Home » مطالعہ مذاہب اور جدید علوم
ادیان ومذاہب اسلامی فکری روایت

مطالعہ مذاہب اور جدید علوم

حافظ محمد شارق

سائنس میں ہم کسی خاص علم logy/Study کی بات کرتے ہیں تو ایک مخصوص دائرہ اور اس سے متعلقہ کچھ مخصوص مسائل ہمارے ذہن میں آجاتے ہیں  لیکن  جب ہم عمرانی علوم کے موضوعِ بحث اور دائرے کو متعین کرنا چاہیں تو اس کا جواب اضافی (Relative) ہوجاتا ہے۔کیونکہ تمام سماجی علوم گو کہ انسانوں کے مخصوص برتاؤ  اورخیالات سے بحث کرتے ہیں اور ا ن سبھی کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے مگر  جونہی آپ اس دائرے کے گرد و پیش میں دیکھتے ہیں  تو یہ کینوس وسیع تر ہونے لگتا ہے۔ آپ حیران ہوتے ہیں کہ سماج کے بیشتر عناصر، ہر ادارہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور زیر اثر ہے۔آپ معیشت کو سیاست سے، سیاست کو تاریخ سے، تاریخ کو مذہب سے اور مذہب کو نفسیات سے جدا نہیں کرسکتے۔اسی لیے آج  بہت سے علوم میں ضمنی (Subsidiary)علوم  بھی شامل ہیں۔حتیٰ کہ سائنسی علوم میں بھی یہی طریقہ ہے۔ بائیوفزکس اس کی مثال ہے جس میں حیاتیات اور طبیعیات کا مطالعہ کی جاتا ہے ۔  یہ ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کسی علم پر پر دوسرے علم کے نتائج کا اثر ہونے لگے۔ مذہب کا بھی کم و بیش یہی معاملہ ہے۔

مذہب پر واجبی نگاہ ڈالنے سے بھی یہ پتہ چل جاتا ہے کہ مذہب انسانی سماج انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک منظم اور مربوط حقیقت ہے۔ ایک جانب مذہب  اپنے مختلف پہلوؤں سے  انسانی زندگی کے جملہ شعبوں پر اثر  انداز ہوتا ہے تو دوسری خود مذہب بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔بظاہرسادہ نظری میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ مذہب کا رشتہ سماجیات اور اخلاقیات سے ہے، شاید اسی لیے مذہب کی تفہیم کے لیے ماہرین ِدینیات صرف الہامی کتب اور روایات یا بعض جید محققین اس سے بڑھ کر تاریخ اور بشریات سے مدد لے لیتے ہیں ۔ لیکن یہ منہج درست ہونے کے باوجود ادھوری معلومات فراہم کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے پیچھے جو  عہد بہ عہد ارتقائی عمل جاری ہوتا ہے، اس میں ہزاروں برس کے سیاسی، روحانی، معاشی، نفسیاتی اور قدرتی محرکات موجود ہوتے ہیں جن کی دریافت اور تشریح محض مقدس صحائف  کے اوراق پلٹے سے نہیں ہوپاتی۔ ایک غیر جانبدار طالب علم کے لیے مذہب کے مختلف دعوے اس وقت تک  غیریقینی رہتے ہیں  جب تک متعلقہ علوم میں اسے تجزیہ   وتحلیل کرکے کوئی جواب نہ مل جائے۔ بہت سی گتھیاں اس وقت تک نہیں سلجھ پاتی  جب تک ان کا مربوط مطالعہ  نہ کر لیا جائے۔

آج ہم انفارمیشن ایج میں سانس لے رہے ہیں اور اس زمین اور اس پر بسنے والے انسان کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے جو معلومات ہمیں حاصل  ہوئی ہے وہ کسی ایک علم سے نہیں بلکہ مختلف سائنسی و سماجی علوم کی مرہون منت ہے ۔ مذہب بھی  اس سے مبرا نہیں ہے۔ مذہب  اور انسان کے تعلق کو سمجھنے کے لیے بھی ہر اُس عامل (Factor) کا تجزیاتی مطالعہ کرنا   ہوگا جن سے مذہب کو اپنی تشکیل کے لیے استفادہ کرتا ہے۔

مذہب سے مختلف علوم  کا تعلق کا ادراک سب سے پہلے عربوں کو ہوا تھا ، چنانچہ بعد از اسلام مختلف ایسی کتابیں لکھی گئی جن میں سماجیات اور مختلف عمرانی علوم سے مذہب کے تعلق پر بحث کی گئی۔ مثلاً ابن خلدون کا مقدمہ، البیرونی کی کتاب الہند کی اس کی ممتاز ترین مثال ہے۔ آج بھی ہمیں مذہب کا مختلف پہلوؤں سے مطالعہ کرنے کے لیے ان علومِ جدیدہ کی معاونت ضرور لینی چاہیے جن میں نفسیات، جغرافیہ، تاریخ و آثار، جینیات، سماجیات ، لسانیات اور دیگر علوم شامل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حافظ محمد شارق صاحب وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی میں شعبہ مطالعہء ادیانِ مذاہب میں لیکچرر اور ادارہء تحقیقاتِ مذاہب کے ڈائریکٹر ہیں ۔

آپ سترہ سے زائد کتب کے مصنف ہیں جو پاکستان،ہندوستان اور دیگر کئی ممالک میں شائع ہو چکی ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں