Home » عام مسلمان احمدیوں کے ساتھ کیسے تعامل کریں؟
اسلامی فکری روایت سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

عام مسلمان احمدیوں کے ساتھ کیسے تعامل کریں؟

عام معاشرتی ماحول میں اور خصوصا” جدید تعلیمی اداروں میں احمدیوں کے ساتھ میل جول کا تجربہ جن حضرات کو ہوتا ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مروجہ متشدد مذہبی بیانیہ کتنا ناقابل عمل اور انسانی روابط کے لیے کتنا toxic ہے اور ایک فطری انسانی ماحول میں دعوت کے امکانات کو کتنا محدود کر دیتا ہے۔ ایسے تمام حضرات اور خصوصا” تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ہماری درج ذیل گزارشات ان شاء اللہ مددگار اور مفید ہوں گی۔

1۔ انسانی تعلق اور سماجی رابطے میں قطعا” احمدی اور غیر احمدی میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ اس حوالے سے متشدد مذہبی بیانیوں سے مرعوب ہونے کی ضرورت ہے۔ انسانی تعلق پر ایسی کوئی پابندی دین نے عائد نہیں کی، یہاں تک کہ مکہ کے وہ کھلے معاند دشمن جو ہر وقت اسلام اور پیغمبر اسلام کا تمسخر اڑاتے رہتے تھے، ان کے ساتھ بھی اللہ تعالی نے صرف اس خاص کیفیت میں تعلق منقطع کرنے کی ہدایت فرمائی ہے جب وہ عین استہزاء کے عمل میں مشغول ہوں۔ اس کیفیت سے نکل آنے کے بعد ان کے ساتھ سماجی میل جول رکھنے سے بھی اللہ تعالی نے منع نہیں فرمایا۔

2۔ احمدیوں اور مسلمانوں میں عقیدے کا ایک بنیادی اختلاف ہے۔ روزمرہ تعلق میں کسی مرحلے پر اس کا زیر بحث آ جانا بھی عین ممکن بلکہ واقع ہے۔ اس حوالے سے اسلام کے مستند عقیدے کی ترجمانی یا وضاحت کے لیے کوئی بہت زیادہ فنی علم درکار نہیں۔ ایک عام اور سادہ پڑھا لکھا مسلمان بھی ایک دو بنیادی باتیں سمجھ لینے کے بعد اپنا عقیدہ بھی محفوظ رکھ سکتا ہے اور ایک بنیادی سطح کی دعوت بھی ایک عام پیدائشی احمدی کو دے سکتا ہے۔

3۔ بنیادی نکتہ جو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام میں ختم نبوت کا عقیدہ کسی ایک خاص آیت یا حدیث کی تشریح سے ثابت نہیں ہوا کہ اگر اس آیت یا حدیث کی کسی دوسری تاویل کی گنجائش بھی کسی طرح دکھا دی جائے تو ختم نبوت کا تصور ڈھے جاتا ہے۔ یہ تصور ان اساسی تصورات میں سے ہے جن پر پہلے دن سے مسلمانوں کا self-image استوار کیا گیا ہے۔ مسلمان امت، دنیا کی دوسری امتوں میں اپنی شناخت ہی پہلے دن سے یہ رکھتی چلی آ رہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، آپ کی رسالت تمام انسانیت کے لیے ہے اور آپ اللہ کے آخری رسول ہیں جن کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے۔

4۔ مسلمان امت کا یہ سیلف امیج ایک متواتر اور اجماعی عقیدے کی صورت میں منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ مختلف آیات اور احادیث اسی کی نشان دہی کرتی ہیں کہ کیسے مختلف اسالیب اور زاویوں سے یہ حقیقت مسلمانوں کے اجتماعی حافظے میں محفوظ کی گئی۔ اس عقیدے کے حوالے سے کبھی مسلمانوں میں مستند علم کی سطح پر کوئی اختلاف نہیں رہا، بلکہ دعوائے نبوت کو بلا اختلاف ہمیشہ کفر مانا گیا ہے۔ شیخ اکبر ابن عربی رح بھی، جن کے ہاں نبوت کی تعبیر عام دینی تعبیر سے کافی مختلف ہے، ایسے دعوائے نبوت کو جس میں مدعی پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا جائے، کفر قرار دیتے ہیں۔

5۔ اس ساری صورت حال پر البتہ یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جیسے مسیحی امت حضرت مسیح کی الوہیت کے باب میں گمراہ ہو گئی، اسی طرح مسلمان امت بھی ختم نبوت کے باب میں گمراہ ہو گئی، ورنہ یہ عقیدہ اس صورت میں امت کو نہیں سکھایا گیا تھا جیسے مسلمان مانتے ہیں۔ اگر یہ امکان، بر سبیل بحث، مانا جائے تو دیکھنا یہ بنتا ہے کہ اگر واقعتا” کوئی نبی آپ کے بعد بھی آ سکتا ہے تو ظاہر ہے، اسے سب سے پہلے مسلمانوں کے جس عقیدے کی اصلاح کرنی چاہیے، وہ یہی ختم نبوت کا عقیدہ ہے، کیونکہ اس کی اصلاح کے بغیر نیا نبی اپنا فرض منصبی ادا ہی نہیں کر سکتا۔

6۔ اب اگر بالفرض مرزا صاحب وہ نبی تھے جنھیں مسلمانوں کی اس بنیادی ترین گمراہی کی اصلاح کے لیے مبعوث کیا گیا تو دیکھنا یہ بنتا ہے کہ انھوں نے کیسے اس تصور کی اصلاح کی؟ ہمارے سامنے منظر یہ آتا ہے کہ کوئی تین دہائیوں تک تو اللہ تعالی کسی ایسے اسلوب میں انھیں ان کی نبوت کی اطلاع دیتے رہے کہ خود مرزا صاحب کو ہی یقین نہیں ہوا۔ پھر انھیں ہوا تو ان کی امت کو ان کے دعوے اور تعلیمات ایسی شکل میں ملے کہ امت عین اسی سوال پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعوی کیا بھی تھا یا نہیں۔

7۔ پھر جس جماعت نے مرزا صاحب کو نبی مانا، اس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے افراد کو جماعت سے جوڑے رکھنے کے لیے تو اس پہلو پر زور دیتی ہے کہ ہم عام مسلمانوں سے الگ جماعت ہیں اور ہمارا ایمان مرزا صاحب کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، لیکن اپنے خارج میں مسلمان امت میں شامل رہنے کے لیے یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ احمدیوں اور مسلمانوں کا تو کوئی ایسا بڑا اختلاف نہیں کہ اس پر جماعت احمدیہ کو خارج از اسلام قرار دیا جائے۔

8۔ ایک عام مسلمان کسی لمبی چوڑی علمی بحث میں پڑے بغیر اپنے احمدی دوست کو یہ سوال سمجھا سکتا ہے کہ تیرہ سو سال سے جو امت نبوت کے ختم ہو جانے کی گمراہی میں پڑی ہوئی تھی، اس کے عقیدے کو درست کرنے کے لیے یہ کون سا نرالا اسلوب اللہ نے اختیار کیا ہے؟ کیا کسی اور نبی نے دین کے کسی بنیادی عقیدے کے معاملے میں امت کی اصلاح اس انوکھے اسلوب میں کی ہے جو مرزا صاحب نے اختیار کیا؟

ضروری نہیں کہ آپ کا احمدی دوست شروع میں ہی اس استدلال سے ضرور مطمئن ہو جائے، لیکن اس بنیادی سوال کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ان شاء اللہ آپ اپنے عقیدے کی حفاظت اور دوست کو دعوت دینے کی ذمہ داری بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔

9۔ ختم نبوت کی مرکزیت اور اہمیت سمجھانے کے لیے ایک عام مسلمان کو کوئی مناظرانہ اسلوب اختیار کرنے اور مدعو کو دیوار سے لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی تعلق اور دعوت، دونوں کے لیے مضر ہے۔ غلطی سمجھاتے ہوئے مرزا صاحب کی شخصیت وغیرہ پر تبصرہ کرنے کی بھی قطعا” کوئی ضرورت نہیں۔ ان کا نام “مرزا صاحب” کہہ کر ہی لیں جیسے تمام بڑے اور ذمہ دار علماء لیتے رہے ہیں۔ آپ کا مقصد بات سمجھانا اور غور پر آمادگی پیدا کرنا ہونا چاہیے، نہ کہ اپنی مذہبی نفرت کا اظہار کرنا۔

10۔ مدعو غور پر آمادہ ہو تو جوش میں عجلت سے کام نہ لیں اور نہ غیر حکیمانہ انداز میں قبول اسلام کے لیے دباؤ ڈالیں۔ انسانوں کے جذبات اور وابستگیاں ہوتی ہیں اور ان سے دامن چھڑانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ مدعو کو اپنا وقت لینے دیں، اس کے لیے دعا کریں اور بات بات میں اس موضوع کو چھیڑنے کے امکانات دریافت نہ کریں۔ مضبوط بات ایک دفعہ ذہن میں اتر جائے تو وہ کام کرتی رہتی ہے اور خدا نے ہدایت مقدر کی ہو تو اپنے وقت پر اس کا ظہور ہو جاتا ہے۔

11۔ مدعو ذاتی طور پر قبول اسلام کے لیے تیار ہو تو بھی اس کے خاندانی حالات کو نظر انداز کر کے فیصلے کا فی الفور اعلان کرنے کی ترغیب نہ دیں۔ اصل چیز دل کی ہدایت ہے جو اللہ کے ہاں قبول ہو۔ دنیوی معاملات میں بعض دفعہ مبنی بر حکمت اخفاء سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کسی پرجوش مبلغ اسلام کی باتوں میں آنے اور مدعو کو ناقابل تحمل آزمائش میں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ شاہ حبشہ نجاشی رض کی صورت میں واضح نمونہ موجود ہے جو اپنی قوم میں اسلام کا اظہار نہیں کر سکے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھانے پر اکتفا فرمائی تھی۔

یہ چند چیزیں پیش نظر رکھیں، ان شاء اللہ آپ کو روزمرہ زندگی میں احمدیوں کے ساتھ مستند اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تعامل کرنے میں کوئی الجھن اور پیچیدگی پیش نہیں آئے گی۔ ہاں، کوئی مشکل پیش آئے تو یقینا” اس کے لیے صاحب فہم اہل علم سے رجوع کر لینا چاہیے۔

واللہ الموفق

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں