ملحدین اہل مذہب کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اکثر و بیشتر کہتے ہیں کہ “مذہبی تصور خدا ایسا ہے اور ویسا ہے”۔ اس سے ان کا مقصود یہ کہنا ہوتا ہے کہ مذہب میں خدا کا تصور نبی پر نازل شدہ وحی سے ماخوذ ہوتا ہے نہ کہ عقلی استدلال سے جبکہ عقلی استدلال ان کے خیال میں کسی اور تصور خدا کی جانب لے جاتا ہے (جسے یہ کائناتی قوت وغیرہ کہہ دیتے ہیں)۔ اس کے جواب میں مدافعین مذہب یہ موقف اختیار کرلیتے ہیں کہ خدا کے ہونے کا علم تو عقل سے ہوسکتا ہے، البتہ اس کی صفات کا علم نبی کی خبر سے ہوگا اور پھر بحث اس دائرے میں گھومنے لگتی ہے۔
دیگر ادیان کی کلامی روایت کا مجھے علم نہیں، تاہم اسلامی کلام کی روایت میں “مذہبی تصور خدا” ایک بے بنیاد اصطلاح ہے، اسی طرح ہمارے جدید مدافعین مذہب کا طریقہ بحث بھی اجنبی ہے۔ متکلمین علم کلام کا آغاز مصادر علم سے کرتے ہوئے علم کو مذہبی و غیر مذہبی میں تقسیم نہیں کرتے۔ علم کا مطلب شے سے متعلق دعوے کا نفس الامر کے مطابق ہونا ہے اور نفس الامر سے یہ مطابقت تین ذرائع سے حاصل ہوتی ہے: حس سے، استدلال سے اور مخبر صادق کی خبر سے (جبکہ وہ عالم امکان سے متعلق ہو نہ کہ محالات عقلیہ سے)۔ متکلمین حقائق کو تین اقسام میں رکھتے ہیں:
1) وہ جن کا اثبات صرف حس و عقلی استدلال سے ہوسکتا ہے
2) وہ جن کا اثبات صرف نبی کی خبر پر موقوف ہے
3) وہ جن کا اثبات دونوں سے ہوسکتا ہے
پہلی قسم میں وہ ان امور سے بحث کرتے ہیں جن پر نبی کے دعوی نبوت کی تصدیق موقوف ہوتی ہے۔ یہاں وہ ان امور کو شمار کرتے ہیں:
• اشیاء کا خارج میں متحقق ہونا اور ان سے متعلق علم کا ممکن ہونا (یہاں سوفسطائیہ کی تردید کی جاتی ہے)
• حدوث عالم کا ثبوت
• صانع عالم کا ثبوت
• اس صانع کی بعض صفات کا ثبوت جیسے کہ علم، قدرت اور ارادہ
• صانع عالم کی تنزیہی صفات
• صانع کے افعال کی نوعیت و احکام (یہاں مسائل تحسین و تقبیح کی نوعیت پر بحث ہوتی ہے)
اس کے بعد افعال باری کے تحت نبوت پر بحث شروع ہوتی ہے کیونکہ نبی مبعوث کرنا صانع کے افعال میں سے ایک فعل ہے۔ چونکہ یہ امور دعوی نبوت سے ماقبل ہیں، اسی لئے متکلمین کہتے ہیں کہ یہ امور وحی یعنی نبی کی خبر سے ثابت نہیں ہوسکتے کہ خود نبی کی خبر کا صدق ان پر موقوف ہے۔ اگر بالفرض وحی کے ظاہری الفاظ میں کوئی ایسی بات ہو جو ان ماقبل وحی قطعی طور پر ثابت شدہ امور کے خلاف ہو تو ایسی صورت میں متکلمین کے مطابق وحی کے ظاہری معنی کی یا تاویل ہوگی اور یا اس کے معنی تفویض کئے جائیں گے، یعنی یہ کہا جائے گا کہ ان کے معنی عند اللہ ثابت ہیں لیکن ہمیں وہ معلوم نہیں (واقفین علم کلام کو یہاں آیات متشبہات کے معنی پر ہونے والی بحث یاد آجانی چاہئے)۔ البتہ معاملہ یہ ہے کہ وحی میں بھی خدا کی انہی صفات کو بیان کیا گیا ہے جن کا اثبات عقل کرتی ہے، لہذا حکم شرعی اسی تصور خدا کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے جو عقل سے ثابت شدہ ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ متکلمین کی علمیات میں مذہبی و غیر مذہبی خدا جیسی کوئی تقسیم موجود نہیں، خدا اور اس کی بنیادی صفات کا اثبات ان کے ہاں اصلاً عقل ہی سے کیا جاتا ہے اور دیگر مذاہب (مثلاً عیسائیت، ہندومت، زرتشت وغیرہ) کے تصور خدا کو وہ اسی بنیاد پر رد کرتے ہیں کہ وہ عقلی پیمانوں پر پورا نہیں اترتا نیز ارسطو اور اس کے مسلم پیروکاروں کی بھی عقلی بنیادوں ہی پر تردید کی گئی تھی کہ جس قسم کی علت کو تم خدا باور کرانا چاہتے ہو وہ عقل کے پیمانوں پر پورا نہیں اترتا، چہ جائیکہ نقل اس کا ساتھ دیتی ہو۔ چنانچہ جو لوگ مسلمانوں سے گفتگو کرتے ہوئے “مذہبی خدا” جیسی اصطلاح استعمال کرتے ہیں وہ متکلمین کے علمیاتی منہج سے ناواقفیت کی بنا پر بے معنی گفتگو کرتے ہیں۔ متکلمین کے نزدیک کائناتی قوت نما کسی شے کو خدا قرار دینا عقلاً ہی حماقت ہے اور جسے فلسفے کی زبان میں “پرسنل گاڈ” کہتے ہیں اس کا اقرار کرنا ہی دلیل عقلی کا تقاضا ہے۔ چنانچہ اصل تقسیم “مذہبی و غیر مذھبی خدا” کی نہیں ہے بلکہ “عقلی و غیر عقلی خدا” کی ہے۔ جسے کائناتی قوت نما خدا کہا جاتا ہے وہ دراصل غیر عقلی خدا ہے۔
کمنت کیجے