آدم و حوا کی خودشعوری کے ساتھ ہی انہیں بتایا گیا کہ انہیں وقتا فوقتاً الہامی ہدایات ملتی رہیں گی جن پر عمل ان کے لئیے خوف اور غم یعنی ماضی اور مستقبل کی تمام پریشانیوں سے رستگاری کی ضمانت ہوگا. سماج ابھی عہد طفولیت میں تھا اور اسے تیزی سے ترقی کرنا تھی اس لیے اس کے لئے ایک مستقل ماپ کا قانونی، سماجی اور سیاسی جامہ تیار کرنا ممکن نہیں تھا. غور کیجیے اگر سماج بہنوں بھائیوں پر مشتمل ہے تو رشتہ ازدواج کے قوانین میں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری تھا. جوں جوں سماج ترقی کرتا گیا الہامی ہدایت میں ترقی، وسعت اور تفصیل آتی رہی. فطری طور پر پرانے ایڈیشن کو محفوظ رکھنے کی کوئی ضرورت تھی نہ افادیت. نیز قوموں کی تاریخی، جغرافیائی، نسلی اور سماجی متفاوت جمعیتوں کا تقاضا تھا کہ ہدایات میں ان اختلافات کو مدنظر رکھا جائے. تاہم جن دس امور پر انسانی معاشرے کی تشکیل کی اساس تھی انہیں ہر دور اور ہر زمانے میں زندہ اور محفوظ رکھا گیا.
جب انسانی سماج سن بلوغ کو پہنچنے کے قریب ہو گیا اور یہ محسوس کیا گیا کہ وہ وقت آ گیا ہے جب ساری دنیا کے انسانوں کے لیے ایک ہی ماپ کی الوہی ہدایت کی قبا تیار کر دی جائے تو اس کی خبر دینے کے لیے مشرق میں مہاتما بدھ اور مغرب میں یسوع مسیح کو بھیج کر انسانیت کو ذہنی طور پر تیار کر دیا گیا کہ اب انسانی سماج کی قامت مکمل ہو گئی ہے اور اس کے بعد اس کے لیے مستقل پیمائش کا لباس دینے کا وقت آگیا ہے. آئندہ ارتقاء نہیں پھیلاؤ ہو گا اور اسے انسان اپنی فکر و دانش سے پر کر لیں گے.
پھر روئے زمین کے وسط میں آخری الہامی ہدایت بھیج کر ایک طرف یہ اعلان کر دیا گیا کہ یہ آخری، مکمل اور ساری انسانیت کے لئے ہے اور دوسری طرف یہ بتا دیا گیا کہ اب اس میں ترمیم، تصحیف، حک و اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں اسے ہم نے سربمہر کر دیا ہے.
رہی یہ الجھن کہ الوہی ہدایت میں حکمران کے انتخاب کا طریق کار کیوں نہیں تو
کتاب اللہ کے عمیق مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں :تغیر و ثبات. زندگی کے بہت سے امور و مسائل ایسے ہیں جن میں تاریخی، جغرافیائی، معاشی اور عمرانی عوامل کسی قسم کی تبدیلی نہیں لاتے بلکہ وہ امور ہمیشہ ایک ہی طرح رہتے ہیں مثلاً بندے اور رب کے درمیان تعلق، یا نسل انسانی کی بقا سے متعلق امور ایسے ہیں جو تمدن کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتے اس لئیے زندگی کے ثباتی پہلو سے متعلق الوہی ہدایات ایسی ہونی چاہیے تھیں جو تغیر پذیر نہ ہوں بلکہ دائمی اور ابدی ہوں جبکہ بہت سے امور ایسے ہیں جن میں انسانی تمدن کے ارتقا سے تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں مثلاً حصول معاش کے ذرائع، نظام حکومت کیسا ہو؟ کسی ملک کے دستور کی ساخت کیسی ہو؟ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے باہمی روابط کی نوعیت کیا ہو؟ قومی یا بین الاقوامی تعلقات کی تفصیلات کیا کیا ہونی چاہیے. یہ تمام ایسے امور ہیں جن میں تغیر و ارتقا ناگزیر ہے.
آخری الہامی ہدایت نے انسانی زندگی کے ان دونوں پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر مبدل امور میں مفصل اور ناقابل تغیر ہدایات دی ہیں جبکہ دوسری قسم کے امور میں اصولی ہدایات اور قواعد کلیہ دینے کے بعد تفصیلات ماہرین فن پر چھوڑ دی ہیں.
اسلامی ہدایت کی یہی خوبی ہے جو اسے کسی دور اور کسی ماحول میں از کار رفتہ اور سماجی حالات سے الگ نہیں ہونے دیتی. اس کا ایک حصہ الہامی ہے جو محفوظ ہے اور انسانی تحریف کاری سے ماورا جبکہ دوسرا حصہ انسانی فکر و دانش کی تخلیق ہے جس میں ایک طرف غلطی کا امکان ہمیشہ رہتا ہے جو اس کے بارے میں مزید بحث و تحقیق کا دروازہ کھولتا ہے تو دوسری طرف وہ ایک متعین زمانے، مخصوص تمدن اور خاص حالات سے وابستہ ہونے کی وجہ سے قابل تغير اور تمدن کے پہلو بہ پہلو ارتقا پذیر رہتا ہے.
آخری الہامی ہدایت کی یہی خصوصیت ہے جس نے اسے دائمی اور عالمگیر حیثیت عطا کی ہے.
وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا و نذیرا
کمنت کیجے