محمد حسنین اشرف
عموما خیال ہوتا ہے کہ سائنسی طریق کار یا سائنسی متھڈالوجی کچھ یوں ہے کہ سائنسدان مفروضہ پیش کرتا ہے، اس مفروضے پر تجربات ہوتے ہیں، مختلف مفروضوں اور تجربات سے ملکر ایک نظریہ بن جاتا ہے۔ یہ نظریہ جب بہت مضبوط سائنسی دلائل و ثبوت جمع کرلیتا ہے تو سائنسی نظریہ ایک سائنسی حقیقت بن جاتی ہے۔
سو یہ سوال نہایت اہم ہے کہ سائنسی نظریہ سائنسی حقیقت کب بنتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ‘کبھی نہیں’!
سائنسی نظریہ کبھی سائنسی حقیقت نہیں بنتا۔ سائنسی نظریات ہمیشہ، نظریات رہتے ہیں۔ ہم چونکہ ایک ایسے سماج کے آوردہ پروردہ ہیں جہاں غیر سائنسی اشیا اس لیے قبول ہوجاتی ہیں کیونکہ بتانے والا انتہا کے تیقن پر کھڑا ہے۔ سو مجبوراً سائنس کے لیے بھی اسی تیقن کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں مثلا سائنسی حقیقت وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ سائنس دان اور سائنسی دنیا اس قسم کے تیقن سے پرہیز رکھتی ہے۔ اسی لیے ہم اُس بابا جی کی طرف راغب ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کبوتر کے پوٹے (معدے) سے کینسر کا ‘سو فیصد’ علاج ہوسکتا ہے اور سائنسدان کی ویکسین سے ہم بدکتے ہیں کیونکہ سائنسدان بتاتا ہے کہ اسی فیصد چانس ہے کہ اینٹی باڈیز ڈویلپ (وائرس سے حفاظت کی صلاحیت پیدا ہوجائے) ہوجائیں، پانچ فیصد چانس ہے کہ دوبارہ انفیکشن وغیرہ ہوجائے۔ اسی لیے ہمارے یہاں نظریہ ارتقا کی کِھلی صرف اسی لیے اڑائی جاتی ہے کہ یہ تو محض نظریہ ہے۔ جس دن حقیقت بنے گا دیکھ لیں گے۔
ہم منتظر ہیں جس دن ایک بڑے کمرے میں سائنسدان جمع ہوں گے، ایک بڑا سائنس دان عینک سنبھالتا سامنے پہنچے گا اور جج کا ہتھوڑا مار کر سائنسی نظریہ ارتقا کو سائنسی حقیقت بنا کر ہمارے حوالے کردے گا۔ یہ ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ سائنسی نظریہ اپنے دلائل اور ثبوتوں کی بنیاد پر بہت مضبوط ہوتا ہے اس کے لیے حقیقت یا حقائق جیسے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ کہنا کہ نظریہ ارتقا چونکہ ابھی صرف نظریہ ہے اس لیے یہ کوئی قابل اعتنا شے نہیں ہے۔ آپ صرف سائنسی حقائق کی بات کریں۔ یہ رویہ درست نہیں ہے!
یہ بھی یاد رہے کہ بہت سے حقائق (سائنسی حقیقت سائنسی نظریے کے مقابلے میں چھوٹی شے ہے) ملکر ایک نظریہ بناتے ہیں، ہم چھوٹے چھوٹے حقائق دریافت کرتے ہیں اور پھر اس کی بنیاد پر ایک نظریہ تشکیل دیتے ہیں۔ مثلا
١- سولر سسٹم ایک سائنسی حقیقت ہے
٢- سیاروں کی گردش دوسری حقیقت
٣- تیسری حقیقت وہ بیضوی دائرے ہیں جن میں سیارے گھومتے ہیں
٤- چوتھی حقیقت ستاروں کا از خود روشن ہونا ہے
٥- پانچویں حقیقت کشش ثقل ہے
٦- چھٹی حقیقت اجسام کا حجم اور کشش ثقل کا تناسب ہے
ایسے بہت سے حقائق ملکر ایک نظریہ تشکیل دیتے ہیں۔ وہ نظریہ بہت سے معاملات سے گزرتا ہے، اس پر نظر ثانی اور تجربات ہوتے ہیں۔ وہ نظریہ predictions کرتا ہے جو پوری ہوتی ہیں۔ یہ نظریہ سائنسی دنیا میں قبولیت پا لیتا ہے (یہ قبول و رد کیسے ہوتا ہے – – یہ مستقل موضوع ہے)۔ ایسے نظریے کو اب حقیقت بننے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اس پر کسی کو انتظار کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ حقیقت کب بنے گا۔ یہ بہ طور نظریہ قابل اعتماد ہے۔ اس میں تبدیلیاں کیوں ہوتی رہتی ہیں یہ بھی ایک علیحدہ موضوع ہے۔
سائنسی نظریات پر جو اختلاف فلسفیانہ حلقوں حلقوں میں ہے وہ کچھ یوں ہے:
دو گروہ ہیں جن میں ایک realist کہلاتا ہے اور دوجا anti realist یا اسے instrumentalist بھی بولتے ہیں۔ قضیہ یہ ہے کہ کیا سائنسی نظریات حقیقت کا بیان ہیں یا یہ حقیقت ہم خود ‘تشکیل’ دیتے ہیں۔ چونکہ ہمیں جو معلومات (ڈیٹا) ملتی ہے وہ از خود تھیورائزیشن (نظریات بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی) نہیں کرتی بلکہ ہمیں یہ کام کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے ان دو گروہ میں سے ایک یعنی realist کا کہنا ہے کہ جی سائنسی نظریات نہ صرف حقیقت کا بیان ہے بلکہ یہ ہمیں حقیقت تک پہنچاتے ہیں۔ جبکہ دوسرا گروہ اس کا انکاری ہے۔ یہ دلچسپ بحث ہے جس پر پچھلے ڈیڑھ سو سال سے مغز ماری جاری ہے۔
نوٹ: ہمارے ہاں ابھی تک سائنس کی جو conception رائج ہے وہ زیادہ تر logical positivist کے کام کی misinterpretation کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ اسی لیے قیصر احمد صاحب راجہ جیسے لوگ اس conventional scientific understanding کو abuse کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد حسنین اشرف صاحب بیلیفیڈ یونیورسٹی جرمنی میں ایم ۔اے فلسفہ و تاریخ سائنس کے طالب علم ہیں ۔
کمنت کیجے