Home » ادھورا پن
سماجیات / فنون وثقافت کلام

ادھورا پن

زندگی آئے دن اپنے ادھورے پن کا احساس دلاتی ہے۔ دن بھی ایک بڑا وقفہ ہے۔ہر لمحہ کہیے تو بھی غلط نہیں۔
انفس پہ غور کیجیے تو ایک خلا ہے جو کبھی بھرتا نہیں۔وجود کے باطن میں جھانکیے تو تا حدِ نظر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔کسی کو پانے کی خواہش ہے جو عمر کے ساتھ پیرھن بدلتی ہے۔کبھی سیاہ کبھی سفید،کبھی لال کبھی زرد۔کبھی رنگِ دنیا کبھی صبغۃ اللہ۔انسان مسلسل لفظوں کی پناہ تلاش کرتا ہے۔عشقِ مجازی،عشقِ حقیقی۔لغت کی پناہ گاہیں اس کے کسی کام نہیں آتیں اور ایک دن وہ خود کو ’چپ‘ کے کھلے آسمان تلے کھڑا دیکھتاہے۔ایک ایسی دنیا جہاں جذبات تو ہوتے ہیں مگر ان کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں ہوتے۔خاموشی کو حکما نے دانش کی معراج کہا ہے تو شاید اسی لیے۔
انسانی زاویے سے آفاق میں بھی ایک ادہورا پن ہے۔آنکھیں کبھی کوئی منظر،اس کی تمام جہتوں کے ساتھ اپنے آغوش میں سمیٹ نہیں سکیں۔تمام جہتیں تو ایک طرف،جو پہلو نظروں کے سامنے ہوتا ہے،وہ بھی مکمل نہیں ہوتا۔ گلاب کے رنگ میں مسلسل زوال ہے۔اس کی مہک بھی ہر گزری ساعت کے ساتھ سمٹ رہی ہے۔موسم کودیکھیے تو تغیر اس کا جوہر ہے۔ نہ سردی میں دوام ہے نہ گرمی میں۔دوام ایک طرف،سردی گرمی کی حدت سے محروم ہے اور گرمی سردی کے جوہر سے خالی۔ وہی ادھورا پن آفاق میں بھی ہے جو انفس میں ہے۔
انسان مگر مکمل منظر کا متلاشی ہے۔گرم موسم میں خنک ہوائیں اسے بھلی معلوم ہو تی ہیں مگر وہ گرمی سے دست بردار نہیں ہوناچاہتا۔وہ رات کے سناٹے میں سکون ڈھونڈتا ہے مگر دن کے اجالے کی قیمت پر نہیں۔پورب کو دیکھتے ہوئے،وہ چاہتا ہے کہ پچھم بھی نگاہ میں رہے۔طلوعِ آفتاب کا منظر اسے بھاتا ہے مگر غروبِ آفتاب کی ساعتوں میں آتشیں افق بھی اسے گھائل کیے رکھتا ہے۔
انسان مکمل منظر دیکھتاچاہتا ہے مگر اس کا ہرتجربہ ادہوراہے۔چاہت اور تجربے کے درمیان ایک خلا ہے۔وہ اس خلا کو بھرنا چاہتا ہے۔فکر و نظر کا سفر اسی لیے ہے۔ نظریات اسی لیے وجود میں آتے ہیں۔انسان صدیوں سے اس دنیا کی تلاش میں ہے جو مکمل ہو۔ایک استثنا کے ساتھ،وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔وہ کوئی ایسا معاشرہ تشکیل نہیں دے سکا جس میں خلا نہ ہو۔وہ کوئی ایسا تصورِ حیات پیش نہیں کر سکاجو اسے بیک نظر، پورب و پچھم کا مشاہدہ کرا سکے۔اس کوشش میں وہ توہمات تک جا پہنچا۔اس وادی میں قدم رکھنے کا مطلب خود کو کھو دینا ہے۔جو کھو گیا یا مٹ گیا،اس کی چاہت بے معنی اور اس کا تجربہ بھی ناقابلِ التفات۔کہتے ہیں پہنچا ہوا ہے۔احساسِ ذات سے بے نیازی کو لوگوں نے پانا سمجھ لیا۔اگر یہ پانا ہے تو پھر کھونا کسے کہتے ہیں؟
ان تجربات اور افکار کی ناکامی کا سبب کیاہے؟یہ خلا کیوں بھرا نہیں جا سکا؟یہ ادہورا پن کیوں دور نہیں ہوا؟اس کا جواب بڑا سادہ ہے۔انسان نے اس دنیا میں مکمل منظر دیکھناچاہا جو خود ادہوری ہے۔شکستہ اآئینہ مکمل منظر نہیں دکھا سکتا۔’دنیا‘ کے وجود میں ایک خلا ہے۔ادہورا پن ہے۔وہ اپنی سرشت میں یک رخی ہے۔آشفتہ سری کے پاس عقل کے عوارض کا علاج نہیں ہوتا۔یہ تخیل کا افلاس ہے یا فکرکی کجی ہے کہ انسان جذب و مستی کو حکمت ودانش کا متبادل سمجھ لیتا ہے۔یہ افلاس بڑھ جائے تو اسے آگہی کی اگلی منزل قرار دے دیتا ہے۔
انسان کے فکری سفر میں وہ استثنا کون سا ہے جو اس خلا کو باقی نہیں رہنے دیتا؟و ہ آئینہ کس کے پاس ہے جو پورامنظر دکھاسکتا ہے؟وہ طبیب کون ہے جس کے پاس ادہورے پن کا علاج ہے؟یہ طبیب خدا کا پیغمبرہے۔پیغمبر وہ آ ئینہ ہے جس میں زندگی کی مکمل تصویر دکھائی دیتی ہے۔اس کے بیان کردہ نسخے کے دواجزائے ترکیبی ہیں:ایک تصورِ الہ جو وحدتِ فکر پیدا کرتا ہے۔دوسرا تصورِ آخرت جودنیا کے خلا کو بھر دیتا ہے۔
خدا کی مرکزیت(God Centric) پر قائم تصورِ حیات،فکری وحدت پیدا کرتا ہے۔وہ انسان کو بتاتا ہے کہ ایک خالق کو مان لینے کے بعد،تصور کی سطح پر خلا باقی نہیں رہتا۔کائنات کے منتشر اجزا باہم مربوط ہو جاتے ہیں اوران میں ایک معنویت پیدا ہو جاتی ہے۔یہی معنویت انسان کی فکری آسودگی کا سامان ہے۔اس سے چاہت اور تجربے کا فاصلہ مٹ جا تا ہے۔ہر ادہورے پن کا وہ جواز مل جا تا ہے جس کامطالبہ عقل کرتی ہے۔
آخرت کا تصور دنیا کی زندگی کے خلا کو بھر دیتا ہے۔ آخرت کے علاوہ انسان کے پاس کوئی ایسا تصور موجود نہیں جو اس دنیاوی زندگی کے ادہورے پن کو دور کر تا ہو۔یہ مان لینا کہ موت انسان کے خاتمے کا اعلان ہے،اس کی ناآسوگی کا سب سے بڑا سبب ہے،جس پر آخرت سے انکار کا متبادل تصورِ حیات قائم ہے۔حیرت ہوتی ہے جب لوگ تصورِ آخرت پر سوال اٹھاتے ہیں۔وہ اسے تو عقلی مانتے ہیں کہ انسان ادہورے پن کے ساتھ مر جائے مگرانہیں ایسی دنیا کا تصور غیر عقلی دکھائی دیتا ہے جواس ادہورے پن کو دور کرنے کی قوت رکھتا ہے۔
محبت ایک درجے میں انسان کے ادہورے پن کا علاج ہے۔یہ انسان کے جذباتی اور نفسیاتی وجود کے لیے تکمیل کے اسباب فراہم کر سکتی ہے مگر اس کے پاس زندگی کے عمومی خلا کا کوئی جواب نہیں ہے۔وہ اسے بھر نہیں سکتی۔اس کے اردگرد پھیلا ظلم اور انصاف کی عدم فراہمی کا علاج محبت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔آفاق کے ادہورے پن کو محبت بھر سکتی ہے اگر محبوب کے خیال میں ہمہ جہتی اور وسعت ہو۔ یہ پھیلاؤ اور ہمہ گیری، تصورخدا کے سوا کہیں نہیں پائی جا تی ہے۔یہی سبب ہے کہ انبیا کے تجویز کردہ نسخے میں خدا سے محبت،انسان کا مطلوب ہے۔وہ محبت جواس کی بے پناہ وبے کنار ہستی سے پھوٹتی اورانسان کے وجود کا احاطہ کر لیتی۔جو ایک فطری نتیجے کے طور پر عبادت کے جذبے میں ظہور کرتی اور رکوع وسجود کی صورت اختیار کرتے ہوئے اطاعت میں ڈھل جاتی ہے۔
یہ انبیا ہی کی تعلیمات ہیں جو محبت کے دو رنگوں کو ہم رنگ بنادیتی ہیں۔بندوں سے محبت اور خدا سے محبت۔خدا مرکزیت تصورِ حیات کے ساتھ،جب محبت ظہو رکتی ہے تو ایک ایسا سماج وجود میں آتا ہے جو اس دنیا کی زندگی کو آسودہ بناتا ا ورایک حد تک اس کے ادہورے پن کو دور کر دیتا ہے۔اس کے بعد جو خلا باقی رہتا ہے،تصورِ آخرت اسے دور کردیتا ہے جو خدا کی محبت کا ظہار اور اس کا ناگزیر تقاضا ہے۔یہ انسانوں کے ساتھ خداکی محبت ہے کہ اس نے خود پر رحمت کو لازم کر دیا ہے۔یہ اس کی رحمت ہے جو اس زندگی کے ادہورے پن کو ہمیشہ کے لیے دور کر دیتی ہے۔
اس دنیا کا ادہورا پن انسان کو مضطرب رکھتا ہے۔وہ ظلم دیکھتا ہے مگر ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔اس کے اندر سے آواز اٹھتی ہے کہ کوئی منصف ہے تو وہ حشر اٹھا کیوں نہیں دیتا؟انبیا اس کو ایک حشر کی خبر دیتے ہیں۔ایسا دن جب انصاف کا ترازو اس کے ہاتھ میں ہو گا جو ہر شے کی خبر رکھتا اور اپنافیصلہ نافذ کرنے کی مکمل قدرت رکھتا ہے۔انسان کے ادہورے پن کا علاج،اس کے علاوہ دریافت نہیں کیا جا سکا کہ وہ اپنا ہاتھ انبیا کے ہاتھ میں دے دے۔
دستِ ہرنااہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند

خورشید احمد ندیم

خورشید احمد ندیم، ممتاز دانش ور اور صحافی ہیں۔ آرگنائزیشن فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن (ORE) کے ڈائریکٹر ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن رہے ہیں۔
khurshid_nadeem@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں