Home » اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش ڈاکٹر محمد امین کا تجزیہ
اردو کتب اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار

اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش ڈاکٹر محمد امین کا تجزیہ

ڈاکٹر محمد امین نے فکر مغرب پر کئی تنقیدی کتابیں لکھی ہیں۔ جن میں سے “اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش” ہے۔ اس کو کتاب محل لاہور نے شائع کیا ہے۔

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں مسلمانوں کے ہاں مغربی تہذیب کے بارے میں پائے جانے والے تین ممکنہ رویوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں مسلم معاشرے پر مغربی تہذیب کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں بھی پاکستان کے تناظر میں بھی گفتگو کی گئی ہے۔

مغربی تہذیب کے حوالے سے مسلمانوں کے ہاں تین طرح کی آراء پائی جاتی ہیں

۱. مغربی تہذیب کو مکمل رد کیا جائے

۲. مغربی تہذیب کو قبول کر لیا جائے

۳. مغربی تہذیب سے مفاہمت کر لی جائے

ڈاکٹر صاحب نے ان تینوں صورتوں پر بالترتیب گفتگو کی ہے۔

پہلی صورت کے بارے میں مصنف نے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی اکثریت کا نظریہ ہے۔ اس کی کئی وجوہات ڈاکٹر صاحب نے ذکر کی ہیں۔ جن میں سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام اور مغربی تہذیب الگ الگ اور مستقل فکریں ہیں جن کی اساس ہی آپس میں متضاد ہے۔ جب ان دونوں کی بنیادی اساس ہی آپس میں متضاد ہے تو ان کے درمیان مفاہمت یا قبولیت کی بات کرنے والے یا تو اسلام کو درست طور پر نہیں سمجھتے یا پھر مغربی تہذیب سے ناواقف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب تین بنیادی تصورات لبرلزم ، سیکولرزم اور ہیومنزم پر قائم ہے۔یہ ایک الگ نظام فکر کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی مغربی تہذیب کو عیسائی تہذیب سمجھتا ہے تو وہ بالکل غلط ہے۔ اجتماعی نظام سے عیسائیت کو نکال دیا گیا ہے۔ اس لیے مغربی تہذیب کی حیثیت اسلام کے مقابل ایک دین کی ہے اور یہ خدا ، رسول اور آخرت کے انکار پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں مطالعہ مغرب کی روایت علمی طور پر اتنی مستحکم نہیں ہے اس لیے بہت سے پڑھے لکھے لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔

ہیومنزم جو کہ فکر مغرب کا بنیادی تصور ہے کے مطابق انسان آزاد ہے اور وہ اپنے لیے صیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں خود مختار ہے۔ جبکہ اسلام میں انسان کی حیثیت ایک عبد کی ہے وہ مکمل طور پر آزاد ہرگز نہیں ہے۔ اس کی آزادی فقط وہاں پر جہاں پر خدا یا رسول نے اس کو کوئی واضح حکم نہیں دیا۔ اس کے لیے بھی وہ پابند ہے کہ وہ شریعت کی حکمت کو سامنے رکھے نہ کہ اپنی خواہشات کی اتباع کرے۔

مغربی تہذیب کو رد کرنے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اہل مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے رویہ معاندانہ ہے۔مغرب استعماری قوتوں کا مرکز رہا ہے اور استعمار نے مسلمانوں کا معاشی اور سیاسی استحصال کیا ہے۔ انہوں نے مسلم ممالک کی زمینوں پر قبضہ کیا اور یہاں کے وسائل کو لوٹا، مغربی تہذیب کی ترقی کی بنیاد اس لوٹ مار پر ہے۔ وسائل کی اس لوٹ مار سے مسلم ممالک معاشی عدم استحکام کا شکار ہوئے جس سے اب تک نہیں نکل سکے۔ پھر استعمار نے ناصرف فقط ہمارا معاشی اور سیاسی استحصال نہیں کیا بلکہ اس نے تعلیم اور سماج پر بھی اپنا اثرورسوخ چھوڑا۔ اس نے اپنا تعلیمی نظام بھی نافذ کیا اور پہلے سے چلے آنے والے نظام کو بالکل ہی irrelevant کر دیا اور ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو کسی اہم کردار ادا کرنے کے لیے نااہل قرار دے ڈالا۔ پھر ان کے اپنے نظام تعلیم سے نکل کر آنے والے لوگ ذہنی طور پر ان ہے مرعوب تھے تو وہ ان کے مفادات کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکے۔ جبکہ دوسری جانب استشراق کے ذریعے ہماری مذہبی اقدار پر بھی حملے ہوئے، اسلام ، قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی اور تواتر اور ڈھٹائی سے جھوٹ بولا گیا۔یہاں تک کچھ انصاف پسند مستشرقین کو اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ ان کے پیش رو مستشرقین نے اسلام کی ایک غلط اور غیر حقیقی تصویر مغرب کو پیش کی۔ وقت کے ساتھ کچھ مستشرقین کے تعصب میں کمی ضرور آئی مگر اسلام کے حوالے سے ان کا رویہ دوستانہ نہیں رہا.

ڈاکٹر صاحب نے یہاں مغربی جمہوریت پر بھی تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ اس کی بنیاد سیکولرزم اور ہیومنزم پر ہے یہ اسلام کے خلاف ہے کیونکہ اس جمہوریت میں پارلیمان قانون سازی میں مکمل طور پر خود مختار ہوتی ہے وہ اگر سود،شراب ، ہم جنس پرستی یا پھر کسی اور حرام کو حلال کہہ سکتی ہے۔ ایسے ہی لامحدود اختیارات کی حامل پارلیمان حلال کو حرام بھی قرار دے سکتی ہے۔ جبکہ اسلام میں مجلسِ شوریٰ کے اختیارات محدود ہیں، وہاں اگر اکثریت سود کو جائز بھی قرار دیں تو بھی یہ ناجائز ہو گی اور یہ جمہور کی رائے نہیں ہو گی۔ کتاب کے دوسرے حصے میں پارلیمنٹ کے کردار پر مصنف نے مزید بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ خالصتاً ایک مغربی ادارہ ہے۔ یہ مجلسِ شوریٰ کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔ مجلسِ شوریٰ کے ارکان کے لیے اسلامی تعلیمات اور اقدار سے واقفیت ہونا ضروری ہے۔ نیز ماضی میں فقہاء اسلام نے جو قانون سازی کی ہے وہ نجی سطح پر کی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ کسی بیرونی دباؤ سے آزاد ہوتے تھے۔ حکام فقہاء کے آراء کو نافذ کیا کرتے تھے۔ایسے ہی آئین اور پھر عدالتوں کا آئین کی پابندی کرتے ہوئے فیصلہ کرنا یہ بھی مغربی تہذیب کا ایک مظہر ہے۔ لوگوں کے بنائے ہوئے آئین میں اگر کوئی بھی شق غیر اسلامی ہو تو بھلے وہ آئین کا حصہ ہو لیکن اس کے اوپر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ مغربی تہذیب کو رد کرنے سے ہماری مراد اس سے تصادم یا جنگ نہیں ہے۔ ہم اتنا چاہتے ہیں کہ مغرب ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرے، بطور مسلمان ہمارے لیے مغربی تہذیب کی پیروی اختیار کرنا ناممکن ہے۔ لیکن یہاں ڈاکٹر صاحب نے ایک نکتہ نظر انداز کر دیا کہ اسلام دعوت کا دین ہے، مغرب بھی اس کی دعوت میں شامل ہے۔ مغرب کو اسلام کی دعوت سے مسئلہ بھی نہیں لیکن اگر مسلمان مغربی تہذیب کو مکمل رد کر دیں گے تو کیا ان کا رویہ اسلام کی دعوت کے حوالے سے پہلے جیسا رہے گا؟

ڈاکٹر صاحب نے اس باب میں مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ مغربی تہذیب سے مرعوب ہیں جس کی وجہ سے وہ اس کے بارے میں واضح طرزِ عمل نہیں رکھتے۔

ڈاکٹر امین صاحب نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب کو مکمل رد کرنے والے تصادم اور جنگ کے قائل نہیں چونکہ مغربی تہذیب اس وقت غالب ہے اور اس کے نمائندوں نے مسلمان ممالک میں تسلط قائم کیا ہے تو کچھ لوگوں نے اس تسلط کو جنگ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ مسلمانوں کی ایک اقلیت جو کہ اس ظلم کو برداشت نہیں کر سکی اس کا رویہ ہے۔ یہ کل مسلمانوں کا رویہ نہیں ہے۔ اکثریت تصادم نہیں چاہتی

جہاں تک مغربی تہذیب کے چند محاسن کا تعلق ہے تو مصنف نے ان کو تسلیم کیا ہے لیکن مصنف کا خیال ہے کہ اہل اسلام کو اس معاملے میں خاص محتاط ردعمل کی ضرورت ہے کہیں ہم اس معاملے میں بھی مرعوبیت کا شکار نہ ہو جائیں۔

ڈاکٹر صاحب نے بنیادی گفتگو اس باب میں کی ہے اور اس بنیاد پر باقی دو نظریات کا جائزہ لیا ہے۔ مصنف خود بھی اس بات کے مؤید ہیں کہ اسلام اور تہذیب مغرب دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں اور مسلمانوں کو تہذیب مغرب کو مکمل رد کرنا چاہیے

جہاں تک دوسرے نظریے کا تعلق ہے کہ مسلمانوں کو مغربی تہذیب کو قبول کر لینا چاہیے اس کے حق میں درج ذیل دلائل دئیے جاتے ہیں.

جس طرح مغرب نے ترقی کا سفر طے کیا ہے ہم مسلمانوں کو بھی ان کے اصول اپنا کر ترقی کرنی چاہیے۔

اس نظریے کے حامی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اسلام کو ترک کرنے کا نہیں کہہ رہے، بلکہ خود مغرب کو بھی ہماری عبادات کے بجا لانے پر کوئی اعتراض نہیں۔

اس پر مصنف کا کہنا ہے کہ مغرب کا تصور ترقی اسلام کے تصور ترقی سے بالکل ہی مختلف ہے۔ اسلام میں دنیاوی کے ساتھ اخروی کامیابی بنیادی مقصد ہے جبکہ مغربی تہذیب میں ترقی کا مطلب دنیاوی ترقی ہے۔ پھر مغرب کی ترقی خدا اور رسول کی تعلیمات کے انکار پر ہے جبکہ مسلمانوں کی ترقی خدا اور رسول کی اطاعت پر ہے۔ لہذا مصنف کہتے ہیں کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو مغرب کا طرزِ فکر اپنا لینا چاہیے اس سے ان کے اسلام سے تعلق پر کوئی فرق نہیں پڑتا وہ مغربی تہذیب سے ناواقف ہیں۔

یہاں پر ڈاکٹر صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد ، سرسید احمد خان ، علامہ مشرقی اور سید امیر علی کا نام لیکر ذکر کیا کہ ان کا خیال تھا کہ مغرب نے جن اصولوں پر ترقی کی وہ اسلام ہی کے اصول ہیں۔ ڈاکٹر امین صاحب نے لکھا یہ خیال سراسر غلط ہے۔ مغرب کی ترقی اپنے نظام فکر کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک ان کے محنت کرنے کی بات ہے تو مصنف نے کہا کہ یہ خدا کا قانون ہے وہ رزاق ہے جس طرح وہ مسلمانوں کو رزق دیتا ہے تو غیر مسلموں کو بھی رزق دیتا ہے۔ اس نے محنت اور تدبیر پر کچھ معاملات کو موقوف کیا ہے۔ اس کا تعلق اسلام یا غیر اسلام سے نہیں ہے بلکہ اسباب کے ساتھ ہے۔جو قوم بہتر اسباب کو استعمال کرے گی وہ کامیابی کے زیادہ مواقع پیدا کرے گی اس وقت اہل مغرب کے ہاں کامیابی کے مواقع بنسبت زیادہ ہیں کیونکہ انہوں نے اسباب کو مسلمانوں سے زیادہ بہتر استعمال کیا ہے۔

اس موقف کے مؤید یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ مغرب کی ترقی سائنس وٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے۔ مسلمانوں کو مغرب سے اس میدان میں سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں کہ مغرب کی ترقی سائنس وٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے۔ ان کے نزدیک مغرب کی ترقی اپنے نظریے اور فکر سے وابستگی کی وجہ سے ہے۔ اس پر مزید ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی میں اس وقت تک ترقی ممکن نہیں جب تک آپ کے ہاں اچھی تعلیم نہ ہو پھر وہاں پر لیبارٹریوں کے لیے کثیر پیسہ درکار ہے اور یہ مالی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ مالی استحکام سیاسی استحکام کی وجہ سے ہوتا ہے اور سیاسی استحکام نظریہ حیات سے کامل وابستگی کے ساتھ ہی قائم ہوتا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ یہ کہنا کہ ہمیں سائنس وٹیکنالوجی مغرب کی پیروی کرنی چاہیے بھی درست نہیں کیونکہ اس صورت میں ہم ٹیکنالوجی کے استعمال کنندہ (end user ) بن جائیں گے ۔ اگر ہمیں سائنس وٹیکنالوجی میں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنے ملک میں اعلیٰ تعلیم اور بہترین تجربہ گاہیں کو قائم کرنا ہو گا اور ملک میں اعلیٰ تعلیمی ماحول پیدا کرنا ہو گا

مصنف نے لکھا ہے کہ ترقی کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو ہم مکمل طور پر اسلام کے نظریہ حیات سے وابستہ ہو جائیں یا پھر مکمل طور پر مغرب کے ساتھ۔ مصنف نے جرمنی اور جاپان کی مثال دی جنہوں نے مغرب کا نظریہ حیات اپنایا اور اب ترقی کر رہے ہیں جبکہ ترکیہ نے ان سے پہلے مغربی تہذیب کو اپنایا لیکن وہ اس طرح ترقی نہیں کر سکے کیونکہ وہ ذہنی طور اسلام کے نظریہ حیات سے بھی جڑے ہوئے تھے۔ اس لیے آج بھی ترکیہ یورپی یونین میں جگہ نہیں بنا سکا اور نہ اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک کیا جاتا ہے جیسے کہ جرمنی اور جاپان کا جنہوں نے مکمل طور پر اس نظریہ حیات کو اپنایا۔

مصنف نے اس باب میں جاوید احمد غامدی صاحب اور ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے نظریات پر بھی تنقید کی ہے۔ جن کے مطابق اسلامی تہذیب از خود کوئی مستقل تہذیب نہیں بلکہ مقامی ثقافتوں کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ایسے ہی مغربی تہذیب کوئی منفرد تہذیب نہیں جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہو بلکہ رومی ایرانی اور اسلامی تہذیبوں ہی کا ایک تسلسل ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم نے تو مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کا تسلسل قرار دیا اور انہوں نے کہا کہ آج کے اسکالرز کو چاہیے کہ مغربی تہذیب کے تقاضوں کے مطابق قرآن وسنت کی نصوص کی تعبیر نو کر کے اس کو جدید بنانا چاہیے

تیسرا نظریہ جن کے مطابق ہمیں مغربی تہذیب سے مفاہمت کی راہ نکالنی چاہیے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے مسلمان بنیادی طور پر داعی ہیں۔اہل مغرب اپنی گمراہیوں اور خرابیوں کے باوجود ہمارے لیے امت دعوت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ظاہری بات ہے کہ دعوت پہنچانے کے لیے مفاہمت کا ماحول ہی زیادہ بہتر ہے اگر اہل مغرب ہم سے نفرت اور دشمنی کا رویہ رکھتے ہیں تو اسلام ہمیں اخلاق کریمانہ کا درس دیتا ہے۔ ہم محبت اور اخوت کے جذبے سے اس دشمنی کو دوستی میں بدل سکتے ہیں۔

اس پر مصنف نے لکھا کہ پہلے یہاں مفاہمت کا مفہوم واضح کرنا چاہیے کہ اس سے کیا مراد ہے۔ نیز مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقین اس پر رضامند ہوں۔ اور پھر مفاہمت کن معاملات پر کرنی ہے۔

مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ فریقین کی حیثیت بھی مساوی ہو یعنی کوئی کسی دوسرے پر مسلط ہونے کی کوشش نہ کرے اور ہر کوئی اپنی مرضی سے مفاہمت کرے نا کہ دب کر مفاہمت ہو۔ مفاہمت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی فریق اپنے اصول نہ چھوڑے اور دوسرے فریق کے اصول نہ اپنائے۔ جن امور پر مفاہمت ہو ان کا مبنی بر انصاف ہونا ضروری ہے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام جبر و اکراہ کو درست نہیں سمجھتا۔ لہذا اگر ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مغربی تہذیب سے مفاہمت کوئی راہ نکلتی ہے تو ٹھیک ہے لیکن یہاں مفاہمت میں رکاوٹ اہل اسلام نہیں بلکہ مغرب ہے۔ اس وقت مغرب مفاہمت نہیں چاہتا وہ مکمل طور پر غالب آنا چاہتا ہے وہ مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں کر رہے۔

جہاں تک دعوت کی بات ہے۔ اس پر مصنف کا خیال ہے کہ اس وقت کسی داعی میں مجسم اسلام نظر نہیں آتا نہ کہیں اسلامی معاشرہ ہے اس لیے اگر ہم بطور داعی بھی اپنا فریضہ انجام دینے کی کوشش کریں تو بھی کما حقہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمیں پہلے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اسلامی فکر و عمل کا نمونہ بننا ہے۔ مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان میں ایک بھی ایسا تعلیمی ادارہ موجود نہیں جو اسلامی علوم پر دسترس رکھنے کے ساتھ انگریزی زبان میں مہارت رکھتا ہو اور مغربی علوم اور معاشرے کے تقاضوں کو بھی سمجھتا ہو۔ اس لیے ہمیں مجسم طور پر اسلامی فکر و عمل میں ڈھلنے کے ساتھ ایک اسلامی معاشرے کی مثال قائم کرنا ہو گی تب ہی ہم دعوتی انداز میں زیادہ بہتر اپیل کر سکتے ہیں۔

مفاہمت اگر ہو جائے تو یہ اہل اسلام کے حق میں بھی بہتر ہے کیونکہ تصادم ان کے مفاد میں نہیں اور اس وقت طاقت کا توازن بھی ان کے حق میں ہے۔ لیکن مفاہمت اگر برابری کی سطح پر ہو تو ہی یہ مفاہمت کہلائے گی لیکن مغرب کا رویہ بتاتا ہے کہ وہ مفاہمت نہیں چاہتے وہ زور زبردستی اپنا نظریہ حیات مسلط کرنا چاہتے ہیں جو کہ مسلمانوں کے لیے کسی صورت میں قبول نہیں

کتاب کا دوسرا حصہ پاکستان جو کہ مسلم معاشرے ہے پر مغربی تہذیب کے اثرات اور اس کے اسباب کے بارے میں ہے۔ اس حصے میں مصنف نے اس چیز کا تجزیہ کیا ہے کہ جب مغربی تہذیب مسلم معاشرے میں نفوذ کرتی ہے تو وہ کس طرح وہاں کے سماجی ڈھانچے کو متاثر کرتی ہے۔

اس میں سب سے پہلے مصنف نے تعلیم کے اوپر بات کی ہے اور بتایا ہے کہ استعماری قوتوں کا یہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے انہوں نے اپنی تہذیب کو مسلم معاشرے میں نافذ کیا۔ مصنف نے بتایا کہ اسلامی معاشرے میں تعلیم کبھی بھی منافع بخش کاروبار نہیں رہا بلکہ یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر شہری کو تعلیم فراہم کرے اور اس کا نصاب حکومت کی بجائے علماء اور اساتذہ طے کرتے تھے۔ مغربیت نے تعلیم کو ایک کاروبار کی شکل دی اور پھر وہاں کے نصاب پر الگ سے اثر انداز ہوا۔ نصاب کے اوپر اثرانداز ہونے کے حوالے سے اس کی مثال علی گڑھ ہے۔ مصنف نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں جو تعلیمی ادارے وہ علی گڑھ ہی کا تسلسل ہیں۔

تعلیم کا اصل مقصد بیداری شعور اور خدا شناسی ہے جبکہ ہمارے ہاں کے تعلیمی اداروں میں فقط ان علوم پر توجہ دی جاتی تاکہ اس سے اچھی نوکری حاصل کی جا سکے۔ سماجی علوم پر توجہ بالکل بھی نہیں دی جاتی۔ مصنف نے انگریزی میڈیم اسکول سسٹم پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ہمیں اپنی زبان میں تعلیم دینی چاہیے۔ ایسے ہی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے بھی بھاری فیسیں دینی پڑتی ہیں جس سے ایک خاص طبقے کے لوگ ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس تعلیمی نظام کے تحت طلبہ اور اساتذہ کے درمیان تعلق بھی پہلے جیسا نہیں طلبہ کے ہاں اساتذہ کے لیے احترام نہیں پایا جاتا۔ اس کے ساتھ ٹیوشن کے ذریعے الگ سے طلبہ کا استحصال کیا جاتا ہے۔ کئی اساتذہ سکولوں میں ٹھیک نہیں پڑھاتے وہ طلبہ کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے پاس الگ سے ٹیوشن پڑھیں ۔

یہاں مصنف نے مدارس کے نظام پر بھی تنقید کی ہے اور ان کے فرقہ ورانہ تقسیم پر مبنی بورڈز کو بھی افسوسناک قرار دیا ہے۔ یہاں مصنف چاہتے ہیں کہ حکومت مداخلت کرکے ایک بورڈ تشکیل دے اور مدارس کی فرقہ ورانہ تقسیم کو ختم کرے۔

اس نظام تعلیم (سکول سسٹم) سے نکلنے والا ذہن متذبذب ہوتا ہے۔ اس کے اندر اسلامی تہذیب کے حوالے سے شک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ وہ دینی تصورات کے بارے میں بھی مکمل آگاہی سے محروم ہوتے ہیں اس لیے وہ مغربی تہذیب اور اس کی اصطلاحات میں اسلامی تصورات کو تلاش کرتے ہیں جیسے کہ “اسلامی جمہوریت” یا “اسلامی سوشلزم” وغیرہ ۔ وہ سائنس کو حاکم مان لیتے ہیں اور غیر سائنسی علوم کو اہمیت نہیں دیتے جو اسلام کا حکم سمجھ نہ آئے اس کو ضعیف الاعتقادی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایسے ہی قرآن مجید کو سائنس کی نظر سے دیکھنے کا رجحان بھی اس ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ علم و تحقیق میں مغربی معیار کو ہی درست مانتے ہیں اور مستشرقین کی اسلام کے حوالے سے تحقیقات کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔

مصنف نے تصوف کے کردار پر بھی بحث کی ہے اور اس کا دفاع کیا ہے اور اس خیال کو غلط قرار دیا ہے کہ تصوف دور زوال کی پیداوار ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ تصوف پہلی صدی جبکہ مسلمانوں کا عروج تھا تب کی پیدوار ہے۔ یہ مستشرقین کا دعویٰ ہے کہ یہ دور زوال میں آیا ۔ البتہ تصوف سے مراد تزکیہ و تطہیر ہے لیکن متذبذب ذہن سمجھتا ہے کہ تصوف سے مراد وحدت ادیان اور وہ ایرانی و ہندی تصوف اور اسلامی تصوف میں کوئی فرق نہیں سمجھتا

یہ کتاب جنرل پرویز مشرف کے دور میں لکھی گئی تو اس لیے مصنف میراتھان ، بسنت ، نیو ایئر نائٹ اور ویلنٹائن ڈے کے نام پر جو مغرب کے تہذیبی وار تھے ان کے حوالے سے آگاہ کیا ہے کہ یہ ان کے نظام فکر کے نفوذ کے راستے اور اثرات ہیں۔ مصنف نے مجموعی طور پر کھیلوں کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ مغربی تہذیب کے مظاہر میں سے ہیں جہاں پورا پورا دن کھیل چلتا رہتا ہے اور تماشائی جن میں پردے کا انتظام نہیں ہوتا تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔ مصنف کہتے ہیں کہ اسلام تفریح سے منع نہیں کرتا لیکن اسلام کی تفریح کی وہ شکل ہرگز نہیں جو موجودہ کھیلوں میں پائی جاتی ہے۔

اس وقت امریکہ نے عراق اور افغانستان پر قبضہ کیا ہوا تھا تو اس بارے میں مصنف نے لکھا کہ یہ توسیع پسندی دراصل استعمار کا پرانا ہتھکنڈا ہے۔ جو بھی مسلم ملک یا راہنما ان کی مرضی سے نہیں چلتا یہ اس کو راستہ سے ہٹا دیتے ہیں۔ اس وقت ڈاکٹر عبد القدیر خان محصور تھے اور میاں نواز شریف جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تو مصنف نے ڈاکٹر خان کی محصوری اور میاں نواز شریف کی جلاوطنی اور بھٹو صاحب کی پھانسی کی وجہ ایٹم بم کو قرار دیا۔ ڈاکٹر خان صاحب اور بھٹو صاحب کی حد تو اتفاق ہے لیکن میاں صاحب کی جلاوطنی کی وجہ ہرگز ایٹمی دھماکے نہیں تھے۔ ان کی فوجی قیادت سے لڑائی تھی اور پھر وہ اپنی مرضی سے ڈیل کر کے ملک چھوڑ کر گئے تھے

مصنف نے عدالتی نظام پر بھی گفتگو کی ہے کہ اسلامی فقہ میں سائلین کو جلد انصاف ملتا تھا۔ جبکہ انگریزی قانون میں پروسیجر کے نام پر عام سے عام مقدمات کو لمبے عرصے کے لیے لٹکایا جاتا ہے۔ پھر وکالت کا ایک پورا شعبہ اس پر کھڑا کر دیا گیا ہے جو کہ اس انگریزی نظام کی پیدوار ہے۔ اب حصول انصاف کے لیے جہاں لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے وہاں وکیلوں کی بھاری فیسوں اور اسٹام پیپر اور کاغذات کے نام پر اس کو مہنگا بھی کر دیا گیا ہے۔

مصنف نے یہاں بھی جمہویت پر تنقید کی ہے اور ساتھ ہی آمریت کو بھی خلاف اسلام کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیشک صدام حسین کی آمریت غلط تھی مگر عراق پر امریکہ کی قائم کردہ جمہوریت اس سے بھی بڑا ظلم ہے۔ انہوں نے لکھا کہ موجودہ جمہوری نظام مجبور کرتا ہے کہ بندہ مکمل طور پر سب کام چھوڑ کر اپنے آپ کو سیاست کے لیے وقف کر دے۔ یہ بھی غلط روش ہے۔ اس سے فقط ایک خاص طبقہ اوپر آ سکتا ہے جو مالی طور پر خوشحال ہو بلکہ اپر کلاس سے ہو۔

سودی نظام معیشت بھی ایک بڑا وار ہے اور یہ نظام مسلم ممالک میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ اب لوگوں کے ذہن سے اس کی قباحت ہی ختم ہو گئی ہے۔ پھر سود کا نام انٹرسٹ رکھ کر انڈسٹریل لون کو ربا سے الگ کر کے اس کے جواز کے حیلے پیش کیے گئے ہیں.

مصنف نے پتنگ اور ڈور بیچنے ، حجامات جبکہ وہ شیو کرتے ہوں، بیوٹی پارلرز ، اسقاط حمل کے کلینکوں ، فوٹو گرافی ، بینک اور انشورنس کمپنی کی ملازمت کو ناجائز کاروبار کہا ہے۔ مصنف کو یہاں تخصیص کرنی چاہیے تھی کہ یہ کاروبار کس صورت میں جائز ہیں کیونکہ ان میں سے کئی نوعیتیں ایسی ہیں جن پر ناجائز ہونے کا حکم لگانا درست نہیں ہے۔ مثلاً بیوٹی پارلر کے کاروبار کو مکمل طور پر کیسے غلط قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی فوٹوگرافی میں بھی کئی ایسی صورتیں ہیں جو جواز رکھتی ہیں۔ محض تفریح کی خاطر پتنگ اڑانا جبکہ اس کے ساتھ احتیاط کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہو کو ناجائز قرار دینا میرے نزدیک اس میں اصلاح کی گنجائش ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ مغربی تہذیب کا اثر مسلم معاشرے پر اس حد تک پڑا کہ جو لوگ شعوری طور پر فکر مغرب کے خلاف تھے غیر شعوری طور پر اسی فکر و تہذیب سے متاثر ہوئے ۔ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا ہندوؤں سے اشتراک ہو، علامہ عنایت اللہ مشرقی کا خلافت ارضی کے مغرب کی صالحیت کا اقرار اور مدح ، علامہ اقبال کا سنت سے اعراض کرتے ہوئے نئی فقہ کی تدوین ، مولانا الیاس کاندھلوی کی تبلیغی جماعت کی تحریک جو کہ دنیاوی معاملات سے اعتنا ہی نہیں کرتے اس کے ساتھ سید مودودی کی نے جو دین کو ایک نظام اور تحریک بنا کر پیش کیا یہ سب مغربیت کے نفاذ کی صورتیں ہیں۔ مولانا مودودی کے تحریکی تصور پر ڈاکٹر امین صاحب نے اور بھی دو تین جگہ نقد کیا ہے۔ اور ان کا کہنا کہ نبی کا مقصد ایک سیاسی نظام کرنا ہوتا ہے کو غلط قرار دیا ہے۔ اس بات نے مجموعی طور پر اسلامی تہذیب کے لیے اچھی یادداشت نہیں چھوڑیں۔

ڈاکٹر امین صاحب نے ذرائع ابلاغ کے اوپر بھی بات کی ہے اور بتایا کہ ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا بالکل مغربی طرز پر چل رہا ہے اور یہ اس کی پیروی میں روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ یہاں پر ڈراموں، فلموں اور میوزک کنسرٹس کے ذریعے اغیار کی تہذیب کو اپنا لیا گیا ہے۔ ہمارا میڈیا بالخصوص بھارت کا نقال ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ گویوں اور میراثیوں کو اب فنکار اور گلوکار کہہ کر پکارا جاتا ہے اور ان کو قابل عزت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر کوئی غیر پیشہ ور کسی موقع پر کوئی گانا گائے تو یہ اور بات ہے مگر اب پیشہ ور لوگوں کو فن کے نام پر ایوارڈز دئیے جاتے ہیں اور اس کو برا سمجھنے والوں کو دقیانوسی سوچ کہا جاتا ہے ۔ مصنف کہتے ہیں کہ ضروری ہے پاکستانی میڈیا بھارت کی پیروی چھوڑ دے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو فروغ دے۔

مغربی تہذیب کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد کہ اس کا حل کیا ہے اس پر ڈاکٹر صاحب نے وہ ہی بات کی جو وہ پہلے حصے میں کر چکے ہیں کہ ہمیں مکمل طور پر اپنے نظریہ حیات سے جڑنا ہو گا۔ ہم نے اپنا نظریہ چھوڑ کر غیر کا تہذیب و تمدن قبول کیا ہے جس کی وجہ سے ہم زوال کا شکار ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کا موقف سخت گیر ہے اور ہمیں کئی جگہ ان کی شدت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کو اس بات کی داد بنتی ہے کہ انہوں نے اپنی بات کسی معذرت خواہانہ انداز میں نہیں کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں کوئی بھی معاشرہ موجود نہیں جو کہ اسلامی نظریہ حیات جس کی طرف ڈاکٹر صاحب نے بار بار زور دیا موجود نہیں ہے۔ اب ایسی کسی عملی مثال کے بغیر ہم کیسے کوئی متبادل پیش کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو کسی گاؤں دیہات میں بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس کو ہم رول ماڈل بنا کر پیش کریں۔ پھر اگر مسلم معاشرے سے مغربیت کا نفوذ ختم کرنا ہے تو اس کے لیے کہاں سے ابتداء کرنی ہو گی اور کون سی چیزوں کو ہمیں برداشت کرنا ہو گا۔ اس سماج کی بنت کیسے ہو گی اس کا نظام زندگی کیسا ہو گا۔ یہ سب ذہنی خیالات سے بڑھ کر جب تک عملی صورتحال اختیار نہیں کرتیں اس وقت تک اس کا حل نہیں نکل سکتا۔ ڈاکٹر صاحب روایتی موقف کے مؤید ہیں تو انہیں موجودہ صورتحال سے امکانات پر بات کرنی چاہیے کہ کیسے جدیدیت کے مضر اثرات سے نکل کر ہم اپنی روایت کو محفوظ کر سکتے ہیں اور جو چیزیں جدیدیت نے متاثر کی ہیں ان کو واپس لا کر ایسی صورت میں پیش کرنا تاکہ وہ ہمارے لیے ناقابل عمل نہ رہے۔

یہ کتاب ۲۰۰۵ میں لکھی گئی تھی اب اس کو ۱۸ سال گزر چکے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ اس سے زیادہ مغرب زدہ ہو چکا ہے اور بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس مغربیت کو روکنا یا اپنے حق میں کرنا ہی اس وقت کا مسئلہ ہے۔ اگر تو آپ مثالی معاشرے کے بغیر یہ کام نہیں کر سکتے تو فی الحال اس کا مستقبل قریب میں تو کوئی حل نظر نہیں آ رہا کہ اس کو کیسے روکا جائے۔ہاں افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ایک بار پھر وہ لوگ آ گئے ہیں جو کہ ڈاکٹر صاحب کی فکر سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اب ان کے ہاں بھی پہلے جیسے سختی نہیں رہی لیکن اگر وہ کوئی ایسا سماجی ڈھانچہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کے امکانات بہت ہی زیادہ کم ہیں تو پھر ہمارے پاس متبادل موجود ہو گا لیکن اس کے لیے ابھی چند سال مزید انتظار کرنا ہوگا۔

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں