یہ بات واضح ہے کہ انسان جن علوم کا حامل ہوتا ہے وہ سب حسی ذرائع سے حاصل شدہ نہیں ہوتے بلکہ بہت سے قضایا ایسے ہوتے ہیں جنکے علم کو حواس کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ۔ مثلا دو اور دو کا چار ہونا کوئی حسی علم نہیں ہے بلکہ یہ کسی اور ذریعہ سے حاصل شدہ علم ہے ۔ اور وہ ذریعہ عقلی استدلال ہے ۔ عقل سے حاصل شدہ علوم میں سے استدلال اگرچہ ایک اہم طریقہ ہے لیکن یہ عقل کا کل حاصل نہیں ہے بلکہ عقلی حاصلات اس سے بہت وسیع ہیں ۔
عقل درحقیقت فکر کی ایسی صلاحیت کا نام ہے جو نہ صرف حسی علوم سے ماسواء کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ حسی تجربات کے نتیجے میں حاصل شدہ ارتسامات سے علم کا حصول بھی اسی پر منحصر ہے ۔ کیونکہ حسی تجربات جو چیز فراہم کرتے ہیں ان کی حیثیت قضایا میں ایک خام مواد کی سی ہوتی ہے جن کی تصدیق عقل کے بناء وضع نہیں کی جا سکتی ۔مثلا اگر میرے سامنے ایک کپ رکھا ہوا ہے اور میں اسے دیکھنے کے تجربہ سے گزر رہا ہوں تو جس چیز کا میں تجربہ کر رہا ہوں وہ کپ کے مجموعی معنی کا جزو ہے کیونکہ کپ کا کپ ہونا تجربہ سے نہیں جانا جا سکتا بلکہ اسکے لئے خرد کی ضرورت ہے ۔
چنانچہ بہت سے قضایا ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم نہ حسی تجربہ سے حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی استدلال سے بایں ہمہ انہیں عقلی صداقتوں کے طور پر ہی جانا جاتا ہے ۔مثلا ایک ہی چیز بیک وقت دو جگہوں پر نہیں ہو سکتی ۔بہت سے فلاسفہ نے عقل اور دانش میں فرق کیا ہے جنمیں ارسطو ، افلاطون ،کانٹ اور ہیگل وغیرہ شامل ہیں ۔Dictionary of philosophy میں اصحابِ علم نے اس کی تصریح کی ہے ۔ لکھتے ہیں ۔
“افلاطون ، ارسطو اور کئی دیگر فلاسفہ کے نزدیک عقل کا کام مقدمات سے صحیح نتائج تک پہنچنا ہے ۔جبکہ دانش سے مظاہر کے صحیح اسباب اور ماہیات کا علم ہوتا ہے ۔کانٹ کے خیال میں شئی کما ھی (Thing-in itself) کا علم عقل نہیں بلکہ دانش سے ہوتا ہے ۔ ہیگل نے بھی عقل کا دائرہ کلیت اور تجریدات تک محدود کیا ہے جس سے پرے دانش کو دخل ہے ۔”
کس علم کو عقل کی طرف منسوب کرنا درست ہے ؟ اسے عقل کی تین طرح کی فعلیت سے جانا جا سکتا ہے ۔
1 – زمان اور مکان جیسے قبل تجربی تصورات کی تشکیل سے
2- وہبی تصورات میں تعلق پیدا کرنے سے جیسے مثلث تین زاویوں کا نام ہے
3- مقدمات سے نتائج تک پہنچنے سے
مقدمات سے نتائج تک پہنچنے کا نام ہی استدلالِ عقلی ہے۔ استدلال کی ویسے تو کئی اقسام ہیں جیسے استخراجی ، استقرائی ، احتمالی اور مغالطہ ساز یعنی Deceptive وغیرہ لیکن اسکی بڑی اقسام دو ہی ہیں۔ استخراجی اور استقرائی
استخراجی استدلال :
سب سے معروف اور جانا پہچانا طریقِ استدلال استخراجی ہے جو دیگر تما م استدلالات کیلیے مثالی جانا جاتا ہے ۔استخراجی عمل میں نتیجہ جو پہلے سے موجود علم پر زائد ہوتا ہے مقدمات سے برآمد کیا جاتا ہے ۔ اور اسکا بعینہ وہی حکم ہوتا ہے جو مقدمات کا ہو ۔ یعنی اگر مقدمات کسی کے گمان کے مطابق صادق ہیں تو نتیجہ بھی صادق ہی ہو گا بشرطیکہ مقدمات سے متعلقہ تمام شرائط کو ملحوظ رکھا گیا ہو ۔جیسے
اگر بارش ہو رہی ہے
تو سڑکیں گیلی ہوں گی
یہ بالکل درست استخراج ہے کیونکہ اسکے دونوں مقدمات کی صحت تسلیم کردہ ہے ۔
استخراجی عمل میں مقدمات کا صادق ہونا نتیجہ درست ہونے کو مستلزم نہیں ہوتا کیونکہ صحتِ استدلال اور صداقت میں فرق ہے ۔ یہ عین ممکن ہے کہ کسی مثال میں دونوں مقدمات صادق ہوں اسکے باوجود نتیجہ باطل ہو جائے ۔اسی طرح اسکے برعکس کا بھی امکان ہے کہ مقدمات کاذب ہوں لیکن نتیجہ صحیح ہو ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استخراجی استدلال صحت کا مطالعہ ہوتا ہے صداقت کا نہیں کیونکہ صداقت کا تعلق قضایا سے ہوتا ہے جبکہ استدلال صحیح یا باطل ہوتا ہے ۔
اپنی کتاب An introduction to philosophical analysis میں John Hospers لکھتے ہیں
Logic won’t tell you whether the premises are true. Logic will only take whatever premises you please and tell you whether you can validly infer your conclusion from them
استقرائی استدلال:
استقرائی استدلال میں نتیجہ مقدمات کے یقینی طور پر نہیں بلکہ گمانِ غالب کے مطابق مماثل ہوتا ہے ۔ اس استدلال میں یہ عین ممکن ہے کہ مقدمات صادق ہوں اسکے باوجود نتیجہ صادق نہ ہو لیکن غالب گمان اسکے صدق کا ہی ہوتا ہے جبتک کہ مقدمات کا کذب متعین نہ ہو جائے ۔مثلا اگر ہم کہتے ہیں کہ :
کوا نمبر 1 کالا ہے
کوانمبر 2 کالا ہے
کوا نمبر 3 کالا ہے
اگر ہم ایسے ہزاروں مقدمات بھی قائم کر لیں تب بھی یہ یقینی نہیں ہو سکتا کہ نتیجے کی تعمیمات یقینی طور پر صادق ہیں ۔ البتہ جسقدر مشاہدہ اور تجربہ بڑھتا رہے اسی قدر نتیجہ تیقن کی طرف بڑھنے لگتا ہے تاآنکہ انسان تمام جزئیات کا مشاہدہ کر لے ۔لیکن یہ کام عقلا ناممکن ہے اسلئے استقراء ہمیشہ جزئی ہی ہوتا ہے ۔
استقراء ہمیشہ ایک دو تین سے تمام تک نہیں جاتا بلکہ بعض اوقات ایک ہی شئے کے متعلق ہوتا ہے جیسے عدالت میں ملزم پر عائد کئے جانے والے الزامات کی دلیل جن افعال کو بنایا جاتا ہے، وہ بھی استقرائی دلیل ہی سے ہوتا ہے ۔ اسی لئے عدالتی فیصلے شہادتوں پر کئے جاتے ہیں ۔ کیونکہ استقراء سے یقینی علم حاصل نہیں ہوتا لہذا اگر یقین کے حصول تک فیصلوں کو موقوف کیا جائے تو کبھی کوئی ملزم مجرم قرار نہ دیا جا سکے۔
استقرائی استدلال میں ہم قوانینِ فطرت پر اعتما د کرتے ہیں ۔ جب قوانینِ فطرت ہمارے تجربات کے دوران بارہا وقوعی یکسانیت وضع کرتے ہیں تو وہ قابلِ استدلال بن جاتے ہیں ۔مثلا:
رگڑ لگنے سے آگ پیدا ہوتی ہے ۔
چھری گھونپنے سے خون نکلتا ہے ۔
ہوا سے بھاری اجسام نیچے کی جانب گرتے ہیں وغیرہ۔
اگر فطری قوانین میں اس طرح کی یکسانیت نہ ہو تو ہم کبھی بھی مقدمات کی ترتیب سے استقرائی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے ۔
کمنت کیجے