کانٹ ذدہ مفکرین کا کہنا ہے کہ حدوث و قدم وغیرہ سب احکام عقلیہ ہیں نہ کہ خارجی وجود سے متعلق حقائق۔ ان کی جانب سے کہنا یہ مقصود ہے کہ چونکہ حدوث نرا تصور عقلی ہے (جسے یہ کیٹیگریز یا مقولات کہتے ہیں) نہ کہ خارج میں موجود اشیا کی صفت، لہذا “عالم حادث ہے” کے قضئے میں نرے وجود ذہنی کا بیان ہے نہ کہ خارج میں موجود اشیا سے متعلق کسی حقیقت کا۔ ان ناقدین کے مطابق متکلمین اس فرق کو سمجھنے سے قاصر رے اور ان نرے عقلی قضایا کو خارجی موجودات کی صفات سمجھتے رہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ماڈرنسٹ ہو یا پوسٹ ماڈرنسٹ اور یا پھر کوئی جدید مذہبی مفکر، الہیات کے خلاف مقدمہ کھڑا کرنے کے لئے سب کانٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ حدوث کا معنی و مفہوم کیا ہے، اس تفصیل میں جانے سے قبل ہم اس فکر کا بنیادی نقص واضح کرنا زیادہ مفید سمجھتے ہیں جو درج بالا استدلال کی غلط فہمی کا باعث ہے۔
کانٹ ذدہ مفکرین کی پوری دلیل سے یہ واضح نہیں ہوپاتا کہ آخر وجود خارجی سے حدوث کی صفت کی نفی کرنے کی دلیل کیا ہے؟ دراصل یہ نرا تحکم پر مبنی ایک دعوی ہے اور موجودہ دور میں کانٹ کے مشہور شارح پال گائیر نے کانٹ کے اس دعوے کا شد و مد سے رد لکھا ہے۔ یعنی اگر یہ بات تسلیم کربھی لی جائے کہ تجربہ ممکن ہونے کے لئے ماورائے تجربہ چند کلیات و مقولات کاوجود ذہنی لازم ہے، تب بھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حسی تجربے میں آنے والے امور وجود خارجیہ کی صفات نہیں بلکہ ماننا ہوگا کہ یہ انہی کی صفات ہیں۔ خارج میں شے موجود اور ایک دوسرے سے مختلف ہوئے بغیر ذہن کی ادراکی ساخت از خود مختلف نوعیت کا علم پیدا نہیں کرسکتی۔ مثلا فرض کیجئے کہ ادراک کی ساخت میں “مقدار” کا ایک سانچہ ہے۔ تاہم یہ سانچہ سب موجودات کے ساتھ مساوی طور پر متعلق ہے اور یہ سانچہ از خود یہ طے نہیں کرسکتا کہ مثلا فٹبال کرکٹ بال سے بڑا کیوں ہے، اسی طرح مثلاً زبان کی ساخت یہ توجیہہ نہیں کرسکتی کہ شہد میٹھا اور مرچ کڑوی کیوں ہے نہ کہ اس سے برعکس۔ چنانچہ کانٹ کو ماننا ہوگا کہ چھوٹا، بڑا، گول، چوکور وغیرہ ہونا بہرحال وجود خارج (شے فی نفسہ) کی صفات بھی ہیں نہ کہ محض ادراک کی ساخت کی۔ امام رازی “المباحث المشرقیۃ” میں اس نکتے پر یوں بات کرتے ہیں کہ ذہن میں خارج سے موصول ہونے والے احساسات کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے تاہم یہ صلاحیت ان احساسات کے ساتھ مساوی طور پر متعلق ہے اور از خود مختلف طرح کے علمی قضایا کو جنم نہیں دے سکتی یہاں تک کہ شے کا حسی مشاہدہ اس کا سبب بنے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ اگر خارج میں یہ صفات موجود نہ ہوں تو ان متنوع ادراکات کی وجہ ترجیح خود ذہن کی ساخت و صلاحیت نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ جدید سوفسطائیوں (ہمارے نزدیک کانٹین فکر میں بھی خاص طرح کی سوفسطائیت ہے) کے لئے یہ بات مانے بغیر کوئی چارہ نہیں اور اس کا انکار کرنے سے تضاد کے سوا کچھ جنم نہیں لیتا۔ مثلا کانٹ کا کہنا ہے کہ ذہن کی ادراکی ساخت شہ فی نفسہ کے بارے میں کوئی خبر نہیں دے سکتی، ہمیں صرف ان کی ظاہری صورت (appearances) کا علم حاصل ہوتا ہے۔ تاہم بذات خود یہ بات کہتے ہوئے وہ یہ فرض کرتا ہے کہ خارج میں ان ظاہری تاثرات سے علی الرغم شے فی نفسہ “موجود ہے” جو میرے ان تاثرات کا “سبب ہے”۔ غور کیجئے کہ یہاں وہ سبسٹنس (substance) اور علت (cause) کی اپنی بیان کردہ دو ادراکی مقولات (categories) کو شہ فی نفسہ سے متعلق قرار دے رہا ہے۔
پس جن لوگوں کا کہنا ہے کہ علم ادراک کی ساخت کو مشاہدے میں آنے والے امور پر لاگو کرنے سے پیدا ہوتا ہے، انہیں ماننا ہوگا کہ ادراک کی ساخت سے ہمیں شے فی نفسہ سے متعلق امور و صفات کا ہی علم حاصل ہوتا ہے اگرچہ یہ امکان موجود ہے کہ شے فی نفسہ کی کچھ ایسی خصوصیات ہوں جو ہمارے ادراک سے باہر ہوں۔ مثلاً فرض کیجئے کسی شے میں 100 خصوصیات ہیں، انسانی ذہن میں مختلف سانچوں کی صورت کچھ ایسی ساخت موجود ہے جن کے ذریعے میں 60 خصوصیات کا ادراک کرسکتا ہوں جبکہ بقایا میری پہنچ سے اس لئے باہر ہیں کہ ان سے متعلق میرے ذہن کی ساخت میں کوئی سانچہ موجود نہیں جسے لاگو کرکے میں ان بقایا کو جان سکوں۔ الغرض کانٹین فکر سے جو سوفسطائیت پیدا ہوتی ہے اس کے حاملین کے لئے یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں اور نہ اسے رد کرنے کی کوئی دلیل ہے کہ ذہن کی ساخت ان 60 خصوصیات کا ادراک اس لئے کررہی ہے کیونکہ وہ شے فی نفسہ میں موجود ہیں، ذہن میں محض چند سانچوں کی موجودگی ان کی توجیہہ نہیں بن سکتی۔ اسے ایک اور پہلو سے یوں سمجھئے کہ انسانی کان 20 ھرٹز سے لے کر 20000 ھرٹز تک آواز سن پاتے ہیں۔ چنانچہ سماعت کی حدبندی تبھی بامعنی ہے جب یہ مانا جائے کہ آواز کی یہ لہریں خارج میں موجود ہیں، محض میرے کان کی ساخت انہیں پیدا نہیں کررہی۔ پھر ان لوگوں کی فکر از خود شے فی نفسہ کے وجود اور اسے سبب مان کر اس سے متعلق علم کو مان رہی ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا، ایسے میں یہ دعوی جاتا رہا کہ شے فی نفسہ کا کوئی علم ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ یہ فکر اس متضاد مفروضے پر بھی قائم ہے کہ ایک طرف اس کے مطابق تجربے کے بغیر کوئی علم ممکن نہیں اور دوسری طرف از خود کانٹ کے دعوے اس معیار پر پورا اترنے سے فروتر ہیں (اس تضاد پر کانٹ کے ہم عصر مفکرین کا احتجاج الگ تحریر کی صورت پیش کیا جاچکا ہے)۔ کانٹ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اخر ٹرانسنڈنٹل آئیڈئیل ازم کی سچائی کا علم اسے کس ذریعہ علم سے ہوا؟ اس کا جواب نہ بدیہی قضایا ہوسکتے ہیں کہ کانٹ اس کا قائل نہیں اور نہ تجربہ کہ اس کے نزدیک مقولات ماورائے تجربہ ہیں۔ جو فکر خود اپنے علمی پیمانے پر پورا نہ اترے وہ دوسروں کو جانچنے کا اقدام کیوں کرتی ہے؟
پس جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ حدوث خارج میں موجود شے کی صفت نہیں بلکہ صرف وجود ذہنی و حکم عقلی ہے وہ اس نفی کی دلیل پیش کریں۔ محض کانٹ کا کلمہ دھرا دینا اس مقدمے کے لئے کوئی دلیل نہیں۔
کمنت کیجے