Home » مسئلہء توسل اور علامہ انور شاہ کاشمیریؒ
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار کلام

مسئلہء توسل اور علامہ انور شاہ کاشمیریؒ

ڈاکٹر عمار خان ناصر

فیض الباری ج 4 ص 188 پر علامہ انور شاہؒ توسل پر اظہار خیال فرماتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سلف صالحین سے جو توسل ثابت ہے، وہ نیک لوگوں یا کمزور اور غریب لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے اللہ سے دعا کرنا ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے ہاں زیادہ مستجاب الدعوات ہیں، اس لیے ان کی موجودگی اور شرکت سے اللہ کے سامنے کوئی درخواست پیش کی جائے گی تو اس کی قبولیت کی زیادہ امید ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ ہمارے دور میں توسل کی جو صورت معروف ہے، یعنی کسی نیک بزرگ کا نام لے کر اور ان کا حوالہ دے کر اللہ سے دعا کرنا، چاہے متعلقہ بزرگ کو علم ہو یا نہ ہو اور چاہے وہ زندہ بھی ہو یا نہیں، اس کی بنیاد میں یہ تصور ہوتا ہے کہ ان نیک لوگوں کا اللہ کے ہاں ایک مقام ہے، اس لیے ان کا نام لے کر اللہ سے کچھ مانگا جائے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ درخواست کو رد نہیں کریں گے۔ فرماتے ہیں کہ یہ طریقہ سلف سے بھی ثابت نہیں اور امام ابن تیمیہ اس کو حرام قرار دیتے ہیں۔ البتہ میں اس طریقے کو اختیار کرنا بھی پسند نہیں کرتا، لیکن اس پر انکار یعنی تنقید بھی نہیں کرتا۔

یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ دعا کا ایک طریقہ سلف سے ثابت نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کے اصول کے تحت اس کو توسل مشروع پر قیاس کیا جا سکتا ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ تاہم حاشیے میں فیض الباری کے مرتب مولانا بدر عالم واضح کرتے ہیں کہ فقہ وشریعت کے اصولوں کے دائرے میں جواز یا عدم جواز کے علاوہ ایک دوسری بحث بھی یہاں موجود ہے اور وہ یہ کہ اگر علمائے شریعت (یعنی فقہا ومحدثین) اور ارباب حقائق (یعنی صوفیہ) کے مابین کسی چیز کی مشروعیت میں اختلاف ہو تو ترجیح کس کو حاصل ہوگی؟

کہتے ہیں کہ علامہ انور شاہؒ ایسی صورت میں دونوں گروہوں کی رعایت کرتے ہیں اور ارباب حقائق کے ساتھ حسن ظن کی وجہ سے ایسے مسائل میں ان پر تنقید نہیں کرتے جہاں ان کا علمائے شریعت سے اختلاف ہو، بلکہ بعض امور میں ارباب حقائق کی رائے کی طرف مائل بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ غیبی امور کو علمائے ظاہر کی بہ نسبت زیادہ جانتے ہیں۔ مثلاً‌ اصحاب قبور سے فیض حاصل کرنے کے متعلق میں نے ان سے دریافت کیا تو فرمایا کہ محدثین اس کو جائز نہیں قرار دیتے ہیں، لیکن ارباب حقائق چونکہ اس کے قائل ہیں، اس لیے میں اس کو جائز سمجھتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نکتے سے توجہ اس طرف دلانا مقصود ہے کہ شرعی نصوص میں الہام یا کشف وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کی انفرادی تکریم کے پہلو سے بیان کیا گیا ہے۔ اہل تصوف نے جب اس کو ایک ادارہ جاتی حیثیت دے دی ہے اور اس کے لیے غیر تشریعی نبوت کا ایک پورا فلسفہ بھی گھڑ لیا گیا ہے تو اس کے بعد دین وشریعت میں کسی رائے کے استناد کا معیار صرف دلائل شرعیہ ظاہرہ نہیں رہ جاتے، بلکہ ’’ارباب حقائق’’ کی دریافتیں خود بھی ایک ماخذ بن جاتی ہیں۔ اسی سے یہ بھی سمجھنے میں مدد ملے گی کہ صوفیہ نے آخر ایک انفرادی معاملے کو institutionalize کیوں کیا ہے؟ غور کیجیے، اگر ظاہری دلائل شرعیہ سے کسی بات کا اثبات ناکافی ہو اور کسی کا انفرادی الہام یا کشف ان سے متعارض ہو تو اس کو آسانی سے رد کیا جا سکتا ہے۔ انفرادی الہام کے باب میں اہل تصوف بھی آپ کو یہی کہتے دکھائی دیں گے کہ وہ شرعی دلائل کے خلاف حجت نہیں ہے۔

لیکن اگر کشف والہام پر مبنی دریافتیں انفرادی نہ رہیں، بلکہ ایک پورے طبقے کی دریافتیں بن جائیں جس کو ظاہری دلائل شرعیہ کے علاوہ براہ راست وحی والہام، کشف اور غیر تشریعی نبوت جیسی فضیلتیں بھی حاصل ہوں تو اختلاف کی صورت میں مسلمان معاشرے میں کس کی رائے کو ترجیح حاصل ہوگی؟ ’’ظاہر پرست’’ علماء کے فہم اور تشریح کو یا ’’ارباب حقائق’’ کے انکشافات کو؟ مسلم روایت سے ایک عمومی واقفیت بھی اس سوال کا جواب بتانے کے لیے کافی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً‌ سبھی اکابر اہل تصوف (جیسے شاہ ولی اللہ، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا تھانوی علیہم الرحمہ) تصوف میں باطنیت کے اس عنصر کی مضرتوں سے خوب واقف ہیں اور ان کی نشان دہی بھی کرتے ہیں، لیکن پھسل پھسل کر اس تالاب میں جا پڑنے سے خود کو نہیں بچا پاتے۔ اس مخمصے پر ’’تجدید واحیائے دین’’ میں مولانا مودودیؒ کا تبصرہ بہت برمحل ہے جسے دیکھ لینا چاہیے۔

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں