عمران شاہد بھنڈر
ابھی تک قرآن میں نظم کے متعلق جو مباحث میری نظر سے گزرے ہیں، انہیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ احمد جاوید صاحب نے جو فلسفیانہ پوزیشن اختیار کی ہے اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جا سکا۔ احمد جاوید صاحب کا موقف یہ ہے کہ ”نظم“ کا تصور ایک موضوعی تشکیل ہے، یعنی نظم کا تصور ہمارے اذہان میں بدیہی (اے پرائیورائی) سطح پر موجود ہوتا ہے اور اسی تصور کے تحت ہم قرآن میں سے نظم کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر ایسا کوئی مربوط سلسلہ دریافت کر بھی لیتے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ نظم قرآن میں موجود ہے۔ فلسفے میں یہ مباحث نئے نہیں ہیں۔ فلسفے میں اس بحث کو موضوعی اور معروضی میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کانٹ کا کہنا تھا کہ ہم سوالات قائم کرتے ہیں اور فطرت سے اپنے ہی قائم کردہ سوالات کے جوابات طلب کرتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنے سوالات کے جوابات فلسفیانہ مقولات کی قائم کردہ ترتیب کے تحت دستیاب ہو جائیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ترتیب فطرت میں موجود ہے۔ فلسفے میں موضوع انسان ہے اور فطرت معروض ہے۔ ”نظمِ کلام“ کی بحث میں موضوع قاری ہے، جبکہ معروض قرآن ہے۔ یہ بات بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی یہ کہے کہ جس طرح فلسفیانہ مقولات موضوعی نہیں بلکہ فطرت سے ماخوذ ہیں، بالکل اسی طرح’نظم‘ کا تصور موضوعی نہیں بلکہ قرآن سے ماخوذ ہے۔احمد جاوید صاحب کا موقف اس حوالے سے بہت مضبوط ہے کہ وہ نظم کو قرآنی (معروضی) نہیں بلکہ موضوعی تشکیل قرار دے رہے ہیں۔ اس تصور کو رَد کرنے کے لیے انتہائی مضبوط فلسفیانہ دلائل کی ضرورت ہے جو الموردیوں کے پاس نہیں ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہ ان لوگوں کے اذہان میں یہ فلسفیانہ مباحث سِرے سے موجود ہی نہیں ہیں جن کی بنیاد پر احمد جاوید صاحب نے اپنا مقدمہ قائم کیا ہے۔
’نظم‘ ایک فلسفیانہ مقولہ ہے یعنی موضوعی تشکیل ہے، نہ کہ قرآن کی داخلی ترتیب کا کوئی تقاضا۔ اسے قرآنی (معروضی) قرار دینا اور اپنے موقف کو منطقی دلائل ثابت کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ برطانوی تجربیت میں معروضی سطح پر علت و معلول کی بحث شروع ہوئی تھی۔ اس بحث میں ڈیوڈ ہیوم نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اگرچہ آگ لکڑی کو جلاتی ہے لیکن جلنے کے عمل کی لازمیت کو آگ اور لکڑی کے تعلق میں ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اگر خارجی سطح پر آگ سے لکڑی کو جلانے کا عمل مشاہدے میں آنے کے باوجود اپنے لزوم کو ثابت نہیں کرتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نظم کا ایسا کوئی لزوم قرآنی متن میں ثابت کیا جا سکے۔ کانٹ کے پاس ہیوم کے اس اعتراض کا واحد حل یہی تھا کہ وہ علیت کے مقولے کو موضوعی تشکیل قرار دے۔ بالکل وہی تقاضا قرآن کا قاری قرآن سے کر رہا ہے کہ اس سے اپنے تصورِ نظم کا جواب طلب کر رہا ہے۔ اور اگر وہ ایسا کوئی جواب حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے، تو سوال پھر بھی وہی ہے کہ ایسا کوئی جواب قرآنی متن کے اندر کسی لزوم کو ثابت نہیں کرتا۔ نظم مستقل طور پر ایک موضوعی تشکیل ہی رہتا ہے۔ قرآن منطق یا ریاضی کی مانند کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ جس میں اعداد یا مقولات کا استخراج اس نوعیت کا ہو کہ جس پر منطقیوں اور ریاضی دانوں کا اتفاق ہو۔ قرآن بائیس برس میں مکمل ہوا مختلف سورتوں میں موجود متفرق آیات کا مجموعہ ہے جس میں پہلی سورت چھیانوے نمبر پر چلی جاتی ہے اور دوسری سورت چوہتر نمبر پر مرتکز ہوتی ہے۔ یعنی سورتوں کے نزول کی ترتیب اس کو مجتمع کرنے کی ترتیب سے مختلف ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں بیسیوں ایسی مختصر سورتیں ہیں جن میں پیش کی گئی ہر آیت دوسری سورتوں میں بھی پیش کی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر ”سورہ اِخلاص“ جو کہ چار آیات پر مشتمل ہے، اس میں موجود ہر آیت ایسی ہے جو کہ کئی سورتوں میں موجود ہے۔ کیا قرآن کا کوئی “عالم” مجھے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ اگر سورہ اِخلاص کو قرآن سے حذف کر دیا جائے تو قرآن میں موجود ’نظم‘ کو کیا فرق پڑے گا؟ نظم کا تو تقاضا ہی یہ ہے کہ اگر کسی کتاب سے ایک باب نکال لیا جائے تو تسلسل اور ربط قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور ایک عام قاری بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ شاید یہاں کچھ صفحات حذف ہو گئے ہیں۔ محققین نے ارسطو کی کتابوں کو پڑھ کر ہی اندازہ لگایا تھا کہ یہ مکمل نہیں ہیں۔ اسی طرح قرآن میں بیسیوں ایسی سورتیں ہیں جن میں اس نوعیت کی تکرار موجود ہے۔ کیا تکرار نظم کو قائم رکھتی ہے یا نظم میں بگاڑ پیدا کرتی ہے؟ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ تکرار تسلسل کو توڑتی ہے اور تسلسل نظم کا بنیادی جزو ہے۔ بلکہ ایک ہی بات کا بار بار آنا بیزاری کا باعث بنتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ”سورہ احزاب“ کی مثال لیں تو اس میں کوئی ایک موضوع نہیں ہے بلکہ متفرق موضوعات اور آیات ہیں۔ ان میں نظم قائم کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ ’احزاب‘ کے موضوعات میں خواتین، جنگ، تاریخ وغیرہ شامل ہیں۔ تاریخی واقعات اس طریقے سے بیان ہوئے ہیں کہ وہ خواتین سے کوئی ربط نہیں رکھتے۔ ان میں کسی بھی قسم کے نظم کی تلاش نظم کا ایک موضوعی تصور تشکیل دیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہی نکتہ احمد جاوید صاحب بار بار اٹھا رہے ہیں کہ ’نظم‘ ایک بدیہی موضوعی تشکیل اور تقاضا ہے، جو قرآنی معروضیت یا متن میں مضمر نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے