Home » زبان نطق ہے منطق نہیں
شخصیات وافکار فلسفہ کلام

زبان نطق ہے منطق نہیں

محمد حسنین اشرف

یہ جملہ میں نے غامدی صاحب کو کہتے اکثر سنا ہے۔ اس کا پس منظر زبان کی قطعیت کا ہے۔ الفاظ کا در و بست، متن کا سیاق و سباق اور زبان کا اچھا علم، مدعائے متکلم پوری قطعیت (جس قدر انسان کو مکلف ٹھہرانے کے لیے ضروری ہے) کے ساتھ منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے آپ غامدی صاحب کی ہرمانیوٹکس کی جان کہہ سکتے ہیں۔ اس دعوی سے مزید جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان سے قطع نظر پہلے اس نطق و منطق کے مسئلے کو دیکھنا چاہیے۔

یہ جملہ از خود اس ٹیڑھ کو قبول کر رہا ہے جو زبان کے معاملے میں پیدا ہوچکی ہے۔ اس سے خود یہ واضح ہوتا ہے کہ زبان مقدمہ اولی و مقدمہ ثانی سے استقرا و استخراج کا سیدھا سادہ کھیل نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ محض لغت دیکھ لیں اور تراجم کرنا شروع کردیں۔ یہ سکے کا ایک رخ ہے۔ سکے کا دوسرا رخ غامدی صاحب کی ہرمانیوٹکس خود قبول نہیں کرتیں۔

زبان نطق ہے منطق نہیں ہے اسی لیے تو قطعیت سے عاری ہے۔ سکے کے دوسرے رخ میں پہلا مسئلہ خود شارح کا کلام میں دخیل ہونا ہے۔ قدما کے ہاں ایسا کوئی تصور سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ کیونکہ ہم ہمیشہ زبان کو لفظ اور شے کے درمیان شفاف واسطہ قبول کرتے آئے ہیں۔ یعنی زبان کا کام صرف ایک نامن کلیچر (اشیا کو نام دینے کا فن) جیسا سادہ ہے جہاں ہم چند خصائص و امتیازات کی بنا پر گلاس کو کپ اور کپ کو جگ سے ممتاز کرتے اور ان کے مختلف نام رکھتے ہیں۔

جبکہ ایسا نہیں ہے۔ جدید لسانیاتی کام اس پر دلالت کرتا ہے کہ شارح، اس کی فکر اور اس کا دور (وقت/زمانہ) بہت آرام سے سادہ ترجمے تک میں وارد ہوجاتا ہے چہ جائیکہ کوئی تفسیر کی گئی ہو یا حواشی لکھے جائیں۔

اس کی سادہ مثال ید اللہ سے لیتے ہیں۔

ید عربی محاورے، شعر اور ادب کی رو سے چند معروف معنی میں مستعمل ہے۔ جیسے اردو کا ہاتھ مستعمل ہے۔ نہ تو ید (ہاتھ)، جسمانی ہاتھ کے معنی میں غریب ہے اور نہ ید ذات و قدرت کے معنی میں غریب ہے۔ اور اگر غریب ہو تب بھی کوئی دلیل نہیں کہ شارع کو روکا جائے کہ غریب معنی نہیں برتے گا یہ بہ طور شارح میرا حسن ظن ہوسکتا ہے متکلم کے باب میں، وگرنہ ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ متکلم پابند ہے اور وہ غریب معنی مراد نہیں لے گا۔ قرآن کے معاملے میں عربی مبین والی بات کو پیش کیا جاسکتا ہے اسی لیے میں نے وہ لفظ لیا جس کے دونوں معانی مقبول ہوں۔ اب ید اللہ یعنی جسمانی ہاتھ اور ید اللہ یعنی ذات و قدرت و ارادہ میں میری فکر ہے جو ترجیح قائم کرے گی۔ میری فکر یا میرا تصور خدا۔ وہ تصور خدا جو لفظ خدا میں پہلے سے ہی ملبوس ہے۔

اب جب یہ کہا جاتا ہے کہ زبان کو سمجھنے میں محاورہ بہت اہم ہے۔ تو یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ محاورہ اصلا فکر ہی تو ہے جو زبان میں محاورے سے راستہ بناتی ہے۔علاوہ از ایں، لفظ ایک پورا تصور ہے جس کی پشت پر بھی اکثر اوقات پورا فلسفہ ہوتا ہے۔ انسان جس قدر خالی الذہن ہوجائے، جس قدر فلسفہ و کلام کی راہ بند کردے۔ کسی بھی متن تک ہاتھ بڑھانے سے قبل پہلا کام کچھ فکری حد بندی ہے جو وہ لاشعور میں سہی لیکن کرلیتا ہے۔ تصور خدا اس کی سب سے سیدھی مثال ہے۔ وہ خود نہ کرے تو اس کا روزمرہ اور محاورہ بذریعہ زبان یہ کرا چکا ہوتا ہے۔ جیسے لفظ ماں محض ایک وجود نہیں ہے جسے میں گوشت پوست میں دیکھتا ہوں۔ ماں ایک تصور ہے جو لفظ کے ساتھ مجھ تک پہنچایا گیا ہے۔ میں جوں ہی اس کو جھٹک دوں گا تو لفظ بے معنی ہوجائے گا۔

لفظ ماں، مامتا کے بغیر، پیار محبت اور الفت کے تصور کے بغیر ایک لایعنی اور بیکار آواز بن کر رہ جائے گا۔ اسی طرح لفظ خدا ہے؛ میں جب بچپن میں خدا سے واقف ہوتا ہوں تو ایک پورے تصور اور فکر کے ہمراہ واقفیت پاتا ہوں۔ ورنہ شناسائی ممکن نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ میں بعد میں کوئی اور کلامی پوزیشن اپنا لوں۔ اس سے اگر میرا تصور خدا تبدیل ہوجائے گا تو یہ براہ راست میرے ترجمے پر موثر ہوگا۔ اس کے لیے ایک تھاٹ ایکسپیرمنٹ کرتے ہیں۔

فرض کیجئے کہ ایک مفسر بچپن میں اشعری یا ماتریدی تصور خدا سے متعارف ہوا۔ جوانی میں اس نے اسی کے زیر اثر جو ترجمہ کیا وہ ید اللہ سے قدرت مراد لینے کا تھا۔ بعد میں وہ معتزلی ہوا تو اس نے جو ترجمہ کیا وہ وجودی ہاتھ کا تھا۔ اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ١) اس نے دوسری بار خالص فکر کے زیر اثر ترجمہ کیا ٢) اس نے دونوں بار خالص فکر کے زیر اثر ترجمہ کیا یا ٣) چونکہ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ اس کی فکر دخیل رہی ہے سو ہم اب اس عمل کو ارادتاً روک دیں گے۔ یعنی فکری دخالت کو روک دیں گے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ وجود خدا کے باب میں جو بحث بھی کریں گے وہ کلامی ہوگی، لسانی نہیں ہوسکتی۔ سو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ متن کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ ید اللہ سے مراد خدا کی قدرت اور ارادہ ہے۔ اس دلیل کو بھی لسانی نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ قرآن میں وارد ہے لیس کمثله شی اس لیے ید اللہ سے مراد جسمانی ہاتھ نہیں ہوسکتا۔ اس کی دو وجوہات ہیں:

١- سب سے پہلے آپ کا تصور شے زیر بحث آئے گا۔ یہ اس کو کلامی بنانے کے لیے کافی ہے
٢- اپنے تصور خدا کے حق میں قرآن سے دلیل لانے سے بحث لسانیات میں داخل نہیں ہوجائیگی بلکہ یہ پہلے تصور خدا کی فکری حد بندی کرے گی بعد ازاں ترجمہ ہوگا۔ سو آپ کی فکر (کلامی فکر) ترجمہ پر موثر رہے گی۔

اس کا ایک ممکنہ جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ ‘ید اللہ کا ترجمہ ہم صرف ‘اللہ کا ہاتھ’ کردیں گے’ اور بس – – یوں ترجمہ بے فائدہ ہوجائے گا اور یہ یوں ایک تعریفی مغالطہ بھی بن جائے گا۔ یوں یہ اب قاری کے تصور خدا پر منحصر ہوگا کہ وہ آپ کے ترجمے سے کیا مراد لیتا ہے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت یا دور اسلام کا محاورہ دیکھیں گے تو بھی اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں:
١- پہلی صورت قاری پر منحصر ہے وہ کیا تصور اپناتا ہے
٢- دوسری صورت میں آپ نے کسی ایک زمانہ کی معروف فکر کو قبول کرلیا ہے۔ یہ بھی لسانیت کا نہیں بلکہ کلام کا مسئلہ ہوگا

دوسرا مسئلہ متکلم کی غیر موجودگی ہے۔ اگر بہت سخت رویہ نہ اپنایا جائے اور اس بات سے صرف نظر کر لیا جائے کہ متکلم کا موجود ہونا اور خود سے معنی متعین کردینا بھی شارح کو اس مسئلے سے خلاصی نہیں دیتا تو بھی دوسرا مسئلہ ہلکا نہیں ہوتا۔ متکلم کی غیر موجودگی سے قطعیت کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ متکلم ہی ہے جو مدعا کو قطعیت سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ شارح بہت کوشش کرسکتا ہے اور اس کوشش کے نتیجے میں بھی قطعیت کا دعوی نہیں کرسکتا۔ اس کے دو ممکنہ جواب ہوسکتے ہیں:

١- قطعی کلام ہے – – فہم نہیں ہے
٢- جس قدر مکلف ٹھہرانے کو قطعیت مقصود ہے وہ شارح کی کوشش کے نتیجے میں حاصل ہوجاتی ہے

کلام قطعی ہے فہم ناقص ہے تو کلام کے قطعی ہونے کا کیا فائدہ ہوا؟ چلیے اگر اس صفت کو کلام تک محدود کردیا جائے اور شارح کو آزاد کردیا جائے تو کلام کی یہ صفت دعوی ہے جس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرا سوال یہ کہ مکلف ٹھہرانے کی حد بندی کون کرے گا؟ اگر غامدی صاحب کی ہرمانیوٹکس کے نتیجے میں ٩٥ قطعیت حاصل ہوگئی اور کسی دوسرے کے نتیجے ٨٠ فیصد تو کون طے کرے گا کہ پچانوے والا مکلف ہے یا اسی والا؟ خیر تکلیف کا مسئلہ براہ راست اس سے متعلق نہیں ہے۔ لیکن اگر ٩٥ والا بھی مکلف ہے اور ٨٠ والا بھی تو یہ کون کس دلیل سے کہے گا کہ متکلم کے مقصود قطعیت مقصود ہے یا نہیں؟ بلکہ اس کے نزدیک مکلف ٹھہرانا مقصود ہے۔ اس صورت میں قطعیت کا دعوی کس صورت میں اہم رہ جاتا ہے؟

نوٹس: مضمون میں لفظ فکر آئیڈیالوجی کی جگہ استعمال ہوا ہے، مزید لفظ آئیڈیالوجی کو ابہام سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے مارکسی معنی میں آئیڈیالوجی نہ سمجھا جائے۔

فکر: فکر سے مراد وہ تصورات ہیں جو اشیا سے متعلق یا سماج سے متعلق یا مذہب اور مذہبی مشمولات سے متعلق کوئی بھی شخص رکھتا ہے۔ مذہبی پس منظر میں یہ کلامی مذہب بھی ہوسکتا ہے، فقہی مسلک ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حسنین اشرف صاحب بیلیفیڈ یونیورسٹی جرمنی میں ایم ۔اے فلسفہ و تاریخ سائنس کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں