Home » وحدت الوجود کی اصطلاح پر ولیم چیٹک کی تحقیق
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار کلام

وحدت الوجود کی اصطلاح پر ولیم چیٹک کی تحقیق

دور حاضر میں شیخ ابن عربی پر تحقیق کرنے والے ماہرین میں جناب ولیم چیٹک (اسلامی نام: شمس الدین) سب سے نمایاں ہیں۔ آپ کی تحقیقات کا خصوصی میدان اسلامی تصوف اور بالخصوص شیخ ابن عربی ہیں۔ آپ نے انگریزی زبان میں شیخ پر متعدد تفصیلی کتب، مقالہ جات اور کتب کے ابواب تحریر کئے ہیں اور ان کی تحریروں میں صوفیانہ چاشنی جھلکتی ہے اور آپ شیخ کے لئے بہت عزت و احترام رکھتے ہیں۔ وحدت الوجود کی مختلف تشریحات پر عرصہ دراز سے اختلافات چلے آرہے ہیں اور بعض اہل علم نے وحدت الشہود کو وحدت الوجود کے متبادل کے طور پر پیش کیا۔ اس موضوع پر ولیم چیٹک کی تحقیق یہ ہے کہ جسے وحدت الشہود کہتے ہیں، یہی وہ تصور ہے جو شیخ ابن عربی سے ماقبل مسلم صوفی روایت میں چلا آرہا تھا اور شیخ کے طلبا میں مفہوم رہا۔ شیخ سے قبل مشہور ائمہ تصوف جیسے کہ ابو نصر سراج طوسی، ابو القاسم القشیری اور محمد علی الھجویری سب کے ہاں وحدت شہود کی بات ملتی ہے۔ ولیم چیٹک کا کہنا ہے کہ “وحدت الوجود” نامی اصطلاح شیخ ابن عربی نے استعمال ہی نہیں کی، تاہم شیخ لفظ “وجود” کو مختلف طرح استعمال کرتے ہیں۔ وجود عربی لفظ “وجد” سے ہے جس کا مطلب “پانا” ہے اور اسی بنا پر یہ being (“ہونے”) کے لئے بھی مستعمل ہے (کہ پایا وہی جاسکتا ہے جو ہو) اور شیخ اسے ہر دو طرح استعمال کرتے ہیں۔ پانے کے مفہوم میں یہ “شہود” کے ہم معنی ہے اور شہود ایک ایسی وحدت کا متقاضی ہے جو بالاخر ناظر یا مشاہد کی طرف لوٹتی ہے اور اس مفہوم میں یہ صوفیا کے ہاں “فنا” قرار پاتا ہے۔ ولیم چیٹک نے شیخ کے نامور طلبا کی کتب کا استقرا کرکے بتایا ہے کہ “وحدت الوجود” کی اصطلاح کسی کے ہاں بھی اس وجودی وحدت کے معنی میں مستعمل نہیں ہوئی جسے ناقدین نے حلول و اتحاد کا جامہ پہنایا۔ آپ کہتے ہیں کہ شیخ کے شاگرد جیسے کہ صدر الدین قونوی اور عفیف الدین تلمسانی کے ہاں بھی اگر اس سے ملتے جلتے الفاظ کہیں خال خال آئے ہیں تو شہودی وحدت کے معنی میں آئے ہیں۔ اسی طرح فصوص الحکم کے ابتدائی شارحین جیسے کہ عبد الرزاق کاشانی اور داؤد قیصری کے ہاں بھی یہی تناظر ہے۔ 

ولیم چیٹک کا کہنا ہے کہ شیخ احمد سرھندی نے برصغیر کے خاص ماحول میں وحدت الوجود کے جس تصور پر رد عمل دیا، وہ بعد کی صدیوں میں بعض گروہوں کی جانب سے وضع کی گئی اس کی ایک تشریح تھی جس کی ٹیک ابن عربی کی طرف کی جاتی تھی۔ چنانچہ چیٹک کہتے ہیں کہ شیخ احمد سرھندی نے شیخ کی کتب کی مکمل تحقیق کے بغیر اس مقبول تشریح کی نسبت کو درست تسلیم کرتے ہوئے شیخ کا نقد کیا اور اپنے تئیں اس کا ایک متبادل یعنی “وحدت الشہود” بھی پیش کیا جبکہ شیخ کی فکر کے لحاظ سے اس میں متبادل کا کوئی پہلو موجود نہیں کیونکہ مجدد صاحب شیخ کی باتوں کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دھلوی نے “فیصلہ وحدت الوجود و الشہود” میں دونوں گروہوں کے مابین اختلاف کو لفظی نزاع قرار دیا۔ اسی طرح ھندوستان کے صوفی حلقوں کے بعض دیگر افراد نے بھی مجدد صاحب کے نقد کو قبول نہ کیا جیسے شیخ محب اللہ، خواجہ کرد اور شیخ عبد الجلیل الہ آبادی۔

یہاں یہ اعتراض نہیں کیا جانا چاہئے کہ مجدد صاحب کے نقد کا پھر مقصد و محل کیا ہوا؟ مجدد صاحب دراصل ایک مصلح تھے نہ کہ نرے محقق اور مصلح کی اصل دلچسپی حاضر میں موجود موقف ہوتا ہے جو لوگوں میں غلط فہمی کا باعث بن رہا ہو نہ کہ اس موقف کی تاریخی نسبت کی تحقیق کہ موقف اصلاً کس کس شخص کی جانب منسوب کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ برصغیر میں مجدد صاحب کے دور میں وحدت الوجود کے نام پر جو غلط تصورات رائج تھے، آپ نے ان کی تردید فرما کر امت کی راہنمائی فرمائی۔ رہ گئی یہ بات کہ مواقف کی پوری تحقیق کرکے شیخ کی جانب ان کی نسبت کرنے میں آپ سے غلطی ہوگئی، تو یہ غلطی آپ کے اصلاحی کام کو مضر نہیں۔ نیز یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ماضی میں کتب کی دستیابی اتنی آسان نہ ہوا کرتی تھی جیسے کہ آج۔ چنانچہ جو لوگ آج کے دور میں بھی اس موضوع پر مکھی پر مکھی مار تحقیق کرکے داد وصول کرتے ہیں ان کے لئے سوچنے کا مقام ہے۔

شوقین حضرات ان تفصیلات کے لئے ولیم چیٹک کا مقالہ wahdat al          wujud           in          India          ملاحظہ کریں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں