ڈاکٹر شاہد رشید
ہم جب جنوبی ایشیا میں مسلم سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو عام طور پر بائنریز (binaries) بناتے ہیں۔ایک طرف وہ لوگ تھے جنہوں نے تقسیم ہند کو بہترین حکمت عملی گردانا اور دوسری طرف وہ لوگ تھے جن کا یہ خیال تھا کہ تقسیم ہند جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے بہترین فارمولا نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی اختلاف تھا۔ دونوں گروہوں کا تجزیہ الگ الگ تھا ۔ سماجی صورت حال اپنی حقیقی اور معروضی شکل میں ایک کمپلیکس چیز ہوتی ہے جبکہ انسانی ذہن کا ہر تجزیہ، معروضیت اور واقعیت کے دعوے کے باوجود، کچھ مفروضات پر مبنی ہوتا ہے اور محدود ہوتا ہے۔ یہ صورت حال کی پیچیدگی کی تفہیم کی ایک انسانی کوشش سے زیادہ نہیں ہوتا۔ انسانی ذہن کی ہر حرکت complexity کو simplify کرتی ہے۔ کسی سماجی مسئلے کے حل کے لیے مختلف انسانی کاوشیں اور مسئلہ کی تفہیم کے مختلف تجزیئے خیر کا باعث ہو سکتے ہیں اگر تجزیہ نگار یہ سمجھ لیں کہ ان کا تجزیہ بہرحال ایک simplification ہے اور صورت حال کو سمجھنے کی ایک انسانی کوشش ہے۔ اس طرح دوسرے تجزیوں اور انسانی کوششوں کا احترام بھی پیدا ہوتا ہے اور اپنے تجزیہ اور اپنے عمل کو حتمی اور قطعی بنیادوں پر درست سمجھنے کا منفی رویہ پیدا نہیں ہوتا ۔اور یوں سیاست اور سماج میں میں الزام تراشی کا کا تخریبی کلچر پیدا نہیں ہوتا۔
جمعیت علمائے ہند، خاکسار، مسلم لیگ، احرار اور خدائی خدمت گار کے اختلاف کی بنیاد ان کے تجزیے کے اختلاف پر ہے۔ انہوں نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مسائل پر مختلف perspectives پیدا کیے۔ انسانی صورتحال کی پیچیدگی میں بیک وقت بہت سے variables کارفرما ہوتے ہیں۔ ان تمام variables کو ایک تجزیے میں شامل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ جب بھی ہم حقیقی صورتحال کی کوئی ذہنی تصویر بنائیں گے تو کچھ نہ کچھ ردوبدل کر دیں گے۔ لہذا ایک صورت حال کی تفہیم کے لیے متعدد اور مختلف تجزیوں کا وجود فطری بھی ہے اور صورتحال کے گہرے ادراک کے لیے لئے ضروری بھی۔
یہاں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سماجی و سیاسی تجزیئے کو مذہبی عقیدہ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ دینی حقائق وحی پر مبنی ہوتے ہیں نہ کہ تاریخ اور سماج کے تجزیے پر۔ یہی وجہ ہے کہ multiple political visions کا وجود معاشرے کے لیے خیر کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن معاصر مسلم ذہن اس حقیقت کی تفہیم سے قاصر نظر آتا ہے۔ ہم اپنی محبوب سیاسی جماعت کو حزب اللہ اور باقی سب کو حزب الشیطان بنا دیتے ہیں۔امرحق صرف ایک ہی جماعت کے ساتھ ہو یہ صرف نبی کی شان ہوتی ہے، ختم نبوت کے بعد جو بھی علماء دانشور اور ماہرین سماجیات و سیاسیات ہوں گے، ان کے فکر و عمل کی بنیاد ایک تجزیہ پر ہی ہو گی اور وہ اس تجزیے کے کے نتیجے میں ایک لائحہ عمل پیش کریں گے۔
ہماری سیاسی جماعتوں کے کارکنان عام طور پر ایک perspective کو آئیڈیالوجی بنا دیتے ہیں جیسا کہ ہماری دینی جماعتوں کے قائدین نے مذہب کو آئیڈیالوجی بنا دیا ہے۔ مذہب آئیڈیالوجی بن جاتا ہے اور آئیڈیالوجی مذہب بن جاتی ہے۔
صداقت اپنی purest اور simplest form میں ایک singularity ہوتی ہے اور اس صداقت کا سرچشمہ وحی ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسانی عقل کی تحلیل اور تجزیے کا مرتبہ ہے جس میں صداقت لازمی طور پر Diversified ہوتی ہے۔ اس لیے کسی بھی social phenomenon کی تفہیم multiple perspectives کو نہ صرف جنم دے گی بلکہ ان متعدد perspectives کا وجود اس صورتحال کی تفہیم کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
بیسویں صدی کے مسلم ہندوستان نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا عبد الباری فرنگی محلی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی، مولانا حسین احمد مدنی، ڈاکٹر مختار انصاری، علامہ اقبال، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا مودودی اور دیگر اصحاب فکر و عمل کی شکل میں متعدد اور متنوع responses اور perspectives پیدا کیے۔ یہ ہمارا فکری اور اخلاقی زوال ہے کہ ہم کسی ایک perspective کو دین حق کی واحد تعبیر بنا لیں۔ اور باقی سب کو کلی طور پر رد کر دیں۔ ہم ان perspectives کو کفر اور اسلام کی طرح دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ نفسیات ہمارے تہذیبی زوال کا بڑا سبب ہے ۔
کاش مسلم ذہن اپنی دینی و تہذیبی وراثت میں موجود متنوع اور باہم مختلف بصیرتوں کو بیک وقت appreciate کرنے کے قابل ہو سکے۔
اور جنوبی ایشیا کے مسلمان دانشور ایک کلی نقطہ نظر سے دنیا اور تاریخ کو دیکھنا سکیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ گزشتہ دو سو سال سے شاہ اسماعیل شہید اور مولانا خیر آبادی، سید احمد خاں اور مولانا نانوتوی، ابوالکلام آزاد اور اقبال، اور مولانا مدنی اور مولانا تھانوی کی binaries سے باہر نہیں آ سکے۔
یہ صورت حال ہماری فکری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شاہد رشید، اسسٹنٹ پروفیسر سوشیالوجی ، ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور
کمنت کیجے