Home » فلسطین و اسرائیل تنازع پر جدعون لیفی کے تصورات
تہذیبی مطالعات سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

فلسطین و اسرائیل تنازع پر جدعون لیفی کے تصورات

بھارتی صحافی کرن تھاپر نے اسرائیلی صحافی Gideon         Levy سے انٹرویو کیا ہے جو اسرائیلی اخبار Haaerz میں لکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے “ماہرین اسرائیلیات” پر تو صہیونی موقف کے بیان کیے جانے سے ہی شدید غم وغصہ طاری ہو گیا، جوابی بیانیہ بے چارے کہاں سے لائیں گے۔ تو آئیے، جوابی بیانیہ بھی وہیں سے معلوم کرتے ہیں، کیونکہ کلمة الحكمة ضالة المؤمن.

جدعون لیفی کا کہنا ہے کہ

1۔ پچھلے سترہ سال سے غزہ کو ایک انسانی پنجرہ بنا کر رکھا گیا تھا اور لوگ انتہائی غیر انسانی حالات میں رہ رہے تھے۔ پچھلے ہفتے اسرائیل پر کیا جانے والا حملہ اس غیر انسانی سلوک کا ردعمل تھا جو خود غیر انسانی تھا، لیکن اس نے یہ یاد دلایا ہے کہ اسرائیل ہمیشہ کے لیے اس کا تسلسل قائم نہیں رکھ سکتا۔ اسے اس کی بھاری قیمت دینی پڑے گی۔

2۔ اسرائیل کا کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک رہا ہے، وہ آگ سے کھیلنے کے مترادف تھا۔ تاریخ میں کوئی گروہ اپنی عزت، آزادی اور انسانی حقوق سے دستبردار نہیں ہوا۔ فلسطینیوں کے متعلق یہ توقع کرنا کہ وہ یہ قبول کر لیں گے، تاریخ سے آنکھیں بند کرنے کے ہم معنی تھا۔ عسکری تنظیم نے جو کیا، وہ بالکل غلط تھا لیکن اس کا ایک پس منظر ہے جو اس اقدام کی تفہیم بھی کرتا ہے اور اس کو جواز بھی دیتا ہے۔

3۔ اسرائیلی لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ فلسطینی وہ لوگ ہیں جن کو ان کے آباواجداد کے علاقے سے بے دخل کر کے مہاجر کیمپوں میں دھکیل دیا گیا۔ پھر ان کے ان علاقوں کو بھی فتح کر کے انھیں جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ طرزعمل اخلاقی بنیادوں پر بھی قابل مذمت ہے اور اگر ہم ایک دن کسی حل تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہرگز تلوار کے زور پر اس صورت حال کو قائم رکھتے ہوئے اس تک نہیں پہنچا جا سکتا۔

4۔ نیتن یاہو موجودہ اسرائیلی پالیسی کا بانی ہے کہ فلسطینی مسئلے کو بالکل نظر انداز کر کے عرب ممالک سے تعلقات قائم کیے جائیں، جبکہ اس سارے قضیے میں بنیادی مسئلہ ہی فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ موجودہ قضیے میں اسرائیلی فوج کو جس شرمناک انداز میں سرپرائز ملا ہے، اس کی وجہ سے اس کے خلاف غصہ بہت بڑھ رہا ہے اور جنگ کے ختم ہونے پر نیتن یاہو اقتدار میں نہیں رہے گا۔ اس کا سیاسی کیریئر ختم ہونے کو ہے۔ (یہی بات کم وبیش انھی الفاظ میں سابق وزیراعظم ایہود اولمرت بھی کہہ چکے ہیں جن کی گفتگو کا لنک دو تین دن قبل شیئر کیا گیا تھا)۔

5۔ غزہ پر حملے کا تازہ اسرائیلی منصوبہ اگر عمل میں لایا گیا تو یہ بدترین جنگی جرائم میں سے ہوگا۔ دس لاکھ لوگوں سے کہنا کہ وہ چوبیس گھنٹے میں اپنا گھر چھوڑ دیں اور اس کی کوئی ضمانت موجود نہ ہونا کہ وہ کبھی واپس بھی آ سکیں گے، دراصل اجتماعی سزا (collective punishment) کی ایک ایسی مثال ہوگی جو کم سے کم اسرائیل کی تاریخ میں اب تک نہیں دیکھی گئی۔

6۔ موجودہ صورت حال میں حزب اللہ اور ایران کا کردار بہت اہم ہے جو ایسی صورت حال پیدا کر سکتا ہے جس کا اسرائیل کو کبھی سامنا نہیں ہوا۔ البتہ یہ کردار وہ فلسطینیوں کی فکرمندی میں نہیں، بلکہ اپنے مفاد کے تحت کریں گے۔ بدقسمتی سے زیادہ تر عرب ممالک فلسطینیوں کو خاص سپورٹ نہیں کرتے، ان کی تائید زبانی کلامی حد تک محدود ہے۔ عربوں نے عرصہ ہوا، فلسطینی مسئلے سے خود کو الگ کر لیا ہے اور عرب دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جس پر فلسطینی انحصار کر سکیں۔

7۔ نیتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع کی ان دھمکیوں کو میں سیریس نہیں لیتا کہ ہم شرق اوسط کو بدل دیں گے اور غزہ اب پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ اگر وہ اپنے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھے تو بالکل نئی صورت حال پیدا ہو جائے گی، یہاں تک کہ سعودیہ کے لیے بھی اس سے آنکھ چرانا مشکل ہو جائے گا۔

8۔ اسرائیل نے اپنے تکبر کی وجہ سے اب تک کوئی سبق نہیں سیکھا اور مجھے اس کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ اس لیے اسرائیل اسی صورت حال سے دوچار رہے گا کہ نہ خطے کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پرامن تعلقات ہوں گے اور نہ داخلی طور پر اسرائیلی ریاست اور اسرائیلی شہریوں کو چین نصیب ہوگا۔ اسرائیلی ریاست اور سماج کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ مکمل طور پر حالت انکار میں رہتی ہے۔

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں