Home » علمی قضایا  ، سوفسطائیت  اور مذہب کا مقدمہ
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

علمی قضایا  ، سوفسطائیت  اور مذہب کا مقدمہ

 

کیا میں موجود ہوں؟ کیا مجھ سے باہر خارج میں کوئی حقیقت موجود ہے یا یہ میرے ذہن کی اختراع ہے؟ اگر خارجی حقیقت موجود ہے تو میں اسے جیسا جانتا ہوں کیا وہ “شے فی نفسہ” (things as they are) کا اظہار ہے یا میرے ادراک کی ساخت (structure of understanding) کا؟ کیا ادراک کی ساخت حتمی اور واحد ہے؟ کیا ہر علمی قضیہ (knowledge-claim) محض ادراک کی ساخت کے اعتبار سے  سچ ہے جن کی کوئی وجودی حقیقت نہیں؟ کیا ادراک کی ساخت بدل جانے  سے ہر علمی قضیہ بدل سکتا ہے؟

یہ اور اس نوع کے سوالات سوفسطائی گروہ قدیم دور سے اٹھاتے چلے آئے ہیں۔ علم کلام کی کتب میں تین قسم کے سوفسطائی گروہوں کے خیالات پر بحث ملتی ہے:

  • عنادیہ: ان کا کہنا تھا کہ کسی حقیقت کا کوئی وجود نہیں، حقیقت سے متعلق تمام دعوے وہم وغیرہ ہیں
  • لاادریہ: ان کے مطابق حقیقت سے متعلق حتمی علم ممکن نہیں، یہ لوگ حقیقت کا انکار نہیں کرتے تھے بلکہ صرف اس کے جان لئے جانے کے امکان پر سوال اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ حقیقت ہے یا نہیں
  • عندیہ: ان کی رائے کے مطابق حقیقت ہماری رائے کے تابع ہے، ہم جو رائے رکھیں حقیقت ویسی ہی ہوگی۔ یعنی حقیقت فی الواقع وہی ہے جو ہم سمجھتےہیں کہ حقیقت ہے

مذہب کا مقدمہ حقیقت کے خارجی وجود اور اسے جانے جا سکنے کے امکان پر قائم ہے۔ لہذا سوفسطائی حضرات کا یہ دعوی اتنی عمومیت کے ساتھ نہیں مانا جاسکتا کہ یا حقیقت موجود نہیں کہ یہ ہمارا وہم ہے اور اگر موجود ہے تو اس سے متعلق مجھے کوئی علم نہیں۔ اس مسئلے کو سمجھتے ہوئے متکلمین ان کے خیالات پر تنقید کرتے ہیں اور علم کلام کی ہر کتاب امکان علم کی بحث سے شروع ہوتی ہے۔ مدارس میں پڑھائی جانے والی علم کلام کی کتاب عقائد نسفیہ کے ابتدا میں درج ہے کہ “حقائق الاشیاء ثابتۃ و العلم بھا متحقق” یعنی اشیاء کے حقائق ثابت ہیں اور ان سے متعلق علم حق ہے، یعنی نہ تو حقیقت کوئی وہم ہے اور نہ ہی اس سے متعلق علم محض ذھنی اختراعات۔

جدید دور میں سوفسطائیت کی ایک صورت یہ دعوی ہے کہ حقیقت کا تمام تر علم ہمارے ادراک کی ساخت کے رہین منت ہے چاہے وہ ساخت حواس کی ہو یا عقل کی۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس سے دو نتائج پیدا ہوتے ہیں: (1) یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم شے فی نفسہ کو جان رہے ہیں بلکہ یہ شے فی نفسہ کی ایک شبیہ یا صورت گری ہے جو ہمارے ادراک و شعور کی ساخت نے ہمارے لئے وضع کی ہے، (2) ادراک کی ساخت تبدیل ہوجانے سے حقائق سے متعلق ہمارا علم بھی بدل جائے گا ، چونکہ ادراک و شعور کی ساخت اتفاقی یا حادثاتی ہے لہذا حقیقت و شے سے متعلق ہمارے علم کے تمام دعوے محض ایک قسم کا حادثاتی واقعہ ہیں جبکہ دیگر امکانات بھی موجود ہیں۔

سوفسطائیہ قدیم دور سے حقیقت کے وجود اور اس سے متعلق علم کے امکان پر ایسے شکوک و شبہات پیدا کرتے آئے ہیں اور امام ابو الیسر بزدوی (م 493 ھ ) نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ان کا بنیادی مقصد مذہب کے استدلال کے خلاف مکابرے پر اتر آنا ہے۔ چنانچہ ماضی قریب میں اگر مثلا ایمانیول کانٹ (م 1804 ء) کی سوفسطائی فکر پر نظر ڈالی جائے تو اس کا حاصل بھی مذہبی الہیات کے خلاف دلیل کھڑی کرنا تھا (اگرچہ کانٹ دنیا سے متعلق علم کو سوفسطائیت سے بچانے کا خواہاں تھا)۔ اس سلسلہ تحریر میں ہم اختصار کے ساتھ امکان علم کی وجودیاتی بنیادوں کو واضح کرتے ہوئے سوفسطائی حضرات کے مقدمے کا جائزہ لیتے ہیں۔

جدید سوفسطائی حضرات کا سوال اس بنیادی مفروضے پر قائم ہوتا ہے کہ ادراک کی ساخت وجود (being or reality) سے الگ ہے اور اس حقیقت کا علم گویا ہمیں حاصل ہے۔ اس مفروضے کے بعد وہ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ شےسے متعلق علم انسانی ادراک و شعور کی ساخت کو شے پر لاگو کرنے سے پیدا ہوتا ہے، لہذا اب بتایا جائے کہ حقیقت اور اس کی ساخت کا علم کیسے ممکن ہے جبکہ ادراک کی ساخت حقیقت سے متعلق ہونے سے ماقبل متعین ہے؟

ہم کہتے ہیں کہ یہ مفروضہ ہی غلط ہے جس پر تنقیدی نکات ہم بعد میں لائیں گے، یہاں اثباتی بات یہ ہے کہ ادراک وجود پر طاری  نہیں ہے بلکہ وجود ادراک پر طاری ہے۔ انسانی علم کی بنیاد انسان کے موجود ہونے کا بنیادی ترین احساس ہے جس پر سوائے مکابرے کے کسی طور شک نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی کہے کہ “میں نہیں ہوں ” تو اسے بھوکا پیاسا رکھا جائے اور یا آگ میں کودنے کےلئے کہا جائے، اس کا مکابرہ خود ہی ظاہر ہوجائے گا۔ اگر وہ تکلیف کا اظہار کرے تو اسے کہا جائے کہ جب تم موجود نہیں ہو تو تکلیف کا کیا مطلب؟ چنانچہ وجود (being) کے اس بنیادی احساس کو ہم طے شدہ مانتے ہیں اور اس میں شک کے قائل نہیں کہ اس میں شک کی بات کرنا خود اپنے دعوے کی نفی کرنا ہے۔

متکلمین علم کو علم ضروری یا اضطراری (necessary knowledge) اور علم استدلالی (acquired knowledge) میں تقسیم کرتے ہوئے بحث کرتے ہیں۔ یہ علم ضروری پھر دو اقسام میں تقسیم ہوتا ہے، لیکن یہاں اس تفصیل کی ضرورت نہیں۔ فی الوقت اس علم ضروری پر بات کرنا ہے جسے بدیہی (self-evident) کہتے ہیں اور جس کا حواس خمسہ یا عقلی استدلال کی صورت کوئی خارجی سبب نہیں۔ امام رازی (م 606 ھ ) “المباحث المشرقیۃ” میں واضح کرتے ہیں کہ “وجود” کا اضطراری و بنیادی ترین احساس انسان کے علم اضطراری کی بنیاد ہے اور اس احساس پر مبنی تصور (concept) ہی انسان کے علم ضروری کے اس پہلے قضیے (judgement) کو جنم دیتا ہے کہ “ایک شے یا ہوتی ہے یا نہیں ہوتی” (something either exists or does not) کیونکہ وجود کا الٹ عدم ہے اور وجود کبھی عدم نہیں بن سکتا۔ یہ قضیہ ذہن کی کوئی ایسی اختراع نہیں جسے وجود حاصل ہونے سے قبل قائم کرنا ممکن ہو اور نہ ہی اسے تصور وجود سے الگ کرنا ممکن ہے۔ وجود کا تصور بدیہی (self-evident) ہے جسے کسی دوسرے تصور سے بیان کرنا ممکن نہیں کہ یہ سب سے بنیادی (primary) ہے۔ انسانی شعور پر منعکس یہ قضیہ انسانی وجود کا پرتو (reflection) ہے، اور اسی معنی میں وجود خود کو ادراک پر مسلط کرتا اور اس پر طاری ہے۔ انسانی ادراک کی ایسی کوئی ساخت ممکن نہیں جو میری حالت عدم میں میرے لئے وجود (یعنی میرے ہونے) کا تصور پیدا کردے۔ چنانچہ “میں موجود ہوں” کے بغیر ” میں ہونے کا ادراک رکھتا ہوں” کا کوئی مطلب نہیں، ایسی بات کہنے والا ہر شخص یہ کہتے ہوئے خود اپنی نفی کرنے پر مجبور ہے اس لئے کہ وجود ادراک پر مسلط ہے۔ انہی معنی میں وجود (being) اور ادراک (knowing) اصلاً باہم الگ نہیں جیسا کہ سوفسطائیوں کا مفروضہ ہے بلکہ یہ مربوط ہیں۔ کانٹ کی فکر کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ بھی ان دونوں میں دوئی (dichotomy) پیدا کرتا ہے۔ یہی پہلا وجودی قضیہ “جمع بین النقیضین ” کے محال (principle of non-contradiction) ہونے کی بنیاد فراہم کرتا ہے کیونکہ ایک شے کا وجود اور عدم جمع نہیں ہوسکتے کہ “وجود” (being) کبھی “وجود نہ ہونا ” (non-being) نہیں بن سکتا۔ یہاں پھر یاد رہے کہ یہ نری لسانیاتی سچائی (linguistic truth) یا ادراک کی ساخت  پر مبنی کسی منطقی قضئے (logical proposition)  کا بیان نہیں ہے جیسا کہ logical positivists کا مفروضہ تھا بلکہ یہ وجود کے بنیادی تصور سے جنم لینے والے قضایا (judgements) ہیں۔ اگر قضایا کا تعلق کسی وجود سے نہیں تو وہ باہم متضاد ہوسکتے ہیں، ان کا متضاد ہونا تبھی بامعنی ہوتا ہے جب وہ “ہونے” سے متعلق ہوں یعنی وہ کچھ assert کریں، جونہی وہ ایسا کرتے ہیں وجود انہیں جکڑ لیتا ہے۔ چنانچہ زبان و منطق درحقیقت ان وجودی حقائق کے پابند ہیں۔ وجود سے متعلق پہلا بدیہی قضیہ (“شے یاموجود ہے یا معدوم”) ادراک کی ساخت پر مسلط ہے، جمع بین النقیضین کا اصول قضیئے (judgement) پر مسلط ہے اور یہ قضیہ لسانیاتی قوانین میں ڈھل کر زبانوں  پر  جاری ہے۔ امام رازی مزید بحث کرتے ہیں کہ یہ پہلا قضیہ چند مزید قضایا کو جنم دیتا ہے کہ وجود یا حادث ہوگا یا قدیم، کل جزو سے بڑا ہوتا ہے، دو اشیاء جو کسی تیسری شے کے مساوی ہوں وہ باہم مساوی ہوتی ہیں، ایک ہی جسم کا بیک وقت دو مقامات پر ہونا محال ہے۔ یہ سب قضایا وجود کی ساخت سے متعلق ہیں نہ کہ ادراک کی۔ اسی طرح “حادث کو علت کی احتیاج ہے”  یہ بھی لازمی وجودی قضیہ ہے کہ عدم وجود کا سبب نہیں ہوسکتا، امام رازی نے کتاب “المطالب العالیۃ” میں اس پر مستقل ابواب باندھ کر بحث کی ہے جسے پیش کرنا یہاں ممکن نہیں۔  علم اضطراری کے یہ وہ بنیادی قضایا ہیں جو استدلالی علم کی بنیاد فراہم کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک شک سے ماوراء ہیں۔

زیر بحث جدید سوفسطائیت اس مفروضے کو قبول کرتی ہے کہ ماورائے ذہن کچھ حقیقت موجود ہے، البتہ اس سے متعلق علم ادراک کی ساخت لاگو (impose) ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ جب یہ مان لیا کہ خارج میں کچھ موجود ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ موجود بھی ان قطعی وجودی اصولوں کا  پابند ہے جنہیں درج بالا سیکشن میں اضطراری علم کے ابتدائی اصول کہا گیا اور ادراک کی ایسی کوئی ساخت ممکن نہیں جن سے یہ اصول غلط ہوجائیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ جس شے کو میں ایک خاص طرح کاجسم مثلاً “گھوڑا” دیکھتا ہوں، خارج میں وہ گھوڑا بھی ہو اور گائے بھی کہ یہ جمع بین النقیضین کی خلاف ورزی ہے جو جائز نہیں۔ اسی طرح اگر وہ مخلوق حادث (یعنی نہ ہونے سے ہونے کا شکار ہے) تو لازما اس کے لئے سبب ہے۔ الغرض خارج کا ہر موجود ان اصولوں کا پابند ہے۔ اگلی بات یہ کہ خارج میں شے موجود اور ایک دوسرے سے مختلف ہوئے بغیر ادراک کی ساخت از خود مختلف نوعیت کا علم پیدا نہیں کرسکتی۔ مثلا فرض کیجئے کہ ادراک کی ساخت میں “مقدار” کا ایک سانچہ ہے جیسا کہ کانٹ کا کہنا ہے۔ تاہم یہ سانچہ سب موجودات کے ساتھ مساوی طور پر متعلق ہے اور یہ سانچہ از خود یہ طے نہیں کرسکتا کہ مثلا فٹبال کرکٹ بال سے بڑا کیوں ہے، اسی طرح مثلاً زبان کی ساخت یہ توجیہہ نہیں کرسکتی کہ شہد میٹھا اور مرچ کڑوی کیوں ہے نہ کہ اس سے برعکس۔

چنانچہ کانٹ کو ماننا ہوگا کہ چھوٹا، بڑا ، گول ، چوکور وغیرہ ہونا بہرحال شے فی نفسہ کی خصوصیات بھی ہیں نہ کہ محض ادراک کی ساخت کی۔ امام رازی “المباحث المشرقیۃ” میں اس نکتے پر یوں بات کرتے ہیں کہ ذہن میں خارج سے موصول ہونے والے احساسات کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے تاہم یہ صلاحیت ان احساسات کے ساتھ مساوی طور پر متعلق ہے اور از خود مختلف طرح کےعلمی قضایا کو جنم نہیں دے سکتی یہاں تک کہ شے کا حسی مشاہدہ اس کا سبب بنے۔ جدید سوفسطائیوں کے لئے یہ بات مانے بغیر کوئی چارہ نہیں اور اس کا انکار کرنے سے تضاد کے سوا کچھ جنم نہیں لیتا۔ مثلا کانٹ کا کہنا ہےکہ ذہن کی ادراکی ساخت شہ فی نفسہ کے بارے میں کوئی خبر نہیں دے سکتی، ہمیں صرف ان کی ظاہری صورت (appearances) کا علم حاصل ہوتا ہے۔ تاہم بذات خود یہ بات کہتے ہوئے وہ یہ فرض کرتا ہے کہ خارج میں ان ظاہری تاثرات سے علی الرغم شے فی نفسہ “موجود ہے” جو میرے ان تاثرات کا “سبب ہے”۔ غور کیجئے کہ  یہاں وہ سبسٹنس (substance) اور علت (cause) کی اپنی  بیان کردہ دو ادراکی  مقولات (categories) کو شہ فی نفسہ سے متعلق قرار دے رہا ہے۔ یہ تضادات ہر اس سوفسطائی فکر کا شاخسانہ ہیں جو یا خارجی حقیقت کا انکار کریں اور یا وجود (being) اور علم (knowing) میں دوئی قائم کریں، ایسی دوئی تاہم ممکن نہیں کیونکہ وجود ادراک پر طاری ہے۔

