Home » عائلی زندگی سے متعلق چند فقہی سوالات کے جوابات
تفسیر وحدیث سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

عائلی زندگی سے متعلق چند فقہی سوالات کے جوابات

سوال1: کیا شوہر کو شرعی طور پہ یہ اجازت ہے کہ وہ بیوی سے جس مرضی لہجے میں چاہے گفتگو کرے۔ بیوی کو جیسے چاہے حکم صادر کرے اگر چہ بیوی اس لہجے اور انداز کو ناپسند کرتی ہو، جواباً احتجاج بھی کرے یا ناراضگی دکھاتی ہو۔ اور شوہر یہ کہے کہ شوہر کسی بھی طرح پیش آ سکتا ہے، بیویوں کو اجازت نہیں ہے، آگے سے ایسے رویہ دکھانے کی۔

جواب: سنن ترمذی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہترین ہو لہذا ابتداءا شوہر کی طرف سے ایسا رویہ رکھنا درست نہیں ہے اور نہ ہی سنت ہے۔ البتہ شوہر بیوی کے درشت رویے کے جواب میں درشتی دکھائے تو شاید گنجائش نکل آتی ہو، لیکن وہ بھی کبھی کبھار ہو جائے تو حرج نہیں ورنہ اس سے بھی اوائڈ کرنا چاہیے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ اگر تم کسی کی کوتاہی اور زیادتی کو نظر انداز کر دو اور درگزر سے کام لو تو یہ بہتر رویہ ہے۔

سوال 2: کیا بیوی کو شوہر سے ناراضگی دکھانے کا کوئی حق نہیں ہے؟ یعنی ایسی ناراضگی نہیں کہ حق زوجیت ادا کرنے سے انکار کرتی ہو، بس خاموشی اختیار کرے، زیادہ بات چیت نہ کرے، اس لیے کہ شوہر کو تکلیف پہنچانے کا احساس ہو۔

جواب: بیوی اپنے شوہر کو ناراضی دکھا سکتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اے عائشہ! جب آپ مجھ سے ناراض ہوتی ہیں تو مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ اس وقت محمد کے رب کی قسم نہیں کہتیں بلکہ ابراہیم کے رب کی قسم کہتی ہیں۔ تو ایک عام شوہر کی کیا حیثیت ہے کہ بیوی اس سے ناراضی نہ کرے یا اپنے کسی رویے سے اس کا اظہار نہ کرے۔

سوال 3: کیا بیوی پہ گھر کا کام ہر صورت میں فرض ہے؟ اگر وہ بیماری میں نہ کر پا رہی ہو اور شوہر اس پر وقتا فوقتاً تنگی کا اظہار کرتا رہے، تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب: بیوی اگر بیمار یا حاملہ یا کاموں کے سبب اوور برڈن ہے تو شوہر اس کے لیے کام والی کا بندوست کرے۔ اگر شوہر میں اس کی استطاعت نہ ہو تو خود اس کے ساتھ گھر کے کام میں شریک ہو جائے، بھلے دس فی صد ہی کام کرے۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کام کاج میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹا دیا کرتے تھے۔

ہمارے گھر میں دو میڈز آتی ہیں اور میں انہیں سولہ ہزار پے کرتا ہوں کہ مسز ساتھ میں ایک اسکول بھی چلا رہی ہیں لہذا کافی زیادہ اوور برڈن ہوتی ہیں۔ لہذا اگر تو بیوی جاب کر رہی ہو یا سسرال کی بھی خدمت کرتی ہو تو شوہر کو لازما میڈ کا اہتمام کرنا چاہیے، اگر استطاعت ہو تو، ورنہ خود بیوی کے ساتھ لگ جایا کرے۔ اپنے ہاں میڈ کا ذکر اس لیے کر دیا کہ میاں بیوی کی کاؤنسلنگ کے درمیان کافی سارے کیسز میں نے محسوس کیا ہے کہ مجھ سے بہت اچھی آمدن والے شوہر حضرات بھی بیوی کو میڈ رکھ کر دینے میں بخل اور کنجوسی سے کام لے رہے ہوتے ہیں جو کہ مناسب رویہ نہیں ہے۔

سوال 4: کیا بیوی کے تکلیف شکوہ یا مان سے کہی گئی باتوں کے جواب میں شوہروں کو اس طرح پیش آنا چاہیے کہ ہر وقت انہیں ناشکری کے لقب سے نوازتے رہیں جیسا کہ بیویاں بسا اوقات کسی چیز پہ کہہ دیتی ہیں کہ آپ نے کبھی یہ نہیں کیا، وہ نہیں لے کر دیا؟

جواب: حدیث میں ناشکری نہ کرنے کی نصیحت عورت کے لیے ہے یعنی اس کی مخاطب عورت ہے نہ کہ مرد کہ وہ عورت خود سے اپنی جانچ کرتی رہے کہ وہ خاوند کی ناشکری تو نہیں کر رہی اور اس کے سبب اپنے لیے جہنم تو نہیں خرید رہی۔ مرد اس حکم کا مخاطب نہیں ہے کہ وہ بیوی کو جتلاتا رہے کہ تم ناشکری کر کے جہنم خرید رہی ہو۔ خطاب کس سے ہے، اس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ مرد اپنے حکم پر عمل کرے کہ بیوی کی ناشکری پر صبر اور درگزر سے کام لے۔ اور بیوی اپنے حکم پر عمل کرے کہ تنہائی میں سوچتی رہے کہ کہیں میرا فلاں فلاں عمل اور رویہ خاوند کی ناشکری میں تو شامل نہیں ہے۔

سوال 5: شوہر حضرات ایک سوال یہ بھی کرتے ہیں کہ
عورت کا پھر گھر میں کام ہی کیا ہے، اس کے فرائض ہی کیا ہیں، اگر کام کے لیے بھی اسے کام والی لگوا کے دینی ہے یا خود ہم نے بھی ہاتھ بٹانا ہے، تو پھر عورت گھر میں کس لیے ہے؟

جواب: بیوی کا ہاتھ بٹانا دلجوئی کے لیے ہے، اس کو شوہروں کو سمجھنا چاہیے۔ کوئی کسی کے حصے کام نہیں کر سکتا البتہ دلجوئی کے لیے اس کے کام میں اس کے ساتھ لگ سکتا ہے۔ اور بیوی کے ساتھ لگنے میں اس کی دلجوئی ہے کہ اسے احساس پیدا ہوتا ہے کہ کوئی میرے ساتھ ہے یا اسے اس کا احساس ہے کہ میں اوور برڈن ہوں یا کوئی میری فیلنگز کو سمجھتا ہے۔ اس دلجوئی کے بعد عورت کو کام کرنے میں مسئلہ نہیں رہ جاتا۔ بیوی کو زیادہ تھکاوٹ اس کے کام کی قدر نہ کرنے سے ہوتی ہے جو کہ عموما ذہنی اور قلبی تھکاوٹ ہوتی ہے۔ پس شوہر کام والی لگوائے یا خود ہاتھ بٹا دے، دو میں سے ایک کام ضرور کرے۔ باقی وہ بیوی کے کام میں معاونت ہی ہو گی، اس کا کل کام نہیں ہو گا۔ لہذا کام تو بیوی کر رہی ہے۔ پھر میڈ سے کام لینا خود ایک کام ہے، اور یہ آسان کام نہیں ہے یعنی کسی سے کام لینا۔

سوال 6: کیا بیوی اگر شوہر سے جیب خرچ مانگے تو کیا شوہر کے لیے دینا ضروری ہے جبکہ وہ اس کے تمام اخراجات پورے کر رہا ہو؟ اور بظاہر بیوی کو اس کی ضرورت نہ ہو؟

جواب: بیوی کو ماہانہ جیب خرچ دینا بیوی کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت میں داخل ہے کہ جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے۔ لہذا شوہر اگر بیوی کے اخراجات پورے کر بھی رہا ہے تو پھر بھی اس کو ماہانہ جیب خرچ دے کہ اس سے اس کا دل ٹھنڈا رہے گا۔ گھر میں شوہر کی پوزیشن خرچ اور حفاظت کرنے والے کی ہے اور اسی بنیاد پر اس کو گھر کا بڑا اور سربراہ بنایا گیا ہے۔ شوہر کو سخی اور بہادر ہونا چاہیے، تبھی وہ ایک خاندان کی کفالت اور حفاظت کا اہل ہو گا۔ میں اپنی بیوی کو ماہانہ پندرہ ہزار جیب خرچ دیتا ہوں۔ یہ اس لیے عرض کر دیا کہ مجھ سے بہت اچھی آمدن والے اپنی بیوی کا ماہانہ جیب خرچ باندھنے میں کنجوس اور بخل سے کام لے رہے ہوتے ہیں اور اس پر تیار نہیں ہوتے۔ بخل اور کنجوسی کا مردانگی سے کیا تعلق۔ یہ تو زنانہ اوصاف ہیں۔

دیکھیں، بعض اوقات آپ کو بیوی سے اور بہت سے فوائد حاصل ہو رہے ہوتے ہیں مثلا وہ سسرال کی خدمت کر رہی ہے، ملازمت کر رہی ہے، گھر میں کسی اور طرح سے کانٹری بیوٹ کر رہی ہے تو شوہر اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے ساتھ مالی اور جسمانی حسن سلوک میں تنگی نہ کریں۔ میں اپنی مثال دوں تو میری اہلیہ اگرچہ گھر میں اپنی تنخواہ خرچ نہیں کرتیں لیکن اگر وہ کچھ جمع بھی کر رہی ہیں تو کس کے لیے، میری اولاد کے لیے۔ پھر مجھے جب قرض کی ضرورت پڑتی ہے تو ان سے پکڑ لیتا ہوں اور پھر متعین مدت میں اسے قرض ہی سمجھ کر واپس بھی کر دیتا ہوں۔

دوسرا یہ کہ صرف مالی تعاون کچھ نہیں ہوتا، بعض اوقات غیر مادی تعاون کی بھی کئی صورتیں ہوتی ہیں جیسا کہ بیوی کی طرف سے بیمار ساس یا سسر کی خدمت۔ یا میں اپنی مثال دوں تو جہاں ہماری رہائش ہے، وہ ایک ٹرسٹ کے تحت اسکول کی بلڈنگ ہے کہ جس میں رہائش میری اہلیہ کو جاب یا ملازمت کے ایک بینیفٹ کے طور ملی ہوئی ہے۔ پھر میری بیوی بھی بلکہ اور بہت سی بیویاں بھی شوہر حضرات کے حصے کے بھی کام کر رہی ہوتی ہیں کیونکہ شوہر گھر سے باہر دور ہوتا ہے جیسا کہ بیماری بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے گئیں، چھوٹے بچے کو اسکول میں ایڈمشن کروانے یا اس کی تعلیمی رپورٹ لینے پہنچ گئیں، مارکیٹ سے بچوں کے کپڑے یا گھر کا دیگر سامان خرید لائیں وغیرہ وغیرہ

ضروری نہیں کہ سب شوہر حضرات کا کیس میرے جیسا ہو لیکن شوہر کو اپنی سوچ کو ذرا پازیٹو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سی چیزیں ایسی نظر آ جاتی ہیں کہ جن کو بنیاد بنا کر وہ اپنی بیوی سے دل بڑا کر سکتا ہے۔ اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو اپنی بیوی سے کوئی خیر پہنچ ہی نہیں رہی تو میں کیا کہہ سکتا ہوں، یہی کہ بی پازیٹو، خیر نظر آنا شروع ہو جائے گی کیونکہ یہ شادی آپ نے کی ہے، اور کچھ دیکھ کر ہی کی ہو گی، اسی کو میں خیر کہہ رہا ہوں۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں