علمی طور پر اس مسئلے میں بہت سی سنجیدہ مباحث ہیں کہ کیا خواب میں رسول اکرم کی زیارت واقعتاً آپ کی زیارت ہے یا آپ کے جسد مثالی کی یا انسان کے اپنے لاشعور کی پیش کردہ صورت مجسم کی، اس کی تفصیل فیض الباری میں دیکھی جا سکتی ہے۔
لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ کوئی شخص اس نوع کی زیارت سےصحابیت کے درجے پر نہیں پہنچ جاتا۔
نیز اس پر بھی اتفاق ہے کہ خواب کی حالت میں رسول اکرم کی بتائی ہوئی کوئی ہدایت امت مسلمہ کے لیے عام حجت نہیں ہو سکتی. ممکن ہے جس شخص کو بتائی گئی ہو اس کے لیے مفید ہو بشرطیکہ آپ کی شریعت مطہرہ کے خلاف نہ ہو۔
نیز اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ ایسے کسی قول کو بطور ارشاد نبوی نقل اور روایت کرنا درست نہیں۔
جیسا کہ کرونا کے بارے میں ایک مبینہ وظیفہ سوشل میڈیا پر ارشاد نبوی کے طور پر بیان کیا جاتا رہا تھا ۔
اگر اس نوعیت کے خواب درست بھی ہوں تو ان کا تعلق صرف اس فرد سے ہوتا ہے جس نے وہ خواب دیکھا ہے۔
ہمارے خیال میں اسے میڈیا پر ایک ثقہ عالم اور محدث کی طرف سے نقل کرنا غیر محتاط عمل تھا۔
یوں بھی اگر رسول اللہ کویہ پیغام مذکور عالم دین تک پہنچانا ہوتا تو کسی درمیانے پیام بر کی ضرورت کیا تھی، براہ راست بھی تو بتایا جا سکتا تھا۔
جہاں تک ماثور وظائف کا تعلق ہے تو میرے علم کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر فرد کو الگ کوئی وظیفہ تو بتا دیتے تھے جو اس کی ضرورت یا خاص حالات کے مطابق ہوتا لیکن ساری امت کو مشترکہ طور پر وہی امور بتائے گئے جو کتاب اللہ اور سنن متداولہ یعنی تبیین کتاب سے متعلق تھے۔
اگرچہ مذکورہ بالا وظیفہ میں کوئی خلاف شرع بات نہیں تھی لیکن اس نوع کے واقعات سے جو ایک مائنڈ سیٹ تیار ہوتا ہے وہ نو ساختہ امور کو بطور دین قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔خوابوں کے حوالے سے میری خواہش ہے کہ کاش کوئی سکالر “مسلم سماج پر خوابوں کے اثرات” کی تحقیقی سیریز شروع کرے۔حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے۔مثلاً اہل سنت جو اشاعرہ کہلاتے ہیں۔ابوالحسن اشعری کے ایک خواب کے پائیدان پر کھڑے ہیں، جس میں عقلیت کو ٹھکرا کر غیرمعقول تعبیرات کو مدار عقائد قرار دیا گیا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ ہر طبقہ، فرقہ، ادارہ، خاندان، گھر بلکہ فرد کسی نہ کسی خواب سے روشنی حاصل کررہا ہے۔جہاد افغانستان کے پس منظر میں کئی مقدس خواب کار فرما تھے۔لال مسجد سانحہ کروانے میں خوابوں کی ایک مکمل کتاب موجود تھی۔اسلام آباد کی ایک معروف مسجد کے خطیب نے ، جو اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن یہیں ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں
مجھے بتایا کہ لال مسجد سانحہ کے بعد کسی ایجنسی کا کوئی بندہ جو ان کے ہاں کا نمازی بھی تھا، ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا:میں نے اس سانحہ کے دوران کئی ایسے جھوٹے خواب کہ رسول اللہ نے یہ پیغام دیا لال مسجد کی انتظامیہ تک پہنچائے۔یہ ہماری ڈیوٹی تھی۔
کیا میرا یہ گناہ معاف ہو سکتا ہے؟؟؟
نہ معلوم امت مسلمہ قرآن کی واضح ہدایات کو چھوڑ کر خوابوں کے سراب کے پیچھے کیوں لگ جاتی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا جاوید چوہدری نے اپنے کالم زیرو پوائنٹ میں عمران خان کی شادی کو موضوع بنایا تھا جس میں طلاق کی ایک غیر مصدقہ وجہ یہ لکھی تھی کہ خاتون کو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں حکم دیا کہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر عمران خان سے شادی کر لو۔
پاکستان کے ضعیف الاعتقاد سماج میں اس نوع کے فرضی خواب ہمیشہ بڑی تباہی کا باعث بنے ہیں۔
یاد رہے کہ جھوٹا خواب بیان کرنا سخت گناہ ہے اور پھر اس کے لیے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اسم گرامی استعمال کرنا ناقابل قبول جسارت ہے۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طلاق کو انتہائی قابل نفرت عمل قرار دیا،آپ کیسے کسی کو طلاق کا حکم دے سکتے ہیں۔
البتہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات ستودہ صفات آئینہ صفت ہے اس لئیے اگر اس نوعیت کا خواب کسی نے واقعتاً دیکھا بھی ہو تو وہ محض اپنی نا آسودہ خواہش کا عکس ہے،اس کا ذات نبوی سے کوئی تعلق نہیں۔
آپ حضرات جو چاہیں کریں اپنی سفلی خواہشات کے لیے رسول اکرم کا اسم گرامی استعمال کرنے سے گریز کریں، اس کے نتائج کبھی بھی مثبت نہیں ہوتے۔
میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ حدیث نبوی
لم یبق من النبوۃ الا المبشرات
کی حدیث سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارا ازلی دشمن ایسی باتوں کو ہمارے خوابوں کی شکل میں پیش کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے محکمات سے ہٹ کر امت مسلمہ توھمات کی پرستار ہوجائے۔ آپ میں سے بہت سے دوستوں نے مدینہ منورہ میں مقیم شیخ احمد کے خواب کی مطبوع کاپیاں وصول یا تقسیم کی ہوں گی۔ ان میں غلط کچھ نہیں تھا سوائے اس کے کہ لوگوں کو خوابوں کے سراب کے پیچھے لگا کر کتاب و سنت سے دور کر دیا جائے۔
کمنت کیجے