فوج کے کردار پر اس پہلو سے تو بات ہوتی رہتی ہے کہ اس نے جمہوری سیاسی کلچر کو پنپنے نہیں دیا اور قومی وسائل میں غیر متوازن حصہ داری جتا کر پوری معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ یہ سوال بھی اٹھانا چاہیے کہ ایک الگ اور آزاد ریاست کے قیام کا ایک بنیادی جواز یہ بھی تھا کہ یہ ملک مسلم سیاسی طاقت کو محفوظ اور مضبوط بنا کر خطے میں طاقت کا توازن پیدا کرے گا اور ہندو نیشنلزم کے عزائم پر ایک check رکھے گا۔ پون صدی کے بعد حساب کتاب یہ نکلا ہے کہ جمہوریت اور معیشت، دونوں کی بلی دے کر قوم نے اتنے ناز نخرے سے جو فوج پالی تھی، وہ صرف ایک کرایے کی فوج ہے جس کو اپنا پیٹ پالنے اور پیٹ کا سائز بڑھاتے چلے جانے سے غرض ہے۔ جہاں تک طاقت کے توازن کا تعلق ہے تو اس باب میں فوج مسلسل قومی شرمندگی اور رسوائی کا موجب بنی رہی ہے۔
تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود اور بقا کا تحفظ تاریخی طور پر افغانستان اور وسطی ایشیا کی سیاسی قوت کرتی رہی ہے۔ سندھ ساگر کے علاقے کا کردار اصلا” فاتحین کو گزرگاہ اور کرایے کے فوجی مہیا کرنا رہا ہے۔ اس خطے کے اندر سے کوئی مقامی مسلمان قوت ایسی پیدا نہیں ہو سکی جو یہ کردار ادا کر سکے۔ اگر کوئی ہوئی تو وہ سکھوں کی سیاسی قوت تھی۔ پاکستان کے قیام کی صورت میں پہلی دفعہ یہ موقع آیا تھا کہ خود خطے کے اندر سے ایک ایسی قوت تشکیل پا سکے جو اپنے بل بوتے پر طاقت کا توازن پیدا کر سکے۔ لیکن حاصل یہی نکلا ہے کہ نہیں، خطے کے اندر سے ایسی کوئی قوت منظم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ خطہ کرایے کے سپاہی ہی مہیا کر سکتا ہے، چاہے مستاجر وسطی ایشیا اور افغانستان سے آئیں یا سمندر پار سے یا پھر چین سے۔
کمنت کیجے