چند دن قبل یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ دارالعلوم کبیر والا کے مہتمم مولانا ارشاد احمد کا انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون اللهم اغفر لہ وارحمہ ونقہ من الخطايا کما ینقی الثوب الأبيض من الدنس اللهم ادخلہ الجنۃ بغیر حساب و بدل لہ دارا خيرا من دارہ و اھلا خیرا من اھلہ و جیرانا خیرا من جیرانہ واجعل قبرہ روضۃ من ریاض الجنۃ.
تب سے 1965 میں دارالعلوم کبیر والا میں گزارے ہوئے ایام کی یاد ہجوم کر آئی . تب شاخسار عمر اٹھارہ انیس کے درمیان تھی. وہاں موقوف علیہ یعنی آخری سے پہلے سال میں داخلہ لیا تھا اور داخلہ بہت مشکل سے ہوتا تھا. صرف ایک دن میں. تعلیمی معیار شان دار تھا، اساتذہ بہت محنتی اور با صلاحیت تھے. سہ ماہی اور ششماہی امتحانات میں بہت سختی ہوتی تھی. بہت سے طلبہ فیل ہو جاتے تھے. سالانہ امتحان اختیاری سا تھا. جو چاہے کتابیں ختم ہونے کے بعد رک جائے اور امتحان دے کر جائے. جو چاہے چلا جائے اور اگلے سال آنا ہو تو داخلہ کا امتحان دے کر اگلی کلاس میں داخل ہو جائے
تب تمام تر توجہ تعلیم اور کتب فہمی پر تھی۔اب امتحانات اور پوزیشنز کی اہمیت ہے۔
میں نے مولانا عبد المجید لدھیانوی (شیخ الحدیث باب العلوم کہروڑ پکا )سے دارالعلوم کبیر والا میں 1965 میں مشکواہ شریف پڑھی تھی ۔مجھے آج تک یاد ھے کہ انہوں نے مشکوۃ میں حضرت ابن مسعود ؓکے قول
“من کان مستنا فلیستن بمن قد مات فان الحی لا تومن علیہ الفتنہ”
پر بہت تفصیل سے دو تین دن گفتگو کی تھی ۔یہی نہیں بلکہ وہ اپنے طلبہ کی تربیت اسی قول صحابی کی اساس پر کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کوئ طالب علم اپنے کسی استاذ کی علمی عملی اور فکری بے اعتدالی کو قبول نہیں کرتا تھا ۔اساتذہ کو بھی اس امر کا احساس ہوتا تھا کہ اگر ہم نے کوئ بات بھی اعلی ترین معیار سے فروتر کی تو طلبہ اسے ہدف تنقید بنائیں گے ۔اس روش کی وجہ سے ذی استعداد اور با کردار اساتذہ کا احترا م بھی ہوتا تھا لیکن اساتذہ کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی تھی کہ ہماری کوئی بھی بے اعتدالی استاذ سمجھ کر برداشت کر لی جائے گی ۔میرے معاصرین اس امر کی گواہی دیں گے کہ ہمارے دور میں زندہ اکابر کا کوئ تصور تھا نہ وجود۔
ایک دوست بتا رھے تھے کہ بعض بڑے مدارس نظریاتی تشدد کے مراکز ھیں ۔وہاں داخلے کے وقت ایک حلف نامہ پر کروایا جاتاھے جس میں بعض سیاسی اور نظریاتی حد بندیاں طے کر دی جاتی ہیں ۔سال کے دوران کسی کے بارے میں ان حوالوں سے کوئ منفی رپورٹ ملے تو اسے فارغ کر دیا جاتا ھے اس سے فائدہ اٹھا کر کچھ طالب علم زیادہ ذہین ہم جماعتوں کی شکایت کر کے انہیں راہ سے ہٹا دیتے ہیں۔
اس پر مجھے یاد آیا کہ ہمارے مشکواہ کے سال دورہ حدیث کے ایک طالب علم عبدالرحمان لغاری سخت قسم کے مماتی تھے ان کے اور مولانا عبدالمجید لدھیانوی (شیخ الحدیث کہروڑ پکا ) کے درمیان سارا سال مناظرہ ہوتا رہتا تھا تمام طلبہ اس میں دلچسپی لیتے لیکن نہ صرف استاذ شاگرد کے تعلق میں کوئ رخنہ نہیں پڑا بلکہ بعد میں لغاری صاحب وہیں کبیر والا میں مدرس بھی رھے ۔انتظامیہ نے علمی معاملات میں کوئ ایکشن نہیں لیا حالانکہ مہتمم عبدالخالق صاحب دیوبند کے سابق استاذ تھے ۔عبد الرحمان لغاری صاحب کا ذکر آیا تو ایک اور دلچسپ بات یاد آئ ۔اس زمانے 1965میں دارالعلوم کبیر والا میں جنات کی آمد و رفت خاصی تھی ان کے بعض دلچسپ واقعات بھی ھیں جو پھر کبھی۔
مدرسہ میں حیات و ممات کے موضوع پر بحث ومناظرہ کا ماحول گرما گرم رہتا تھا طلبہ بھی دلچسپی لیتے ۔ایک رات دیر تک لغاری صاحب کی دوسرے طلبہ سے بحث رہی سحری کو مطالعہ کرنے کے لئے اٹھے لالٹین جلاکر کتاب ہاتھ میں لی تو ایک نادیدہ ہاتھ نے زور کا تھپڑ جڑ دیا اور کہا رات اتنی بحث کر رھے تھے اور اب بے وضو کتاب پڑھنے لگے ہو ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 1965میں پاک بھارت جنگ ہوئی تھی ۔مدرسے میں ریڈیو رکھنے کاسوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا ۔مجھے بچپن سے اخبار پڑھنے دنیا سے باخبر رھنے کا شوق تھا درحقیقت میرے جینز میں اس طرح کے اثرات تھے ۔ میں باہر جاکر روزانہ شام کی خبریں سنتا ۔ایک روز کسی نے مہتمم صاحب سے جنہیں سب صدر صاحب کہتے تھے شکایت کردی انہوں نے مجھے بلایا، پوچھا کہ آج کی کیا خبریں ہیں میں اپنے حافظے کی بے پناہی کی بدولت لفظ بلفظ سنا سکتا تھا میں نے سنا دیں ۔انہوں نے کہا روزانہ شام کو مجھے آکر خبریں سنا جایا کرو چلو اب سرکاری طور پر اجازت مل گئ
۔ملتان کبیروالا میدان جنگ سے دور محفوظ علاقہ تھا لیکن لوگوں میں خوف وہراس کی فراوانی تھی ۔مدرسے میں بڑی بڑی خندقیں کھودی گئیں تاکہ تمام طلبہ اساتذہ کو کفایت کریں ۔مولانا عبدالمجید اورہم دو ایک طلبہ ہی بے خوف تھے ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔
طلبہ کی ڈیوٹی لگ گئ کہ راتوں کو باری باری جاگیں گے اور جب ہوائ حملے کا سائرن ہو تو گھنٹی بجا دیں گے تاکہ سب لوگ خندق نشیں ہوجائیں ۔لوگوں کی بدقسمتی کہ ایک رات میری ڈیوٹی لگ گئ ۔جب سب سو گئے تو میں نے جاکر گھنٹی بجا دی اور خود جاکر مولانا عبدالمجید صاحب کے مکان میں چائے کے دور میں شریک ہوگیا۔بڑی دیر خطرہ ٹل جانے کی گھنٹی کا انتظار کر کے ایک ایک کر کے سب واپس سونے چلے گئے ۔موقع دیکھ کر میں نے پھر گھنٹی بجادی پھر وہی بھگدڑ صبح بعض شب زندہ دار میری شکایت لے کر صدر صاحب کے پاس پہنچ گئے ان کاخیال تھا کہ سخت کاروائ ہو گی. صدر صاحب نے سن کر کہا:
“وہ بہت شرارتی ہے آپ نے اس کی ڈیوٹی لگانی ہی نہیں تھی” ۔
دارالعلوم کبیر والا معروف حنفی دیوبندی درسگاہ ہے ، شہر میں شیعہ کی تعداد بہت تھی بلکہ شاید محرم میں اکثریت ہو جاتی تھی. ہم طلبہ ان کی مجالس میں جاکر بیٹھتے، سنتے اور بھیگی آنکھیں لے کر اپنے مدرسے میں آجاتے. مدرسے کی طرف سے کوئی روک ٹوک تھی نہ شیعہ کمیونٹی میں کوئی حساسیت. تب حسین ہم سب کے تھے اور ہم سب حسین کے تھے. برا ہو ان کا جنہوں نے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا کر قتل کی راہیں کھولیں.
