Home » آیت قتال کی تشریح
اسلامی فکری روایت تاریخ / جغرافیہ تفسیر وحدیث

آیت قتال کی تشریح

حافظ حسن علی

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

“وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ”

ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتاحد سے بڑھنے والوں کو

جہاد اسلام کی تعبیر و تشریح میں درج بالا آیت کو مرکزی اہمیت حاصل ہے ۔ جدید مفکرین اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قتال و جہاد کی اجازت محض اس کافر کے خلاف  ہے جو بالفعل مملکت اسلامیہ پر حملہ آور ہوں یا اسکی طرف سے  مستقبل قریب میں حملے کا شدید امکان ہوں۔

گویا جدید مفکرین درج بالا آیت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ “جارحیت”جیسے عالمی قوانین میں ممنوع و مقبوح ہے  ویسے ہی شرعی قانون میں بھی ممنوع و مذموم ہے ۔برخلاف اس مشہور  تاثر کے جو اس بارے یہ قائم کیا گیا ہے کہ اسلام جارحیت و استعمار کی مکمل حمایت کرتا ہے ۔

حالانکہ کلاسیکی تفسیر و تشریح میں ذیر بحث آیت کا مفہوم و معنی مختلف بیان کیا گیا ہے ۔ طبری و قرطبی و ابن کثیر نے جس معنی کو ترجیحاً بیان کیا ہے اسکا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دروان قتال بچوں بوڑھوں و خواتین کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ جبکہ اپاہج و معذور بھی اس میں داخل ہے ۔

کلاسیکی مفسرین زیر بحث آیت کے مفہوم سے اس شخص کو بھی مستثنیٰ کرتے ہیں  جو حکومت اسلامی کے خلاف نبردآزما ہونے سے خود کو روک لے۔ ۔ جیسا کہ پانچویں پارے میں اس بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

فَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ وَ اَلْقَوْا اِلَیْكُمُ السَّلَمَۙ-فَمَا جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ عَلَیْهِمْ سَبِیْلًا۔

ترجمہ، پھر اگر وہ تم سے دور رہیں اور نہ لڑیں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام بھیجیں تو (صلح کی صورت میں ) اللہ نے تمہیں ان پر(لڑائی) کا کوئی راستہ نہیں رکھا۔

کلاسیکی مفسرین میں سے امام طبری و امام ابن کثیر کے فیصلہ کن اقوال یہاں نقل کیے جاتے ہیں ۔

چنانچہ امام طبری آیت درج بالا آیت قتال کی تشریح و تفسیر سے متعلق کئی ائمہ تفسیر کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ۔

فتأويل الآية – إذا كان الأمر على ما وصفنا – : وقاتلوا أيها المؤمنون في سبيل الله = وسبيلُه: طريقه الذي أوضحه، ودينه الذي شرعه لعباده = يقول لهم تعالى ذكره: قاتلوا في طاعتي وَعلى ما شرعت لكم من ديني، وادعوا إليه من وَلَّى عنه واستكبر بالأيدي والألسن، حتى يُنيبوا إلى طاعتي، أو يعطوكم الجزية صَغارًا إن كانوا أهل كتاب. وأمرهم تعالى ذكره بقتال مَنْ كان منه قتال من مُقاتِلة أهل الكفر دون من لم يكن منه قتال (101) من نسائهم وذراريهم، فإنهم أموال وخَوَلٌ لهم إذا غُلب المقاتلون منهم فقُهروا، فذلك معنى قوله: ” قاتلوا في سبيل الله الذين يقاتلونكم ” لأنه أباح الكف عمّن كف، فلم يُقاتل من مشركي أهل الأوثان والكافِّين عن قتال المسلمين من كفار أهل الكتاب على إعطاء الجزية صَغارا.

فمعنى قوله: ” ولا تعتدوا “: لا تقتلوا وليدًا ولا امرأةً، ولا من أعطاكم الجزية من أهل الكتابَين والمجوس،” إنّ الله لا يُحب المعتدين ” الذين يجاوزون حدوده، فيستحلُّون ما حرَّمه الله عليهم من قتل هؤلاء الذين حَرَّم قتلهم من نساء المشركين وذراريهم ۔

امام طبری نے “اعتداء”  کے مفہوم کو حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ذیل میں واضح کیا کہ اس سے مراد حالت جنگ میں ان لوگوں کو قتل نہ کرنا ہے جو بالفعل لڑنے کی سکت نہ رکھتے ہوں ۔ جبکہ جدید مفکرین اس” اعتداء ” کے مفہوم میں ان قوتوں و طاقتوں کو داخل تصور کرتے ہیں جو نظام اسلام کے متوازی و مقابل نظام اجتماعی رکھتی ہیں ۔  زندگی اور اسکے جملہ  انفرادی و اجتماعی متعلقات کے بارے اپنا اک مساوی نظریہ حیات کی داعی ہیں ۔البتہ عالمی قوانین کے پیش نظر کسی مملکت پر حملہ آور نہیں  ہیں ۔

جدید مفکرین ایسی ریاستوں و طاقتوں کے خلاف بھی مسلح جہاد کی اجازت اس بناء پر نہیں دیتے کہ انکےنزدیک یہ طاقتیں “مقاتل” نہیں ۔

حالانکہ حقیقت یہ ہیکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو بالفعل لڑنے کی طاقت ہی نہ رکھتے ہوں۔ یا لڑنے کی طاقت رکھنے کے باوجود لڑنے پر راضی نہ ہوں۔ بایں ہمہ کہ اسلامی غلبے و تسلط کو قبول کرتے ہوں ۔

پس اس آیت کے مفہوم میں ان طاغوتی طاقتوں و قوتوں کو شامل و داخل مان کر انہیں حکم جہاد سے مستثنیٰ کرنا جو نظام رحمان کے مقابل نظام انسان کی داعی ہیں ۔ اور اجتماعی و سماجی سطح اپنی خود تراشیدہ اقدار و روایات کے وسیع پھیلاؤ و نفاذ کے لیے کوشاں ہیں سراسر غلط ہے ۔

امام ابن کثیر نے بھی مذکورہ آیت  کی تفسیر یہی متعین کی ہے ، چنانچہ آپ فرماتے ہیں ۔

وقوله : ( ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين ) أي : قاتلوا في سبيل الله ولا تعتدوا في ذلك ويدخل في ذلك ارتكاب المناهي كما قاله الحسن البصري من المثلة ، والغلول ، وقتل النساء والصبيان والشيوخ الذين لا رأي لهم ولا قتال فيهم ، والرهبان وأصحاب الصوامع ، وتحريق الأشجار وقتل الحيوان لغير مصلحة ، كما قال ذلك ابن عباس ، وعمر بن عبد العزيز ، ومقاتل بن حيان ، وغيرهم . ولهذا جاء في صحيح مسلم ، عن بريدة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول : ” اغزوا في سبيل الله ، قاتلوا من كفر بالله ، اغزوا ولا تغلوا ، ولا تغدروا ، ولا تمثلوا ، ولا تقتلوا وليدا ، ولا أصحاب الصوامع ” . رواه الإمام أحمد .

یہاں یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ امام طبری و  ابن کثیر دونوں نے امام ابو العالیہ کا وہ قول نقل کر کے اس پر رد بھی فرمایا ہے جسکے مطابق اس آیت میں حکم یہ دیا گیا ہے کہ جو کافر و مشرک بالفعل مقاتل ہیں محض انہی کے خلاف مسلح کاروائی کی جائے ۔ اور “الكف عمن كف” کی پالیسی اپنائی جائے ۔

لیکن حقیقت انکے اختلاف کی محض یہ ہیکہ انہوں نے اس آیت کے محض منسوخ ہونے کو تسلیم نہیں کیا ۔ کیونکہ ان دونوں کے نزدیک آیت کی وہ تفسیر و تشریح معتبر ہی نہیں جسکی بنیاد پر ابو العالیہ رحمہ اللہ اس آیت کو آیت براءت سے منسوخ مان  رہیں ہیں۔

نتیجتاً معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ کا وہ مفہوم جسے جدید مفکرین انتہائی زور و شور سے بیان کر رہیں ہیں ۔  کلاسیکی مفسرین کے ہاں قول مقبول نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حافظ حسن علی ادارہ علوم اسلامی سترہ میل سے فارغ التحصیل اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم-فل علوم اسلامیہ کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں