ڈاکٹر عمار خان ناصر
جدیدیت کے پس منظر میں مغربی فکر کے ارتقا کی تفہیم کے کئی مختلف زاویے موجود ہیں۔ یہ سبھی زاویے کسی نہ کسی خاص پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں اور بحیثیت مجموعی بات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک زاویہ میخائیل ایلن نے اپنی کتاب
The theological origins of modernity میں پیش کیا ہے ۔
مصنف نے اس سوال کو موضوع بنایا ہے کہ جدیدیت بطور ایک ورلڈویو (نظام فکر) کیسے اور کس سوال کے جواب میں سامنے آئی ہے۔ مصنف کے نقطہ نظر کے مطابق مسیحی الہیات میں خدا، کائنات، انسان اور عقل کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے حوالے سے ایک کشمکش موجود تھی، اور اسی کشمکش کے تناظر میں جدیدیت نے بطور ایک ورلڈویو کے تشکیل پائی ہے۔
مصنف نے اس فکری سفر کے حسب ذیل مراحل متعین کیے ہیں۔
1- قرون وسطی کے اواخر میں تھامس اکوائنس وغیرہ کے ہاتھوں مسیحی متکلمانہ روایت جس کو Scholasticism کا عنوان دیا جاتا ہے، تکمیل کو پہنچ چکی تھی۔ اس روایت میں یونانی فلسفے کے طبیعی کائنات اور فطری اخلاقیات کے تصورات کے ساتھ مسیحی عقیدہ خدا کو ملا کر ایک الہیاتی ورلڈویو تشکیل دیا گیا جس کا جوہر یہ ہے کہ خدا ایک ’’ریزن’’ رکھنے والی ہستی ہے جس کی ریزن کا ظہور کائنات میں ہوا ہے۔ چونکہ انسان کو خدا کی صورت پر پیدا کیا گیا اور اسے عقل دی گئی ہے، اس لیے انسان کائنات کے مشاہدے اور غور وفکر سے خدا کے ذہن کو سمجھ سکتا ہے اور کائنات میں موجودہ ’’غائیت’’ کو دریافت کر سکتا ہے۔
2- اسکولیسٹسزم کے جواب میں اسمیت (nominalism) کے فلسفے کا ظہور ہوا جس نے بہت طاقتور استدلالات سے اس تصور کی نفی کی کہ کائنات خدا کے ذہن یا علم میں موجود کچھ خاص ماہیات (essences) کی جزئیات کا نام ہے جن کو انسانی عقل جزئیات کے مشاہدے اور مطالعے سے سمجھ سکتی ہے۔ اسمیت کے حامی مسیحی مفکرین نے کہا کہ کائنات کی ہر چیز انفرادی نوعیت رکھتی ہے اور کسی بھی کلی ماہیت کا جزوی نمونہ نہیں ہے۔ اس لیے کائنات اور اس کی اشیاء کی غرض یا معنویت خود کائنات کے مطالعے سے معلوم نہیں ہو سکتی، اس کا ذریعہ صرف بائبل میں درج الہام یا انسان کا روحانی تجربہ ہو سکتا ہے۔
3- اسمیت کے پیدا کردہ چیلنج نے خدا، کائنات اور انسان کے باہمی تعلق کو نئے سرے سے متعین کرنے اور ایک نیا ورلڈویو تشکیل دینے کی کوششوں کو تحریک دی۔ بنیادی سوال یہ تھا کہ اس نئے ورلڈویو میں مرکزی مقام کس کا ہو؟ خدا کا، فطرت یعنی کائنات کا یا انسان کا؟ یہ تینوں آپشن مغربی فکر میں مختلف مکاتب فکر نے اختیار کیے۔
4- اصلاح مذہب کے قائدین یعنی پروٹسٹنٹ ماہرین الہیات نے خدا کو مرکزی مقام دیتے ہوئے انسان کے مقام اور انسانی عقل کی اہمیت کو محدود تر کرنے کی کوشش کی۔ ہیومنسٹ مفکرین نے اس کے برعکس (خدا کی نفی کیے بغیر) اپنے ورلڈویو میں انسان کے مقام کو مرکزیت دی اور انسان کے زاویہ نظر سے خدا اور کائنات کی نوعیت اور اہمیت متعین کرنے کی کوشش کی۔ (اس کشمکش اور مجادلے کے نمونے ہم مارٹن لوتھر اور اس کے ہم عصر ہیومنسٹ دانش ور اراسمس کے مباحثوں میں دیکھ سکتے ہیں جن میں لوتھر انسان کے جبر اور بے اختیاری کو موکد کرتا جبکہ اراسمس انسانی اختیار اور آزادی کا اثبات کرتا دکھائی دیتا ہے)۔
5- اسی سوال کے جواب میں تیسرا آپشن یہ تھا کہ ان تینوں میں سے فطرت یعنی کائنات اور اس کے طبیعی قوانین کو مرکزی اہمیت دیتے ہوئے ان کے تحت خدا اور انسان کو سمجھا اور ان کا مقام متعین کیا جائے۔ اس انتخاب سے جو ورلڈویو تشکیل پاتا ہے، بنیادی طور پر اس کو ہم ’’جدیدیت’’ سے تعبیر کرتے ہیں۔
6- لیکن فطرت کو مرکزی مقام دے کر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا، جب تک کہ خدا اور انسان کی (یعنی خدا اور انسان کے ایسے تصور کی جو نیچرلسٹک نہ ہو) نفی نہ کر دی جائے۔ اس میں مشکل یہ ہے کہ خدا کی نفی کا نتیجہ انسان کو کلیتاً ایک حیوان قرار دینے کی صورت میں نکلتا ہے، جبکہ انسان کی نفی مذہبی جنونیت پر منتج ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ جدیدیت دراصل مسیحی فکر میں ایک الہیاتی سوال (خدا، کائنات اور انسان کے مابین تعلق کس نوعیت کا ہے) کا متبادل جواب تلاش کرنے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی جس کی فکری مشکلات اور چیلنجز سے مغربی فکر ابھی تک نبردآزما ہے۔
کمنت کیجے