بلا شبہ یہ ایک چونکا دینے والی کتاب ہے۔
ہر سطر معلوم ہوتا ہے کہ حیرت کی روشنائی سے لکھی گئی ہے۔یہ اُس تاریخ کی نقاب کشائی ہے جو خوش بختی سے کہیں محفوظ ہوگئی اور بدقسمتی سے ہماری نظروں سے اوجھل رکھی گئی۔ان دیکھے ہاتھوں نے اس پر پردہ ڈال دیا تھا۔برادرم فاروق عادل نے ہمت کی اور پردہ اٹھا دیا۔انہوں نے نئی تاریخ ایجاد نہیں کی کہ جو آفتاب ڈوب گیا،اسے لوٹا نے پر کوئی قادر نہیں ہوتا۔انہوں نے صرف گم شدہ اوراق کاکھوج لگایا اور انہیں ڈھونڈھ نکالا۔جیسے کوئی شیلف میں رکھی کسی بھولی بسری کتاب سے مٹی جھاڑ دے۔
پاکستان کی تاریخ کے ان گنت واقعات ہیں جن کو بیان کرنے سے دانستہ گریز کیا گیا ہے۔اس کی ایک وجہ ہے۔ہم نے قومی زندگی کے باب میں کچھ مقدمات قائم کر رکھے ہیں۔اگر یہ واقعات اپنی اصل صورت میں سامنے آئیں تو ان کی بنیاد پر مقدمات کی فصیلیں ریت کی دیوار ثابت ہوں اور سیاست کے بہت سے قلعے زمین بوس ہو جائیں۔
یہ معاملہ صرف پاکستان کے ساتھ خاص نہیں ہے۔تاریخِ عالم کا معاملہ بھی یہی ہے۔مثال کے طور پر یہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ حضرت مسیح ؑ کے ابتدائی ماننے والے جنہیں یہودی مسیحی(Jewish Christians)کہا گیا،ان کے عقائد کیا تھے۔یا مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ درحقیقت کیا ہے جس کی ایک مقبولِ عام تعبیر پرفرقہ واریت کی پوری عمارت کھڑی ہے۔جیسے ہی کسی نے ان کا کھوج لگانے کی کوشش کی،اسے سماج میں نکو بنا دیا گیا۔
کچھ لوگ،تاہم ہر معاشرے میں ایسے ضرور ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں۔جب خود ساختہ تاریخ کے تضادات ان کے سامنے آتے ہیں تومقبولِ عام نظریات پر ان کا اعتماد مشکوک ہو جاتا ہے۔یہ تشکیک ان کے لیے مہمیز بن جا تی ہے کہ وہ حقائق کی تلاش میں نکل پڑیں۔خوش قسمتی سے تاریخ کے کونوں کھدروں میں ایسے آثار محفوظ رہ جا تے ہیں جن سے اصل واقعات تک رسائی ممکن ہو جا تی ہے۔”ہم نے جو بھلا دیا“ کے مصنف ڈاکٹر فاروق عادل کا شمار بھی ان ہی میں ہو تا جنہیں زیرِ نظر حیرت کدہ مرتب کر دیا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ سندہی مہاجر کشمکش کیسے شروع ہوئی؟ابتدا ہی میں لوگ کیسے دفاتر اور رہائش گاہوں کے لیے لڑتے رہے؟کراچی جب دارالحکومت تھا تومرکز اور صوبے میں کیا جھگڑا تھا؟ہمیں تو یہی بتایا گیا ہے کہ سب اتنے ایثار کیش تھے کہ کانٹوں سے کاغذات کو جوڑتے تھے۔آدمی حیرت سے سوچتا ہے:ایسے لوگ کیا رہائش گاہوں کے لیے لڑتے ہوں گے؟
۔پہلے غیر ملکی دورے کے لیے امریکہ کا انتخاب کیا لیاقت علی خان کی غلطی تھی؟سوویت یونین کا دعوت نامہ کیسے آیا اور اس کا انجام کیا ہوا؟
۔پاکستان کی تاریخ میں گندم کا پہلا بحران کب پیدا ہوا؟افغانستان کے لیے گندم کی سمگلنگ کب سے شروع ہے اور اس کو کیوں روکا نہیں جا سکا؟کیا ایندھن کی کمی کا ازالہ،گندم جلا کر کیا گیا؟
۔اگر امریکی گندم نہ ملتی تو کیا اہلِ پاکستان بھوکے مر جاتے؟کیا اس وقت ملک میں قحط کی کیفیت تھی،جس سے امریکہ سے آنے والی دس ہزار ٹن گندم نے محفوظ رکھا؟ پاکستان نے امریکہ سے گندم خریدی تو اس کی ادائیگی پاکستانی روپے میں کی۔امریکہ نے یہ پیسہ بھی پاکستان پر کیا خرچ کیا۔کیا اس امریکہ امداد نے پاکستان کو گندم کی خود کفالت کا راستہ دکھایا؟
۔ گوادر پاکستان کا حصہ کیسے بنا؟کی اس کی قیمت ادا کی گئی؟برطانیہ نے اس میں کیا کردار ادا کیا؟یہاں بحری اڈہ اور بین الاقوامی ائیر پورٹ بنانے کا ارادہ پہلی بارکب ظاہر کیا گیا؟بھارت نے کب اس جزیرے میں دلچسپی لینا شروع کی؟
