بزعم خود فلسفی صاحب کی علت و معلول پر ایک تحریر نظر سے گزری۔ کہنا پڑتا ہے کہ موصوف کو نہ صرف یہ کہ متکلمین کی متعلقہ مباحث کا ادراک نہیں بلکہ یہ ھیوم اور کانٹ کی باتوں کو بھی غلط بیان کرتے ہیں۔ موصوف کا استدلال ہے کہ علت و معلول کا تصور زمان و مکان میں مقید تجربات سے ماخوذ ہے اور یہ زمان و مکان کے ساتھ خاص ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
“علت و معلول کا تصور فلسفیوں نے اپنے ارد گرد کی دنیا سے اخذ کیا ہے۔ ایک واقعہ کے بعد دوسرا واقعہ رونما ہونا اور دونوں واقعات کا قابل فہم ہونا۔”
“علت و معلول بنیادی طور پر تجربے سے ماخوذ تصور ہے”
علت کے بارے میں اس مفروضہ تصور کو بنیاد بنا کر متکلمین پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“ایک تجربی تصور کو ماورائے تجربہ کسی متصورہ مفروضے پر لاگو کرنا حماقت ہے، اور متکلمین کی زندگی اسی حماقت کا ارتکاب کرتے ہوئے گزری ہے۔ ایک زمانی تصور کو مستعار لے کر اس کا ماورائے زمان اطلاق کرنا، ایک ایسی دنیا پر جس کے بارے میں کوئی تجربی شہادت نہیں ہے، نہ اس ماورائے زمان دنیا کی ماہیت کا ہی کوئی علم ہے، نہ ہی اس بات کا علم ہے کہ علت و معلول جیسے تصورات کا اطلاق “وہاں” ہوتا بھی ہے یا نہیں”
تبصرہ
ان امور کی غلطی کو ہم متعدد بار تفصیل سے واضح کرچکے ہیں، یہاں محض اشارہ کریں گے۔ ان کے بیان کردہ اس مقدمے میں چار خامیاں ہیں:
1) ان کا دعوی ہے کہ علت و معلول کا قانون تجربے سے ماخوذ ہے … کانٹین فلسفے کی رو سے یہ بیان فاش غلطی ہے کیونکہ کانٹ کے مطابق یہ قانون ایک ماقبل تجربی مفروضاتی مقولہ ہے نہ کہ تجربے سے ماخوذ تصور۔ ھیوم بھی یہ بات نہیں کہتا کہ علت کا تصور تجربے سے “ماخوذ” ہے۔ نرے تجربے سے صرف اس شے کا تصور (impression) حاصل ہوتا ہے جو حواس کی گرفت میں آئے۔ کیا علت نامی شے بھی تجربے میں آتی ہے کہ اسے تجربے سے ماخوذ کہا جائے؟ نہ ھیوم اس کا قائل ہے اور نہ کانٹ، یہ ہمارے ولایتی (بزعم خود) فلسفیوں کی تشریحات ہیں۔
2) دوسرا دعوی یہ ہے کہ علت و معلول کا قانون استدلالی یا نظری ہے … امام رازی نے کتاب “المطالب العالی” میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے کہ آیا علیت کا قانون استدلالی ہے یا بدیہی، آپ نے ہر گروہ کے دلائل دے کر ان پر مخالف گروہ کی جرح اور جوابی بحث پیش کی ہے۔ درست بات یہ ہے کہ علیت کا تصور بدیہی ہے، نہ یہ تجربے سے ماخوذ ہے اور نہ ہی استدلال سے اور نہ ہی یہ کانٹ کے مفروضہ خالی ڈبے نما کوئی مقولہ ہے۔ اس کا بدیہی حقیقت ہونا کیسے معلوم ہوتا ہے، اس کے لئے ہماری دیگر تحریریں ملاحظہ کرنی چاہئے
3) ان کا تیسرا دعوی ہے کہ علیت کا قانون صرف زمان و مکان تک محدود ہے ۔۔۔ یہ برا دعوی ہے اور یہ جس غلط مفروضے پر قائم ہے (یعنی علت کا تصور تجربے سے ماخوذ ہے) جب وہی ثابت شدہ نہیں تو متکلمین پر ان کی پوری تنقید بے معنی اور کچرے کے ڈبے میں پھینکے جانے لائق ہے۔ اس بات کی دلیل آج تک کوئی پیش نہیں کرسکا کہ علت کا زمان و مکان میں ہونا لازم ہے، یہ محض کانٹ کا لغو مفروضہ ہے جسے ہمارے ولایتی لوگ دھرا کر اہل مذہب پر فلسفی ہونے کا رعب جھاڑتے ہیں
4) علیت کے زمان و مکان سے ماوراء جاری نہ ہونے کی ایک دلیل موصوف یہ دیتے ہیں کہ زمان و مکان سے ماوراء علت کی ماہیت معلوم نہیں … اگر ماھیت کا مطلب سبسٹنس ہے تو زمان و مکان میں جس چیز کو موصوف علت قرار دے رہے ہیں، کیا انہیں اس کی ماھیت معلوم ہے؟ یہ اعتراض محض دجل و فریب کے سوا کچھ نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ موصوف نے علت کی تعریف تک ذکر نہ کی اور علت و معلول پر تحریر لکھ ماری۔ اگر علت کا مطلب خارج میں موجود اشیاء میں کسی تاثیر کا دعوی ہے تو بس ہمیں یہ بتا دیا جائے کہ اس تاثیر کی ماھیت کیا ہے، نیز یہ بھی کہ اس تاثیر کا تصور کس تجربے سے ماخوذ ہے، نیز یہ بھی کہ یہ تاثیر زمان و مکان میں محدود ہونے کا تصور کس دلیل پر مبنی ہے؟ اور اگر علت کا مطلب تاثیر کے سوا کچھ اور ہے تو اسے بیان کیا جائے تاکہ اس پر بات ہوسکے۔
کمنت کیجے