام میں شائع ہوئے۔ ان کا لنک درج ذیل ہے:

قرآنی ابہامات کا سبق اور قصہء اصحاب کہف

سورہ الکہف جس میں یاجوج ماجوج اور ذو القرنین کا ذکر ہوا، اسی میں اصحابِ کہف کا ایک ایمان پرور تذکرہ کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ لوگ ان کا تذکرہ سننے کے بعد گویا ان کی سیرت کو اپنانے کے اصل مقصود کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے، اس بحث میں الجھ جائیں گے کہ وہ تعداد میں کتنے تھے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیجیے کہ ہمارے ہاں اس طرح کی کتنی بحثیں ہوئی ہیں یعنی تعداد میں کتنے تھے، ان کے نام کیا تھے، ان کا علاقہ کون سا تھا، ان کا عہد کون سا تھا، اس عہد کے بادشاہ کا نام کیا تھا۔ ذرا سوچیے، کیا ان باتوں کا تعین کرنے میں ہمارا کوئی دینی یا دنیاوی مفاد ہے؟ جو باتیں اصل میں ہماری تعلیم و تربیت کی تھیں، وہ تو وہی ہیں جو اللہ پاک نے سنا دیں۔ قرآن ایک کتاب نصیحت ہے اور اس میں اگر کوئی واقعہ مذکور ہوتا ہے تو اس میں بھی عموما صرف وہ پہلو بیان ہوتے ہیں جو نصیحت سے متعلق ہوتے ہیں جبکہ غیر متعلقہ باتیں حذف ہوجاتی ہیں۔ ان غیر ضروری باتوں میں زیادہ الجھنا ناپسندیدہ ہے اور اصل مقاصد سے انسان کو غافل کردینے کا سبب بنتا ہے۔

ایک اور افراط؛ مفتی اویس پراچہ کے ساتھ مکالمہ

یاجوج ماجوج کے حوالہ سے ایک افراط تو یہی ہے کہ دنیا کی بعض قوموں کو متعین طور پر یاجوج ماجوج قرار دے دیا جائے اور اس سے جیساکہ پہلے لکھا، کچھ مضرات پیدا ہوتے ہیں۔ اس پر کلام ہوچکی ، دوسرا افراط یہ ہے کہ ان قوموں میں سے کسی بھی قوم کے یاجوج ماجوج کا مصداق سرے سے ہو ہی نہ سکنے کا قول اختیار کیا جائے، یہ رائے مفتی اویس پراچہ (جامعۃ الرشید) نے پیش کی اور اس پر ان کے ساتھ جو گفت وشنید ہوئی۔ بندہ نے پوچھا کہ کیا قرآن وحدیث میں کوئی ایک بھی ایسا قرینہ موجود ہے جو اس بات کا تقاضا کرے کہ یاجوج ماجوج کا مصداق دنیا کی معروف انسانی آبادیوں میں سے کوئی آبادی نہیں ہو سکتی؟ آپ کا اپنے مضمون میں یہ کہنا کہ معروف اقوام میں سے کوئی قوم اس کا مصداق نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ کبھی کسی سد میں بند نہیں رہی، ایک کم زور موقف ہے، اس پر رد وقدح ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ معروف اقوام میں سے ہی کوئی قوم ہوں اور کبھی وہ کسی سد میں بند رہے ہوں مگر تاریخ نے اس بات کو علی التعیین محفوظ نہ رکھا ہو، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ ان معروف اقوام میں سے وہ کوئی قوم نہ ہو۔ بنیادی بات یہ کہ تعیین میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں۔

اس پر انہوں نے کچھ مزید قرائن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ جن روایات میں ان کی تعداد، حضرت عیسی علیہ السلام اور مسلمانوں کے پناہ گزیں ہونے اور ان کے پانی پی جانے یابہت کچھ کھا جانے کا ذکر ہے، وہ کسی بھی قوم پر منطبق نہیں ہوتی ہیں، پھر جغرافیائی محل وقوع بھی نہیں بنتا۔ جواب دیا کہ جغرافیائی محل وقوع تو قرآن میں متعین ہی نہیں کیا گیا، بلکہ سمت کو حذف کردیا گیا، باقی وقتِ موعود پر ان کے بہت کچھ کھا پی جانے اور مسلمانوں کے حضرت عیسی کی معیت میں کہیں پناہ گزین ہوجانے کی بات کا جو ذکر ہے، وہ سب ابھی پیش نہیں آیا، میں نہیں جانتا کہ قبل از وقت آخر کون سے قرینہ کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ قومیں ان نشانیوں کا مصداق نہیں بن سکتیں۔ رہی بات ان کی بہت بڑی تعداد کی تو اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ کسی معروف قوم پر یہ تعداد منطبق کرنا مشکل ہے تو دوسری طرف یہ کہنا کیا اس سے زیادہ مشکل نہیں کہ اتنی بڑی انسانی آبادی ہماری آنکھوں سے اوجھل نہ جانے کون سی جگہ پڑی ہے۔

میرا ماننا یہ ہے کہ سامنے موجود انسانی آبادیوں میں سے کسی قوم کو علی التعیین اس کا مصداق ٹھہرانے کا اصرار  جس طرح افراط ہے، وہیں ان معروف جانی پہچانی آبادیوں میں سے کسی قوم کے یاجوج ماجوج نہ ہوسکنے کی بات بھی محل نظر، نظر ثانی کی متقاضی اور ایک قسم کی شاید تفریط ہو۔ بنیادی بات وہی کہ ہمیں اس بحث میں جانے کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ کون ہیں اور کون نہیں۔ مفتی اویس پراچہ کے رد عمل سے محسوس ہوا کہ وہ بندہ کی اس رائے سے اتفاق کر رہے ہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

قیل وقال کے حوالہ سے نکتہء نظر

ایک صاحبِ علم نے اس موضوع پر حمدی بن حمزہ الصریصری الجہنی کی کتاب ”فک اسرار ذی القرنین ویاجوج ماجوج“ کا حوالہ دیا کہ اس میں مفید معلومات ہیں، بعض نے سفرنامہ ابن فضلان میں مذکور کسی واقعہ کو دیکھنے کا مشورہ دیا، بعض نے ذو القرنین کے حوالہ سے مولانا آزاد کی رائے کے بارہ میں سوال کیا، بعض نے یاجوج ماجوج کے حوالہ سے ایک اور  عالم کے کام کا ذکر کیا، ایک دوست نے لکھا کہ اس موضوع پر نظر رکھنے والے بڑے محقق تقریبا متفق ہیں کہ وہ اشکنازی یہودی ہیں، یعنی غیر اسرائیلی یورپی یہود ہیں، ایک بھائی نے لکھا کہ ہمیں اس بات سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ہماری قوم ہی یاجوج ماجوج نہ ہو، ایک شامی دکتور کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ آج کل ہمارے معاشرے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق ماجوج سے ہے، یعنی یاجوج کے پیروکار ہیں۔

جواب دیا کہ یہی تو وہ تاریخی باتیں ہیں جن کی طرف جانا ایک بار پھر وہی قیل وقال کی طرف جانا ہے جس کی نفی اور حد سے بڑھی ہوئی اہمیت کو گھٹانے ہی کے ہم یہاں درپے ہیں، ظن کے درجہ میں اعتدال کے ساتھ تاریخی نوعیت کی باتیں کرنا شاید کسی حد تک قابلِ فہم ہو، مگر ان کا غلو سبق آموزی والے پہلو کو نظر انداز کرنے کا سبب بنتا ہے اور بس تاریخ وتعیین کی باتوں پر ہی شاید سارا فوکس رہ جاتا ہے کہ جیسے قرآن وحدیث میں ان کا تذکرہ ہی بس ان بحثوں کے لیے ہوا تھا۔ یہ کوئی صحیح روش نہیں اور اس روش پر چوٹ لگانے کا صحیح طریقہ یہی تھا کہ ابہام کے حسن وخوبی کو پوری قوت سے اجاگر کیا جائے، چانچہ یہ کیا۔  واللہ سبحانہ اعلم

————————————————————————————-

مولانا محمد عبد اللہ شارق، مرکز احیاء التراث ملتان کے ڈائریکٹر اور دینی علوم کے  استاذ ومحقق ہیں۔ mitmultan@gmail.com

مولانا محمد عبد اللہ شارق

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں