صہیونیوں کے ہاں تھیوڈور ہرزل کا مقام ’’موسیٰ ثانی’’ کا ہے جس نے دوبارہ یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرنے کا عمل شروع کیا۔ سوا سو سال پہلے ہرزل نے اپنی کتاب کا اختتام اس پرتیقن امید پر کیا تھا کہ
’’اگر ہم اپنے منصوبے پر عمل کا محض آغاز کر دیں تو سامی مخالف تحریک فوراً ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی کیونکہ امن کا نتیجہ اسی صورت میں نکلا کرتا ہے۔
جیوش کمپنی کے قیام کی خبر ٹیلی گراف کی برق رفتار تاروں کے ذریعے سے زمین کے دور دراز کناروں تک ایک ہی دن میں پہنچ جائے گی اور اس کے بعد فوری طور پر ہمیں سکھ کا سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ ہم اپنے درمیانہ طبقات میں جو بے حدو حساب ذہانتیں پیدا کرتے ہیں، انہیں ہمارے پہلے تکنیک کاروں، افسروں، پروفیسروں، کارندوں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی حیثیت میں ابتدائی تنظیموں میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا اور اس طرح تحریک تیز رفتاری کے ساتھ لیکن ہموار طریقے سے منزل کی طرف بڑھتی رہے گی۔
ہمارے منصوبے کی کام یابی کے لیے ہماری عبادت گاہوں اور گرجوں میں دعائیں کی جائیں گی کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم اس پرانے بوجھ سے سبک دوش ہوں گے جس کی تکلیف ہم سب کو اٹھانی پڑی ہے۔لیکن پہلے ہمیں لوگوں کے ذہنوں میں روشن خیالی پیدا کرنا ہوگی۔ اس خیال کا نفوذ ان نہایت دور دراز اور بدحال علاقوں تک ہونا چاہیے جہاں ہمارے لوگ سکونت پذیر ہیں۔ وہ اپنی یاس زدہ گہری سوچوں سے بیدار ہوں گے کیونکہ ان کی زندگیوں میں ایک نئی اہمیت آ جائے گی۔ ہر شخص کو بس اپنی فکر کرنی ہوگی اور یوں تحریک ایک وسیع دھارے کی شکل اختیار کر لے گی۔ اور اس مشن کے لیے بے غرض ہو کر جدوجہد کرنے والوں کے لیے جو شان اور جو مرتبہ منتظر کھڑے ہیں، ان کی عظمت کا اندازہ کون کر سکتا ہے!
اس بنا پر مجھے یقین ہے کہ یہودیوں کی ایک حیران کن نسل وجود میں آ جائے گی۔ مکابی دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے ابتدائی کلمات کو یہاں دوبارہ دہرا سکوں: ”یہودی جو اپنی ریاست کے آرزومند ہیں، اس کو حاصل کر لیں گے۔ آخر کار ہم بھی اپنی سرزمین پر ایک آزاد قوم کی حیثیت سے رہ سکیں گے اور اپنے گھروں میں چین کے ساتھ مر سکیں گے۔“
ہماری آزادی سے دنیا کو آزادی نصیب ہوگی، ہماری دولت سے اس کی ثروت میں اضافہ ہوگا اور ہماری عظمت سے اس کی عظمت میں چار چاند لگ جائیں گے۔ اپنے ملک میں ہم اپنی بہبود کے حصول کے لیے جو بھی کوششیں کریں گے، ان کا اثر انسانیت کی فلاح پر نہایت طاقت ور اور بے حد فائدہ مند ہوگا۔’’
آج اس کوشش کے نتائج دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہودیوں کے لیے موسیٰ نہیں، بلکہ بخت نصر دوم اور اہل فلسطین کے لیے فرعون ثابت ہوا جس نے لاکھوں یہودیوں کو بھی دنیا بھر سے اکٹھا کر کے اسرائیل کے عذاب خانے میں لا پھینکا اور پورے خطے کو بھی نفرت، دشمنی اور انسانیت سوزی کی آماج گاہ بنا دیا۔
یہودی ریاست کے خواب کو روبہ عمل کرنے کے سلسلے میں ہرزل کے ذہن میں جو منصوبہ تھا، اس کا بنیادی خاکہ یہ تھا کہ یورپی اقوام کی تائید اور سرپرستی سے دنیا کے کسی خطے میں یہودی زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر اپنی ایک آزاد ریاست قائم کر لیں اور دنیا بھر میں جہاں بھی یہودیوں کو نفرت اور جبر کا سامنا ہے، ان کو وہاں سے لا کر اس خطے میں آباد کر دیا جائے اور وہ اپنی محنت اور لیاقت سے خود بھی ترقی کریں اور اس خطے کی ترقی میں بھی مددگار بنیں۔
ہرزل مذکورہ کتاب میں لکھتا ہے:
’’اگر عالمی طاقتیں ایک غیر جانب دار علاقے پر ہماری خود مختاری کے خیال کے ساتھ اتفاق کی خواہش کا اعلان کرتی ہیں تو پھر جیوش سوسائٹی اس سرزمین پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے مذاکرات منعقد کرے گی۔ یہاں دو علاقے زیر غور آتے ہیں: فلسطین اور ارجنٹائن۔ دونوں ملکوں میں نوآبادیات کے حوالے سے اہم تجربے کیے جا چکے ہیں، اگرچہ ایسا یہودیوں کی تدریجی در اندازی کے غلط اصول پر کیا گیا۔ در اندازی کا انجام آخر کار برا ہوتا ہے۔ یہ اس ناگزیر لمحے تک ہی جاری رہ سکتی ہے جب تک مقامی آبادی خود کو خطرے سے دوچار محسوس نہ کرے اور حکومت کو مجبور کر دے کہ وہ یہودیوں کی مزید آمد پر پابندی عائد کرے۔ چنانچہ جب تک ہمیں ہجرت کو جاری رکھنے میں خود مختاری حاصل نہ ہوجائے، یہ عمل نتیجے کے لحاظ سے بے فائدہ ہے۔
اگر یورپی طاقتیں اس منصوبے کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرتی ہیں تو ان کی زیر حفاظت سوسائٹی آف جیوز زمین کے موجودہ مالکوں سے معاملہ کرے گی۔ ہم انہیں بے بہا فائدوں کی پیش کش کر سکتے ہیں، عوامی قرضے کا ایک حصے کی ادائیگی اپنے ذمے لے سکتے ہیں، ٹریفک کے لیے نئی سڑکیں بنا سکتے ہیں جو کہ اس ملک میں ہماری موجودگی کی بنا پر لازمی ہو جائے گا، اور دیگر بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ ہماری ریاست کا قیام پڑوسی ممالک کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا کیونکہ زمین کی ایک پٹی کو زرخیز بنانے سے اس کے ارد گرد کے علاقوں کی قدروقیمت میں بھی ان گنت طریقوں سے اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہمیں فلسطین کا انتخاب کرنا چاہیے یا ارجنٹائن کا؟ ہمیں جو علاقہ بھی مل جائے اور یہودی رائے عامہ جس کا بھی انتخاب کرے، ہم اسے لے لیں گے۔ دونوں نکات کا فیصلہ سوسائٹی کرے گی۔
ارجنٹائن دنیا کے زرخیز ترین خطوں میں سے ایک ہے، ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے، بے حد کم آبادی اور معتدل آب وہوا رکھتا ہے۔ جمہوریہ ارجنٹائن اپنے علاقے کا ایک حصہ ہمارے سپرد کر کے معقول فوائد حاصل کر سکتی ہے۔ یہودیوں کی موجودہ در اندازی نے یقینا کچھ بے اطمینانی پیدا کی ہے اور جمہوریہ کو ہماری نئی تحریک کے داخلی فرق کے بارے میں واضح طور پر آگاہ کرنا ہوگا۔
فلسطین ہمارا ناقابل فراموش تاریخی وطن ہے۔ فلسطین کا نام ہی ہمارے لوگوں کو ایک معجزانہ طاقت کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لے گا۔ اگر عزت مآب سلطان ہمیں فلسطین عنایت کر دیں تو ہم بدلے میں ترکی کے تمام مالیاتی امور کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں۔ وہاں ہمیں ایشیا کے مقابلے میں یورپ کے لیے ایک حفاظتی فصیل قائم کرنی ہوگی، جو تہذیب سے نابلد خطے میں گویا ایک دورافتادہ تہذیب کا نمائندہ ہوگا۔ ایک غیر جانب دار ریاست کی حیثیت سے ہمیں سارے یورپ سے تعلقات رکھنا ہوں گے جو ہمارے وجود کی ضمانت دے گا۔“ (باب دوم)
اپنی کتاب کا اختتام ہرزل نے اس پرتیقن امید پر کیا ہے کہ
’’اگر ہم اپنے منصوبے پر عمل کا محض آغاز کر دیں تو سامی مخالف تحریک فوراً ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی کیونکہ امن کا نتیجہ اسی صورت میں نکلا کرتا ہے۔
جیوش کمپنی کے قیام کی خبر ٹیلی گراف کی برق رفتار تاروں کے ذریعے سے زمین کے دور دراز کناروں تک ایک ہی دن میں پہنچ جائے گی اور اس کے بعد فوری طور پر ہمیں سکھ کا سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ ہم اپنے درمیانہ طبقات میں جو بے حدو حساب ذہانتیں پیدا کرتے ہیں، انہیں ہمارے پہلے تکنیک کاروں، افسروں، پروفیسروں، کارندوں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی حیثیت میں ابتدائی تنظیموں میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا اور اس طرح تحریک تیز رفتاری کے ساتھ لیکن ہموار طریقے سے منزل کی طرف بڑھتی رہے گی۔
ہمارے منصوبے کی کام یابی کے لیے ہماری عبادت گاہوں اور گرجوں میں دعائیں کی جائیں گی کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم اس پرانے بوجھ سے سبک دوش ہوں گے جس کی تکلیف ہم سب کو اٹھانی پڑی ہے۔لیکن پہلے ہمیں لوگوں کے ذہنوں میں روشن خیالی پیدا کرنا ہوگی۔ اس خیال کا نفوذ ان نہایت دور دراز اور بدحال علاقوں تک ہونا چاہیے جہاں ہمارے لوگ سکونت پذیر ہیں۔ وہ اپنی یاس زدہ گہری سوچوں سے بیدار ہوں گے کیونکہ ان کی زندگیوں میں ایک نئی اہمیت آ جائے گی۔ ہر شخص کو بس اپنی فکر کرنی ہوگی اور یوں تحریک ایک وسیع دھارے کی شکل اختیار کر لے گی۔ اور اس مشن کے لیے بے غرض ہو کر جدوجہد کرنے والوں کے لیے جو شان اور جو مرتبہ منتظر کھڑے ہیں، ان کی عظمت کا اندازہ کون کر سکتا ہے!
اس بنا پر مجھے یقین ہے کہ یہودیوں کی ایک حیران کن نسل وجود میں آ جائے گی۔ مکابی دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے ابتدائی کلمات کو یہاں دوبارہ دہرا سکوں: ”یہودی جو اپنی ریاست کے آرزومند ہیں، اس کو حاصل کر لیں گے۔ آخر کار ہم بھی اپنی سرزمین پر ایک آزاد قوم کی حیثیت سے رہ سکیں گے اور اپنے گھروں میں چین کے ساتھ مر سکیں گے۔“
ہماری آزادی سے دنیا کو آزادی نصیب ہوگی، ہماری دولت سے اس کی ثروت میں اضافہ ہوگا اور ہماری عظمت سے اس کی عظمت میں چار چاند لگ جائیں گے۔ اپنے ملک میں ہم اپنی بہبود کے حصول کے لیے جو بھی کوششیں کریں گے، ان کا اثر انسانیت کی فلاح پر نہایت طاقت ور اور بے حد فائدہ مند ہوگا۔“ (خاتمہ بحث)
یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کے لیے ہرزل نے امکانی طور پر فلسطین اور ارجنٹائن کا ذکر کیا ہے۔ منصوبے کے مطابق ہرزل نے سلطنت عثمانیہ کا سفر کیا اور خلیفہ عبد الحمید ثانی سے فلسطین کا علاقہ یہودیوں کے سپرد کر دینے کی درخواست کی جسے خلیفہ نے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد ارجنٹائن کے علاوہ یوگنڈا بھی صہیونی قائدین کے ہاں زیرغور رہا، لیکن ۱۹۰۶ء میں بیسل (سوئٹزر لینڈ) میں منعقدہ ساتویں صہیونی کانگریس نے متفقہ طور پر یہ طے کر لیا کہ یہودی ریاست صرف اور صرف فلسطین میں ہی قائم کی جائے گی۔
یہ منصوبہ سوچتے ہوئے جس سوال کو قطعی طور پر نظر انداز کیا گیا، وہ یہ تھا کہ فلسطین صدیوں پہلے چاہے یہودیوں کا قومی وطن رہا ہو اور یہودیوں نے یہاں واپسی کے خواب کو نسل در نسل زندہ رکھا ہو، بحالت موجودہ یہ پوری دنیا کے یہودیوں کا وطن نہیں تھا ۔ چنانچہ اس منصوبے کو رو بہ عمل کرنا پرامن سیاسی ذرائع سے ممکن نہیں تھا اور اس کے لیے لازم تھا کہ مغربی اقوام کی استعماری پشت پناہی اور تائید حاصل کی جائے۔ خود ہرزل کو بھی پوری طرح اس کا احساس تھا کہ یورپی طاقتوں کی سرپرستی کے بغیر یہاں یہودی ریاست کا قیام بھی ممکن نہیں ہوگا اور یہ ریاست اپنی بقا کے لیے بھی مسلسل اس سرپرستی کی محتاج رہے گی۔
کمنت کیجے