وہاں ہمارے احباب میں مولانا عبد المجید (چوک منڈا) بھی تھے، وہ مجھ سے سینئر تھے لیکن دوستی بہت زیادہ تھی. حادثہ یہ ہوا کہ فراغت کے بعد وہیں استاذ مقرر ہو گئے. ایسے حالات میں دوستی اور احترام کی حدود کا تعین بہت مشکل ہو جاتا ہے. بیضاوی پڑھانے لگے، چند دن میں بھی درس میں بیٹھتا رہا لیکن مجھے ان اشکالات سے کوئی دلچسپی کبھی نہیں ہو سکی جو فرشتوں کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتے۔
ان کے والد غلام حسین نمبردار تھے اور بہت زمینوں کے مالک. اپنے والدین کی اکلوتی نرینہ اولاد ہونے کی وجہ سے دو شادیاں کر کے بقاء نسل پر توجہ مرکوز رکھی. دو الگ الگ مدرسے بنائے. مولانا دوست محمد قریشی کے خلیفہ تھے۔بہت ذہین عالم دین تھے. مجھے ہمیشہ یہ خیال رہتا کہ اگر انہیں گرومنگ کے لیے سازگار ماحول میسر آ جاتا تو آسمان علم پر آفتاب و ماہتاب ہوتے لیکن واپس اپنے گاؤں کے سماج میں لوٹ جانے سے امت کئی جواہر قابل سے محروم ہو جاتی ہے۔
وہیں مولانا عبید الرحمن ضیاء بھی میرے ہم جماعت تھے، کمالیہ کے رہنے والے، مدرسہ نعمانیہ کے میرے ہم درس اور دارالعلوم کبیر والا کے دوست. کچھ کتابیں ہم نے ساتھ پڑھی تھیں. ان کی آواز کا خطیبانہ آہنگ بقول غالب “دل سے جگر تک اتر کر دونوں کو اک ادا میں رضامند” کر جاتا تھا . مولانا ضیاء القاسمی کی شاگردی کے باعث مناظرانہ خطابت کی طرف نکل گئے تھے. آخری بار بہت سال پہلے دارالعلوم ربانیہ، پھلور، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سالانہ جلسہ میں ملاقات ہوئی تھی جہاں مولانا عبدالمجید لدھیانوی اور مولانا محمد زاہد بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں ملتے ہی کہا:
کوئی بتلاؤ کہ اک عمر کا بچھڑا محبوب
اتفاقاً کہیں مل جائے تو کیا کہتے ہیں
اس کے جواب میں انہوں نے ایک ایسا جملہ کہا جو عہد جوانی میں بھی غیر پارلیمانی لگتا ہے جبکہ ہم دونوں بڑھاپے کی دھلیز پر تھے.
بہت ذہین اور زبان آور خطیب تھے
فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گئے.
مولانا ظفر احمد قاسم
کبیر والا کے مضافات کے ایک گاؤں (غالباً ککڑ ہٹہ) کا ایک غریب لڑکا جو پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی میں روزانہ گاؤں سے بائیسکل پر دودھ لاکر کبیر والا میں فروخت کر کے دن بھر دارالعلوم کبیر والا میں پڑھنے کے بعد شام کو گھر چلا جاتا، وہاڑی میں ایک شان دار یونیورسٹی چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملا.
یہ تھے مولانا ظفر احمد قاسم
کئی کتابوں میں میرے ہم درس
تب مدارس کی گردنوں میں وفاق المدارس کا طوق نہیں تھا اور طلبہ اپنی آزادانہ رضامندی سے اپنی اپنی استعداد اور ٹائم فریم کے مطابق اسباق منتخب کیا کرتے تھے. ہم تو ہمیشہ سے بد محنت، لاابالی، اور نٹ کھٹ، کہ اپنا وقت اخبار و کتب، ریڈیو، کھیل کود، گپ شپ اور شعر و شاعری میں ضائع کرنے والے لیکن مولانا اپنا سارا وقت مطالعہ، تکرار اور تعلم میں صرف کرتے. مولانا نے وہاڑی میں جامعہ خالد بن ولید کے نام سے ایک منفرد ادارہ قائم کیا جس میں دینی اور رسمی دونوں طرح کی تعلیم کا امتزاج ہے.
تبلیغی جماعت سے تعارف بچپن سے تھا، کبیر والا میں 1965 میں تین بڑے مبلغین کے بیٹے میرے ہم جماعت تھے، میجر جنرل حق نواز کے ظہور احمد نواز، حاجی بشیر صاحب کے اسرار احمد (مولانا احسان کے چھوٹے بھائی) اور سلطان فونڈری والے افضل صاحب کے محمد الیاس. چند اور تبلیغی بھی تھے لیکن وہ ذرا صوفی منش تھے اور ہم نٹ کھٹ. اگلے سال دورہ حدیث کے لئیے جامعہ اشرفیہ لاہور میں داخل ہو گئے اور ہاسٹل میں اکٹھے رہنے لگے، میجر جنرل حق نواز کے ساتھ رائے ونڈ بھی جانا پڑتا تھا. پہلی بار جب ان کے ساتھ جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ دنیا بھر سے ہمہ اقسام نعمتیں، قسما قسم کے ایسے پھل جو ان ممالک کے باسیوں کو شاید کبھی نصیب نہ ہوئے ہوں دستر خوان پر وافر مقدار میں موجود ہوتے. میرے ساتھ کوئی جینیاتی پرابلم ہے کہ بالا تر حلقے میں میرا دم گھٹنے لگتا ہے.
نہ قائدین کے حلقوں میں لے چلو مجھ کو
میں بے ادب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہو گا
بیٹھے بیٹھے فیصلہ کیا کہ یہاں سے باہر نکل کر بھی دیکھا جائے. أخص الخواص کے بعد خواص کا حلقہ تھا اور اس کے بعد علماء کا. کچھ وقت علماء کے حلقے میں گزارا. علماء کے بارے میں مقتدر حلقوں کا رویہ اور علماء کی پذیرائی کی شرائط کے بارے میں خاموشی میں ہی عافیت ہے. آخر باہر نکلتے نکلتے میں عوام الناس میں آ گیا. یہاں پہنچ کر سب سے پہلے لمبے لمبے سانس لے کر اندر کی گھٹن کم کی اور پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ جب بھی آنا ہوا عوام کے حلقے میں شامل ہونا ہے. درجنوں بار جانا ہوا. اگر آپ کو میری بات بری نہ لگے تو میرا مشاہدہ یہ ہے کہ گرد و غبار میں اٹے ان لاکھوں عوام میں سینکڑوں کی تعداد میں رشک جنید وشبلی مل سکتے ہیں جبکہ
مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق
کمنت کیجے