محمد عامر ربانی
کچھ مہینے قبل کی بات ہے ، خیبر پختون خوا کے ضلع مردان کے نواحی گاؤں ساول ڈھیر میں نگار عالم نامی حافظ قرآن کو مشتعل ہجوم نے توہین رسالت کے الزام میں قتل کر دیا ، عین اسی وقت ہم نے چیخ چیخ کر بتانے کی کوشش کی تھی کہ موصوف نگار عالم سے غلطی اور خطا ضرور سر زد ہوئی ہے لیکن وہ گستاخ نہیں ہے ، اس کو قتل کرنا ظلم اور نا انصافی کی بات ہے ، مگر کوئی بھی سننے کو تیار نہیں تھا ، اب سب کی آنکھیں کھل رہی ہے ، صلح و مصالحت کی گئی ہے ، مقامی علماء نے تسلیم کیا کہ مقتول نگار عالم گستاخ نہیں تھا ، مگر اب تو سب کچھ بے سود ہے ، ایک بے گناہ کی جان جا چکی ہے۔ …
1// تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے بخوبی جانتا ہوں اور یہ ایک سماجی حقیقت بھی ہے کہ اچھے خاصے لوگ بھی اپنی مزہبی شناخت کو معاشی،سیاسی اور سماجی برتری کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ہندوستانی معاشرے میں شخصیت پرستی یا طبقاتی پسند نا پسند بہت زیادہ ہے،لوگ اپنے سیاسی اور مذیبی قائدین کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے،جس پر غور کرنے کی از حد ضرورت ہے۔نگار عالم پی ٹی آئی کے جلسے میں خطاب کررہے تھے،خطاب کے دوران مقامی ناظم کی توصیف کرتے ہوئے حد سے زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا جس سے بات کو درست منہج میں سمجھا نہیں پائے اور ایک سنگین غلطی کرگئے جس سے عام آدمی کو توہین رسالت کا شائبہ پیدا ہوا۔
2/۔ ساولڈھیر میں جو واقعہ رونما ہوا,,میں نے اس واقعے کو بڑی گہرائی سے جاننے کی کوشش کی ہے،نگار عالم کا ارادہ توہین کا قطعا محسوس نہیں ہوتا،وہ تشبیہ میں غلطی کربیٹھے جس کو تعبیر کی غلطی کہنا زیادہ مناسب معلوم ہورہا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اگر اسے اپنی بات کی وضاحت کا موقع دیا جاتا تو تاویل کرتا یا پھر اپنی بات کی یوں توجیہ کرنے کی کوشش کرتا جس سے توہین کا شائبہ نہ ہوتا۔ہماری قو بات پر متعدد قرائن موجود ہے،جس میں نگار عالم کی سابقہ زندگی اور بیان کے وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام گرامی کے ساتھ درود پاک کی ورد قابل ذکر ہے۔
3/شریعت مطہرہ کا نظام انصاف بہت واضح ہے،اس نظام میں مجرم کو اپنی صفائی کا موقع دیئے جانے اور ان کے دلائل سننے کے بغیر سزا جاری ہونے کا کوئی تصور نہیں ہے۔زنا،شراب نوشی اور چوری ڈکیتی کے بارے میں حدود متعین ہے مگر اس میں بھی مجرم کو شک کا فائدہ دیازجاتق ہے،اصول فقہ کے مسلم قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے،الحدود تندر بالشبہات یعنی شبہات حدوں کو ختم کردیتی ہے۔ان سب کے برعکس ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی فضاء عام ہے،یہاں ملزم کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کی روش پائی جاتی ہے، جس کی مسلسل اور شدید مذمت ضروری ہے۔تاکہ قانون کی بالادستی قائم ہو۔
4/دین اور سیاست کا بہت گہرا تعلق ہے،دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا مطلب اسلام کے ایک اچھے خاصے حصے کو پس پشت ڈالنا ہے۔اسلام اپنا ایک سیاسی وژن رکھتا ہے،اس وژن کے مطابق سیاست کا درست تفہیم یہ ہے کہ اس کا مقصد اندرون و بیرون ملک میں وطن اور اہلِ وطن کے معاملات کا خیال رکھنا ہے اور اس لحاظ سے سیاست کو مذہب سے الگ کرنا جائز نہیں ہے بلکہ سیاست اور دین ایک ہی مقصد کے لئے ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔گویا کہ شریعت اسلامیہ کے مبادیات سیاست کے لیے ایک ایسی چھت کی مانند ہیں کہ کام کرتے وقت جس سے تجاوز کرنا جائز نہیں خواہ وہ قانون سازی ہو کا کام ہو یا سماجی اور دیگر کام ہوں۔
5/مذہب اور سیاست کا یہ تعلق جس طرح گہرا اور آفاقیت لئے ہوئے ہیں،اس قدر سیاسی،سماجی اور معاشی فوائد کے لئے مذہب کارڈ کا استعمال قبیح ہے۔ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں دو چیزیں بڑی آسانی سے فروخت ہوتی ہے،ایک خود داری ہے اور دوسرا مذہب ہے۔
مذہب کو سیاست میں عموماً وہاں گھسیٹا جاتا ہے جہاں سیاست کا مقصد عوام کی خدمت کے بجائے خود خدمتی کا کاروبار ہوتا ہے۔ نئے آئیڈیاز کے ذریعے کون نیک نامی کمائے جب مذہب کارڈز اتنے ہی موثر ہیں جتنے کل تھے۔ سیاست میں مذہب کی ملاوٹ کرنے والوں کا خیال ہوتا ہے کہ پاک نظریے کے چند قطرے استعمال کر کے سیاست کو بھی پوتر بنایا جا سکتا ہے۔ انہیں یہ خیال تھوڑی ہوتا ہے کہ اس عمل سے وہ دراصل نظریے کو بھی نہ صرف ناپاک کر رہے ہیں بلکہ اگلی سیاسی پود کو یہی عمل اپنے مقاصد کے حصول کے لیے زیادہ شدت کے ساتھ جاری رکھنے کی راہ بھی دکھا رہے ہیں۔
6/جس قدر جلدی ہوسکے ہمارے سیاستدان،مذہبی اشرافیہ اور سماجی قائدین ملکر سیاسی،سماجی اور معاشی فوائد کے حصول میں مذہب کارڈ کے عدم استعمال پر متفق ہوجائے،اس قسم کے واقعات اکثر مذہبی کارڈ کے شاخسانے ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عامر ربانی صاحب دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل عالم ہیں اور جامعہ فاروقیہ مردان میں تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
کمنت کیجے