Home » سانحہ مردان
احوال وآثار سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

سانحہ مردان

مردان کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، یہ ایک واقعاتی تسلسل ہے،غور کیجیے کہ جب اس نوعیت کے واقعات جنم لے رہے تھے تو ہماری مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے خاص طور پر یوٹیوبی اور سوشل میڈیائی حضرات کی اکثریت کہاں کھڑی تھی،اور کسے سپورٹ کر رہی تھی۔آج یہ معاملہ چوں کہ ایک خاص سیاسی شکل بھی رکھتا ہے تو بہت سے حضرات بڑھ چڑھ کر دلائل دے رہے ہیں۔صاف بات ہے اس ضمن میں پہلے اپنے مغالطوں اور ذہنی الجھنوں کو ختم کرنا ہو گا، اس کے بعد ایک واضح موقف اختیار کرکے اس پر ڈٹ جانا ہوگا، ہر طرح کے لومۃ لائم کی پرواہ کیے بغیر۔چاہے جو ہو جائے۔ورنہ یہ آگ تو بہت پہلے لگ ہی چکی تھی،اب پھیل بھی خوب چکی ہے۔اب نصیب ہی ہے کہ کسی کا دامن محفوظ رہ سکے۔ صاف سی بات ہے کہ یہ کیس صرف اور صرف نری جہالت کا ہے اور بس۔اس کا مذہب یا مذہبیت سے کوئی تعلق نہیں۔اورکسی بھی جاہل کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ دین کے نام پر اپنی جہالت کو ہم پر مسلط کرے۔

ہوا یہ کہ ہم عرصہ قبل مقبول بیانیے کو سب پر مسلط کرنے کے چکر میں ایسے تمام لوگوں کو قیادت سونپ چکے ہیں، جو شور کرنے، جتھے بازی، بھیڑ ہانکنے اور طاقت کا اسراف کے ساتھ مظاہرہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ چوں کہ یہ اجتماعی جرم تھا، اس لیے اس کی سزا بھی اجتماعی طور پر ہم سب کو بھگتنی ہوگی۔

یہ بھی ہماری شدید غفلت رہی کہ درست اور حق بات کو محض اس بنا پر ہم غلط نہیں کہہ سکے کہ وہ بات مقبول بیانیے کے خلاف تھی،سوچنے، سمجھنے اور صحیح کو صحیح سمجھنے والے ویسے بھی تھے ہی کتنے،ان میں سے بھی اکثر تو بالکل خاموش رہے،بعض بولے تو بھی ان کی صدا ان کے دالانوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔اس وقت جن چند لوگوں نے کھل کر غلط کو غلط کہا،وہ اب تک اپنے حلقوں میں بھی مطعون چلے آرہے ہیں۔اس ناشکری کی بھی سزا تو اللہ تعالی کے قانون میں موجود ہے،جو بھگتنی ہے۔اللہ رحم کرے۔

ہماری دانست میں اس سارے قصے کو سمجھنے اور اس پر قائم کرنے کے لیے یہ نکات پیش نظر رہنے چاہییں:

الف: مقتول نے جس قدر بھی غلط بات کی ہو،ہجوم کے پاس اس کو مارنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

ب: مرتد جیسے انتہائی اقدام کے حامل شخص کو بھی قتل کرنے کا اختیار عدالت کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے،اس کے لیے بھی بہت سی شرائط ہیں۔

ج: یہ انتہائی لایعنی بات ہے کہ عدالتوں سے سے سزا کا یقین ختم ہو چکا ہے۔پہلی بات یہ کہ ہر معاملے میں عدالت سے سزا ہی کی توقع کیوں کی جاتی ہے۔فیصلے کا اختیار عدالت کو ہے یا ہجوم اور بھیڑ کو؟دوسری بات یہ ہے کہ شریعت تو اس درجے کی انتہائی بات کرتی ہے کہ عدالت کا غلط فیصلہ بھی لاگو ہوگا۔ہاں جان بوجھ کر غلط فیصلہ کرنے والے کو اللہ کے ہاں جا کر سزا بھگتنی ہوگی۔ایسے میں کسی بھی واقعے کے رونما ہونے کے فوری بعد اشتعال کی فضا میں ایک بے ہنگم ہجوم کو فیصلے کا اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے۔

د: ہماری ذمے داری صرف یہ ہے کہ ایسے واقعات کو اول تو رونما ہونے ہی نہ دیا جائے۔ خدا نہ خواستہ کوئی واقعہ پیش آ جائے تو فوری طور پر متعلقہ فریقوں کو قانون کے حوالے کر دیا جائے اور بس

ھ: لیکن اتنے عرصے کی محنت اور ریاضت کے بعد جو فضا بنائی گئی ہے اس میں یہ سب باتیں غیر متعلق نظر آتی ہیں۔ جب اعلی سطح کی قیادت تک ہجوم کی شکلیں دیکھ کر بات کرنے پر مجبور ہو تو ہم جیسوں کی فیس بک کی دانشوری کس کھیت کی مولی ہے۔

بس اللہ سے رحم مانگنا چاہیے،سو اسی کے متمنی اور ملتجی ہیں۔ اللہ تعالی ہم پر رحم فرمائے، اپنا کرم فرمائے،ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے،اور معاملہ فہمی عطا کرے اور اپنی کوتاہیوں کے ازالے کی مہلت اور توفیق عطا فرمائے۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ خاص اس مسئلے میں جرم کیا ہوا،اور رد عمل کیا رہا۔

مقتول کے پشتو میں کہے گئے جملے وڈیو سے ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب نے،جو مانے ہوئے قانون دان ہیں، مع ترجمہ یوں نقل کیے ہیں:

“زہ بہ تاسو لہ نور سہ نہ شم وئیلے خو زہ بہ تاسو لہ د پیغمبر مقابل صحابی بہ ئے نہ گرزوم خو زہ ویم چہ زمونگ د ساول ڈھیر دپارہ دا سڑے چہ راغلے دے نوداھم دپیغمبرئ ددرجے نہ کم نہ دے۔ درجہ ورتہ نہ ورکوو۔ درجہ ورتہ نہ ورکوو خو بہرحال ستاسو دپارہ ڈیر محترم سڑے دے او د سرہ تاسو پہ ایڑ باندے ۔۔۔ اوکئ”

ترجمہ: “میں آپ کو اور کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں آپ کو پیغمبر کے مقابل میں صحابی بھی نہیں قرار دے سکتا لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے ساول ڈھیر کےلیے یہ آدمی جو آیا ہے تو یہ بھی پیغمبری کے درجے سے کم نہیں ہے۔ درجہ ہم نہیں دیتے۔ درجہ ہم نہیں دیتے لیکن بہ رحال آپ کےلیے بہت محترم آدمی ہیں اور آپ سب مل کر اس کی۔۔۔ کریں۔”

ایک لفظ اس میں حذف ہے جو وہ سمجھ نہیں سکے۔اب بتائیے اس پر اتھارٹیزکو کیا سزا دینی چاہیے، آپ کیا تجویز کریں گے؟

اس کے بعد یہ ہوا کہ ہجوم بپھر گیا،گو تین گھنٹے تک پولیس نے مقتول کو تحفظ دیا۔مگر مجمع جان لے کر ہی ٹلا۔پھر اس غریب کی نماز جنازہ کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔اس علاقے کے علما کے کتنے ہی بیانات موجو دہیں کہ یہ ٹھیک ہوا۔مجمع نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ لاش کو آگ تک لگائی گئی ہے۔جو حضرات ایسے مواقع پر عدلیہ کی جانب سے کیسز کا فیصلہ نہ ہونے کی دھائی دیتے ہیں وہ کیا رہنمائی فرمائیں گے کہ یہ آگ لگانے کا عمل کس جرم کی کس شریعت میں سزا بیان ہوئی ہے؟اس لیے کہ توہین کے مختلف الزامات کے تحت اس نوعیت کی سزا دینے کا یہ پہلا عمل نہیں ہے۔

اس موقع پر ایک بات بعض دوستوں کی جانب سے مسلسل کہی جا رہی ہے کہ اس سارے عمل کا مذہبی طبقے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ بات درست ہوتی اگر کم ازکم دو طرح کے شواہد ہمارے سامنے ہوتے۔

الف: کم ازکم اس موقع پر ہی سہی ہماری صف اول کی مذہبی قیادت نے نام لے کر اس واقعے کی غیر مشروط مذمت کی ہوتی۔

ب: اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے ان کی جانب سے ٹھوس تجاویز بھی پیش کی جاتیں۔

ج: لیکن ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس موقع پر سب کے سب مکمل طور پر خاموش ہیں کوئی ٹوئیٹ، کوئی بیان، کوئی شذرہ کچھ بھی تو موجود نہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سریلنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد تقریباً تمام ہی اہم سیاسی وغیر سیاسی مذہبی شخصیات نے غیر مشروط مذمت کرتی۔ وہ اور یہ اس موقع پر کچھ دکھائی نہیں دیا؟ سچی بات یہ ہے کہ ہمیں اس کا جواب معلوم نہیں۔

د: مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ویسے بھی ہمیں ہیں جن مسائل کا سامنا ہےان میں سے اکثر مرکب نوعیت کے ہیں، انہیں کسی ایک جہت سے دیکھ کر درست نتیجے تک پہنچنا ممکن ہی نہیں۔یہاں ایک اہم مسئلہ پاکستان میں میں درست سمت میں ہونے والی قانون سازی بھی ہے ہے جس کے کئی ایک پہلو تشنہ بھی ہو سکتے ہیں اور کسی حد تک اصلاح طلب بھی لیکن بہ ہر کیف کچھ اقدام کیے گئے ہیں اور درست سمت میں کچھ قدم اٹھائے گئے ہیں، ان میں خاص نوعیت کی توہین پر مبنی قوانین بھی ہیں۔یہ قوانین اندرون اور بیرون ملک بہت بڑے طبقے بلکہ بہت سے طبقات کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ بدقسمتی سے ہم خود اس بات کی راہ ہموار کر رہے ہیں کہ ان قوانین کو ختم کر دیا جائے۔مذہبی طبقات جن قوانین کے داعی ہیں،تماشا دیکھیے کہ اگر کبھی خد نہ خواستہ یہ قوانین ختم ہوئے تو اہل مذہب بھی اس کے کسی حد تک ذمے دار ٹھہریں گے۔

حکومتی ذمے داری

اس سارے قضیے میں حکومتی ذمے داری بہ ہرحال بار بار زیر بحث آتی ہے اور آنی چاہیے درست بات یہی ہے کہ انتظامیہ کی سستی،ناتجربہ کاری،لاتعلقی پر مبنی رویہ،پھر ہمارے پراسیکیوٹرز کا طریقہ کار،عدالتی نظام کی پیچیدگیاں نظام عدل کا انتہائی مہنگا ہونا،پولیس اور اس کے نظام تفتیش کی انتہائی بدعنوانی ان سب امور نے مل کر جرم کو جرم نہیں رہنے دیا،ایک سائنس بنادیا ہے۔

لیکن ان سب خرابیوں سے بڑھ کر مذہبی امور میں اہم ترین خرابی یہ ہے کہ وہ افراد جو ڈیوٹی پر بھی مامور ہوتے ہیں اور جن کی ذمے داری ہی لاقانونیت کو ختم کرنا اور جرم کو ہونے سے روکنا ہے،وہ کبھی ہجوم کے ہاتھوں لاچار ہو جاتے ہیں تو کبھی بلیک میل۔ان حالات میں اگر حکومت ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ ہو جاتی ہے تو ان تمام اداروں کو مل کر چند اقدم اٹھانا ہوں گے،جن کا ذکر اوپر کی سطور میں کیا گیا ہے۔

الف: انصاف کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے اور انتہائی ارزاں قیمت پر پہنچانے کا اہتمام کرنا ہوگا۔

ب: اس باب میں پولیس کی جانب سے ہونے والی تمام تر کوتاہیوں اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے،جن پر بارہا لکھا جا چکا ہے اور اہل فن توجہ دلا چکے ہیں۔

ج: خصوصا پولیس کو ایسے جذباتی اور اشتعال انگیز معاملات میں قانون کے نفاذ کی ایسی تربیت فراہم کرنی چاہیے کہ وہ کسی بھی نوعیت کے مجمع اور ہجوم کے ہاتھوں کسی صورت بلیک میل نہ ہو سکیں۔

د: حکومت اداروں کے ایک اہم ترین ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ صرف مذہبی نہیں بلکہ ہر نوعیت کی اس انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے شعور، ضروری اور مفید اقدام اٹھائیں جو ہمارے معاشرے کے لئے صرف خطرہ نہیں بلکہ اس وقت آتش فشاں کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔

ھذا ما عندی،واللہ اعلم بالصواب

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، دعوہ اکیڈمی کے ریجنل سنٹر، کراچی کے انچارج اور شش ماہی السیرۃ عالمی کے نائب مدیر ہیں۔

syed.azizurrahman@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں