ڈاکٹر وقاص احمد
اگر دین اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو آپ الفاظ کی تعریفات بہت کم پائیں گے اور اگر کسی لفظ کی کہیں تعریف ملتی بھی ہے تو دوسری جگہ اسی لفظ کی تعریف کچھ اور بھی موجود / بیان ہو گی ۔یوں ایک ہی لفظ کے متعلق جو دو تین تعریفات ملیں ، ان کو اکھٹا کر کے اس لفظ کی چند خصوصیات میں شمار کر لیں ۔ صاف محسوس ہو گا کہ یہ تعریفات عموماً طور پر سامع کی قوت استعداد کے مطابق بیان کی گئی ہیں جبکہ اسی لمحے آپ اس احساس سے بھی گزر رہے ہوں گے کہ جس لفظ کی یہ چند خصوصیات بیان ہوئی ہیں وہ اپنے مفہوم میں اس سے کچھ زائد اور وسیع بھی ہے ۔
آپ کبھی چوری ، ڈکیٹی ، زنا ، عدل ، انصاف ، احسان ،سود، تقیہ ، متعہ وغیرہ جیسے الفاظ پر غور کیجئے گا کہ ان کی تعریفات جو ذخیرہ اسلام اور مسلمانوں کی علمی روایت میں بیان شدہ ہیں ۔یہ الفاظ اپنے مفہوم میں اس سے کچھ زائد نکلتے ہیں۔
یوں دو چیزیں سامنے آتی ہیں
ایک لفظ کی تعریف اور دوسرا اس لفظ کے متعلق احکامات۔
احکامات میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی جبکہ تعریفات میں تبدیلیاں ممکن ہوتی ہیں ۔ یوں تعریفات اجتہادی جبکہ احکامات وحی کی سے متعلق ہوتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ تعریفات کے تبدیل ہونے پر یہ احکامات انہی تعریفات سے متعلق ہو جاتے ہیں ۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ عام عوام تعریفات کی تبدیلی کو احکامات کی تبدیلی سمجھ لیتے ہیں۔ جبکہ تعریفات سے احکامات کو متعلق کرنے کی کوشش اجتہادی ہوتی ہے ، مراد اس کی مطابقت کی کوششوں میں کمی و بیشی کو بھی دین کی تبدیلی خیال کر لیا جاتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ فتاوی جات جو تعریفات کے بغیر دینے ممکن نہیں ہوتے ۔ جب تعریف بدل جاتی ہے تو غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں ۔ ہاں اگر وہی حالات و واقعات رہیں تو وہ فتاوی جات متعلقہ ہی رہیں گے ۔ جب کہ عموماً حالات و واقعات ویسے نہیں رہتے۔
اب جب فتوی جات غیر متعلقہ ہوتے ہیں تو عوام دین اسلام کو حالات حاضرہ سے غیر متعلقہ اور قدامت پسند خیال کر لیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام کے احکامات متعلقہ جبکہ فتاوی جات موجودہ حالات سے غیر متعلقہ ہوئے ہوتے ہیں۔
عوام عموما یہ خیال بھی کرتے ہیں کہ شاید غیر متعلقہ چیز غلط ہی ہوتی ہے جبکہ یہ خیال بھی درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً فتاوی جات جب غیر متعلقہ ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا پہلے مولویوں کا علم صحیح نہیں تھا ؟ بلکہ ان کو غلط ،کم علم اور اس طرح کے دیگر تغمات سے بھی نوازتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر متعلقہ کو غلط خیال کرنا ،ان کے خیال کے غلط ہونے کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔مثلا
اگر کسی کا ماضی میں نام احمد ہے اور حال میں احمد رضا ،تو آج کے لحاظ سے احمد غلط نہیں ،بس اس شخص سے غیر متعلقہ ہے ۔
بہرحال تعریفات کا سلسلہ دین سے آزاد کیوں رکھا گیا ؟ یہ ایک الگ بحث ہے ۔ جبکہ احکامات کو عالمگیر اور ہر دور سے متعلق کیسے رکھا گیا ہے، اس کا اندازہ تعریفات کے تبدیل ہوتے رہنے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
موت کیا ہے ؟ موت سے متعلقہ احکامات کیا ہیں ؟ دونوں الگ الگ موضوعات ہیں ۔ایسے ہی کوئی بھی لفظ کیا ہے اور دین اسلام میں اس کے احکامات کیا کیا ہیں ؟ یہ ایک الگ بحث کے متقاضی ہیں۔ پھر ان دونوں میں مطابقت کی کوشش کس حد تک درست ہے کہ یا غلط ؟ یہ ایک مکمل الگ بحث ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وقاص احمد پی ایچ ڈی اسلامک سٹڈیز ہیں۔آپ وائٹل گروپ آف کالجز گوجرانوالہ میں شعبہ اسلامیات اور اردو کے ہیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس میں وزٹنگ اے پی ہیں ۔
کمنت کیجے