محمد ابراہیم
ڈاکٹر مبارک علی پاکستان کے وہ مؤرخ ہیں جو غیر جانبداری سے کام لیتے ہوئے تاریخ لکھتے ہیں۔اُن کی کتابیں اپنے قارئین میں تجزیے کی صلاحیت پیدا کرتے پیں۔آج جس کتاب پر میں تبصرہ کرنے جا رہے ہوں یہ اُن کی مختصر لیکن جامع کتاب ہے۔انہوں نے اس کتاب کے پہلے حصے میں “غلامی”جبکہ دوسرے حصے میں نسل پرستی پر بات کی ہے۔غلامی اور نسل پرستی کا شکار سب سے زیادہ افریقی لوگ رہے ہیں۔جن کے ساتھ سفید اقوام نے اُن کے کالے رنگ کی بنا پر مسلسل استحصال کیا۔انسان اپنی زبان اور کلچر تو بدل سکتا ہے مگر اپنا رنگ نہیں بدل سکتا۔غلاموں کی شناخت ان کے مالک کے ساتھ رہنے میں ہوتی تھی۔وگرنہ اُن کی علیحدہ سے کوئی شناخت نہیں تھی،شناخت تو دور کی بات ان کا نام بھی اُن کا مالک ہی رکھتا تھا۔اگر کوئی غلام بار بار فروخت ہوتا تو اسی طرح سے اُس کے نام بھی بدلتے رہتے۔اگر کوئی غلام اپنے آقا کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اُسے قتل کر دیتا تو رومی سلطنت میں یہ قانون تھا کہ اُس کے بدلے میں مقتول کے گھر جتنے غلام ہوتے تھے اُن سب کو قتل کر دیا جاتا۔غلاموں کی بغاوتیں بھی ہوئیں لیکن اکثر نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔آقا کو خوش کرنے کے لیے جو حربے استعمال کیے اُن میں خوشامد ،اس کی جھوٹی تعریف اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا شامل تھا۔ڈاکٹر مبارک علی اسلامی تہذیب اور دوسری تہذیبوں میں غلامی کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں “دوسری تہذیبوں کے مقابلہ میں اسلامی تہذیب میں غلاموں کے ساتھ اس قدر برا سلوک نہیں ہوا ۔ خاص طور سے وہ غلام جو گھریلو کام کاج کرتے تھے وہ خاندان کا ایک حصہ ہو جاتے تھے اور انہیں کافی مراعات مل جاتی تھیں۔ کنیزیں کہ جن سے مالک کے جنسی تعلقات ہوتے تھے ان کی اولاد اس کی جائداد میں برابر کی شریک ہوتی تھی اور اس طرح دوسری نسل غلامی سے آزاد ہو جاتی تھی۔ اکثر حکمراں کنیزوں کی اولاد سے تھے جن میں سب سے مشہور عباسی خلیفہ مامون ہے۔ یہ ضرور تھا کہ کنیز زادہ ہونے کی وجہ سے اس کا سماجی مرتبہ گھٹ جاتا تھا مگر اس کی صلاحیتوں کی وجہ سے اس کے راستہ کی مشکلات کم ہو جاتی تھیں ۔ عثمانی خاندان کے تمام بادشاہ یلدرم کے بعد سے کنیزوں کی اولاد تھے کیونکہ وہ شادی نہیں کرتے تھے اور کنیزوں سے تعلقات رکھتے تھے”۔دنیا میں جس براعظم نے سب سے زیادہ غلامی کی اذیت جھیلی ہیں وہ افریقہ ہے۔شاید اس کی وجہ ان کا رنگ اور جسمانی ساخت ہوگی۔افریقیوں کا سب سے زیادہ استحصال یورپیوں نے کیا۔اس کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ آج تک رنگ کی بنیاد پر نسل پرستی مغربی تہذیب کا حصہ بنی ہوئی ہے اور وہ اتنی ترقی کرنے کے باوجود اس سے نجات نہیں حاصل کر سکے۔غلاموں کو اپنی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔انہیں ہر وقت یہ احساس دلایا جاتا تھا کہ ان پر ہر لمحہ کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔جب ان غلاموں کو افریقہ سے لایا جاتا تھا تو انہیں عیسائی بنا دیا جاتا۔حتیٰ کہ اُنہوں نے اپنی زبانوں کو بھی ترک کر دیا۔لیکن مذہب اور زبان دونوں انہیں سفید معاشرے میں کوئی سماجی رتبہ نہیں دے سکی۔غلامی کے خاتمے کی تحریک ابتدا میں برطانیہ میں شروع ہوئی۔ڈاکٹر صاحب برطانیہ سے شروع ہونے والی اس تحریک کے متعلق لکھتے ہیں”جب تک ان کے معاشی مفادات کو غلامی کے ذریعہ بہتر طریقے سے پورا کیا جاتا رہا اس ادارے کے خلاف کسی قسم کے جذبات پیدا نہیں ہوئے بلکہ برطانوی پارلیمنٹ، چرچ اور سیاسی جماعتوں اور راہنماؤں نے اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس کے فوائد کو تسلیم کیا۔ جب بدلتے سیاسی حالات کی وجہ سے اور تجارت کے اتار چھاؤ کی وجہ سے نقصانات ہونے لگے تو غلامی کے خلاف نفرت اور غلاموں سے ہمدردی کے جذبات پیدا ہونے لگے۔ اس لئے غلامی کے خاتمہ کی تحریک کے پس منظر میں معاشی مفادات کام کر رہے تھے اور انہیں مفادات کو پورا کرنے کی غرض سے مذہبی ، انسانی اور جمہوری اقدار کو استعمال کیا گیا۔اس کتاب میں انہوں نے افریقہ میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کا بھی جائزہ لیا۔اُن کی رائے کے مطابق افریقہ آج جس اذیت اور دکھ میں مبتلا ہے اس کی وجہ یورپ کی تمع اور لالچ ہے۔نسل پرستی کے باب میں وہ یہ لکھتے ہیں کہ مغرب میں موجودہ نسل پرستی کے جو نظریات آئے ہیں ان کی جڑیں دو تاریخی خیالات میں ہیں اول یہ کہ یونانیوں اور رومیوں کو فطرت نے برتر بنایا اور دوم یہ کی برتری یہودیوں کو خدا کی جانب سے ملی۔نسل پرستی کے رجحانات وہاں زیادہ پیدا ہوتے ہیں جو معاشرتی نسلی طور پر تو ایک ہو لیکن جغرافیائی طور پر علیحدہ ہو اور سماجی طور پر رجعت پسند ہو۔ان کا نسلی تعصب انہیں اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ وہ خود کو پاک صاف اور دوسروں کو کم تر سمجھیں۔عیسائی کلچر میں کالے اور سفید کر درمیان تعصبات بہت قدیم ہیں۔کالے کو ہمیشہ برائی کی علامت سمجھا گیا۔ہمارے معاشرے میں اس قسم کے جملے جیسے بلیک لسٹ،کالی بھیڑ،کالا جادو،برائی کے معنوں میں آج بھی استعمال ہوتے ہیں۔اس کے مقابلے میں سفید معصومیت اور امن و پاکیزگی کا رنگ ہے۔نسل پرستی کے نظریات کے تحت یہ بھی ضروری تھا کہ دوسری تہذیبوں کے کارناموں کو نظر انداز کیا جائے۔نوآبادیات میں یہی کچھ کیا گیا۔برطانیہ نے اپنی نوآبادیات کو آزاد کرنے سے پہلے یہاں پر مقامی افسر شاہی کو برطانوی طرز پر تربیت دے کر اس قابل بنا دیا تھا کہ وہ ان کے جانے کے بعد بھی انہی کی طرح اس کو چلائیں اور ان کے مفادات کا تحفظ کریں۔آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کے ساتھ انگریز نسل پرستی نے جو سلوک کیا اس پر بھی اس کتاب میں لکھا گیا ہے۔ڈاکٹر مبارک علی کی یہ کتاب صرف اور صرف 110صفحات پر مشتمل ہے لیکن بہت قابلِ غور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد ابراہیم تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان قاری ہیں ۔آپ تیرہویں جماعت کے طالبعلم اور کتب بینی کے شائق ہیں ۔
کمنت کیجے