ڈاکٹر وقاص احمد
اس سے پہلے کہ اقبال کا نظریہ علم بیان کیا جائے ۔اقبال کی حیثیت پر مشتمل لوگوں نے بہت کچھ عرض کر رکھا ہے۔مثلا کوئی کہتا ہے۔
اقبال متکلم ہے فلاسفر نہیں۔( اس الزام کے لیے علی عباس جلالپوری کی کتاب ” اقبال کا علم کلام” مطالعہ فرمائیں۔ علی عباس جلالپوری صاحب اقبال کے اس طرح کے اشعار، مصرعہ ایک یہاں درج کیا جاتا ہے۔
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
اقبال کے اس طرح کے اشعار کے مصرعوں سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ فلسفے کے مخالف ہیں۔ اور متکلم محض ہے ۔درحقیقت اقبال کے نظریہ علم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہ اس مغالطے کا شکار ہوئے ہیں۔ )
کوئی کہتا ہے شاعر نہیں ہے( یہ عموماً اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ اقبال عروض کے پیمانوں پر پورا نہیں اترتا .ان کو چاہیے کہ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کی کتاب” اوزان اقبال” کا مطالعہ فرمائیں)
کوئی کہتا ہے کہ عقل کی مخالفت کرتا ہے ( یہ بھی دیکھا جائے گا کہ وہ فکر / ذہانت کی محض کس سٹیج تک رک جانے اور محض اسی کو علم کا آخر سمجھ لینے والوں کی عقل کی مخالفت کرتا ہے۔ )
یوں اقبال کی اپنی حیثیت لوگوں نے مشکوک بنا رکھی ہے۔جب کہ یاد رہے کہ اقبال ڈاکٹر ہے ۔ڈاکٹر محقق ہوتا ہے اور غیر جانبدار بھی۔ محقق کا تعلق مذہب و غیر مذہب دونوں سے ہو سکتا ہے مگر اس کے باوجود اپنی تحقیق میں اس کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔ محقق فلسفی کا کام بھی سر انجام دیتا ہے جب وہ سوالات اٹھاتا ہے۔لوگ اسے فلسفی سمجھ لیتے ہیں ۔محقق ناقد بھی ہوتا ہے جب وہ اشیاء کے مثبت و منفی پہلو بیان کرتا ہے ۔لوگ اسے محض ناقد سمجھ لیتے ہیں۔ محقق کبھی کبھی اپنی رائے کا اظہار بھی کرتا ہے یوں اس کی یہ رائے مذہبی عناصر پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے اور لوگ اسے مذہبی سمجھ لیتے ہیں۔محقق اظہار اسلوب کے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے اور لوگ اسے اسلوبی سمجھ لیتے ہیں۔ قصہ مختصر کوئی اسے محض شاعر ،کوئی اسے محض نثر نگار ، کوئی اسے محض منطقی سمجھ لیتا ہے۔
محقق پہلے سے مذہبی ہو تو مذہبی محقق ہوتا ہے۔ محقق اگر پہلے سے غیر مذہبی ہو تو وہ غیر مذہبی محقق ہوتا ہے ۔اقبال ایک مذہبی محقق ہے ۔ تحقیق کے تمام ہتھیاروں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ غیر مذہبی بھی یہی کام کرتا ہے ۔مگر اس کے باوجود غیر مذہبی غیر مذہبی محقق ،مذہبی محقق مذہبی محقق رہتا ہے۔
یاد رہے میرے نزدیک ان دونوں کے درمیان بھی ایک قسم کا محقق ہے جو مذہبی ، غیر مذہبی ہر قسم کے مواد سے فائدہ اٹھاتا ہے ، اصول بناتا ہے ، نظام علم تشکیل کرتا ہے وغیرہ مگر نہ مذہب نہ غیر مذہب سے تعلق رکھتا ہے ۔میں اس قسم کے محقق کو ہی عرفی نہیں خصوصی قسم کا فلاسفر سمجھتا ہوں۔
بہرحال اقبال مذہبی محقق ہے ۔ مذہبی محقق ہونے کے ناطے وہ مختلف خصوصیات کا حامل ہے لوگ جس خاصیت کو غالب پاتے ہیں اقبال کو وہی گردانتے ہیں۔ مذہبی محقق ہونے کے ناطے کسی نے( ڈاکٹر سید ظفر الحسن) کہا ہے کہ ” خطبات اقبال” جدید علم الکلام ہے ۔ کسی نے (ڈاکٹر خضر یسین) کہا ہے کہ دور جدید کے علم کلام کو نیا رخ دیا ہے۔
بہرحال یاد رہے کہ اقبال مذہبی محقق ہے۔
اب آئیے اقبال کے نظریہ علم کی طرف بڑھتے ہیں ۔
اقبال ایک اصطلاح بہت استعمال کرتے ہیں ۔
Religious experience
اور دوسری
Intuition
اکثر لوگ ان کو الگ سمجھ لیتے ہیں اور پھر تضادات اور غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ سب سے پہلے اپنے ذہن میں بٹھا لیجیے کہ اقبال کے ہاں مندرجہ ذیل الفاظ مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔
Religious Experience = Intuition= Inner’ Experience= Mystic Experience
اس کے بعد ہم ایک لائن ” خطبات اقبال سے پیش کرتے ہیں تاکہ اقبال کا نظریہ علم کھل کر سامنے آ جائے۔ لائن یوں ہے۔
“Intuition , as Bergson rightly says , is only a higer kind of intlect.”
iqbal.The Reconstruction of Religious Thought in Islam. Lahore,pak :Iqbal Academy 2018.p:2( first sermon)
اقبال برگساں کے ساتھ متفق ہے اس بات میں یہی وجہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ برگساں راٹلی کہتا ہے۔
اب اس نکتہ کو ذہن میں بٹھا لیجیے کہ
Intuition is only a higher kind of intlect.
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے ہاں فکر / ذہانت (Intlect) کی اور اقسام / حصےبھی ہیں ؟
تو اس کا جواب بہت آسان ہے جی ہاں۔اب وہ حصے کون سے ہیں اور اقبال ان کو کیوں حصے بناتا ہے ۔آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
فکر کی اقسام یا حصے
حواس خمسہ سے حاصل شدہ علم یا فکر= سائنس
عقل سے حاصل شدہ علم یا فکر= فلسفہ
وجدان / مذہبی تجربہ یا مشاہدہ سے حاصل شدہ علم یا فکر = مذہب
حواس کا علم یا فکر+ عقل کا علم یا فکر + وجدان کا علم یا فکر = فکر/ ذہانت ( Intlect)
یاد رہے وہ اشخاص جو فکر کے دوسرے مرحلے پر ہی محض اڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔اقبال ایسے عقلمندوں اور ایسے فکر پر مشتمل علم کی مخالفت کرتا ہے۔ مثلا
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
کہیں کہتا ہے ہے
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
کہیں کہتا ہے
علم نے مجھ سے کہا، عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا، علم ہے تحمین و ظن
اس کا ایک مصرعہ دیکھیے
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہان جواب
بہرحال فلسفہ حاصل کرنے کے لیے مراد عقل سے علم حاصل کرنے کے لیے وہ ڈیکارٹ کی بات ” شک” کا ساتھ دیتا ہے اور افلاطون کی بات” حیرت” کو نظر انداز کرتا ہے۔
مثلا اقبال کہتا ہے۔
ہمائے علم تا افند بدامت
یقین کم کن، گرفتار شکے باش
عمل خواہی ؟ یقین را پختہ ترکن
یکے جوی و یکے بین ویکے باش
اگر تو چاہتا ہے کہ علم کا ہما تیرے جال میں آ پھنسے تو یقین کم کر ، شک میں گرفتار رہ۔اگر عمل چاہتا ہے تو اپنے یقین کو پختہ کر ۔ایک ڈھونڈ اور ایک دیکھ اور ایک ہو جا۔
پیام مشرق
بہرحال فلسفہ شک پر قائم ہو تو مشکوک رہتا ہے۔ اسی مشکوک فکر / علم کو جو مشکوک فکر/ عقل سے حاصل ہو اور اسی کو حرف آخر سمجھ لیا جائے تو پھر اقبال اسی کی مخالفت کرتا ہے مگر پھر بھی کوئی حاصل کرنا چاہے تو روکنے کی بجائے طریقہ بتاتا ہے کہ کیسے اڈ علم کو حاصل کیا جاتا ہے۔
بہرحال مذہبی تجربہ کے پھر کئی لیول ہیں ۔آخری لیول کو اس نے ختم نبوت پر ختم کیا ہے۔
پہلے حصے ،دوسرے اور تیسرے حصے کی وضاحت دوسری قسط میں کی جائے گی۔ بہرحال اندازہ لگانے والے اب آسانی سے جان سکتے ہیں کہ غزالی ، کانٹ و دیگر فلسفیوں سے اقبال کو کہاں اختلاف ہوا ہو گا؟
اقبال کے ہاں وجدان یہ تھا
” وجدان خرد/ فکر /ذہانت ( Intellect) کی ترقی یافتہ صورت یا پھر ذہانت کی اعلی ترین قسم”
“Intuition is only a higher kind of Intellect”
پہلا خطبہ: علم بالخواس اور مذہبی تجربہ
اقبال نے فکر کے حصے یا اقسام بنا رکھی ہیں۔پہلا حصہ یوں ہے
حواس سے حاصل شدہ سائنس کا علم
دوسرا حصہ
عقل سے حاصل شدہ فلسفہ کا علم
تیسرا حصہ
وجدان/ مذہبی تجربہ / صوفیانہ تجربہ یا مشاہدہ/ باطنی تجربہ یا مشاہدہ
Intuition/religious experience/ mystic experience/ Inner’ experience
وجدان سے حاصل شدہ مذہبی علم
یاد رہے کہ یہ تینوں ملکر فکر کی اقسام یا حصے بنتے ہیں ۔
حواس+ عقل + وجدان= فکر
اقبال ان تینوں سے حاصل شدہ علم کو انسانیت کا سرمایہ سمجھتا ہے۔ اقبال سمجھتا ہے کہ مغرب نے وجدان پر مشتمل علم کو نہ ہونے کے برابر توجہ دی ہے جبکہ پہلے دو سے حاصل شدہ علم میں خوب ترقی کی ہے ۔ فکر کے آخری عظیم حصے کے علم کو چھوڑ کر مغرب روحانیات سے بھی دود ہو چکا ہے اور یوں مغربی تہذیب اس سے خالی ہے۔ وجدان سے حاصل شدہ علم علم کو نظر انداز کر کے جب مغرب نے محض حواس و عقل پر مشتمل علم کو ہی کافی جانا اور اس پر اکتفاء کیا تو اقبال اس روش پر مغربی تہذیب کے کافی خلاف بھی رہے۔ مگر مشرق بالخصوص مسلمانوں کو حواس پر مشتمل اور عقل پر مشتمل علم کو حاصل کرنے سے نہیں روکا ۔بلکہ یورپ سے حرکی پیغام لے کر آئے۔ ہاں مگر محض یورپ کی طرح دو ذرائع فکر پر مشتمل علم تک محدود ہونے سے روکا۔
جبکہ دوسری طرف مشرق بالخصوص مسلمانوں کا صرف وجدان پر مشتمل علم کی طرف مائل پایا تو مولویوں کے اس روایتی رویے پر بھی تنقید کی اور ان کو حواس و عقل پر مشتمل علم کے حصول پر بھی ابھارا۔
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے
وجہ یہ ہی مدرسے و خانقاہ محض وجدان پر مشتمل علم تک محدود رہ گئے تھے دیگر ظاہری نقائص بھی تھے۔
میرے کدو ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ سمجھ بادہ ناب
اقبال کے کدو میں جو بادہ ناب ہے ۔وہ فکر( حواس+ عقل+وجدان) سے حاصل ہونے والا کلی علم ہے۔ جب اس کلی علم کے کچھ حصوں سے اقبال نے مغرب کو ہٹا ہوا پایا تو اس طرح کے اشعار عام ملیں گے
خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے
وجہ یہ ہے کہ اقبال کے ہاں حقیقت مطلق تک پہنچنے کے لیے یہ تینوں لازم و ملزوم ہیں ۔
اقبال کے پہلے خطبے کا نام پہلے دیکھیے۔
knowledge And Religious Experience
اس کے مختلف تراجم کیے گئے ہیں مثلاً
علم اور مذہبی تجربہ/روخانی تجربہ
علم بالوحی اور علم بالخواس/ علم الانسان
علم روخانیت اور علم مادیت
علم بالخواس اور علم بالقلب/ علم بالوجدان
آپ یوں سمجھیں علم کسی بھی قسم کا ہو ۔اقبال کے ہاں انسان اس کا مرکز ہے ۔ حواسی علم پھر فلسفے کا علم پھر وجدان پر مشتمل علم ان سب میں مرکز انسان ہے۔ پہلے تک محدود ہو تو سائنس دان ، فلسفے تک محدود ہو تو فلسفی ، وجدان پر مشتمل ہو تو اس صورت میں انسان صوفی و نبی وغیرہ ہے ۔
نالج سے مراد اقبال نے علم بالحواس لیا ہے، اسی علم کی ترقی یافتہ صورت کو وہ فلسفہ کہتے ہیں۔
علم حسی تجربے پر مشتمل ہو تو سائنس ہے ۔ مراد سائنس کے علم میں ٹول یا ہتھیار حواس خمسہ ہیں۔
مذہبی تجربہ / وجدان میں قلب ہے ۔
البتہ ان دونوں سے حاصل شدہ علم تجربی ہے۔ اقبال کے ہاں دونوں مستد علم ہیں۔قلب سے حاصل شدہ علم ماورائے حواسی علم ہے ۔جبکہ حواس خمسہ سے حاصل شدہ علم مادی اشیاء کا مشاہدہ ہوتا ہے۔دوسرے لفظوں میں وجدان سے حاصل شدہ ادراک اور حواس پر مشتمل ادراک۔ دونوں فکر کا غیر غیر نہیں۔ جبکہ دونوں کے درمیان باہمی تعلق ” نامیاتی وحدت” کا ہے۔
یوں اقبال کے ہاں مذہب و سائنس تجربے پر مشتمل علم ہے ۔دونوں میں فرق وسائل کا ہے ۔ دونوں اگرچہ ایک ہی حقیقت کو سمجھنے کے درپے ہیں مگر ایک حقیقت کے مخصوص جزو کا ادراک کرنے پر قادر ہے جب کہ دوسرا حقیقت کو من حیث الکل مشاہدے میں لانے کا متمنی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے عقل پر مشتمل علم فلسفہ کا کیا فکشن ہے ۔اقبال اس تناظر میں کہتا ہے۔
“Philosophy no doubt has jurisdiction to judge religion”
اور جب فلاسفی ایسا کرتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ فلسفہ کو مذہب پر فوقیت حاصل ہے۔
مزید آگے بڑھنے سے قبل اقبال کی ایک معذرت پیش نظر رکھیں ۔ معذرت یوں ہے۔
I do hope you will excuse me for the apparently outlandish terminology.
مجھے آپ ان غیر مانوس مصطلحات کے لیے معذور سمجھیں جن کا تعلق ایک دوسری سر زمین سے ہے۔
بہرحال یاد رہے کہ اقبال پیشگی غیر مانوس مصطلحات کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہے۔ اس لیے آپ اس معاملے میں اقبال کے ساتھ تعاون کریں۔
ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ وجدان / مذہبی تجربہ اقبال کے ہاں ایک ہی چیز ہے ۔اس کو الگ سمجھ کر اقبال کے نظریہ علم کو جان لینے کا دعوی محض خام خیالی ہے۔
وجدان کی تعریف اقبال نے یہ کی تھی۔
Intuition is only a higher kind of Intellect.
اقبال کے ہاں انٹلیکٹ کا پہلا درجہ حواسی تجربہ ہے ،دوسرا عقل اور اعلی درجہ / قسم / صورت وجدان ہے۔ حواسی تجربہ کے لیے ٹول حواس خمسہ ، عقل حواس خمسہ کی معلومات پر غور وفکر کرتی ہے ۔ جب کہ وجدان/ مذہبی تجربہ کے لیے ٹول دل ہے ۔ مذہبی تجربہ کی جانچ پڑتال بھی عقل کرتی ہے ۔اقبال کے الفاظ یوں ہیں۔
Philosophy no doubt has jurisdiction to judge religion.
فلاسفی کو بے شک یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مذہب کو پرکھے۔
ہمیں یاد ہے حواس خمسہ سے حاصل شدہ علم جو انٹلیکٹ سے جدا نہیں سائنس کہلاتا ہے ، عقل سے حاصل شدہ علم جو کہ انٹلیکٹ سے جدا نہیں عقل کہلاتا ہے، وجدان سے حاصل شدہ علم جو کہ انٹلیکٹ سے جدا نہیں مذہب کہلاتا ہے۔
اگر غور کریں تو انٹلیکٹ کی درمیانی کڑی مراد عقل سائنس اور مذہب کو پرکھتی ہے ۔ یوں اقبال کے ہاں تجربات دو قسم کے ہیں۔
حسی تجربہ
مذہبی تجربہ
دونوں کے ٹول جدا ہیں ۔دونوں کی معلومات جدا ہے مگر ایک ہی انٹلیکٹ کے حصے/ درجات یا شکلیں ہیں ۔اب انٹلیکٹ کے کسی ایک حصے یا دو حصوں کی معلومات/ علم پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں تو اقبال کو گوارا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے محض کسی ایک حصے کے علم پر اکتفاء یا انٹلیکٹ کے حصوں کو انٹلیکٹ سے جدا سمجھ کر اس حصے کی معلومات / علم پر اکتفاء کر لینے والے کو رد کرتے ہیں مثلا جب غزالی فلسفہ مراد عقل کا علم (مراد فلسفہ عقل کے تجربے کا نام ہے) سے الگ ہوتے ہیں اور وجدان تک رک جاتے ہیں تو اقبال اس کو رد کرتا ہے۔مثلا اقبال کہتا ہے
Ghazali, finding no hope in analytic thought, moved to mystic experience, and there found an independent content for religion.
غزالی کو تجزیاتی فکر ( انٹلیکٹ کے دوسرے مرحلے میں) میں امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی اور اس نے اپنا رخ صوفیانہ واردات کی طرف پھیر لیا اور یہاں اس نے مذہب کے لیے خود منحصر مواد دریافت کر لیا۔
غزالی جب عقل سے منہ موڑ کر وجدان کے ہی ہو گئے تو یہاں انٹلیکٹ کے پہلے دو حصوں سے اتر گئے ۔یوں یہاں سے غزالی اور اقبال کا اختلاف سامنے آتا ہے ۔ یاد رہے ابھی ہم اس بات کی تحقیق نہیں کر رہے کہ دونوں میں سے درست کون ہے؟ بلکہ ابھی اقبال کا نظریہ علم بیان کر رہے ہیں جہاں سے دوسروں کے ساتھ اس کا اختلاف ہے۔
جرمنی کے مشہور فلاسفر کانٹ کے نزدیک علم کے ذرائع ہی دو ہیں۔
حسی تجربہ
عقل
یہ دونوں کیسے حصول علم کرتے ہیں ؟ اس کی تفصیل کے لیے ” تنقید عقل محض” کا مطالعہ فرمائیں۔
اب کانٹ کے ساتھ جو اقبال کا تفرق ہے ۔وہ دو طرح کا ہے۔
پہلا تفرق علم کے ذرائع کی تعداد کا ہے۔ جب عقل محض سے کانٹ روح، عالم مطلق ، خدا (ماورائی تصوریت) تشکیل دے لیتا ہے تو اقبال اس نکتہ پر کانٹ کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔
کانٹ کی اس ماورائی تصوریت پر اقبال خاموش ہے۔ مگر جب انٹلیکٹ کے پہلے دو درجوں تک ہی کانٹ محدود ہو جاتا ہے تو یہی اس کا اختلاف ہے ۔ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ اقبال انٹلیکٹ کے کسی ایک حصے کا انکار یا اس کے کسی ایک حصے کو جدا کرنے پر بھی معترض ہو جاتا ہے۔
اب عقل کا کام اقبال کا دوبارہ ذہن میں لائیں ۔۔
“فلسفہ کو/ عقل کو( جو انٹلیکٹ کا درمیانی درجہ ہے ) یہ اختیار ہے کہ وہ مذہب کو پرکھے۔”
یقننا عقل مذہب کو تب پرکھے گی جب وجدان یا مذہبی تجربہ سے معلومات عقل کو ملے گی۔؟اب اقبال کے ہاں تجربات کی دو حدود میں حسی اور مذہبی تجربہ شامل ہے۔
کانٹ جب تجربے کی حدود سے ماورا ماورائی تصوریت ( عقل محض پر مشتمل) تشکیل دے لیتا ہے تو اقبال اس نکتے پر ابھی ایک اور تجربے ( مذہبی تجربہ) کو عقل کی پرکھ میں لاتا ہے۔
آسان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کروں تو حواس خمسہ سے ملنے والی اطلاعات عقل کی پرکھ اور پھر مذہبی تجربہ کی اطلاعات میں بھی عقل کی پرکھ استعمال ہو گی۔
یوں ایک قسم کے تجربات سے ماورا ہو کر ماورائی تصوریت قائم کر لینا ۔یہ اگلا قدم ہے ۔
پچھلا قدم اقبال کے ہاں یہ ہے کہ تجربے کی دوسری قسم برقرار ہے۔یوں اقبال کے ہاں عقل ابھی تجربات سے ماورا نہیں ہوئی کہ محض ایک تجربے کی حدود سے باہر مابعد الطبیعیات ( ماورائی تصوریت، روح ، عالم مطلق ،خدا) تشکیل دے لی جائے۔
اب ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ کیا انٹلیکٹ کی درمیانی کڑی عقل جو وجدان سے حاصل شدہ مذہب کو پرکھتی ہے ۔کیا وہ اقبال کے ہاں مذہب پر فوقیت رکھتی ہے ۔؟ اس کے لیے پوسٹ کے شروع میں یہ بات بیان کر دی گئی ہے کہ وجدان انٹلیکٹ کی اعلی ترین صورت ہے ۔ ویسے بھی اقبال کہتا ہے۔
But to rationalize faith is not to admit the superiority of philosophy over religion.
ایمان کی عقلی تاویل پیش کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ فلسفے کو مذہب پر فوقیت حاصل ہے۔
اب یہ عتراض کہ اقبال غلط ہے یا کوئی اور؟ یہ اگلا قدم ہے ۔پہلا قدم اقبال کا نظریہ علم بیان کرنا ہے
کانٹ پہلے ہی وجدان کو رد کر گیا ہے ۔ وجدان ماقبل کانٹ اور مابعد کانٹ ایک الگ بحث ہے۔کانٹ کا فلسفہ زیادہ مضبوط ہے یا فلاں کا یا اقبال کا ؟ یہ بھی الگ بحث ہے۔
اقبال کے نظریہ علم کا اقبال کے نظریہ وحی اور نبوت سے گہرا تعلق واسط ہے ۔اس لیے یہاں اس کو بیان کرنے سے قبل اقبال کی وجدان کے بارے میں تعریف کو دوبارہ لکھا جاتا ہے۔
اقبال وجدان کے متعلق لکھتے ہیں:
Intuition is only higher kind of intellect.
وجدان خرد کی ترقی یافتہ یا سب سے اعلی قسم یا شکل ہے۔خرد کا کل علم تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ سائنس ،دوسرا حصہ فلسفہ اور تیسرا حصہ دو حصوں میں منقسم ہے: صوفیانہ اور پیغمبرانہ علم پر مراد تصوف یا سریت اور مذہب پر۔ پہلے علم کے ذرائع حواس خمسہ ،دوسرے علم کے ذرائع عقل اور تیسرے اور چوتھے علم کے ذرائع وجدان کہ جس کا مرکز قلب ہے۔
یوں حواس خمسہ+ عقل + وجدان سے حاصل شدہ علم ہی اقبال کے نزدیک کل علم ہے ۔کسی ایک حصہ پر اکتفاء کرنا اقبال کو پسند نہیں ہے ۔جو بھی کسی ایک حصہ پر رک جاتا ہے ۔اقبال اس پر تنقید کرتا ہے ۔اقبال کی شاعری میں عشق و عقل کا جو معرکہ بیان کیا جاتا ہے وہ اسی تناظر میں ہے ۔اگر تینوں کو ساتھ لے کر چلا جائے تو عشق و عقل مراد فلسفہ و مذہب کا کوئی معرکہ نہیں ہے ۔اردو طبقہ سے عموماً یہ غلطی سر زد ہوئی ہے کہ وہ فکر کی اس کلیت کو نظر انداز کر گئے ہیں اور عقل و وجدان کو جزوی حیثیت میں لے گئے ہیں ۔
بہرحال آج وجدان والے حصے پر تھوڑی گفتگو کرتے ہیں ۔اقبال کے ہاں مذہبی تجربہ مراد وجدان نبیوں اور ولیوں دونوں کو ہوتا ہے ۔دونوں میں فرق مذہبی تجربہ کی بنیاد پر نہیں ہو سکتا ،بلکہ یہ فرق مذہبی تجربہ کے حاصلات یا عملی نتائج کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
نبی اور ولی دونوں معمول کی واردات میں واپس آ جاتے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ نبی کی واپسی ،جیسا کہ آگے چل کر بیان کروں گا انسانیت کے لیے بڑے دور رس معانی سے مملو ہوتی ہے۔
اقبال ،پہلا خطبہ۔ص:44
یہاں تک تو یہ ہی لگتا ہے کہ نبی و ولی کا مذہبی تجربہ مراد وجدان مراد تصوف و مذہب ایک ہی چیز ہے ۔فرق صرف نتائج کا ہے کہ ایک تصوف ہے دوسرا مذہب ۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ نبی و ولی کے وجدان میں وحی کا عنصر مفقود ہے ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔جیسا وہ لکھتے ہیں کہ
حیات عالم وجدانی طور پر اپنے تقاضوں کا ادراک کرتی ہے اور تاریخ کے نازک مواقع پر اپنا رخ متعین کرتی ہے ،مذہبی زبان میں ہم اسے پیغمبرانہ وحی سے تعبیر کرتے ہیں یوں اقبال حیات اور وحی کو ہم معنی استعمال کرتے ہیں ۔
یہاں سے اندازہ ہوا کہ اقبال وجدان کے اس حصے کو وحی قرار دیتے ہیں جو مذہب کہلاتا ہے ۔ابھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کے وجدان اور صوفی کے وجدان میں کیا فرق ہے تو فرق کے متعلق اوپر بیان ہو چکا ہے کہ اس کی بنیاد نتائج یا حاصلات وجدان ہیں ۔
اب مسلمانوں میں ایک اور سوال بھی ہے اور وہ ہے ختم نبوت کے متعلق ۔اگر تمام انبیاء کا وجدان مذہب ہے تو پھر تو سب کی نبوت جاری رہنی چاہیے۔ اقبال اس کو کس انداز سے دیکھتا ہے۔اس کا اندازہ ان کے اس قول سے ہو جائے گا ،وہ لکھتے ہیں کہ
اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراج کو پہنچ چکی ہے لہذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا ۔اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔
بہرحال یہ تو “خطبات اقبال” کے حوالہ جات تھے ۔کچھ لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا ہے کہ اقبال وجدان یا وحی کو احکام الہی نہیں سمجھتا بلکہ وجدان کہتا ہے جو کہ قلب سے متعلق ہے۔ حقیقت ایسی بھی نہیں ہے ۔دراصل ایسے لوگوں کو اقبال کو کلی تناظر میں پڑھنا چاہیے ۔” خطبات” 1930 ء میں شائع ہوئے تھے جبکہ اس کے بعد اقبال کی کئی کتب منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ان کتب میں وحی کے متعلق اقبال کے نظریات کو اقبال کے نظریات کا تسلسل ،ارتقاء یا اضافہ کہہ لیں ۔بہرحال پرانے نظریات کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو کافی حد تک ان لوگوں کو بات کی سمجھ آ جائے گی۔
“بال جبریل”جو کہ 1935 ء میں شائع ہوئی تھی اس میں اقبال کے شعر کا ایک مصرعہ لکھتا ہوں جو اس طرح ہے:
مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند
بال جبریل،غزل 21
اس کا مطلب ہے کہ قلب تو مرکز ہے ہی اور پیغمبر کو مذہبی تجربہ بھی ہوتا ہے مگر اس مذہبی تجربہ میں احکام الہی شامل ہوتے ہیں۔
یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ آیا یہ احکام الہی پیغمبر خود سے بنا لیتا ہے ۔مراد مذہبی تجربہ میں خود سے پیغمبر ایسا سر انجام دے لیتا ہے یا خارج سے اسے یہ احکام ملتے ہیں؟
مانا کہ وحی احکام الہی ہے جس کا پابند مومن ہے ،نبی خود بھی مومن ہوتا ہے وہ بھی اس کا پابند ہوتا ہے۔لیکن سوال جوں کا توں موجود ہے کہ یہ مذہبی تجربہ نبی کو خود ہوتا ہے یا خارج سے کوئی ذات وسیلے یا بغیر وسیلے سے کرواتی ہے؟ بہرحال اس کا جواب مجھے کتب اقبال سے نہیں مل سکا یا شاید ہو اور میری نظروں سے اوجھل رہ گیا ہو۔
بہرحال اگر یہ مذہبی تجربہ پیغمبر کے اختیار میں ہے تو داخلی ہے نہیں تو خارجی ہے ۔داخلی مانا جائے تو احکام الہی میں موجود الہ بھی داخلی قرار پاتا ہے ۔جبکہ خارج میں ہو تو خارجی قرار پاتا ہے اور پھر وحی کے لیے وسیلہ و غیر وسیلہ کا مسئلہ رہ جاتا ہے۔
باقی اقبال کا تصور ختم نبوت عام علماء سے کس قدر مختلف ہے یہ تب تک بتانا نا ممکن ہو جاتا ہے جب تک وحی کے متعلق اقبال کے سارے بیانات موجود ہوتے ۔مبہم بیانات اور نامکمل بیانات متعلق وحی کئی مفکرین موجودہ کو ابہام میں ڈال چکے ہیں۔ اقبال کے ایک اقرار پر جو اس نے “ضرب کلیم” 1936 ء، میں بیان کیا ہے بات ختم کرتے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں:
میں نہ عارف ،نہ مجدد ،نہ محدث ،نہ فقیہہ
مجھ کو معلوم نہیں ،کیا ہے نبوت کا مقام
ضربِ کلیم، نبوت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وقاص احمد پی ایچ ڈی اسلامک سٹڈیز ہیں۔آپ وائٹل گروپ آف کالجز گوجرانوالہ میں شعبہ اسلامیات اور اردو کے ہیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس میں وزٹنگ اے پی ہیں ۔
کمنت کیجے