اب رہ گیا یہ استدلال کہ ممکن ہے ذہن کی یا حواس کی ادراکی کیفیت بدلنے سے خارج میں موجود اشیاء  سے متعلق ہمارا علم بدل جائے تو یہ امکان مذہب کے مقدمے کےخلاف نہیں۔ جب تک ایک شخص یہ مانتا ہے کہ

(الف) میں موجود ہوں،

(ب) خارج میں کچھ موجود ہے،

(ج) اور وہ موجودات ایک دوسرے سے فرق ہیں،

اس کے بعد ادراک کی ساخت بدلنے کے امکان سے مذہب کے مقدمے پر فرق نہیں پڑتا اور استقرا سے حاصل ہونے والے اطمینان کی بنیاد پر انسان مذہب کا مخاطب رہے گا۔ علم کلام میں ذات باری کے اثبات کا استدلال دو مقدمات پر قائم ہے:

1۔ حادث کے لئے سبب ہے

2۔ عالم حادث ہے

اول الذکر بدیہی قضیہ ہے اور موخر الذکر کے لئے خارج میں کچھ موجود ہونا اور ان کے مختلف ہونے کا قضیہ ضروری ہے۔ یہ نظری امکان کہ ادراک کی ساخت بدلنے سے ممکن ہے گھوڑا گائے نظر لگے اور گائے الو یا کچھ ایسی اشیاء نظر آنے لگیں جو پہلے نظر نہیں آرہی تھیں وغیرہ یہ سب امور ہمیں مضر نہیں جب تک علم ضروری کے ان قضایا کا انکار نہیں کیا جارہا جو اوپر مذکور ہوئے۔ جو لوگ اس امکان سے مذہب کا مقدمہ غلط ثابت کرنے کے خواہاں ہیں انہیں اس کی دلیل دینا ہوگی۔

اوپر جو یہ کہا گیا کہ ادراک کی ساخت بدلنے سے کچھ اور نظر آنے کا امکان مذہب کے مقدمے کے لئے مضر نہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ خود اہل مذہب اس امکان کی اس صورت کے ظہور کے قائل ہیں کہ ادراک کی ساخت تبدیل ہوئے بغیر بھی خارج میں ایسی تبدیلی آنا ممکن ہے جو ہمارے استقرائی علم سے مختلف ہو۔ معجزے کا امکان اور اس کا ظہور اسی قاعدے پر مبنی ہے۔ چنانچہ متکلمین معجزے کے امکان پر بحث کرتے ہوئے جب یہ کہتے تھے کہ علت و معلول کے جو روابط ہمارے حسی تجربے کے پیش نظر ہمیں اٹل معلوم ہوتے ہیں وہ ان بدیہی قضایا کی مانند اٹل نہیں جنہیں علم اضطراری کہا جاتا ہے بلکہ یہ مختلف حوادث کو ایک ساتھ ہوتے دیکھنے (concurrence) کی عادت پرمبنی تاثرات ہیں کہ گویا ان میں سے ایک دوسرے کی ان معنی میں علت ہے کہ وہ اس کے لئے مؤثر و موجب (effective and binding) ہے۔ لہذا جس طرح خدا عادتاً ایک کے بعددوسرے حادث کو موجود کرتا ہے، بالکل ممکن ہے کہ وہ اس عادی ترتیب کو نبی کی سچائی کا دعوی ثابت کرنے کے لئے بدل دے اور جسے دیکھ کر ہمیں نبی کی سچائی کا یقین آجائے۔

اس استدلال پر مسلم فلاسفہ، جو ارسطوی نظریہ علت کے تحت کائنات میں تاثیرات(potentialities) کے معین (deterministic) نظم کے اجراء کے قائل تھے اور جن کے خیال میں یہ عالم ذات واجب (necessary being) سے وجوبی طور پر ظاہر ہوگیا ہے، ان کا بعینہ یہ اعتراض تھا کہ متکلمین سوفسطائیہ کی طرح بدیہی حقائق کا انکار کرکے خارج سے متعلق علم کے امکان کی نفی کردیتے ہیں اور گویاوہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ممکن ہے بازار سبزی لیتے جاتے وقت جس کتاب کو میں میز پر چھوڑ آیا ہوں واپسی پر وہ خونخوار درندہ بن چکی ہو یا سبزی کی دکان سے خریدا گیا ٹماٹر گھر لے جاتے ہوئے پتھر بن جائے وغیرہ۔ تاہم متکلمین کی جانب سے اس اعتراض کا یہ جواب دیا گیا کہ کسی شے کے عقلی امکان ماننے سے خود بخود بلا دلیل یہ لازم نہیں آتا کہ وہ موجود بھی ہے۔ چنانچہ اگر طویل استقرائی مشاہدے سے یہ ثابت ہو کہ وہ امکان ظاہر نہیں ہورہا تو ہم اس دلیل پر اطمینان کے ساتھ عمل کریں گے یہاں تک کہ اس کے خلاف اس سے اوپر کے درجے کی دلیل میسر آجائے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ امام رازی کتاب “المطالب العالیہ” میں مسلم فلاسفہ کو دکھاتے ہیں کہ ہمارے ناقدین کے لئے بھی اس معیار سے آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ فرض کرو تمہارے سامنے زید کھڑا ہے، لمحے بھر میں آنکھ جھپکنے کے بعد جو زید تمہیں نظر آرہا ہے یہ وہی زید ہے جو آنکھ جھپکنے سے پہلے تھا اس کی کیا دلیل ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ یہاں تین امکانات ہیں:

الف) یہ ماننا کہ اللہ تعالی اپنی عادت جاریہ سے ہر لمحے ایک خاص ترتیب سے اشیاء کو ظاہر کردیتے ہیں اور ترتیب میں فرق آناممکن ہے (اس پر ناقدین کو اعتراض تھا کہ یہ امکان ماننے سے متکلمین سوفسطائیہ سے جا ملے ہیں)

ب)  یہ ماننا کہ یہاں سب کچھ افلاک کی گردشوں سے پیدا ہونے والی معین تاثیرات کے تحت رونما ہورہا ہے، یہ فلاسفہ کا نظریہ تھا جس کے ذریعے وہ کائنات میں determinism پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے

ج) یہاں سب کچھ اتفاق سے ہورہا ہے، یہ دہریہ گروہوں کا نظریہ تھا

آپ کہتے ہیں کہ فلاسفہ کے نظرئیے میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ پلک جھپکنے کے دورانئے میں افلاک کے نظم میں کوئی ایسی تبدیلی رونما ہوجائے جس کے اثر سے میرے سامنے زید کے سوا اسی صورت کا کوئی اور شخص موجود ہو کیونکہ افلاک کی حرکتوں کے کل قوانین کا علم انہیں بھی حاصل نہیں جو اس نظرئیے کے قائل ہیں، اسی طرح سب کچھ اتفاق کے تحت قرار دینے والوں کو بھی اس اتفاق کو ماننے سے مفر نہیں۔ الغرض اس معاملے میں ہر فریق ایک ہی سطح کے علمی اطمینان کے درجے پر فائز ہے۔

کہنا یہ مقصود ہےکہ جدید سوفسطائی حضرات جس امکان کو ثابت کرکے دین کا مقدمہ غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں، اس نوع کی باتیں متکلمین کے لئے نئی نہیں۔ اس بحث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان سوفسطائی مفکرین کا جواب دینے کے لئے ہمیں ابن سینا جیسے مسلم فلاسفہ کے ان نظریات پر انحصار کی ضرورت نہیں جو عالم کو حتمی ثابت کرنے کے لئے خدا کو بے اختیار ثابت کردیتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی اپنے اصل مقصود کو حاصل نہیں کرپاتے جیسا کہ امام رازی کی دلیل سے واضح ہے۔ اسی طرح علم ضروری سے متعلق جن وجودی حقائق کوقطعی کہا گیا ان کی قطعیت ثابت کرنے کے لئے بھی ابن سینا کے اس وجوبی (necessitarian) نظرئیے کی ضرورت نہیں جہاں عالم واجب لغیرہ ہے اور خدا بے اختیار۔

 

آخر میں اختصار کے ساتھ سوفسطائی فکر کے چند نمایاں رجحانات کے مسائل بیان کئے جاتے ہیں۔

1۔ اگر یہ کہا جائے کہ کسی بھی حقیقت کا وجود نہیں  تو سوال پید اہوتا ہے کہ خود یہ دعوی حقیقت و سچ ہے یا نہیں کہ “کوئی حقیقت نہیں”؟ اگر حقیقت ہے تو معلوم ہوا کہ دعوی از خود اپنی نفی کررہا ہے اور اگر یہ دعوی غلط ہے تو اس کی بنیاد  پر کوئی استدلال ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ دعوی باہم متضاد (self-defeating)  اصول  پر مبنی ہے  جس کے درست ہونے کے لئے اس کا غلط ہونا لازم ہے ۔

2۔ اگر یہ کہا جائے کہ ممکن ہے ذھن کی ساخت بدلنے سے اضطراری علم کے قضایا بھی بدل جائیں تو ہم کہیں گے کہ ایسی بات کہنے والے کو اضطراری علم کی نوعیت ہی معلوم نہیں اور اگر معلوم ہے تو وہ اس ذھنی بیماری کا شکار ہے جسے مکابرہ کہتے ہیں۔

3۔ جن کا کہنا ہے کہ حقیقت ہمارے اعتقاد (belief) کے تابع ہے کہ جو ہم سمجھیں وہی حقیقت ہے، امام نسفی (م 508 ھ ) ان سے سوال پوچھتے ہیں کہ جن لوگوں کا دعوی ان کے برعکس ہے کیا اس اصول  کی رو سے ان کی بات درست ہوسکتی ہے؟ مثلا ہمارا اعتقاد ہے کہ “حقیقت اعتقاد کے تابع نہیں ہے”۔ کیا ہمارا یہ اعتقاد سوفسطائی کے اس اعتقاد کی رو سے  درست ہے یا غلط کہ ” حقیقت ہمارے اعتقاد کے تابع ہے “؟ اگر ہمارا اعتقاد درست ہے تو مطلب یہ ہوا کہ سوفسطائی کا دعوی غلط ہے  اور اگر اس کے نزدیک ہمارا اعتقاد غلط ہے تو اس نے مان لیا کہ حقیقت ہر قسم کے اعتقاد کے تابع نہیں ہوتی۔ الغرض سوفسطائی کا دعوی ہر صورت غلط ہے ۔

4۔ جن کا کہنا یہ ہے کہ علم ادراک کی ساخت کو مشاہدے میں آنے والے امور پر لاگو کرنے سے پیدا ہوتا ہے، اوپر یہ ذکر ہوچکا کہ انہیں ماننا ہوگا کہ ادراک کی ساخت سے ہمیں شے  فی نفسہ کا ہی علم حاصل ہوتا ہے، اگرچہ یہ امکان موجود ہے کہ شے فی نفسہ کی کچھ ایسی خصوصیات ہوں جو ہمارے ادراک سے باہر ہوں۔ مثلاً فرض کیجئے کسی شے میں  100 خصوصیات ہیں، انسانی ذہن میں  مختلف سانچوں کی صورت کچھ ایسی ساخت موجود ہے جن کے ذریعے میں 60 خصوصیات کا ادراک کرسکتا ہوں جبکہ بقایا میری پہنچ سے اس لئے باہر ہیں کہ ان سے متعلق میرے ذہن کی ساخت میں  کوئی سانچہ موجود نہیں جسے لاگو کرکے میں ان بقایا کو جان سکوں۔ الغرض کانٹین فکر سے جو سوفسطائیت پیدا ہوتی ہے اس کے حاملین کے لئے یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں اور نہ اسے رد کرنے کی کوئی دلیل ہے کہ ذہن کی ساخت ان 60 خصوصیات کا ادراک اس لئے کررہی ہے کیونکہ وہ شے فی نفسہ میں موجود ہیں، ذہن میں محض  چند سانچوں کی موجودگی ان کی توجیہہ نہیں بن سکتی۔ اسے ایک اور پہلو سے یوں سمجھئے کہ انسانی کان 20 ھرٹز سے لے کر 20000 ھرٹز تک آواز سن پاتے ہیں۔چنانچہ سماعت کی حدبندی تبھی بامعنی ہے جب یہ مانا جائے کہ آواز کی یہ لہریں خارج میں موجود ہیں، محض میرے کان کی ساخت انہیں پیدا نہیں کررہی ۔ پھر ان لوگوں کی فکر از خود  شے فی نفسہ کے وجود اور اسے سبب مان کر اس سے متعلق علم کو مان رہی ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا، ایسے میں یہ دعوی جاتا رہا کہ شے فی نفسہ کا کوئی علم ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ یہ فکر اس متضاد مفروضے پر بھی قائم ہے کہ  ایک طرف اس کے مطابق تجربے کے بغیر کوئی علم ممکن نہیں  اور دوسری طرف از  خود کانٹ کے دعوے اس معیار پر پورا اترنے سے فروتر ہیں  (اس تضاد پر کانٹ کے ہم عصر مفکرین کا احتجاج  الگ تحریر کی صورت پیش کیا جاچکا ہے)۔  جو فکر خود اپنے علمی پیمانے پر پورا نہ اترے وہ دوسروں کو جانچنے کا اقدام کیوں کرتی ہے؟

5۔ سوفسطائی فکر اپنی ہر صورت میں انسانی فکر و عمل کے لئے انتشار پیدا کرتی ہے،  یہی وجہ ہے کہ کانٹین فکر سے متاثر ہوکر مغربی فلسفے میں ہر اخلاقی قدر کی سچائی و آفاقیت کا انکار کردیا گیا۔ یہ سوفسطائی فکر انسان کو اس بنیادی سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ آخر میرے ادراک کی ساخت وہ کیوں  ہے جیسی کہ وہ ہے؟ میرے وجود اور ادراک کی ساخت ہم آہنگ کیسے ہیں؟ نیز خارج میں موجود حقیقت اور میرا ادراک ہم آہنگ کیوں ہیں؟ ظاہر ہے جب آپ اس غلط مفروضے پر فکر کی بنیاد رکھیں گے کہ ادراک کی ساخت وجود سے الگ و ماقبل متعین ہے  تو ان سوالات کا کوئی جواب ممکن نہیں۔  چنانچہ ایسی فکر بے اطمینانی و انتشار پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی۔ یہاں یہ دلچسپ تضاد بھی قابل غور ہے کہ یہ حضرات ادراک اور وجود کی دوئی سے متعلق اپنے اس مفروضے  کو “فی نفسہ حقیقت ” فرض کئے  بیٹھے ہیں   حالانکہ ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ جب حقیقت فی نفسہ کا ادراک ممکن نہیں تو اس مفروضے کی سچائی آپ کو کیسے معلوم ہوئی؟

حق یہ ہے کہ وجود ادراک پر حاوی و طاری ہے  اور درج بالا نوعیت کے سب تضادات اس بدیہی حقیقت کو جھٹلانے سے پیدا ہوتے ہیں۔۔ علم کی ہر سنجیدہ جستجو انسانی ادراک  ، خود اس کے وجود  اور خارج میں موجود اشیاء کے مابین ہم آھنگی (harmony)   کے لازمی مفروضے پر قائم ہوتی ہےاور یہ ہم آہنگی انسان کو ایک ایسے اصول سے متعلق کرتی ہے جو اس ہم آہنگی کا سبب ہے، یعنی جو انسان کے اس حتمی   سوال کا جواب ہو کہ آخر یہ اضطراری ہم آہنگی کیوں  پائی جاتی ہے؟ انسانی فکر کو غلط مفروضات پر استوار کرکے مغربی فلسفے  نے اس سوال کو لا ینحل بنا دیا ہے ۔  اس کا جواب ذات باری تعالی ہے،  انسان جس بھی جہت سے آئے وہ اپنے رب ہی کو پاتا ہے: فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ۔ اسلامی فکر میں اس جواب کی ایک صورت وہ ہے جو شیخ اکبر  (م 638 ھ ) کی روایت  میں ملتی ہے، یعنی پوری کائنات  جس ذات کے اسما کا ظہور ہے اسی کے اسما کا ظہور انسان میں ہوا ہے۔

 

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں