گل رحمان ہمدرد
اپنی ایک پوسٹ میں زاہد مغل صاحب نے یہ لکھا کہ خضریاسین صاحب جس دلیل کا سہارا لیکر قرآن کے ترجمہ کو رد کرتے ہیں اسی دلیل کا سہارا لیکر قرآن کے فہم کو بھی رد کیا جاسکتا ہے ۔اس دلیل کے قضایا اور نتیجہ ان کے بقول یوں بنتا ہے :
”انسان کے وضع کردہ کلام کو سمجھنا انسان کے لئے ممکن ہے کیونکہ اس کلام کا خالق انسان ہے لہذا اس کے کلام کے پس پشت انسانی مافی الضمیر میں مراد معانی کو سمجھنا دوسرے انسان کے لئے ممکن ہے۔ لیکن کلام اللہ کو سمجھنا انسان کے لئے ناممکن ہے اس لئے کہ وہ قدیم و لامحدود ذات کے معنی پر دلالت کررہے ہیں اور انسان تو حادث و محدود ہے۔ اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں اور یقینا درست ہیں تو قرآن مجید کے فہم کا دعوی ”الہی فہم“ کا ”انسانی فہم“ میں تحول convert ہونا اور دونوں میں مساوات قائم ہونا ہے، یہ الوہیت کو انسانیت کا جامہ پہنانے کا عمل ہے۔ یہ الوہی مفہوم کا انسانی مفہوم میں تبادل ہے جس کی سنگینی کا ادراک لازم ہے۔ پس کلام اللہ کو سمجھنا محال ہے،“۔
یہ دلیل develop کرنے سے ان کا مطلب یہ تھا کہ جس دلیل کا سہارا لیکر ڈاکٹر خضریاسین صاحب قرآن کے ترجمہ کرنے کے عمل کو رد کرتے ہیں اسی طرح کی دلیل ڈویلپ کرکے قرآن سے فہم حاصل کرنے کے عمل کو بھی رد کیا جا سکتا ہے ۔اور اگر قرآن سے فہم حاصل ہی نہ کیا جا سکے تو قرآن معطل ہوکر نہ رہ جاۓ گا؟ ۔
میں نے اس پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوۓ لکھا کہ :
”آپکا یہ مقدمہ ہی سرے سے غلط ہے کہ کلام اللہ کو سمجھنا انسان کےلیۓ ناممکن ہے۔قرآن اپنے بارےمیں نہ سمجھنے کی بات کرتا ہی نہیں۔۔۔۔۔ڈاکٹر خضریاسین کے نزدیک قرآن خود اپنے ہی بقول “آسان زبان” میں نازل ہوا ہے۔ اور ہر لائق وضاحت امر کی “تفصیل” اور اسے “مثالوں کے ساتھ” اور” کھول کھول کر” بیان کرتا ہے۔ اور یہ بھی کہ “قرآنی مطالب کا واضح کرنا بھی خود اللہ کے زمہ ہے”۔ اور یہ بھی کہ قرآن میں کوئی امر”چھوڑ دیا ہوا” بھی نہیں۔۔کلام اللہ اپنی فصاحت وبلاغت میں کامل ترین ہے۔انسان کےلیۓ قرآن سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام پیش کرنے کا دعویٰ ایک جسارت ہے۔ابن عربی نے کہیں لکھا ہے کلام اللہ براہ راست روح پر اثرکرتا ہے۔اس سے زیادہ پرکشش کلام روح کےلیۓ ممکن ہی نہیں ۔۔۔اسکاسمجھنا کوٸ مسلہء نہیں۔۔۔۔۔۔دوسری بات یہ ہے کہ آپ جب یہ کہتے ہیں کہ انسان کلام اللہ کو سمجھ ہی نہیں سکتا تو پھر مفسرین بھی تو انسان ہی ہیں ,ان کو کیسے سمجھ آجاتا ہے؟۔قرآن محض خواص کے لیۓ نازل نہیں ہوا بلکہ ” عوام الناس“ کی ہدایت کےلیۓ نازل ہوا ہے۔یہ تمام دعاوی قرآن خود اپنے متعلق کرتا ہے۔آپ نے جودعویٰ کیا ہے انسان کلام اللہ کو سمجھ ہی نہیں سکتا قرآن کےدعاوی کے ہی الٹ ہے۔۔۔بات ایسی کریں کہ قرآن کےموقف کے تو الٹ نہ ہو کم از کم۔۔۔۔۔۔مفسرین کا دفاع کرنے کےلیۓ قرآن کا انکار کرنا کوٸ درست رویہ نہیں ہے۔۔۔“
میرے اس کمنٹ کے جواب میں زاہد مغل صاحب نے لکھا:
” آپ کے کمنٹ نے میرا مسئلہ حل کردیا کہ ترجمے کے ناممکن ہونے کے لئے جو استدلال کیا گیا ہے وہ بے بنیاد و غلط ہے، میں نے اسی لئے اسی زبان میں یہ استدلال کیا تھا۔ ویسے آپ کا جواب اصل نکتے کو ایڈریس نہیں کررھا: کیا مفہوم سمجھ آنے سے الوھیت بندے میں حلول کرجاتی ہے؟“۔
ان کے اس کمنٹ کے جواب میں میں نے لکھا کہ :
”کیا متن کا فہم متن کے الفاظ سے الگ ہوتا ہے؟۔۔میں جو لکھ رہا ہوں اس کو آپ سمجھ رہے ہیں۔اگر آپ میری تحریر سے وہی کچھ نہیں سمجھ رہے جو میں سمجھانا چاہ رہا ہوں تو یہ غلط فہمی کہلاتی ہے۔اور اگر آپ میری تحریر سے وہی کچھ سمجھ رہے ہیں جو میں سمجھاناچاہ رہا ہوں تو میرےالفاظ کے زریعہ آپکے ذہن میں جو کچھ منتقل ہورہا ہے وہ آپکی نہیں بلکہ میری سوچ ہے۔۔۔۔۔ڈاکٹرخضریاسین کے نزدیک کلام اللہ کے معانی ومفاہیم کلام کے اندر ہی موجود ہوتے ہیں۔باالفاظ دیگر الہی الفاظ الہی موقف کے کنٹینرcontainerہیں۔ان الفاظ کے زریعہ جوموقف انسانی ذہنوں میں منتقل ہوجاۓ وہ اگر صحیح ہوں تو وہ انسانی موقف نہیں ہوتا بلکہ الہی موقف ہوتا ہے۔۔۔دوسری طرف انسان کی باطنی ساخت روحانی ہے۔جس طرح کلام اللہ من جانب اللہ ہے اسی طرح انسانی روح بھی من جانب اللہ ہے۔اسلیۓ ابن عربی نے کہیں کہا ہے کہ روح کےلیۓ کلام اللہ سے زیادہ جانا پہچانا کلام دنیا میں کوٸ نہیں۔“
میرے اس کمنٹ پر زاہد مغل صاحب نے یہ تبصرہ کیا :
”اب بھی سوال کا جواب نہیں ہوا، اور شاید آپ سوال کو سمجھ ہی نہیں پارھے۔ جو اعتراض آپ لوگ ترجمے پر کررہے ہیں کہ اس سے گویا الوھیت انسان میں حلول کرجائے گی کہ یہ” الہی کلام“ کا ”انسانی کلام“ میں تحول convert ھے، وہی اعتراض میں فہم کی سطح پر اٹھا رہا ہوں کہ اس سے بھی تو یہی ہوگا کہ الوھی فہم انسانی فہم بن جائے گا۔ امید ہے اب سمجھ آگئی بات“
میں نے ان کے اس کمنٹ کا جواب دیتے ہوۓ جوابی کمنٹ کیا :
”آپ متن اور متن کے فہم کو دو جداگانہ حقاٸق سمجھ رہے ہیں۔جبکہ خضریاسین صاحب کے نزدیک متن اور متن کا فہم دو جداگانہ اکاٸیاں نہیں ہیں۔اب یہ بحث سیدھی لسانیات کے میدان میں داخل ہوجاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا لسانیات میں متن اور اسکا فہم الگ الگ ہیں یا یہ یہ ایک واحد اکاٸ ہیں۔؟الگ الگ ثابت ہونے کی صورت میں آپکا موقف درست ثابت ہوجاۓ گا اور واحد اکاٸ ثابت ہوے کی صورت میں خضریاسین کا موقف درست ثابت ہوجاۓ گا۔
نیز آپ ترجمہ translation of text اور تفہیم understanding of text کو بھی شاید ایک ہی چیز سمجھ رہے ہیں۔۔۔۔ترجمہ اصل متن کے مقابلے میں متوازی متن ہے۔جبکہ understanding میں آپ کے پاس اصل متن کے متوازی کوٸ دوسرا متن نہیں ہوتا بلکہ آپ اصل متن ہی میں پنہاں مفہوم جو کہ خضریاسین صاحب کے بقول اس متن کے الفاظ کے ساتھ لازمی طور پر منسلک ہیں کو سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ان کے بقول اگر تمام دنیاکے انسان موجود نہ بھی ہوں تو قرآن کے متن کا مفہوم پھربھی اس کے متن کے ساتھ منسلک ہی رہے گا۔جب بھی مستقبل میں کوئی دوسری مخلوق اسکو پڑھے گی تو اسکے متن میں inherently موجود فہم کو اپنے ذہن میں منتقل کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اسی کمنٹ میں میں نے مزید لکھا کہ :
”یہ نہیں ہے کہ خضریاسین صاحب کی فکر پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔بالکل تنقید کی جاسکتی ہے۔لیکن میں صرف یہ بات سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ وہ جو بات کررہے ہیں وہ بچگانہ بات بالکل نہیں ہے جیسا کہ لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ اعلیٰ علمی موقف ہے۔جس کو رد کرنے کےلیۓ ان کی کتابیں وغیرہ پڑھ کر سنجیدہ علمی کام کی ضرورت ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ حلقہء کراچی کے لوگ جدید ٹیکنالوجی کے وجود کے ہی مخالف ہیں۔تو دینی مدارس اور دینی جماعتوں سے وابستہ خام ذہن کے لوگ اس موقف کی گہرائی کو سمجھے بغیر اس کو بچگانہ قراردے کر انصاری صاحب اور جامعی صاحب اور خود زاہدمغل صاحب جیسے لوگوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔میں ان لوگوں کو بھی سمجھاتا رہتا ہوں کہ بھائی حلقہ کراچی والوں کاموقف بظاہر بچگانہ نظر آرہا ہے اور اس کو رد بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان کے موقف کو گہرائی میں سمجھنے کی ضرورت ہےوہ بچگانہ بات بالکل نہیں کررہے ۔۔۔یہی بات میں خضریاسین صاحب کی فکر سے متعلق بھی لوگوں کو کہتا رہتا ہوں کہ بھائی خضریاسین صاحب جو بات کرررہے ہیں وہ بہت گہری بات ہے بچگانہ بات نہیں۔۔۔۔“
ایک اگلے کمنٹ میں میں نے مزید لکھا کہ :
”۔جہاں تک تفہیم ,تفسیر,تعلیم اور ترجمہ سے متعلق ان کے موقف کا تعلق ہے تو متن سے متعلق ڈاکٹر صاحب کے مخصوص خیالات ہیں۔۔۔۔ڈاکٹر خضریاسین صاحب کا موقف ہے کہ متن کی تفہیم (Understanding) ,متن کی تفسیر (Exegesis),متن کی تعلیم (Teaching )اور متن کا ترجمہ (Translation) مشرقی ومغربی قدیم و جدید لسانیات میں چارمختلف کام ہیں۔نیٹ وغیرہ پر سرچ کرکے بھی ان کی اس بات کی تصدیق یا تردید کی جاسکتی ہے۔۔۔۔ ان کےنزدیک تفہیم حقیقت میں متن کا براہ راست فہم ہے جو صحیح ہو تو فہمِ متن اور اگر غلط ہو تو غلط فہمی کہلاتا ہے۔غلط فہمی کو دور کرنا ہر تعلمی نظام میں اہم علمی ضرورت مانی جاتی ہے۔جہاں تک فہم کا تعلق ہے تو متن اور متن کا فہم ان کے نزدیک دونوں یک جان و دوقالب ہوتے ہیں ۔یہ دونوں ہی مختارات الہیہ ہیں۔۔۔۔۔تفسیر Exegesis ان کے نزدیک اس متن کی کی جاتی ہے جو اتنا مبہم ہو کہ اس کہ قابل تفہیم نہ رہا ہوں,یا وہ متن اتنا مختصر ہو کہ وہ مزید تفصیل کا محتاج ہویامتن میں تعقید ہو جسے کھولنا مقصود ہو یا متن میں کوٸ بات چھوٹ گٸ ہو تو اس کی تکمیل کےلیۓ تفسیر لکھی جاتی ہے۔۔۔مفسر کے کندھے کا بوجھ متن کی تفہیم کے عمل سے زرا زیادہ ہے۔۔۔۔۔متن اور اس کے اس فہم کا جو کہ اس کا آٸیڈینٹیکل ہو کو دوسروں تک پہنچانا تعلیمی عمل ہے۔جبکہ متن کے مقابلے میں کسی دوسری زبان میں متبادل ایسا متن تیار کرنا جس کے الفاظ مختلف ہوں لیکن معانی وہی اصلی متن والے ہی ہوں ترجمہ کہلاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے جو بات کی ہے کہ متن مختاراتِ الہیہ ہے اور اس کا فہم انسانی مداخلت نہیں؟۔خضریاسین صاحب کے مطابق فہمِ متن understanding of text اگر متن سے آٸیڈینٹکل ہوہو تو وہ فہم بھی مختارات الہیہ ہے۔اور اگر فہم متن کے مقصد کےمواقف نہ ہوتو وہ اس متن کا فہم نہیں بلکہ غلط فہمی کہلاۓ گی۔۔۔۔۔۔
تفہیم,تفسیر,تعلیم ,اور ترجمہ اگرلسانیات میں چار الگ کام ثابت ہوتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کے موقف میں صحت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اگر یہ تفریق غیر علمی ہو تو ان کے موقف میں ضعف پیدا ہوجاتا ہے۔اسی طرح متن اور فہم متن واحد اکائی ثابت ہوجاتے ہیں تو خضریاسین کےموقف کی صحت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اگرمتن اور فہمِ متن دو جداگانہ اکائیاں ثابت ہوجاتی ہیں تو پھر ان کے موقف کی کمزوری عیاں ہوجاتی ہے“
غامدی صاحب کے حلقے سےوابستہ اسکالر ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب نے اسی سلسلہ گفتگو میں اگلا کمنٹ کیا :
” متن اور اس کا فہم الگ الگ نہیں، تو تعلیم و تفہیم میں بھی صرف متن کی دہرائی کے سوا کچھ نہیں کرنا چاہیے؟۔ جیسے ہی آپ متن کے الفاظ سے زائد ایک لفظ بھی ادا کریں گے تو اپنا فہم شامل کر دیں گے اور متن کے فہم سے تجاوز کر کے کافر ہو جائیں گے۔؟“
عرفان شہزاد کے اس کمنٹ کا جواب دیتے ہوۓ میں نے لکھا کہ :
”یہاں خضریاسین صاحب کا موقف غامدی صاحب کے موقف سے ملتا جلتا ہے ۔غامدی صاحب کا موقف ہے کہ قرآن کے شہرستانِ معانی میں داخل ہونے کاراستہ اس کے الفاظ ہیں۔اور یہ کہ قرآن قطعی الدلالہ ہے۔اسکی ہر آیت کا صرف ایک ہی قطعی مفہوم ہے جو اس کے نظمِ کلام سے نکلتا ہے باقی غلط فہمیاں ہیں۔قرآن ایک مکمل خود مکتفی تفہیمی اکائی ہے ۔نیز قرآن میزان ہے ابوحنیفہ و شافعی,بخاری و مسلم اور زمخشری و رازی سمیت تمام قدیم وجدید مفسرین کو اسی میزان پر تولا جاۓ گا۔یعنی فہم کے صحیح یا غلط ہونے کا پیمانہ قرآن سے باہر کہیں نہیں بلکہ خود قرآن ہی میزان ہے۔تمام تفاسیر کو اور آیات سےمتعلق تمام آراء کو اس میزان کے نظم کلام سے ابھرنے والے مفہوم کی روشنی میں پرکھا جا ۓ گا۔خضریاسین صاحب کا موقف بھی یہی ہے کہ قرآن خود مکتفی تفہیمی اکائی ہے ,اس کے شہرستانِ معانی میں داخل ہونے کا واحد راستہ اس کے الفاظ ہیں ۔اس کی آیات کا ایک قطعی مفہوم ہے جو نظم کلام اور سیاق وسباق سے نکلتا ہے ۔آیت کا حقیقی مدعا وہی ہوگا جو نظم کلام و سیاق کلام اور متن سے آئنڈنٹیکل ہو۔یعنی یک جاں و دوقالب ہوں۔۔۔ آیت کا جو فہم نظم کلام و سیاق کلام سے نہ نکل رہا ہو وہ آیت کا درست فہم نہیں ہے۔اسی طرح آیت کے جس فہم کا انکار متن کا انکار نہ ہو وہ آیت کی درست تفہیم نہیں ہے بلکہ غلط فہمی ہے۔آیت کا درست فہم وہ ہے جس کا انکار متن کا انکار متصور ہوسکے۔گویا متن اور اسکا حقیقی فہم باہم آئیڈینٹیکل ہوتے ہیں۔یک جاں و دو قالب ہوتے ہیں۔اور فہم کوجج کرنے کامیزان قرآن ہی ہے۔کاؤنٹرویریفیکیشن قرآن ہی کے زریعہ ہی ہوگی کہ وہی میزان ہے ۔آیات سے متعلق تمام آراء کو اسی ترازو اور اسی کسوٹی پر تولا جاۓ گا۔ جو اس ترازو پر پورا نہ اترے وہ آیات کا حقیقی مدعا نہیں ہے۔اور جو پورا اترے گا وہ فہم لازماَ متن سے آئیڈینٹیکل ہوگا,یک جاں و دو قالب۔اور دونوں ہی مختارات الہیہ ہوں گے۔۔۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گل رحمان ہمدرد صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔
کمنت کیجے