سوال:
پاکستان میں کچھ مذہبی سوچ رکھنے والے لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ احمدی/قادیانی اپنے بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کے لیے خود کو غیر مسلم تسلیم کریں۔ تو کیا انہیں صرف زبان سے یہ کہنا ہے کہ ہم غیر مسلم ہیں یا مطالبہ پورا کرنے کے لیے سارے کام بھی غیر مسلموں جیسے کرنے پڑیں گے؟ اگر صرف اتنا کہنا ضروری ہے تو کیا یہ کہنے کے بعد نماز، اذان، حج، قربانی وغیرہ تمام عبادات وہ کھلے عام ادا کر سکیں گے؟ اگر یہ ماننے کے بعد بھی کہ وہ غیر مسلم ہیں، وہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادات ادا نہیں کر سکتے تو شرط ماننے سے پہلے اور شرط ماننے کے بعد کیا فرق واقع ہوا؟
جواب:
اس کا جواب تو وہ بعض مذہبی لوگ ہی دے سکتے ہیں۔ دراصل اس خاص مذہبی طبقے کا نقطہ نظر یہ ہے کہ احمدیوں کو اپنا عقیدہ اختیار کرنے کی اجازت ہونی ہی نہیں چاہیے، بلکہ انھیں احمدی عقیدے سے براءت ظاہر کر کے مسلمانوں کا معروف مذہب قبول کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ اسی مقصد سے مذکورہ نامعقول شرط لگائی جاتی ہے جو اس تضاد پر مبنی ہے جو سوال میں ذکر کیا گیا ہے۔
پاکستانی آئین اور قانون میں جو بات کہی گئی ہے اور جس کو ذمہ دار مذہبی وقانونی طبقے درست سمجھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ احمدیوں کے خود کو مسلمان سمجھنے پر کوئی پابندی نہیں، البتہ مسلمان ان کو امت مسلمہ کا حصہ تصور نہیں کرتے۔ اسی طرح احمدیوں کو اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں اپنی عبادات اور مذہبی رسوم ادا کرنے کی آزادی حاصل ہے، تاہم وہ سرعام مسلمانوں کے خاص شعائر کے اظہار سے لوگوں کے لیے یہ التباس پیدا کرنا چاہیں کہ وہ بھی مسلمانوں کا حصہ ہیں تو اس کی قانونا” اجازت نہیں ہے۔
سوال:
ہمیں فقہی کتب میں پڑھایا گیا کہ عام کافر اور زندیق کافر میں احکامات میں فرق ہے اور زندیق کافر وہ ہے جو اپنے کفر کو اسلام کا عنوان دے اور اہل اسلام کی تکفیر کرے۔ کیا آپ اس تقسیم و تفریق احکام کو روا خیال کرتے ہیں یا نہیں؟ نہیں تو کیوں؟
جواب:
کافر اور زندیق وغیرہ کے فقہی احکام میں فرق کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ سیاست شرعیہ سے ہے، یعنی یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ اسی لیے 1974 کا فیصلہ ایک بہت اہم اجتہادی فیصلہ ہے جس میں روایتی فقہی حکم کے مطابق زندیق کی کیٹگری میں آنے والے گروہ کو غیر مسلم اقلیت کا آئینی درجہ دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے ہوتے ہوئے زندقہ وغیرہ کی فقہی بحث غیر متعلق ہے۔
سوال:
آپ کی بحث کا مدار اقلیتوں کے حقوق ہیں اور یہ حقوق انہیں بہرطور ملنے چاہییں، اس سے کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ البتہ سوال یہ ہے کہ کیا قادیانی خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں؟ نہیں تو وہ آئین کے باغی ہیں۔ ان کے حقوق کی تگ و دو ماورائے فہم ہے۔
جواب:
قادیانیوں کو اقلیت کا درجہ دینا اس سے مشروط نہیں ہے اور نہ اس شرط کی کوئی تک بنتی ہے کہ وہ خود کو غیر مسلم تسلیم کریں۔ اقلیت ماننے کا مطلب ہے کہ انھیں اپنا عقیدہ رکھنے کا حق ہے۔ وہ اگر خود کو مسلمان سمجھتے ہیں تو اس عقیدے کے ساتھ ہی ان کا اقلیت کا درجہ آئین میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر انھیں اپنا عقیدہ رکھنے کا حق ہی نہیں تو انھیں اقلیت ماننے کا کیا مطلب ہے؟ پھر تو ان سے سیدھا سیدھا کہنا چاہیے کہ اپنا عقیدہ وہ خود طے نہ کریں، بلکہ جیسے مسلمان کہہ رہے ہیں، اس کے مطابق اپنا عقیدہ رکھیں۔
سوال:
یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ہر قادیانی اپنی کمائی کا ایک حصہ جماعت قادیانیہ کو ماہانہ بنیادوں پر ادا کرنے کا پابند ہے۔اہل اسلام ان کی جدوجہد کو ارتدادی مہم خیال کرتے ہیں۔ کیا ایک مسلمان کے لئے ایسے مقصد کے لیے ان کے تجارتی منافع کا ذریعہ بننا روا ہے؟
جواب:
ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب کے لیے مال خرچ کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی بنیاد نہیں ہو سکتا کہ ان کے ساتھ کاروباری تعلق کو ممنوع قرار دیا جائے۔ کوئی اپنے ذاتی احساس یا دینی جذبے کے تحت ایسا کرنا چاہے تو وہ اس کا ذاتی انتخاب ہے۔ یہ شریعت یا فقہ کا کوئی حکم نہیں ہے۔ یہی رائے حال میں مولانا مفتی رویس خان صاحب اور دوسرے اہل علم نے بھی دی ہے اور میں بھی اسی کو صحیح سمجھتا ہوں۔ خاص طور پر اگر کسی گروہ کے بطور گروہ بائیکاٹ سے اس کی عام سماجی زندگی متاثر ہوتی ہو تو ایسا کرنا آئین میں دی گئی ضمانتوں اور تحفظات کے بھی منافی ہے۔
واللہ اعلم
کمنت کیجے