علی حمزہ افغان
شیخ الاسلام الامام تقی الدین احمد بن عبدالحلیم بن مجد الدین ابن تیمیہ الحرانی الحنبلی رحمہ اللہ تعالی تاریخ اسلام کی ایک بہت بڑی اور انتہائی بااثر شخصیت ہیں۔ یہ ان چند ائمہ میں سے ایک ہیں جن کی وسعت نظر ، گہرے علم اور مفید تصنیفات نے ہر طبقے اور ہر مسلک کے لوگوں کو متاثر کیا۔ اپنے تو اپنے، بیگانے بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ مگر جہاں یہ تاریخ اسلام کی انتہائی بااثر شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، وہیں ان کے تعلق سے دو انتہائی غلو پر مبنی نظریات بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک طبقے کے نزدیک تو ابن تیمیہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ، ہر رائے میں درست موقف رکھنے والے اور سلف صالح کے ترجمان وحید کی حیثیت رکھتے ہیں، تو دوسری طرف ایک طبقے نے انہیں مسلمانوں میں جنم لینے والے ہر فتنے کا سبب اور گمراہ کن عقائد کا داعی قرار دے رکھا ہے۔ یہ دونوں موقف ہی انتہا پسند اور اعتدال سے ہٹ کر ہیں ۔ شیخ الاسلام کے بارے میں ان دونوں مواقف کے متعلق اور اس سلسلے میں راہ اعتدال کی تلقین کرتے ہوئے علامة الهند عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قد تفرق الناس في عصرنا في شأن ابن تيمية فرقتين :
ففرقة : ظنت جملة أقواله كا الوحي من السماء ، فبالغت في الأخذ بما ذهب إليه وان كان مخالفا للجمهور ، أو كان مخالفا لتصريحات من هو أعلى من ابن تيمية .
و طائفة : أخرجته من اهل السنة بسبب ما نقل عنه من المتفردات المخالفة للجمهور.
و أنا سالك مسلك بين بين، و أقول كما قال الذهبي : هو عديم النظير ، بحر العلوم ، شيخ الاسلام ، و مع ذلك فهو بشر له ذنوب و أخطأ ، فليسد الإنسان لسانه عن تحقيره و ليدقق النظر في ما قال ، فإن كان صوابا فليقبله ، و إن كان خطأ فليتركه .
ترجمہ :- “ ہمارے زمانے میں ابن تیمیہ کے متعلق لوگ دو گروہوں میں بٹّے ہوئے ہیں :
ایک فرقے نے تو ان کے سارے اقوال کو ایسے سمجھ لیا ہے جیسا کہ وہ آسمان سے آنے والی وحی ہو ، تو وہ ان کی آرا کو اخذ کرنے میں کرتے ہیں چاہے وہ جمہور کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں ، یا چاہے ان کی تصریحات کے خلاف ہوں جو ابن تیمیہ سے بہی بڑے ہیں۔
اور ایک گروہ نے تو انہیں اہل سنت سے ہی خارج کردیا، ان تفردات اور اقوال کی وجہ سے جو ان کی طرف منسوب ہیں جن میں انہوں نے جمہور کی مخالفت کی ہے۔
جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں ایک درمیانی راستہ اختیار کرتا ہوں، میں وہ کہتا ہوں جو کہ الذہبی نے کہا کہ، وہ بے مثال ہیں، علوم کا سمندر ہیں، شیخ الاسلام ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی وہ ایک بشر ہیں، ان کے گناہ اور غلطیاں بھی ہیں ، سو انسان کو ان کی تحقیر کرنے سے زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے، اور جو انہوں نے کہا اس پر غور کرنا چاہئے، پھر اگر وہ بات ٹھیک ہو تو قبول کرلینی چاہیے ، اور اگر غلط ہو تو چھوڑ دینی چاہیے”۔
اسی طرح سے امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ابن تَيْمِيَّة، فإِنّا قد تحققنا من حاله أّنَّه عالم بكتاب الله ومعانيه اللغوية والشرعية، وحافظ لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وآثار السلف، عارف بمعانيها اللغوية والشرعية، أستاذ في النحو واللغة، محرر لمذهب الحنابلة فروعه وأصوله، فائق في الذكاء، ذو لسان وبلاغة في الَّذب عن عقيدة أهل السنة، لم يؤثر عنه فسق ولا بدعة، اللهم إِلاَّ هذه الأمور الَّتي ضُيِّق عليه لأجلها، وليس شيءٌ منها إِلاَّ ومعه دليله من الكتاب والسنة وآثار السلف. فمثل هذا الشَّيخ عزيز الوجود في العالم، ومن يطيق أّنْ يلحق شأوه في تحريره وتقريره؟ والذين ضيَّقوا عليه ما بلغوا معشار ما آتاه الله تعالى، وإن كَانَ تضييقهم ذلك ناشئًا من اجتهاد، ومشاجرة العلماء في مثل ذلك ما هي إِلاَّ كمشاجرة الصَّحابة فيما بينهم، والواجب في ذلك كف اللسان إِلاَّ بخير.
ترجمة : ” ابن تيمية کے بارے میں ہماری تحقیق یہ ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کے لغوی و شرعی معانی کے عالم ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت اور سلف کے آثار کے حافظ ، اس کے لغوی و شرعی معانی کو جاننے والے، نحو اور لغت میں استاد کے مقام پر فائز، حنابلہ کے مذہب کے اصول و فروع کے محرر، انتہائی ذکی، اہل سنت کے عقیدہ کے دفاع کرنے میں انتہائی فصیح و بلیغ، ان سے کوئی فسق و بدعت کا ظہور نہیں ہوا، سوائے ان چند باتوں کے جن کی وجہ سے ان پر دائرہ تنگ کردیا گیا، اور ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں مگر یہ کہ ان کے پاس اس کی دلیل کتاب و سنت اور سلف کے آثار سے موجود ہے۔ سو ان جیسا شیخ جس کی مثال عالم میں موجود نہیں، اور کس کی شان ہے کہ تحریر و تقریر میں ان کے مقام تک پہنچ سکے، اور جن لوگوں نے ان پر دائرہ تنگ کیا ان میں سے کوئی اس کےدسویں حصے تک بھی نہ پہنچ سکا جو اللہ تعالی نے انہیں عطا فرمایا ھہا، گو کہ ان کا یہ دائرہ تنگ کرنا ان کے اپنے اجتہاد کی وجہ سے تھا، اور علما کے اس طرح کے آپسی جھگڑے مشاجرت صحابہ کی طرح ہیں ، اور اس سلسلے میں واجب یہی ہے کہ انسان اپنی زبان سے خیر کے سوا کچھ نہ نکالے”۔
یہ عبارت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے اس رسالے سے ہے جو انہوں نے ایک شخص کے امام ابن تیمیہ کے متعلق سوال کے جواب میں لکھا تھا ، اور اس میں آگے جاکر وہ پھر ابن تیمیہ کے بعض تفردات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کی یہ تمام آرا ان کے اجتہاد کا نتیجہ تھیں اور ان کے پاس اپنی رائے کے دلائل موجود تھے۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ سے پہلے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ بھی اسی طرح کی بات کہتے نظر آتے ہیں جو ان کی اس تقریظ میں دیکھی جاسکتی ہے جو انہوں نے ابن ناصر الدمشقی کی الرد الوافر پہ لکھی تھی۔
اس سلسلے میں ایک عجیب اور قابل ستائش بات ہم یہ دیکھتے ہیں کہ امام تاج الدین السبکی رحمہ اللہ تعالی جو اشاعرہ کے اپنے وقت کے رئیس اور شافعیہ کے بے تاج بادشاہ رہے، وہ اپنے اور اپنے والد امام تقی الدین السبکی رحمہ اللہ کے ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے شدید ترین اختلافات جن سے ہر صاحب علم واقف ہے ، کے باوجود ، جب اپنی طبقات الشافعیہ الکبری (۳۱۸/۱، ط : دار احیاء الکتب العربیہ) میں دین کے مجددین اور حفاظ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان بڑے بڑے ناموں میں جہاں اپنے والد کا ذکر کرتے ہیں، وہیں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نام بھی ذکر کئے بغیر نہیں رہتے۔ ایسا انصاف اور ایسی علمی دیانت بہت کم کو نصیب ہوتی ہے۔
مضمون کا اختتام میں ابن تیمیہ ہی کے شاگرد رشید اور تفسیر و حدیث کے عظیم امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی اس بات پر کروں گا جو انہوں نے اپنی تاریخ البدایہ و النہایہ ( ۱۳۹/۱۴، ط: السعادة) میں شیخ الاسلام کے ترجمے کے آخر میں لکھی ہے :
وبالجملة كان رحمه الله من كبار العلماء وممن يخطئ ويصيب ولكن خطؤه بالنسبة إلى صوابه كنقطة في بحر لجي، وخطؤه أيضا مغفور له كما في صحيح الْبُخَارِيِّ: «إِذَا اجْتَهَدَ الْحَاكِمُ فَأَصَابَ فَلَهُ أجران وإذا اجتهد فأخطأ فله أجر» فهو مأجور. وَقَالَ الْإِمَامُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: كُلُّ أَحَدٍ يُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِهِ وَيُتْرَكُ إِلَّا صَاحِبَ هَذَا القبر.
ترجمہ :- “ اور بالجملہ وہ ، اللہ کی ان پر رحمت ہو، کبار علماء میں سے تھے، اور ان میں سے جو ٹھیک بھی ہوتے ہیں اور غلطی بھی کرتے ہیں، مگر ان کی خطائیں ان کے ٹھیک کاموں کے مقابلے میں بالکل ایسی ہیں جیسا کہ ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں ایک نکتہ ، اور ان کی خطائیں بھی معاف ہیں۔ ان کے لئے جیسا کہ صحیح البخاری میں آتا ہے : جب ایک فیصلہ کرنے والا اجتہاد کرتا ہے تو اگر وہ ٹھیک ہوتا ہے تو اسے دوگنا اجر ملتا ہے، اور اگر خطا کرتا ہے تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ تو وہ ماجور ہیں۔ اور امام مالک بن انس فرماتے ہیں : ہر ایک کی بات لی بھی جاتی ہے اور ترک بھی کی جاتی ہے سوائے اس قبر والے (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے”۔
کیا ہی خوبصورت بات فرمائی امام ابن کثیر نے!
اللہ تعالی کی امام ابن تیمیہ پر کروڑوں رحمتیں ہوں ، اللہ ہمیں آئمہ اسلام کا ادب، ان کی خدمات کا احساس اور ان کے تعلق سے راہ اعتدال پر چلنا نصیب فرمائے ۔ (آمین)
کمنت کیجے