۔آپریشن جبرالٹر کیا تھا؟1965 ء کی جنگ پاکستان پر کس نے مسلط کی؟جنرل موسیٰ کا کردار کیا تھا؟ایوب خان ا ورذوالفقار علی بھٹو کے عزائم کیا تھے؟یہ ہوش ربا داستان کیوں آج تک چھپائی گئی؟
۔تاشقند میں کیا ہوا؟جب سوویت گلوکارہ نے اردو گیت چھیڑا کہ’ہائے رام مجھ کوبڈھا مل گیا‘ توکیا یہ کسی خاص سفارتی پیش رفت کی طرف اشارہ تھا؟بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے معاونِ خصوصی سی پی سری واسو نے اپنی کتاب میں کیا انکشاف کیا؟
۔ایم آر ڈی کی تحریک کیا تھی؟اس میں کیا کیا راز چھپے ہیں؟
۔اقوام ِ متحدہ میں جنرل ضیالا الحق کی تقریر سے پہلے تلاوت کی اصل کہانی کیا ہے؟
۔12۔اکتوبر 1999ء کے حقیقی واقعات کیا ہیں؟
۔ جمن فقیر اور بھٹو صاحب کا تعلق کیا تھا؟گورنر جنرل غلام محمد سے عمران خان تک،اہلِ سیاست کس طرح توہم پرست رہے؟
فاروق عادل صاحب نے اپنی کتاب میں ا س نوعیت کے بہت سے سوالات کے جواب دیے ہیں۔ان کی تحقیق نے مجھے تو چونکا دیا۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ حقائق اُن معلومات سے اس قدر مختلف ہیں جو ہم نے نصابی کتابوں میں پڑھے یا جنہیں قبولیتِ عامہ حاصل ہے۔انہوں نے جس عرق ریزی سے کتب کو کھنگالا اورواقعات پر پڑی مفادات اور تصنع کی گرد کو جھاڑا،وہ انہیں ایک وقائع نگار سے بڑھ کر ایک محقق کے درجے پر فائز کر تا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحافی اگر محقق بھی تو وہ کسی قوم کی فکری کجی کو دور کرنے میں کتنااہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر فاروق عادل کو میں برسوں سے جانتا ہوں۔ان کی صحافت ہمیشہ باوقار رہی اور بامقصد بھی۔کراچی یونیورسٹی میں انہیں ڈاکٹر طاہرمسعود جیسے نظریاتی پختگی رکھنے والا استاد میسر آیا۔اس کی جھلک ان کی صحافت میں صاف دکھائی دیتی ہے۔اس پہ مستزاد لکھنے کی خدا داد صلاحیت جس نے انہیں صاحبِ اسلوب بنا دیا ہے۔انہوں نے تاریخ کو افسانوی رنگ دیا مگرواقعات کی صحت کو متاثر نہیں ہو نے دیا۔یہ رنگ بحیثیت مجموعی ان کی کالم نگاری میں بھی موجود ہے۔وہاں بھی وہ اس شعوری احساس کی گرفت میں رہتے ہیں کہ رائے کا اظہار تبصرے میں ہوتا ہے،واقعے کے بیان میں نہیں۔
واقعات نگاری کے باب میں اہم سوال یہ ہے کہ اسے ’قومی مفادات‘ سے ہم آہنگ ہونا چاہیے یا حقائق سے؟مثال کے طور پر شکست کا بیان قوموں میں مایوسی پیدا کرتا ہے۔کیا اسے بیان کرتے وقت حقیقت نگاری سے کام لینا چاہیے؟اس باب میں دو آرا رہی ہیں۔اصلاح کی غرض سے اپنی غلطیوں کا ذکر ایک مثبت عمل ہے۔اس سے حقائق کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے جوبہتر مستقل کی نوید ہے۔دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔اس لیے ایسے حقائق نظروں سے اوجھل ہی رہیں تو بہتر ہیں۔
قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں میں حقائق کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کر تا ہے۔غزوہ احد کے واقعات کو قرآن مجید نے جس طرح بیان کیا ہے، اس کا سبق یہ ہے کہ پُر عزم لوگ غلطی کے اعتراف سے دامن نہیں بچاتے۔وہ غلطیوں سے سیکھتے اور پھرمستقبل میں ان کا اعادہ نہیں کرتے۔اہلِ ایمان نے قرآن مجید کی تنقید کا مثبت اثر لیا جس نے ان پر آنے والے دنوں میں فتوحات کے دروازے کھول دیے۔
ڈاکٹر فاروق عادل نے دیانت داری کے ساتھ وہ واقعات ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں جنہیں ہماری نظروں سے اوجھل رکھا گیا۔ان کے اسلوب نے انہیں کہانی کی طرح دلچسپ بنا دیا ہے۔میں نے 434 صفحات کی اس کتاب کو ناول کی طرح پڑھا ہے۔کبھی چونکاا ور کبھی حیرت میں ڈوبتاچلا گیا۔
کمنت کیجے